’یہ ڈائری ہر اس شخص کو پڑھنی چاہیے جو ناصر کاظمی کی شخصیت اور ان کی شاعری کے پس منظر سے واقف ہونا چاہتا ہے اور موجودہ عہد کے ایک بڑے شاعر کو اس کے اصلی روپ میں دیکھنا چاہتا ہے۔‘

کتابی صورت میں شائع ہونے والی ’ناصر کاظمی کی ڈائری (چند پریشاں کاغذ)‘ کی اہمیت کے لیے مشفق خواجہ جیسے ادب کے پارکھ کی یہ سند کافی ہے، اس کتاب کے مطالعے سے خواجہ صاحب کی بات کی صداقت اور بھی واضح ہوجاتی ہے۔

یہ ڈائری 1948 سے شروع ہوتی ہے اور 1972 میں ناصر کاظمی کے انتقال سے ایک دن پہلے تک کے اندارج پر محیط ہے۔ ناصر نے ڈائریاں گم ہونے کا تذکرہ بھی کیا ہے لیکن پھر بھی جو مال بچ گیا اور اس وقت ہمارے سامنے ہے وہ بھی باوقعت اور سراہے جانے کے لائق ہے، یہ ڈائری کتابی صورت میں پہلی دفعہ 1995 میں شائع ہوئی تھی۔

یہ ڈائری ناصر کی ذہنی سرگزشت ہے، تخلیقی زندگی کا احوال ہے، شہر نوردی کی کہانی اور رتجگوں کی کتھا ہے، لاہور کے ادبی ماحول کا بیان اور اس شہر سے ان کے تعلق کی دستاویزی شہادت ہے، اس میں ذاتی کلفتوں کا بھی ذکر ہے۔

یہ روزنامچہ لاہور میں ادب کے ساتھ دوسرے فنون سے ناصر کاظمی کی دلچسپی کے بارے میں بتاتا ہے۔ کہیں کہیں دوسرے ادیبوں شاعروں کے بارے میں رائے کا اظہار ملتا ہے اور بعضوں سے شناسائی کی ابتدا کے قصے بھی ان میں آگئے ہیں۔

ناصر ادب دوستوں کے ساتھ سبھا ہی نہیں جماتے تھے ان کی ہمراہی میں دیگر سرگرمیوں کا حصہ بھی بنتے ہیں۔ سینما کا رخ وہ کرتے تھے، محفلِ موسیقی میں ان کا جانا ہوتا، تصویروں کی نمائش میں ان کی دلچسپی تھی، میلہ چراغاں میں وہ شریک ہوتے تھے اور ریڈیو سے بھی ان کی وابستگی تھی۔

وہ اس ڈائری میں سماجی صورت حال پر تبصرہ بھی کرتے ہیں، ایک مزے کی بات اس میں ناصر کے اپنے اور دوسروں کے شعروں کا اندراج ہے اس لیے ایک سطح پر یہ بیاض سخن بھی ہے۔ اس کی سیاسی جہت یہ ہے کہ یہ انڈیا کے ساتھ 65 اور 71 کی جنگ میں لاہور کی فضا اور اس سے شاعر کے متاثر ہونے کی خبر دیتی ہے۔ یہ 1953 میں لاہور میں مارشل لا سے پیدا شدہ خوف وہراس کی فضا کو بھی مؤثر طریقے سے بیان کرتی ہے۔

ان سب باتوں کے علاوہ بھی ڈائری کے کئی رنگ ہیں، آج ناصر کی برسی ہے اور رواں سال ان کی پیدائش کے 100 سال بھی پورے ہوگئے ہیں۔ اس لیے ناصر کے کلام کے ساتھ ساتھ ان کے دوسرے ادبی کام پر بھی بات ہونی چاہیے جس میں ان کی ڈائری کی خاص جگہ ہے کیوں کہ اس سے ان کی زندگی کے بہت سے گوشے منور ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی لاہور کی ادبی و تہذیبی فضا کا نقشہ بھی واضح ہوتا ہے کیوں کہ ناصر نے اس شہر میں زندگی بسر کرنے کا حق ادا کیا ہے اور اس معاملے میں شاید ہی کوئی ان کا ہم پلہ ہو۔

اب ہم اس ڈائری کے چند اوراق پلٹتے ہیں، ابتدا ناصر کے ذاتی احوال سے کی جائے تو ڈائری میں درج ان تین بیانات سے ناصر کی کٹھنائیوں بھری زندگی کا کچھ اندازہ ہو سکے گا:

