Daily Ausaf:
2025-03-03@16:47:18 GMT

کارپوریٹ فارمنگ ۔۔۔۔ترقی یاتباہی

اشاعت کی تاریخ: 3rd, March 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
کارپوریٹ فارمنگ کاایک سب سے بڑاخطرہ یہ ہے کہ اس میں زیادہ پیداوارکے لئے جوبیج استعمال کیے جاتے ہیں،وہ زمین کی زرخیزی کو شدید نقصان پہنچاتے ہیں۔ان بیجوں میں جینیاتی طورپرترمیم شدہ اورہائیبرڈبیج شامل ہوتے ہیں جو وقتی طورپرپیداوار میں اضافہ توکرتے ہیں لیکن 10سے 20سال کے عرصے میں زمین کونامیاتی زرخیزی سے محروم کر دیتے ہیں۔جس کے نتیجے میں زمین بنجربعدمیں کسی بھی قسم کی کاشت کے قابل نہیں رہتی۔
اس قسم کی کارپوریٹ کاشتکاری کے منفی اثرات افریقی ممالک،خاص طورپرایتھوپیا،سوڈان اور دیگر خطوں میں دیکھے جاچکے ہیں،جہاں بین الاقوامی کمپنیاں بڑی مقدارمیں زرعی زمینوں کو خریدکربرآمدی فصلیں اگاتی ہیں،مگربعدازاں وہ زمین مکمل طورپر بنجرہوجاتی ہے۔اس کے بعدوہ زمین کسی بھی زراعت کے قابل نہیں رہتی،جس کے نتیجے میں مقامی کسانوں اورملکی معیشت کو شدید نقصان پہنچتاہے۔یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہاہے کہ پاکستان میں بھی یہی حکمتِ عملی اپنائی جارہی ہے تاکہ طویل المدتی بنیادوں پر زرعی زمین کوناکارہ بنادیاجائے اورملک کوخوراک کے بحران کی طرف دھکیلاجائے۔
حکمرانوں کے مطابق عوام ترقیاتی منصوبوں میں رکاوٹ بنتے ہیں،جبکہ عوام کاکہناہے کہ ترقیاتی منصوبے ان کے مشورے کے بغیرتیارکئے جاتے ہیں۔ عوام کی رائے کوترقیاتی پالیسیوں میں شامل کرنے سے اس خلیج کوکم کیاجاسکتا ہے۔عوامی نمائندوں کے ذریعے ترقیاتی فیصلے کیے جائیں تاکہ شفافیت اوراعتمادکویقینی بنایاجاسکے۔
پاکستان دنیاکے ان10ممالک میں شامل ہے جوپانی کی شدید قلت اورشدید قحطِ آب کاشکار ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہمالیہ کے گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں،جس سے دریائوں میں مدتی اضافہ تو ہو تا ہے لیکن2050ء تک دریائی پانی کے ذخائر 30-40 فیصد تک کم ہوسکتے ہیں۔ہمیں ماحولیاتی ماہرین سے ہی پتہ چلتاہے کہ ہمارے گلیشیئر اتنی تیزی سے پگھل رہے ہیں کہ اگلی نصف صدی میں دریااورصحراکافرق مٹ جائے گا۔ ماہرین کے مطابق دریائے سندھ کاڈیلٹاسمندرکی بلندہوتی سطح کی وجہ سے سالانہ3.

