کراچی کے مزدوروں کے لیے 11 ستمبر 2012 ایک سیاہ دن تھا۔ بلدیہ ٹاؤن کی علی انٹرپرائز میں اس دن خوفناک آگ بھڑک اٹھی۔ اس آگ میں 289 کارکن جن میں خواتین بھی شامل تھیں جل کر مرگئے۔ اس آتشزدگی کے نتیجے میں سیکڑوں کارکن شدید زخمی ہوئے۔ یہ آگ 12گھنٹے سے زیادہ عرصے تک جاری رہی۔ بلدیہ کراچی کے علاوہ دیگر اداروں کے فائر ڈپارٹمنٹس کی ناقص کارکردگی کی بناء پر فیکٹری کے مختلف فلور میں موجود کئی افراد مدد کے لیے پکارتے رہے۔
فیکٹری کی عمارت کی کھڑکیوں کو لوہے کی سلاخوں سے بند کردیا گیا تھا، یوں بلدیہ ٹاؤن کے سیکڑوں افراد فیکٹری کی عمارت میں پھنسے کارکنوں کی آوازیں سنتے رہے مگر کوئی ان مظلوموں کی مدد کو نہیں پہنچ سکا۔ ایک اور بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ بلدیہ گارمنٹس فیکٹری میں مرنے والے کارکنوں کے لواحقین آج بھی اپنے کلیمز کی ادائیگی کے لیے جلسے اور جلوسوں پر مجبور ہیں۔ جب یہ حادثہ ہوا تھا تو اس وقت سید قائم علی شاہ سندھ کے وزیر اعلیٰ، یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم اور آصف علی زرداری ملک کے صدرکے فرائض انجام دے رہے تھے ۔ وفاقی حکومت کے علاوہ سندھ کی حکومت نے لواحقین کو معاوضہ ادا کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اس وقت میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے۔ اس وقت میاں نواز شریف نے مسلم لیگ ن کی قیادت دوبارہ سنبھال لی تھی، وہ خاص طور پر کراچی آئے اور بلدیہ ٹاؤن میں ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے لواحقین کے لیے مدد کا اعلان کیا تھا مگر لواحقین کہتے ہیں کہ ان میں سے بیشتر اعلان کردہ رقم انھیں نہیں ملی۔ حکومت سندھ نے سندھ ہائی کورٹ کا ایک رکنی ٹریبونل قائم کیا تھا مگر طویل تحقیقات کے باوجود کوئی واضح رپورٹ پیش نہ ہوئی۔
انسانی حقوق کی پاسداری کی تحریک میں فعال کردار ادا کرنے والے وکلاء نے بلدیہ فیکٹری میں آتشزدگی اور لواحقین کو معاوضے کی ادائیگی کے لیے سندھ ہائی کورٹ میں مقدمات دائرکیے۔ کچھ عرصے بعد پولیس کی تحقیقات سے ظاہر ہوا کہ ایم کیو ایم الطاف گروپ کے جنگجوؤں نے فیکٹری کے مالک سے بھتہ کی عدم ادائیگی کی بناء پر ایک خطرناک کیمیکل چھڑک کر فیکٹری کو آگ لگا دی تھی۔ فیکٹری میں آگ بجھانے والے معیاری نظام کی عدم موجودگی اور مختلف منزلوں سے متبادل راستہ نہ ہونے سے آگ نے خوفناک تباہی مچائی تھی۔
کراچی میں فائر بریگیڈ کی ناقص کارکردگی کی بناء پر ریسکیو آپریشن میں بہت دیر لگی تھی۔ مزدوروں کے حقوق کے لیے سرگرداں نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن اور پائلر ناصر منصور، زہرہ خان اور پائلر کے سربراہ کرامت علی نے ان لواحقین سے مل کر قانونی بنیاد پر ایک جدوجہد منظم کی۔ ناصر منصور اور زہرہ خان وغیرہ نے معاوضوں کی ادائیگی کے لیے محکمہ محنت اور دیگر اداروں کے دروازے کھٹکھٹائے۔ ان لوگوں کی کوششوں سے سانحہ بلدیہ متاثرین کی ایسوسی ایشن قائم ہوئی۔
بلدیہ فیکٹری میں آگ میں اپنا بیٹا کھونے والی سعیدہ خاتون نے اس ایسوسی ایشن کی قیادت سنبھال لی مگر وہ کینسر کے ہاتھوں اپنی زندگی ہارگئیں۔ اس حادثے میں اپنے شوہرکو کھونے والی حسینہ خاتون اب ایسوسی ایشن کی قیادت کر رہی ہیں۔ اب لواحقین کی ایسوسی ایشن نے سرکاری محکموں کے علاوہ اعلیٰ عدالتوں میں عرض داشتیں دائرکیں۔ کراچی شہر کی سڑکوں پر مظاہرے کیے گئے اور مزدوروں کے جلسوں میں بلدیہ فیکٹری کے مظلومین کے لیے آواز بلند کی گئی۔
ناصر منصور لیبر سے متعلق بین الاقوامی قوانین سے مکمل واقفیت رکھتے ہیں۔ انھیں خاص طور پر یورپ کی مزدور تنظیموں کے اجلاسوں کے علاوہ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (I.