’یتیمی، غریب الوطنی، بے زری، دربدری‘

’آج صرف ٹھنڈے پانی کا ناشتہ کیا‘

’دھوبی نے ادھار کپڑے دینے سے انکار کردیا، میلے کپڑے پہن کر دفتر امروز گیا۔‘

اس ڈائری سے ناصر کے ایک پرانے عشق کی کہانی بھی کھلتی ہے،

’پھر وہ لڑکی یاد آگئی جو میری زندگی میں دوسری بار ایک نئی زندگی لے کر آئی۔ جتنا عشق اس نے مجھ سے کیا اس کی مثال دنیا میں کم ہے لیکن میں نے اسے باپ کے ڈر اور اپنی آوارگی کی وجہ سے کھو دیا۔‘

حلقہ اربابِ ذوق سے ناصر کا قریبی تعلق رہا، یہاں انہوں نے کئی مرتبہ اپنا کلام سنایا، اجلاس کی صدارت کی اور 1969 کے سالانہ اجلاس میں خطبہ صدارت دیا۔ حلقے سے ناتے کی داستان ان کی لکھت میں یوں عیاں ہوتی ہے:

’حلقہ اربابِ ذوق کی رکنیت کا فارم پُر کیا کہ حلقے کی مجلسِ عاملہ نے میری شرائط قبول کرلیں۔‘

وہ غزل جس میں یہ مشہور شعر ہے

ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر

اداسی بال کھولے سو رہی ہے

حلقے میں پڑھی تو منٹو سے بھی داد وصول کی۔

ایک دفعہ حلقے میں یہ غزل پیش کی

تنہائی کا دکھ گہرا تھا

میں دریا دریا روتا تھا

اسی طرح دو اور غزلیں جو مختلف اوقات میں حلقہ میں ناصر نے سنائیں ان کے مصرعوں کا اندراج ہے:

’آنکھ کہتی ہے ترے دل میں طلب ہے کوئی‘

’ہر اک سانس کو ہم صبا جانتے ہیں‘

اس ڈائری سے ابواللیث صدیقی کے ایک مقالے کے بارے میں ان کی کڑوی رائے بھی پتا چلتی ہے:

’ڈاکٹر لیث صدیقی نے ایک طویل، بور، خشک اور گھٹیا سا مقالہ ’اردو غزل تقسیم کے بعد‘ سنایا۔‘

ناصر کی ڈائری کے مطالعہ سے نئے و پرانے شاعر یہ جان سکتے ہیں کہ سخن ور کے لیے مطالعہ کس قدر ضروری ہے :

’جرمن شاعر رلکے آج پڑھ رہا ہوں‘

’جرمن شاعر رلکے کی ایک نظم پر شیخ صاحب سے گفتگو رہی۔‘

’فرانس کے شاعر رامبو کو پڑھنا شروع کیا‘

’اسپین کے جواں مرگ شاعر لورکا کو دوبارہ پڑھنا شروع کیا۔ یہ شاعر مجھے بے حد پسند ہے‘

’کولرج پڑھنا شروع کیا‘

’اطالیہ کا شاعر Leopardi پڑھتا رہا۔‘

ایک جگہ منگول فرماں روا قبلائی خان پر کولرج کی نظم ’قبلا خان‘ پر مختصر تبصرہ بھی ہے:

’اس نظم میں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ یہ نظم آوازوں کا کرشمہ ہے، اس میں Floating effect of the whole ہے۔ کالرج کی اس نظم میں معنی کی بجائے معنی کی روح متاثر کرتی ہے۔‘

ڈائری میں ناصر کے فارسی اور اردو کے شعری ذوق کی جھلکیاں بھی ملتی ہیں۔

’اس وقت رات کے تین بجے ہیں، خمیرہ مروارید کھایا اور بیدل پڑھنا شروع کیا۔‘

’مصحفی کا انتخاب جو مولانا حسرت موہانی نے کیا کہیں سے ہاتھ لگا، اسے پڑھا۔‘

ناصر نے اس انتخاب میں سے جو پندرہ اشعار ڈائری میں نقل کیے ہیں ان میں سے تین ملاحظہ کیجیے:

اے جان نکل کہ مصحفی کا

اسباب لدا ہوا کھڑا ہے

چلے بھی جا جرس غنچہ کی صدا پہ نسیم

کہیں تو قافلۂ نو بہار ٹھہرے گا

کام کیا مجھ کو شور بلبل سے

میں ہوں اک طوطی نفیس مزاج

کلیات میر تو مستقل وظیفہ تھا، اسی طرح ولی دکنی، نظیر اکبر آبادی اور اقبال کا کلام بھی زیر مطالعہ رہتا۔

