پاکستانی قوم کیا چاہتی ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 1st, March 2025 GMT
پاکستانی قوم کو معیشت کے حوالے سے شایع کردہ کسی بھی رپورٹ سے کوئی دلچسپی ہے نہ کوئی غرض ہے کہ پہلی، دوسری اور تیسری سہ ماہی کے دوران معاشی کارکردگی کیسی رہی ہے اور نہ ہی اس بات سے غرض ہے کہ گزشتہ مالی سال کے دوران ملکی معیشت کا انحصار غیر ملکی قرضوں پر رہا کہ نہیں۔
برآمدات و درآمدات میں کمی ہوئی یا ان میں اضافہ ہوا۔ شرح نمو کتنے فیصد رہی۔ ہدف حاصل کیا گیا کہ نہیں۔ سالانہ ٹیکسوں کی وصولیوں میں اضافہ ہوا یا کمی ہوئی۔ مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کتنے فیصد رہا۔ حکومتی اخراجات میں اضافہ ہوا یا کمی ہوئی، روپیہ مستحکم رہا یا کمزور رہا۔
مہنگائی میں کمی ہوئی کہ نہیں، زرمبادلہ کے ذخائر دگنے ہوگئے یا ان میں کمی آئی۔ ملکی معیشت میں بہتری آئی کہ نہیں۔ اتحادی سپورٹ فنڈز میں اچھی وصولیاں ہوئیں کہ نہیں۔ وزیر خزانہ کیا کہتا ہے کیا نہیں۔ ملک میں فی کس آمدنی کتنی ہے۔
ڈالر کے مقابلے میں روپیہ کی کیا اوقات ہے۔ افراط زر میں کمی ہوئی یا اضافہ ہوا۔ پائیدار ترقی کے لیے نمو کو زیادہ جامع بنایا گیا کہ نہیں۔ ملک میں اقتصادی نمو میں اضافہ ہوا یا کمی ہوئی ہے۔ پاکستانی معیشت بلندیوں کو چھو رہی ہے یا کہ تنزلی کی جانب گامزن ہے۔ پاکستان کو سالانہ کتنے فیصد شرح نمو کی ضرورت ہے۔
ملک میں کتنی غربت ہے۔ غربت کو ختم کیا جاسکا کہ نہیں۔ اس وقت کتنے چوتھائی پاکستانی شہری خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ تھنک ٹینک کی رپورٹ کیا کہتی ہے کیا نہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ اور خوشحال ممالک میں پاکستان کا کون سا نمبر ہے۔ حکومت منصوبہ بندی کرتے ہوئے عوام کی خوشی کو خصوصی اہمیت دیتی ہے کہ نہیں۔ اسی طرح کے دیگر ملکی معاملات میں پاکستانی قوم کو کوئی سرو کار نہیں۔
کوئی دلچسپی نہیں ہے اور نہ ہی وہ کوئی بڑی تبدیلی چاہتی ہے کیوں کہ وہ مختلف قسموں کی تبدیلیوں سے گزر کر کندن بن چکی ہے۔پھر آخر پاکستانی قوم کیا چاہتی ہے؟ پاکستانی قوم کی خوشیوں کا یہ عالم ہے کہ وہ صرف اتنا چاہتی ہے کہ پانی کی سبیل، مٹکے، کولرز کے ساتھ رکھا گیا گلاس زنجیروں میں جکڑا ہوا نہ ہو۔
سجدہ کرتے ہوئے اس کا دھیان جوتوں کی چوری کی طرف نہ ہو۔ دو وقت کی روٹی کی خاطر کسی کو اپنی عصمت نہ بیچنی پڑے۔ کسی معصوم بچے کے کاندھے پر بوٹ پالش کا بکس نہ ہو۔کوئی بڑا انقلاب، کوئی بڑی تبدیلی قوم نہیں چاہتی ہے۔
قوم محض اتنا چاہتی ہے کہ پٹرول کی قیمت چیتے کی رفتار سے تیز نہ ہو۔ سونے کی قیمت ہرن کی رفتار کی مانند نہ ہو۔ سبزیوں کی قیمتیں کینگرو کی رفتار کی طرح اچھلتی ہوئی نہ ہوں۔ بجلی، گیس اور موبائل فونز کے بلز و چارجز خرگوش کی رفتار کی مانند نہ ہوں۔