5میٹر کی رفتارسے سکڑرہاہے۔ماحولیاتی ماہرین کے مطابق، ہمارے گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں،جس کی وجہ سے آئندہ نصف صدی میں دریائوں کاوجودختم ہوسکتاہے اوروسیع علاقے صحرامیں تبدیل اور ہماری ناقص حکمت عملی کاماتم کررہے ہوں گے ۔
ارساکے اعداد وشمارکے مطابق،موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پنجاب کوضرورت سے14 فیصد اور سندھ کو20فیصدکم پانی مل رہا ہے۔سندھ میں زیریں علاقوں میں پانی کی قلت نے نمکین پانی کواندرونی علاقوں تک دھکیل دیاہے،جس سے کاشتکاری کے قابل زمینیں کم ہورہی ہیں۔اس قلت کی وجہ سے انڈس ڈیلٹاکوسمندرمسلسل اپنی لپیٹ میں لے رہاہے ، جس سے ہزاروں ایکڑز رخیززمین متاثرہورہی ہے۔مزید برآں، ہمارے ماحولیاتی نظام میں سیلاب اورخشک سالی جیسے شدید تغیرات کاسامناہے،لیکن پیشگی انتباہی نظام کی عدم موجودگی کے سبب بروقت اقدامات نہیں کیے جاسکتے۔
موسمیاتی تبدیلی نے بارشوں کے پیٹرن کو غیرمتوقع بنادیاہے۔2022کے سیلاب نے ملک کے33فیصد رقبے کومتاثرکیاجبکہ 2018-2023ء کے دوران خشک سالی نے جنوبی پنجاب اورسندھ میں فصلیں تباہ کیں۔ سرکاری ادارے سیلاب اورقحط کی درست پیشگوئی کرنے میں ناکام ہیں،جس کی وجہ سے کسانوں کی منصوبہ بندی مشکل ہوگئی ہے۔ملکی خزانے سے لاکھوں روپے مشاہرہ لینے والے یہ توبتاتے ہیں کہ ڈان سٹریم پانی کی مسلسل قلت کے سبب انڈس ڈیٹا کوسمندرنگل رہاہے مگران میں سے کوئی نہیں بتاتاکہ کس برس سیلاب آئے گااورکس برس اتنی کم بارشیں ہوں گی کہ ارضِ وطن کی زرخیز زمینوں کے چہروں کاحسن ماندپڑجائے گاجبکہ دوسری طرف ہمارا ازلی دشمن انڈیا جو1960ء میں تین مشرقی دریالینے کے باوجود مسلسل بضدہے کہ سندھ طاس معاہدے پرازسر ِنوغور وقت کی اہم ضرورت ہے۔
اس پس منظرمیں جب یہ خبرہماری فوج کے سپہ سالار اورپنجاب کے وزیراعلیٰ کی تصویرکے ساتھ شائع ہوتی ہے کہ وفاق اور پنجاب نے چولستان میں70لاکھ ایکڑکوباغ وبہاربنانے کامنصوبہ شروع کردیا ہے تونچلے صوبوں میں ایک نئی بے چینی پھیلنے کا آغازہم نے اپنے ہاتھوں سے شروع کردیاہے جبکہ مشترکہ مفادات کی آئینی کونسل کااجلاس بھی11ماہ سے نہیں ہواجہاں صوبوں کے پانی کے تنازعات ہنوزحل طلب ہیں۔ اقتدارایسی بری لالچ ہے کہ خود صدرِمملکت آصف زرداری ہرے بھرے پاکستان پروجیکٹ کے ساتھ ہیں مگران کی پارٹی پارلیمنٹ کے اندرباہراس منصوبے پرمسلسل تحفظات بھی جتارہی ہے۔سرسبزپاکستان سازوں کاکہنا ہے کہ چولستان کی سیرابی کسی صوبے کے طے شدہ آبی کوٹے کوکم کرکے نہیں ہوگی بلکہ اس کے لئے اضافی پانی یاتوانڈیا کودیے گئے دریائے ستلج کے مون سون سیلاب سے حاصل ہوگایاپھرپنجاب اپنے کوٹے میں سے پانی کی قربانی دے گا۔
ان تمام اہم مسائل کے لئے ضروری ہے کہ ہم قومی وسائل کو صرف مخصوص طبقات میں تقسیم کرنے کی بجائے عوام کواس میں براہ راست شریک کیا جائے۔