جوش کی کتاب ’سرودو خروش‘ سے اپنی پسند کے مصرعے اور شعر نقل کیے۔ شاعری کے کسی مجموعے کی اگر ناصر نے برائی کی ہے تو وہ عابد علی عابد کا مجموعہ کلام ’شبِ نگار بنداں‘ ہے۔

ناصر کے بیان سے بعض بھولی بسری شخصیات کے بارے میں بھی جاننے کو ملتا ہے، عبدالمجید بھٹی ان میں سے ایک ہیں جن سے ناصر کی واقفیت اس زمانے میں ہوئی جب وہ اسلامیہ کالج کے طالبِ علم تھے، ان وقتوں کو یاد کرتے ہوئے ناصر نے لکھا:

’حمید نسیم کے ساتھ عبدالمجید بھٹی سے ملاقات ہوئی، وہ ان دنوں عرب ہوٹل کے اوپر ایک مکان میں رہتے تھے، یہ مکان ملک بھر کے ادیبوں اور شاعروں کی سرائے تھا۔ بھٹی صاحب وضع دار آدمی ہیں، ہر صنف ادب میں قدم رکھتے ہیں، مخلص آدمی ہیں اور ساری عمر انہوں نے قلم سے لکھ کر زندگی بسر کی۔‘

ساغر صدیقی کو ہم سب جانتے ہیں لیکن ان کے معاصر شاعر ساحر صدیقی سے واقف نہیں، لیہ میں جگر مراد آبادی کی صدارت میں مشاعرے میں ناصر نے انہیں پہلی دفعہ سنا تو متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے :

’اس کے اشعار بھی اچھے تھے اور ترنم قیامت کا، ایک شعر یاد رہ گیا:

دھواں دینے لگے ہیں داغ دل کے

اندھیرا کردیا ہے روشنی نے

فروری 1955 میں پطرس بخاری کی صدارت میں بھی ’جھنگ والے ساحر صدیقی نے مشاعرہ لوٹ لیا۔‘

احمد مشتاق جن کی ساحر سے ملاقات رہی تھی انہوں نے ایک مرتبہ مجھے بتایا کہ تقسیم کے بعد ساحر صدیقی کا خاندان جھنگ منتقل ہوگیا تھا بعد میں وہ لاہور آگئے اور نسبت روڈ پر ایک درزی کی دکان پر کام کرنے لگے۔ مری میں ایک مشاعرے کے سلسلے میں گئے تو وہیں ان کا جوانی میں انتقال ہوگیا۔

ناصر کی لاہور میں گزری زندگی کی ایک خوب صورت بات یہ تھی کہ ادب سے باہر فنون لطیفہ کی دوسری شاخوں سے بھی برابر اعتنا کرتے تھے، سب سے زیادہ رشتہ مصوری سے استوار تھا، اپنے وقت کے معروف مصوروں سے ان کی دوستی تھی، ان کی نمائشوں میں شریک ہوتے تھے، عبد الرحمان چغتائی پر ان کا مضمون بھی اس فن سے ان کی وابستگی کا غماز ہے۔

انتظار حسین کے ساتھ ایک مکالمے میں وہ شاکر علی اور حنیف رامے کے فن پر بات کرتے ہیں، ان سے کہتے ہیں، ’ہمارے ویرانے کی عکاسی اور وقت کا احساس آج کے مصوروں کے یہاں بھی ملتا ہے۔‘

ان کے ہاں جگہ جگہ مصوروں کا حوالہ آتا ہے، اس میں مصوری کے نمونوں سے ان کی دلچسپی کی مثالیں بھی موجود ہیں:

’شیگال اور ماتیس کی تصویریں دیکھتا رہا، ان دونوں مصوروں پر مضمون لکھا تھا، نہ جانے کہاں گیا۔‘

’پال نیش کی تصاویر دیکھتا رہا۔‘

’مغل مصوری کے چند نایاب شاہکار دیکھ کر مظفر علی سید کے ہاں گئے۔‘

ناصر کی ڈائری میں درج ایک سیاسی حوالہ تو معلوم ہوتا ہے جیسے آج ہی کی بات ہو جس کا ثبوت یہ ہے کہ جس وقت یہ سطریں لکھی جارہی ہیں وزرا کی ایک نئی کھیپ حلف اٹھا رہی ہے اور ایک صاحب کے وزیر ہونے پر ناصر کاظمی کا یہ تبصرہ آنکھوں کے سامنے ہے:

’اس عہد میں بخشی گئی زاغوں کو وزارت‘

ناصر کو موسیقی سے بھی شغف تھا، گھر میں ریکارڈ سنتے تھے، موسیقی کی محفلوں میں جاتے تھے۔

ڈائری میں ایک جگہ ریڈیو پر غزل گائیکی سننے کی شہادت بھی ملتی ہے جس میں ان کی اپنی غزلوں کا حوالہ بھی آجاتا ہے:

’رات کو ریڈیو میں فریدہ خانم سے داغ کی غزلیں سنیں مگر اس نے میری غزلیں بہت اچھی گائی ہیں، خصوصاً وہ غزل جس کا مطلع یہ ہے:

’گرفتہ دل ہیں بہت آج تیرے دیوانے‘

لاہور کی سینماؤں میں ناصر نے یاروں کے ساتھ بہت سی فلمیں دیکھیں، سنیما اور فلم کا نام اور کس کے ساتھ فلم دیکھی یہ تفصیلات بھی وہ درج کرتے ہیں۔

محمد حسن عسکری نے کراچی سے 50 کی دہائی کے شروع میں ادب میں جمود کی بات کی تو لاہور میں انہیں جن لوگوں نے چیلنج کیا ان میں ناصر کاظمی بھی شامل تھے۔ انہوں نے آفتاب احمد کے نام خط سے عسکری کا یہ جملہ نقل کیا :

“This younger generation will go to ashes.

اور اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ نامعلوم یہ کون سی نئی نسل ہے جس کی طرف عسکری نے اشارہ کیا ہے اور اسے اپنے ادبی ہم صفیروں کے ہوتے ہوئے عجب جرات قرار دیا ہے۔

عسکری صاحب کی اس درفنطنی کا مضمون کی صورت میں انتظار حسین نے ’پرانی نسل کے خلاف ردعمل‘ میں جواب دیا جسے ناصر کاظمی نے ’ہمایوں‘ رسالے میں اپنے نوٹ کے ساتھ شائع کیا۔

انتظار حسین نے اس زمانے کو یاد کرتے ہوئے مجھے انٹرویو میں بتایا تھا:

یہ وہ وقت ہے جب لاہور میں ہم چند ہم عصر اور ہم خیال اکٹھے ہوئے، جن میں ناصر کاظمی، مظفر علی سیّد، حنیف رامے اور احمد مشتاق شامل تھے۔ اس موقعے پر ہم دوستوں میں آپس میں گفتگو ہوئی اور ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ اصل میں جو جمود پیدا ہوا ہے وہ عسکری صاحب کی نسل کے ادیبوں کے ہاں پیدا ہوا ہے اس کے برخلاف تقسیم کے بعد جو نئی نسل پیدا ہوئی ہے اس کا طرزِ احساس مختلف ہے، اس لیے جمود عسکری صاحب کی نسل میں ہے نئی نسل میں نہیں۔‘

عسکری صاحب سے اختلافات اپنی جگہ لیکن ناصر کے دل میں ان کا احترام قائم رہا جس کا اظہار انہوں نے 6 مئی 1956 کے دن کے اندراج میں، میٹرو میں انتظار حسین اور عسکری سے ملاقات کے تذکرے میں کیا اور بتایا کہ گزشتہ شام بھی کیفے ڈی مال میں ان کے ساتھ بہت دیر تک محفل جمی رہی۔ اس کے بعد ناصر نے تقسیم کے بعد ان سے ملاقاتوں کو یاد کیا ہے جب عسکری ہر شام منٹو سے ملنے کے بعد ان کے ہاں آتے تھے۔ ناصر کے بقول، ’ان کی تحریریں میری نظر میں بڑی وقیع ہیں، عسکری صاحب سے اختلاف کی گنجائش ہو سکتی ہے مگر ادیب کی حیثیت سے ان کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے میری غزلوں کا تعارف رسالہ ساقی میں کرایا اور پھر انتظار حسین جیسا دوست بھی انہی کے وسیلے سے ملا۔‘

جنوری 1955 کے آخری دنوں میں لاہور میں پاکستان انڈیا کا ٹیسٹ میچ دیکھنے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں ہندوؤں اور سکھوں کی لاہور آمد کے بارے میں بھی وہ بتاتے ہیں۔ ان کے بقول ’دفتروں اور کالجوں میں چھٹی ہوئی، گلی گلی، گھر گھر ریڈیو کے گرد لوگ جمع نظر آتے تھے ۔‘