ملازمین اور مزدوروں کی تنخواہیں اور اجرتیں کچوے کی چال کے موافق نہ ہوں۔اس وقت صورت حال ہمیشہ کی طرح بد سے بدتر ہے۔ عوام پینے کے پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ مہنگی بجلی، مہنگی گیس کے ناجائز بلز، ظالمانہ لوڈ شیڈنگ کے ہاتھوں نفسیاتی مریض بنے ہوئے ہیں۔ عدالتیں کتوں کے تحفظ کے لیے انسانی جانوں کو کتوں کے رحم و کرم پر چھوڑے ہوئے ہیں یعنی انسانی جانوں کی قیمتیں کتوں کی جانوں سے کم تر ہیں۔
انسانی جان مال و متاع عدم تحفظ کے شکار ہیں جو چاہے انھیں لوٹے اور قتل کرے ملک میں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اہلکار اوپر کے احکامات کے محتاج ہیں جو اوپر والے ہیں وہ اپنی موج مستیوں میں مگن ہیں ان کی طرف سے عوام جائیں بھاڑ میں، انھیں صرف اوپر کی آمدنی سے غرض ہے جو انھیں ملنی چاہیے۔ روزگار کے دروازے غریبوں کے لیے ہمیشہ کے لیے بند کر دیے گئے ہیں تاکہ غریب سسک سسک کر مرجائیں۔
مہنگائی نے لوگوں کو خود کشی و ڈکیتی کرنے پر مجبور کر دیا ہے، جو ایسا نہیں کرسکتے وہ زندہ درگور ہیں۔ یہ معیشت کی کون سی ترقی ہے کہ اشیائے ضرورت کی قیمتیں سرکاری نرخ کے بجائے تاجر و دکان دار اپنی من مانی قیمتوں پر فروخت کر رہے ہیں۔
ٹماٹر، آلو، پیاز، مرچیں، دھنیا، پودینا، توری، لوکی، گوبھی، کھیرا، بھنڈی، لہسن، ادرک، پھول گوبھی، سلاد کے پتے اور دیگر سبزیوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ بکرے، گائے اور مرغی کا گوشت غریب طبقے کی پہنچ سے دور ہیں۔ انڈوں، دالوں کی قیمتیں لوگوں کو کان پکڑوا دیتی ہیں۔
چینی، آٹا، چاول، بیسن، دودھ، دہی کی قیمتیں بھی گراں فروشی کا شکار ہیں۔ صحت کے لیے پھل ضروری ہیں جو غریبوں کی دسترس سے دور بہت دور کر دیے گئے ہیں اسی طرح دیگر اشیا کی قیمتیں ہوش ربا ہیں۔ مہنگائی کنٹرول کرنے والی اتھارٹیز نے مہنگائی مافیا کو رشوت کے بدلے لوٹ مار کا لائسنس دے رکھا ہے۔
پٹرول کی قیمتوں میں زیادہ اضافہ اور معمولی کمی کی پالیسی آئی ایم ایف سے کامیاب مذاکرات کا نتیجہ ہے۔ مہنگائی کی یہ اونچی اونچی لہریں طوفان برپا کیے ہوئے ہیں جس سے ہر گھر میں قیامت صغریٰ ہے۔جمہوری حکومتیں عوام کو سہولیات دینے کے طور طریقے ڈھونڈتی ہیں مگر ہمارے جمہوری حکمران عوام سے ریلیف بھی چھین رہے ہیں۔
مہنگائی کا یہ عفریت غریبوں کا سرمہ بنا رہا ہے۔ مہنگائی کا گراف اس قدر بلند ہے کہ جیسے غریب عوام پر ایٹم بم گرایا گیا ہو۔ غریب آدمی کی پریشانیاں انھیں نفسیاتی امراض میں مبتلا کیے ہوئے ہیں۔ غریبوں کو ایک وقت کا کھانا بھی نصیب نہیں رہا۔
عوام کی محرومیاں انتہا کو پہنچ چکی ہیں ۔ خاندانوں کے خاندان غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ دو کروڑ کے قریب مستقبل کے معمار بچے محنت مزدوری کرکے اپنے گھر والوں کا پیٹ پال رہے ہیں۔ ملک میں لاکھوں محنت کش بے روزگار ہیں ان میں مزید اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ملک کا چالیس فیصد پڑھا لکھا طبقہ بے روزگار ہے۔
لاکھوں کی تعداد میں نوجوان بیرون ممالک ہجرت کر رہے ہیں۔ کچھ منزل مقصود پر پہنچ پاتے ہیں اور کچھ انسانی اسمگلرز کے جھانسے میں آکر اپنی زندگی سمندر کی بے رحم تیز لہروں کی نذر کر رہے ہیں یعنی زندگی کی تلاش میں موت کے منہ میں چلے جا رہے ہیں۔