ترقیاتی منصوبے بنانے سے پہلے عوامی فورمز اور اسٹیک ہولڈرز کی رائے لی جائے۔
پانی کی منصفانہ تقسیم کے لئے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس کوتسلسل سے بلایاجائے تاکہ تمام صوبوں کویکساں مواقع فراہم ہوں۔
چھوٹے کسانوں کومراعات،جدیدزرعی تربیت، کم لاگت قرضے،اورمارکیٹ تک آسان رسائی کے اقدامات کیے جائیں۔
بیرونی قرضوں کے معاہدوں کی تفصیلات عوام کے سامنے رکھی جائیں تاکہ شفافیت کویقینی بنایاجاسکے۔
گلیشیئرپگھلااورآبی قلت کے خطرات کوکم کرنے کے لئے جدید طریقے اپنائے جائیں۔
حکومت اور عوام کے درمیان اعتماد کی بحالی کے لئے عوام کوفیصلہ سازی میں شامل کیاجائے اور ترقیاتی منصوبوں پرکھلی بحث کی جائے تاکہ اعتمادمیں اضافہ ہو۔
یادرہے کہ تحقیق بتاتی ہے کہ ترقیاتی منصوبوں کی کامیابی کے لئے صرف بڑے فیصلے کافی نہیں، بلکہ ان پرعمل درآمد کے دوران شفافیت، مشاورت،اوروسائل کی منصفانہ تقسیم کوبھی یقینی بناناضروری ہے۔جب عوام کوترقی میں شراکت داربنایاجائے گا،تب ہی وہ خود کواس ملک کاحقیقی حصہ سمجھیں گے۔
لیکن دوسری طرف حکومتی اقدام سے چھوٹے کسانوں کی معاشی کمزوری اورزمینوں کے مرکزی اثرات پرکوئی توجہ نہیں دی گئی۔کیمیائی کھادوں اورپانی کے زیادہ استعمال سے زمینی تنزلی کے بچاؤکے لئے کوئی تجویز سامنے نہیں آئی۔زمین کی ملکیت کے حقوق اور مقامی آبادیوں کے حقوق سے متعلق تنازعات سے کیسے نمٹا جائے گا،اس کے متعلق کوئی منصوبہ بندی سامنے نہیں آئی۔ پاکستان میں موسمیاتی تغیرات(جیسے سیلاب، خشک سالی)کاخطرہ منڈلارہاہے،اس کے علاج کے لئے کوئی ٹھوس تجاویزتیارنہیں کی گئیں۔
پاکستان کی زرعی پالیسیوں نے پیداوارمیں تو اضافہ کیالیکن وسائل کی غیرمساوی تقسیم، کارپوریٹ فارمنگ کے منفی اثرات،پانی کی قلت اورماحولیاتی تغیرات نے ان اصلاحات کے اصل فوائدعوام تک پہنچنے نہیں دئیے۔مستقبل میں ان مسائل سے نمٹنے کے لئے پائیدار زرعی پالیسیوں، بہتر آبی وسائل کے انتظام اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے مطابقت رکھنے والے اقدامات کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں کارپوریٹ فارمنگ زرعی شعبے کی ترقی کااہم ذریعہ ہوسکتی ہے لیکن اس کے لئے منصفانہ پالیسیاں،ماحولیاتی تحفظ، اورمقامی آبادیوں کے مفادات کاخیال رکھناضروری ہے۔ اگرچیلنجزکوحل کیاجائے تویہ پاکستان کی معیشت کونئی بلندیوں تک لے جا سکتی ہے۔
یوں توہرآئے دن مقتدرحلقوں کی طرف سے پیغامات جاری ہوتے ہیں کہ ہم سب کوپاکستانی بن کرسوچناچاہئے مگراب یہ ناخواندہ ،درماندہ مخلوق چیخ چیخ کرفریادکررہی ہے کہ جس دن قومی وسائل کو25 ہزار خاندانوں کی بجائے 25کروڑپرتقسیم کردیاجائے گاتو اس دن ہرشخص آپ سے بہترپاکستانی بن کرسوچنے لگے گا،بس اسی دن کاانتظارہورہاہے۔