سماجی برائیاں ختم کرنے کی مہم جن بنیادوں پر چلائی جاتی ہے ناصر ان سے متفق نظر نہیں آتے اور خرابیوں کی اصل وجہ کی طرف توجہ دلاتے ہیں:

’جرائم کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہماری قوم کے سینے میں دل زندہ نہیں رہا، خوشی اور سیرو تفریح کے مواقع کم کر دیے گئے ہیں، ظاہری مذہبی نعروں نے لوگوں کو مذہب سے بیزار کردیا ہے بلکہ ملا نے مذہب کو غلط رنگ میں پیش کیا ہے۔ قومی زندگی میں تہواروں، میلوں اور بعض دلچسپ رسوم کو برقرار رکھنا بڑی اہمیت کا حامل ہے۔‘

اس کے سامنے والے صفحے پر بھی ناصر نے ایک اہم مسئلے کی نشان دہی کی ہے جس کی انتہا نے اب معاشرے کو گہری کھائی میں گرا دیا ہے:

’جسے دیکھو دولت کمانے کی فکر میں گرفتار ہے۔‘

ناصر کا ایک اور فقرہ بھی دیکھیے جسے ہم نے 72 سال سے پرانا نہیں ہونے دیا:

’ بدنصیب اور غافل عوام اور لاپروا ظالم حاکم‘

ناصر کاظمی کی نثر کی بہترین صورت ان کے مضامین ہیں لیکن ڈائری کے سیدھے سادے بیانیے کے بیچ میں اچانک کوئی ایسا ٹکڑا آپ کو پکڑ لیتا ہے جو دل کے تاروں کو چھوتا ہے۔

کتاب میں شامل ایسے ہی چند نثر پاروں کے حوالے پر آج کی تحریر سمیٹتے ہیں:

’اب بارش ہو رہی ہے، پتے جھڑ رہے ہیں، تانگوں کے چلنے کا شور اور بارش کی بوندوں کا ناچ میرے کمرے کے سکوت کو توڑ رہا ہے۔ موم کی تین شمعیں روشن ہیں جن کی روشنی میں یہ الفاظ تحریر کررہا ہوں۔ مر جاؤں گا تو دنیا روئے گی۔ بیسویں صدی کا سچا، مخلص، منفرد شاعر ناصر کاظمی رہتی دنیا تک حساس دلوں کو گرمائے گا، میں چاند میں سو رہا ہوں گا۔‘

’خنکی، دھیمی دھیمی چاندنی، شام کو کبوتروں سے ہم سخنی، شب کو صحبتِ ہم نشیناں۔‘

اور ذرا ناصر کا یہ بیان دیکھیے جو زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات سے ان میں جنم لیتے بڑے احساسات کی ایک جھلک دکھاتا ہے۔

’آج کا دن نکہت رائیگاں کی طرح بیت گیا، نہ ڈاک میں کوئی کام کا خط ملا نہ رسالہ، نہ نامہ و پیام، نہ کوئی یاد آیا نہ کسی کی یاد آئی۔ کبوتر بھی آج سست رہے، زمین اور آسمان کے درمیان اتنا گہرا اور وسیع فاصلہ ہے مگر اسے کون طے کرے۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

محمود الحسن

گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔

wenews اردو ادب ڈائری سماجی صورت حال شاعری فنون سے دلچسپی محمودالحسن ناصر کاظمی وی نیوز

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ڈائری سماجی صورت حال فنون سے دلچسپی محمودالحسن ناصر کاظمی وی نیوز ناصر کاظمی کی تقسیم کے بعد کے بارے میں لاہور میں ڈائری میں میں ان کی انہوں نے کی ڈائری اس ڈائری یہ ڈائری ڈائری کے یہ ہے کہ سے ان کی ناصر کا ناصر کے ناصر کی صاحب کی کے ساتھ کیا ہے اور اس کی بات سے بھی کے ہاں دیا ہے ہے اور کی ایک

پڑھیں:

کوچۂ سخن

غزل
حق و باطل کبھی یکجا نہیں رہنے دیتا
آئینہ جھوٹ پہ پردہ نہیں رہنے دیتا
اس کو میں روتا بلکتا ہوا چھوڑ آیا ہوں
ساتھ لاتا تو قبیلہ نہیں رہنے دیتا
جذبۂ فخر و تکبر بھی عجب ہوتا ہے
دیر تک شخص کو اونچا نہیں رہنے دیتا
ساتھ پا جاتا اگر تپتے ہوئے سورج کا
مجھ کو ساحل پہ یہ دریا نہیں رہنے دیتا
تجربہ عمر کے ہمراہ بڑھے گا سرمدؔ
وقت کوئی گھڑا کچا نہیں رہنے دیتا
(سرمد جمال۔ لالیاں)