اس کمپنی کا ہیڈ کوارٹر جرمنی کے شہر Dortmund میں ہے۔ اس بناء پر لواحقین کے چار افراد نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن اور جرمنی کی انسانی حقوق کی تنظیم ECHHR نے Dortmund میں مقدمہ دائر کیا، مگر جرمن عدالت نے یہ مقدمہ اس بنیاد پر خارج کردیا کہ جرمنی میں ایسا قانون نہیں ہے کہ جرمنی کی فرم کسی اور ملک میں کوئی غیر قانونی اقدام کرے تو اس کے خلاف جرمنی میں مقدمہ ہوسکے، مگر بلدیہ فیکٹری کی آتشزدگی کے معاملے کی جرمنی میں اتنا زیادہ تشہیر ہوئی کہ جرمنی کی تمام سیاسی جماعتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے احتجاج کیا کہ کمپنی کو لواحقین کو معاوضہ ادا کرنا چاہیے، یوں جرمن فرم نے 6.1 ملین یورو معاوضے کے طور پر دینے کا اعلان کیا اور یہ فیصلہ ہوا کہ یہ رقم متاثرین کو تاحیات پنشن کی صورت میں ملے گی، جرمن فرم اور متاثرین کے درمیان معاہدے کی نگرانی آئی ایل او نے کی۔
یہ رقم پھر سوئٹزرلینڈ سے پاکستان منتقل ہوئی۔ ایک نگراں کمیٹی قائم ہوئی جس میں آئی ایل او نمایندے کے علاوہ حکومتِ سندھ کے محکمہ لیبر کے سیکریٹری، لواحقین کے نمایندوں اور مزدور تنظیموں پر مشتمل ہے۔ اس طرح ہر تین ماہ بعد گرانٹ آتی اور اس نگراں کمیٹی کے تحت سوشل سیکیورٹی انسٹی ٹیوشن پنشن کی رقم لواحقین میں تقسیم کر رہی تھی۔ یہ رقم 2016میں پاکستان میں منتقل ہوئی اور 2021 سے اس کی تقسیم کا سلسلہ شروع ہوا۔ مزدوروں کو منظم کرنے کی تحریک کے روحِ رواں ناصر منصور کا کہنا ہے کہ بلدیہ فیکٹری کا معاملہ جرمنی میں اتنا زیادہ اجاگر ہوا کہ پھر جرمن پارلیمنٹ نے قانون بنایا کہ اگر کوئی جرمن فرم بیرونی ملک غیر قانونی پریکٹس کرے گی تو جرمنی میں اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔
لواحقین یہ الزام لگا رہے ہیں کہ آئی ایل او نے کسی خفیہ معاہدے کے تحت یہ رقم کسی انشورنس کمپنی کو منتقل کردی۔ ایک اور ظلم یہ ہوا کہ آجروں نے سوشل سیکیورٹی انسٹی ٹیوشن کو اپنے حصے کی ادائیگی نہیں کی، جس پر سوشل سیکیورٹی انسٹی ٹیوشن نے لواحقین کی پنشن روک دی۔ بلدیہ فیکٹری کے متاثرین کی ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل محمد صدیق کا بیٹا ان 283 کارکنوں میں شامل تھا جو فیکٹری میں کام پرگیا اور پھر اس کی جلی ہوئی لاش گھر آئی۔ محمد صدیق گزشتہ 13 برسوں سے فیکٹری میں آتش زدگی سے متاثرین کے لواحقین کو معاوضوں کی ادائیگی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ طویل مدتی معاوضے کے متعلق درپیش مسائل کے حل کے لیے کوئی طریقہ کار واضح نہ ہونے کی بناء پر لواحقین جن میں بوڑھی عورتیں، بیوائیں اور بچے شامل ہیں، مسلسل اذیت کا شکار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آئی ایل او کو جرمن برانڈ کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی شرائط کو عام کرنا چاہیے۔
وہ کہتے ہیں کہ جب تک نگران کمیٹی قائم تھی لواحقین کو کچھ نہ کچھ معلومات مل جاتی تھیں مگر اب کمیٹی کے خاتمے کے بعد کوئی اطلاع فراہم نہیں کی جاتی۔ آئی ایل او کا دفتر اسلام آباد میں ہے اور غریب بوڑھے متاثرین کے لیے اسلام آباد جانا ہزاروں روپوں کا مسئلہ ہے۔ لواحقین نے وزیر خارجہ ، سیکریٹری خارجہ اور لیبر سندھ کے وزیر سے اپیل کی ہے کہ آئی ایل او کو اس معاہدے کو افشا کرنے کے لیے رابطے کیے جائیں۔ بلدیہ فیکٹری کے لواحقین اب سڑکوں پر مظاہرے کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ لواحقین کے گھروں میں اب فاتوں تک کی نوبت آگئی ہے۔ لواحقین کی ایسوسی ایشن کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ اسلام آباد تک لانگ مارچ کریں اور لانگ مارچ کرنے والے لواحقین اگر اسلام آباد پہنچنے میں کامیاب ہوجائیں تو آئی ایل او کے دفتر کے سامنے دھرنا دیں۔