ہمارے وطن عزیز میں غریبوں کی تنخواہیں اور اجرتیں بڑھانے کا تصور ہی نہیں ہے اس ضمن میں حکومتی اعلانات و احکامات ہوا میں تحلیل ہوتے رہتے ہیں، حکومتیں آئی ایم ایف سے کڑی شرائط پر بھاری قرضے لے لے کر غریب عوام پر ٹیکسز لاگو کرکے غریب عوام سے ان کے جینے کا حق چھین چکے ہیں اس کے باوجود حکمران طبقہ سمجھتا ہے کہ غریب عوام پھر بھی زندہ کیوں ہیں تو خدارا! وہ ایک کام کریں کہ دشمن کے لیے بنایا گیا ایٹم بم ہی عوام پر گرا دیا جائے تاکہ سسک سسک کر مرنے سے بچا جاسکے ۔
تاسف کا مقام ہے ایک طرف ملک کی اکثریتی عوام کا جینا مشکل تر بنا دیا گیا ہے تو دوسری طرف حکمران اپنی تنخواہیں اور مراعات جو کہ پہلے ہی سے بھاری بھرکم تھے ان میں مزید تین گنا اضافہ کردیا گیا ہے اسی طرح سرکاری افسران بالا کو بھی خوشیوں سے مالا مال کیا گیا ہے تاکہ کمزور حکومت مضبوط رہ سکے۔
لے دے کر بیچاری عوام ہے تو ان کی طرف سے جائیں بھاڑ میں۔خاکم بدہن کل کلاں کو ملک کو کچھ ہوجائے تو ان اشرافیا کو کوئی پرواہ نہیں کیوں کہ یہ پاکستان ان کا اصل وطن نہیں ہے یہاں یہ صرف اپنے مغربی آقاؤں کی چاکری کرتے ہیں۔
نوکری کرکے وہ اپنے آبائی وطن مغربی ممالک میں جا بسیں گے اور ہمارا پیارا وطن پاکستان خاکم بدہن ٹائیں ٹائیں فش۔پاکستانی کچلے ہوئے غریب عوام اپنے کروڑ پتی، ارب پتی اور کھرب پتی حکمرانوں سے اور کچھ نہیں مانگتے صرف باعزت جینے کے لیے پرسکون زندگی چاہتے ہیں جب کہ حکمران انھیں دن بہ دن موت کے منہ میں دھکیل رہے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ غریب عوام تالیاں بجائیں اور زندہ باد کے نعرے لگائیں۔ معاف کیجیے۔ اب ایسا ممکن نہیں رہا۔ پاکستانی قوم بہت کچھ سمجھ چکی ہے اب وہ کسی کے جھانسے میں آنے والی نہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: میں اضافہ ہوا پاکستانی قوم کر رہے ہیں کی قیمتیں غریب عوام کمی ہوئی چاہتی ہے کی رفتار ہوئے ہیں ہیں اور کہ نہیں ملک میں کے لیے
پڑھیں:
رمضان میں کاہلی سے گریز کریں
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 28 فروری 2025ء) رمضان المبارک کے آتے ہی پاکستان میں سماجی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کرنے والے منتریوں سے لیکر سنتریوں کے رویہ تساہل کی عکاسی ہوتی ہے۔ اب یہ رواج ہی بن گیا ہے کہ اکثرو بیشتر سرکاری و نجی محکمہ جات رمضان کے نام پر کام نہ کرنے کا بھی روزہ رکھ لیتے ہیں۔ پبلک ڈیلنگ سے جی چرانا کوئی انسانیت کی معراج نہیں۔
اگر ان متبرک ایام میں بھی اخلاقی حالت نہیں بدلتی تو ایسی بھوک و پیاس کا کوئی فائدہ نہیں۔گزشتہ چند عشروں سے متعدد اور متواتر شکایات موصول ہو رہی ہیں کہ افسرانِ بالا رمضان کے متبرک ایام میں دنیاوی فرائض سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں۔ جب سائلین کسی ڈیپارٹمنٹ میں جاتے ہیں تو ان میں سے بعض انہیں رمضان کے بعد آنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
(جاری ہے)
شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ پبلک ڈیلنگ سے جی چرانا کوئی انسانیت کی معراج نہیں ہے۔ اگر اس مقدس مہینے میں بھی حالت نہیں بدلتی، قلب و نگاہ میں تبدیلی نہیں آتی، ڈیوٹی میں کمی کوتاہی ہوتی ہے تو پھر اس بھوک پیاس کا کوئی فائدہ نہیں جس میں ﷲ کی عدالت میں احتساب کا ڈر موجود نہ ہو۔ڈیوٹی پر مامور افسران کے تساہل پن کی وجہ سے سائلین کی بات کو نہ سننا، ان کے عدم تحفظات کو دور نہ کرنا یہ ایسے معاملات ہیں جن سے سخت تنظیمی نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے۔
اس رویے سے غیر ذمہ داری کے جراثیم پرورش پاتے ہیں اور پھر دیکھا دیکھی سب اس کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔اکثر و بیشتر سرکاری و نجی محکمہ جات رمضان کے نام پر کام نہ کرنے کا بھی روزہ رکھ لیتے ہیں۔ کتنا افسوسناک پہلو ہے کہ سرکاری امور ٹھپ ہو کر رہ جاتے ہیں۔ لوگوں کی بڑی تعداد اداروں کی کوتاہی برتنے پر فقط کف افسوس ملتی رہتی ہے۔ کام سے آنے والی سائلین سخت گرمی میں فائلیں ہاتھ میں لیے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
افسران بالا کی حاضری ہی نہیں ہوتی۔ ان کے اسسٹنٹ، گارڈز، اٹینڈنٹ، کلرک مخص اس بات کی بخششیں لیتے ہیں کہ "صاحب آ رہے ہیں یا نہیں آئیں گے۔ " حیرت انگیز بات کہ منتریوں کے سنتری بھی جابر رویہ اختیار کیے ہوتے ہیں۔اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ رمضان میں کام سے جی چرانے والے ابلیسی وسوسے کیوں آتے ہیں جبکہ طاغوتی نیٹ ورک اس بابرکت مہینے ڈی ایکٹو ہو جاتا ہے تو پھر گناہ کی طاقت نظام کے خلاف بغاوت پر کیوں اُبھارتی ہے؟ دراصل رمضان کا مہینہ ہمیں یہ باور کرواتا ہے کہ شیطان اور اس کے معاونین کے بغیر ہم نے اپنے نفسِ امارہ (گناہوں پر آمادہ کرنے والے نفس) کو کس قدر ڈھیل دے رکھی ہے۔
ہم اپنے نفس، خواہشات کے غلام ہیں۔ خواہشات کی تکمیل کی ہوس نفس کی جانب سے ہوتی ہے تو سارا الزام شیطان پر تھوپ دیتے ہیں۔ شاعرِ مشرق علامہ اقبال نے نفسِ امارہ کی کیا خوب تصویر کشی کی ہے۔ہنسی آتی ہے مجھے حسرتِ انسان پر،
گناہ کرتا ہے خود، لعنت بھیجتا ہے شیطان پر۔
سرکاری و نجی ملازمین کو چاہیے کہ مقررہ اوقات میں بہترین پرفارمنس دیں کیونکہ جو اختیارات آپ کو تفویض کیے گئے ہیں وہ ریاست کی امانت ہیں اور دن بھر ڈیوٹی کے فرائض سے جی چرا کر امانت میں خیانت کرتے ہوئے روزہ افطار کرنا کیسا ہوگا؟
کوئی بھی شخص رمضان کے فیوض و برکات سے اس وقت تک آشنا نہیں ہو سکتا جب تک وہ دنیا کے جنجال میں اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتے ہوئے اپنے تقویٰ کا ٹیسٹ نہ کر لے۔
بعض افسر مذہبی لبادہ اوڑھتے ہوئے کئی کئی روز دفاتر کا رخ ہی نہیں کرتے اور جب دفتر پہنچتے ہیں تو انتہائی ڈھٹائی سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ ان جیسا کوئی ریگولر ہے ہی نہیں۔ مضحکہ خیز بات کہ آخری عشرے میں نمودار ہو کر پھر توقع بھی کی جاتی ہے کہ انہیں ان کی حسن کارکردگی پر "عید بونس"بھی ملے۔