۔۔۔
غزل
کیوں نہ پھر خود کو میں رانجھا وہ مری ہیر لگے
اس کو جب دیکھوں مرے خواب کی تعبیر لگے 
ضربتِ چشم کے منکر میں تجھے کیا بولوں
بس دعا ہے ترے دل میں بھی کوئی تیر لگے
آپ کے دست شفاعت  کے تو کیا ہی کہنے
آپ کے ہاتھ سے تو زہر بھی اکسیر لگے
اس طرح ٹھاٹ سے رہیو کہ گدا ہو کے بھی
آدمی اہلِ حکومت میں کھڑا میر لگے
مجھ کو چھوڑا ہے تو تحفہ بھی مرا آگ میں ڈال
اس سے پہلے کہ یہ پائل تجھے زنجیر لگے
ہجر سے رب ہی بچائے کہ جسے یہ ڈس لے
وہ تو بھر پور جواں ہو کے بھی اک پیر لگے
ہم جنوں زاد ہیں ڈرتے ہیں صعوبت سے بھلا
ہم کو پھندہ بھی تری زلفِ گرہ گیر لگے
عاشقی اس کو ہی سجتی ہے جہاں میں بابرؔ
سامنے شیر بھی جس شخص کے نخچیر لگے
(بابر علی ویرو وال  سرگودھا)

۔۔۔
غزل
روز جھنجھٹ میں نئے ڈال دیا جاتا ہے
کس مہارت سے مجھے ٹال دیا جاتا ہے
کیوں قطاروں میں رہیں کاسہ گدائی کا لیے
روند کے پھول بھی پامال دیا جاتا ہے
ہم سے کہتے ہیں کہ ہشیار ذرا رہیے گا
اور صیّاد کو بھی جال دیا جاتا ہے
کھول کر حسن کا صفحہ وہ ترے رکھتا ہے
اور قصّے کو بھی اجمال دیا جاتا ہے
دل یہ بن باپ کے ہو جیسے یتیم اے لوگو
گھر میں جو غیر کے بھی پال دیا جاتا ہے
پیار کرنے کو میسّر ہے گھڑی دو لیکن
درد سہنے کو کئی سال دیا جاتا ہے
علم اپنا نہیں، اوروں کی بتانے کے لیے
قسمتوں کا بھی یہاں فال دیا جاتا ہے
تو نے تو مجھ کو دیا خام، مگر ظرف مرا
پھل تجھے میٹھا بھی اور لال دیا جاتا ہے
یہ بلوچی کی روایات میں شامل ہے رشیدؔ
پوچھا کرتے بھی ہیں، اور حال دیا جاتا ہے
(رشید حسرت۔ کوئٹہ)

۔۔۔
غزل
جو تیرگی میں لہو کا الاپ جانتا ہے
خدا پرستوں کے سارے ملاپ جانتا ہے
خلافِ دنیا ہے لیکن بدن کی قید میں ہے 
جو زندگی کو بھی ڈھولک کی تھاپ جانتا ہے
لباسِ حضرتِ آدم کو اوڑھنے والے
برہنہ سوچ پہ آدم کی چھاپ جانتا ہے؟
ادھیڑ عمر میں بیٹے کی موت ہو جانا
یہ ایسا دکھ ہے جو اکبر کا باپ جانتا ہے
ہمیشگی میں یہ تکرار ہست و بود کہاں
جو اہلِ فن ہے وہ قدرت کا ناپ جانتا ہے
(علی رقی۔ فیصل آباد)

۔۔۔
غزل
کوئی عجلت ہے مجھے اور نہ بیزاری ہے
وقت کے ساتھ ہی چلنے میں سمجھ داری ہے
جان جاتی ہے چلی جائے کوئی بات نہیں
میری عزت تو مجھے جان سے بھی پیاری ہے
وقت جیسا بھی ہو آخر کو گزر جاتا ہے
فکرِ فردا ہے مجھے، اُس کی ہی تیاری ہے
ایک میں ہوں جسے محرومِ محبت رکھا
ورنہ اُس شخص کی دنیا سے وفاداری ہے
حاکمِ وقت سے شکوے تو بہت ہیں لیکن
میں ہوں مجبور مِری نوکری سرکاری ہے
موسمِ ہجر نے یہ حال کیا ہے میرا
دل ہے پُرسوز اور آواز مری بھاری ہے
اُس کی ہر بات پہ مت کان دھرا کر شوبیؔ 
بولتے رہنے کی اُس شخص کو بیماری ہے
(ابراہیم شوبی۔ کراچی)