اگر سندھ کا محکمہ محنت متحرک ہوتا تو لیبر اینڈ سیفٹی کے قوانین کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔ فائر بریگیڈ کا شعبہ جدید خطوط پر استوار ہوتا تو جانی نقصان کم ہوتا۔ سندھ کی حکومت سنجیدگی سے اس معاملے میں دلچسپی لیتی تو لواحقین کو سڑکوں پر نہ آنا پڑتا۔ وزیر خارجہ اسحق ڈارکو اس انسانی مسئلے پر فوراً توجہ دینی چاہیے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کی ادائیگی کے لیے کی ایسوسی ایشن کہتے ہیں کہ لواحقین کو اسلام آباد لواحقین کے فیکٹری میں کی بناء پر آئی ایل او فیکٹری کی فیکٹری کے کے علاوہ یہ رقم ہوا کہ
پڑھیں:
جرمنی میں آئندہ حکومت کی تشکیل کے لیے مذاکرات کا آغاز
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 28 فروری 2025ء) جرمنی کی قدامت پسند جماعتوں کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) اور کرسچن سوشل یونین (سی ایس یو) پر مشتمل اتحاد نے آج جمعہ 28 فروری کو ملک میں آئندہ حکومت کے قیام کے لیے سوشل ڈیموکریٹس (ایس پی ڈی) کے ساتھ بات چیت کا آغاز کر دیا ہے۔
ہم مذاکرات کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟جرمنی کے 23 فروری کو ہونے والے وفاقی پارلیمانی انتخابات میں قدامت پسند بلاک نے تقریباً 28.5 فیصد ووٹ حاصل کر کے پہلی پوزیشن حاصل کی۔
چانسلر اولاف شولس کی جماعت ایس پی ڈی نے اپنی تاریخ کی کم ترین سطح پر محض 16.4 فیصد ووٹ کیے۔میرس نے انتہائی دائیں بازو کی پارٹی 'آلٹرنیٹیو فار ڈوئچ لینڈ‘ (اے ایف ڈی) کے ساتھ اتحاد کے قیام کے امکان کو مسترد کر دیا ہے۔
(جاری ہے)
اے ایف ڈی 20.8 فیصد ووٹ حاصل کر کے انتخابات میں مجموعی طور پر دوسرے نمبر پر ہے۔ میرس نے اے ایف ڈی کے خلاف سیاسی ''فائر وال‘‘ برقرار رکھنے کا عہد کیا ہے۔
توقع ہے کہ آج جمعے کو ہونے والے مذاکرات میں اتحادی مذاکرات کے لیے ٹائم ٹیبل طے کرنے پر توجہ دی جائے گی۔ میرس کہہ چکے ہیں کہ ان کا مقصد ایسٹر سے پہلے حکومت بنانا ہے۔
'اتحاد ابھی پختہ نہیں ہوا‘ایس پی ڈی نے حکومتی اتحاد کی تشکیل کے لیے بات چیت کے آغاز پرتو رضامندی ظاہر کی ہے، لیکن پارٹی کے شریک رہنما لارس کلینگ بیل نے زور دیا کہ سی ڈی یو/ سی ایس یو کے ساتھ اتحاد ابھی بھی پختہ نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا، ''یہ یقینی نہیں ہے کہ حکومت بنے گی یا ایس پی ڈی حکومت میں شامل ہو گی۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ اتحاد کی تشکیل ''خودکار نہیں‘‘ نہیں ہو گی۔قدامت پسند اتحاد اور ایس پی ڈی متعدد اہم مسائل پر اختلاف رائے رکھتی ہیں، جن میں ہجرت، ٹیکس پالیسی اور عوامی اخراجات جیسے امور شامل ہیں۔ ایس پی ڈی وفاقی بجٹ میں اضافے کے لیے جرمن حکومت کی جانب سے قرض لینے کی حد پر پابندی کو ختم کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے جبکہ سی ڈی یو اور سی ایس یو دفاعی اخراجات کے لیے خصوصی فنڈ قائم کرتے ہوئے حکومتی قرضوں کے حصول پر حد برقرار رکھنے کے حق میں ہے۔
ش ر/ ا ب ا (ڈی پی اے، اے پی)