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کارپوریٹ فارمنگ کی وجہ سے کے مطابق جائے گا پانی کی ہیں جس کے لئے

پڑھیں:

پاکستانی پہاڑی سلسلوں تلے قدرتی ہائیڈروجن گیس کا خزانہ

لاہور:

جرمنی کے ماہر ارضیات، ڈاکٹر فرینک زوان(Frank Zwaan)کی زیرقیادت ماہرین کی ٹیم کا تحقیق وتجربات سے ڈرامائی انکشاف ہوا ہے، جس کے تحت عالمی پہاڑی سلسلوں کے نیچے جن میں پاکستان کے ہمالیہ، ہندو کش اور قراقرم نمایاں ہیں، قدرتی ہائیڈروجن گیس کے لاکھوں ٹن ذخائر مل سکتے ہیں۔

یہ ذخائر مل جائیں تو پاکستان کو ’’ہزارہا سال‘‘ تک مفت بجلی وتیل ملے گا اور وہ اربوں ڈالر کا قیمتی زرمبادلہ بچا کر زبردست معاشی ترقی کرے گا۔

قدرتی ہائڈروجن گیس سے گاڑیاں چلتی اور بجلی بنتی ہے۔ یہ گیس پانچ چھ طریقوں سے زیرزمین بنتی ہے مگر ان میں سب سے کارگر یہ ہے کہ غلاف زمین کی چٹانیں (mantle rocks) پانی سے مل جائیں تو کئی نئے معدنیات کے علاوہ شدید حرارت سے ہائیڈروجن گیس بھی بڑی مقدار میں بنتی ہے۔

جب دو براعظم ٹکرائیں تو چٹانوں اور پانی کا ملاپ ہوتا ہے کہ یہ زبردست ٹکراؤ زمین کی عمیق گہرائی سے غلافی چٹانوں کو اوپر لا پانی سے ملا دیتا ہے۔اسی ٹکراؤنے ہمالیہ سمیت تقریباً سبھی پہاڑی سلسلوں کو جنم دیا۔

چونکہ پاکستانی پہاڑی سلسلے عظیم الشان اور وسیع وعریض ہیں لہذا ان کے نیچے ہائیڈروجن گیس ملنے کا بہت امکان ہے جو ٹکراؤکے بعد وہاں پھنس چکی۔

حکومت پاکستان کو چاہیے، وہ اْسے تلاش کرنے کی خاطر جامع منصوبہ بنائے کہ کامیابی ملنے پر یہ گیس ملک وقوم کی تقدیر بدل سکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • چند سال میں پاکستان ترقی کی مثال بن کر ابھرے گا، احسن اقبال
  • پاکستانی پہاڑی سلسلوں تلے قدرتی ہائیڈروجن گیس کا خزانہ
  • بدقسمتی ہے جو ملکی حالات ہیں اس میں کوئی بھی محفوظ نہیں: شاہد خاقان عباسی
  • عالمی بینک کا پاکستان سے 20؍ارب ڈالر کے معاہدے کا اعلان
  • پاکستان نے آئی ایم ایف کی ایک اور شرط پوری کر دی
  • پاکستان میں معاشی استحکام مضبوط، ورلڈ بینک کا 10 سالہ ترقیاتی منصوبہ
  • پاکستان میں معاشی استحکام مضبوط ہورہا ہے، ناجے بنحیسن
  • پاکستان میں معاشی استحکام مضبوط ہو رہا ہے، ناجے بنحیسن
  • عالمی بینک کا پاکستان کے ساتھ سی پی ایف کے تحت 20 ارب ڈالر کے معاہدے کا اعلان