۔۔۔
غزل
سوگ واروں کا تمسخر اڑانا تھا جنہیں 
شوخ بھی آئے جی بھر مسکرانا تھا جنہیں
چاند سے اوجھل انھوں نے رکھے دست و قلم 
ایک کاغذ پر سمندر بنانا تھا جنہیں 
اِن بچھے پھولوں سے اُن کو ہی چھالے بن گئے
اپنی پلکوں کو سرِ رہ بچھانا تھا جنہیں
وہ مرے اعصاب سے آشنا ہوا ہی نہیں 
چھید ڈالے ہیں وہی گدگدانا تھا جنہیں
عرش کو بھائی نہیں سب ستاروں کی چمک
ٹوٹ کر بکھرے بہت جگمگانا تھا جنہیں
تیرے پہلے جھوٹ کے وہ کہاں ہیں سامعین
تو نے اپنا آخری سچ بتانا تھا جنہیں
رہ پہ خوشبو کی جگہ بھر گئی ہے شام اب 
کیا نہیں آئیں گے وہ، آج آنا تھا جنہیں
بے تکی ترتیب سے گزری ساگرؔ زندگی
یاد رکھا ہے انہیں، بھول جانا تھا جنہیں
(ساگرحضورپوری۔سرگودھا)

۔۔۔
غزل
شماریات سے باہر ہے تشنگی اپنی
کبھی نہ ختم ہو پائے گی بے بسی اپنی
تمہارے آنے سے پر لطف ہو گئی ورنہ
پڑی تھی بے سر و سامان زندگی اپنی
تمام عمر بھی کم ہے یہ غم منانے کو
کہ ہو گئی ابھی سے ختم دوستی اپنی
تمہیں یقین نہیں آ رہا، یقین کرو
ہر ایک شے سے ہے نایاب دل لگی اپنی
تلاشتے ہیں گریبان کو حیا والے
کہ عام لوگ نہیں جانتے کمی اپنی
مری زبان مرے سر سے کچھ تو اونچی ہے
کبھی فروخت نہ ہو پائے گی خودی اپنی
تمہارا دل تمہیں جھنجھوڑتا نہیں ہے کیا؟
جو ناک پر لیے پھرتے ہو برہمی اپنی
ضمیر مار کے جینے سے موت افضل ہے
ہے ایسی جیت سے بہتر شکستگی اپنی
کسی کی طرز پہ رہنا مجھے قبول نہیں 
مجھے نمود سے پیاری ہے سادگی اپنی
طویل وقت سے رویا نہ تھا وسیم خلیل 
وہ چھوڑ کر گیا تو آنکھ نم ہوئی اپنی
(وسیم اشعر۔تحصیل شجاع آباد، ضلع ملتان)

۔۔۔
غزل
دل میں اتر جو آئی وہی چیخ اور پکار
ہم نے سنی، سنائی وہی چیخ اور پکار
ہم کو دیا تو کیا دیا دنیائے بے ثبات 
آنسو خلش دہائی، وہی چیخ اور پکار
اور کچھ بھی نہیں جانتا یہ جانتا ہوں میں
حصے میں میرے آئی وہی چیخ اور پکار
بے ساختہ ہی سوئی ہوئی آنکھ کھل گئی 
پھر ہم کو یہاں لائی وہی چیخ اور پکار
معلوم کر سکا نہ کہ وہ تھی تو کس کی تھی؟ 
جب ذہن میں پھرائی وہی چیخ اور پکار
(احمد ابصار۔ لاڑکانہ)

۔۔۔
غزل
سینہ تراش کے لکھے اک نام کے حروف
اک حسنِ بے مثال پہ کچھ کام کے حروف 
خلوت کے خوگروں پہ عیاں ہیں سبھی میاں 
کیا صبح کے حروف تو کیا شام کے حروف 
کیسے ٹکوں میں بیچتے ہو، ہوش میں تو ہو؟
ارض و سما سے بیش بہا دام کے حروف 
یوں شاعری نسوں میں گھلی ہے میاں کہ میں
مدہوش ہو کے لکھ رہا ہوں جام کے حروف 
تم خود کو کہہ رہے ہو سخن فہم، خیر ہے؟
تم پر ابھی کھلے نہیں خیّامؔ کے حروف
(خیام خالد۔ ٹیکسلا)

۔۔۔
غزل
ہم پہ ہر سمت اجالے تھے سبھی وار دیے
اور مرے یار جیالے تھے سبھی وار دیے
کچھ ترے ہجر کے تھے زخم مری جان پہ اور
طعنِ اغیار کے جالے تھے سبھی وار دیے
اپنا دیوان حوالے ہے سمندر کے کیا
تم پہ کچھ شعر نکالے تھے سبھی وار دیے
ہم نے کھولی تھی جو اک بار کفِ دستِ سخن
جن کو بھی جان کے لالے تھے سبھی واردیے
تم نے اک ہجر زدہ شخص پہ احسان کیا
تم نے جو راز سنبھالے تھے سبھی وار دیے
اور پھر چھوڑ دیے  دوست سبھی فاروقیؔ
اور وہ سانپ جو پالے تھے سبھی وار دیے
(حسنین فاروقی۔ چکوال)

۔۔۔

غزل
روگ آنکھوں سے محبت کا چھپاؤں کیسے
یادِ جاناں لیے ہوں یاد مٹاؤں کیسے
وحشتیں تم کو دسمبر کی بتاؤں کیسے 
اپنے سینے میں لگی آگ دکھاؤں کیسے
شدتِ درد نے تو چھین لی گویائی میری 
اے مرے دوست تجھے حال سناؤں کیسے 
یاد میں اس کی جلا جاتا ہے سینہ میرا
دل تو کرتا ہے مگر اس کو بلاؤں کیسے
چارہ گر! نشتر مرہم ہیں زہر ناک ترے
زخمِ دل تجھ کو دکھاؤں تو دکھاؤں کیسے
تیری موجودگی سے ہے مرا سب فنِ سخن 
تو بھلا تیرے سوا مصرعے سجاؤں کیسے
چاہتا ہوں کبھی ہو شام ترے پہلو میں
شام قسمت سے یہی میں بھی چراؤں کیسے
تیرے ہی حسن نے آنکھوں کی بدولت مجھ کو 
ایسے مدہوش کیا، ہوش میں آؤں کیسے 
دوست میرے ہیں سبھی جان سے پیارے مجھ کو
جان سے تنگ ہوں تو جان چھڑاؤں کیسے
(رستم۔ ڈیرہ غازی خان)

۔۔۔
غزل
کام چاہے جس قدر ہو دور ہونا چاہیے 
خامشی تکلیف دے تو شور ہونا چاہیے 
ظاہری حالت سے اندازہ لگایا نہ کرو
کوئی جب آواز دے تو غور ہونا چاہیے
ہے محبت میں نرم لہجہ بڑا ہی پراثر 
ہو صدا حق کے لیے تو زور ہونا چاہیے
روز اپنوں پر بھڑکنا اور دھمکانا انہیں
ہو بہادر تو مقابل اور ہونا چاہیے
جیب کاٹے،مال لوٹے یا بجٹ کھا جائے وہ
چور ہے توچور کو پھر چور ہونا چاہیے
کتنی آساں ہے یہاں تہذیبِ نو کی ہمسری
شرم سے خالی ذہن سے کور ہونا چاہیے
موم کو پتھر بنا دیتا ہے شاہدؔ انتظار 
ہے اگر جذبہ تو کچھ فی الفور ہونا چاہیے
(محمد شاہد اسرائیل۔ آکیڑہ، ضلع نوح میوات، انڈیا)
 

سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔ 
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
 روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

 

متعلقہ مضامین

  • اگر فوج کمزور ہوئی تو پاکستان کا حال لیبیا اور عراق جیسا ہوگا، ناصر حسین شاہ
  • ٹاؤن شپ میں کے ایف سی پر  پٹرول بم حملہ،  فوٹیج منظرِ عام پر آ گئی
  • امید ہے وزیرِ اعظم جلد کینال ختم کر نے کا اعلان کریں گے: ناصر شاہ
  • کینال پراجیکٹ جاری رکھا گیا تو ہم حکومت سے الگ ہو جائیں گے، ناصر شاہ
  • نہریں بنانا شروع کیں تو حکومت سے الگ ہوجائیں گے، ناصر حسین شاہ
  • پہلی مرتبہ آلیار منظر عام پر، شاہین آفریدی کی بیٹے کے ہمراہ تصاویر وائرل
  • لیبیا کے پانیوں میں ایک اور کشتی حادثہ، ڈوبنے والے پاکستانیوں کی تفصیلات منظر عام پر آگئیں
  • ایران اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کا پس منظر، طاقت یا مجبوری؟
  • کوچۂ سخن
  • فچ نے پاکستان کا معاشی منظر نامہ مستحکم قرار دے دیا