قرآن مجید کی زبان میں روزے کا مقصد خاص تقوی کا حصول ہے۔ تقوی ضبط نفس سے عبارت ہے، پیٹ اور نفسانی خواہشات گناہ کے سب سے بڑے دروازے ہیں، ہر گناہ کا سلسلۂ نسب انہی دو محرکات سے ملتا ہے۔
چوری اور ڈکیتی، قتل و غارت گری، دوسروں کے مال پر ناجائز قبضہ، دوسروں کو ان کے حقوق سے محروم رکھنا، رزق میں حرام و حلال کی تمیز نہ کرنا، ان سارے گناہوں کا سرچشمہ پیٹ کے سوا اور کیا ہے؟ زنا، بد نگاہی اور بد کاری کی تمام صورتیں اور ان کے لیے قتل و خون ریزی اور آبرو ریزی ان تمام گناہوں اور فتنوں کی اساس نفسانی خواہشات ہی تو ہیں! روزے کا بنیادی مقصد اور حکمت ان دو چیزوں کا کنٹرول اور توازن میں لانا ہے، کیوں کہ جو بندہ مسلسل ایک ماہ اپنے آپ کو اس طرح نفس کے دام ہم رنگ سے بچانے میں کام یاب رہے گا اور وقتاً فوقتاً روزں کی صورت میں اﷲ سے محبت کے عہد کی تجدید کرتا رہے گا یقیناً اس میں اپنے آپ پر کنٹرول اور ضبط کی صلاحیت پیدا ہوگی اور وہ اپنے آپ کو ہمیشہ گناہوں سے بچا سکے گا، اسی کا نام تقوی ہے۔
تاہم اس کیفیت کے حصول کے روزے کے تمام آداب اور شرائط کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ روزہ صرف صبح تا شام بھوکے پیاسے کا نام ہرگز نہیں ان کے پیچھے تو معاشرے کی تہذیب نفس بہت بڑا فلسفہ ہے۔ روزہ تو گناہوں سے بچنے کا نام ہے اس مقصد سے عاری بھوک و پیاس کی تو باری تعالیٰ کو کوئی حاجت نہیں۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم:
’’جو آدمی روزہ رکھتے ہوئے باطل کلام اور باطل کاموں کو نہ چھوڑے تو اﷲ تعالیٰ کو اس بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘
حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ اﷲ کے ہاں روزے کے مقبول ہونے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کھانا پینا چھوڑنے کے ساتھ گناہوں سے بھی اجتناب برتے۔ اب اگر کوئی شخص روزہ تو رکھے اور گناہ کی باتیں اور گناہ والے اعمال کرتا رہے تو اﷲ تعالیٰ کو اس روزے کی کوئی پروا نہیں، یعنی درحقیقت اس کو اجر و ثواب نہیں ملے گا کیوں کہ اجر و ثواب تو روزے پر ہے نہ کہ بھوکے پیاسے رہنے پر اور یہ گناہ والے اعمال کے ہوتے ہوئے جب روزہ مقصد سے خالی ہوا تو ظاہر ہے کہ روزہ باقی ہی نہیں رہا، صرف یہ شخص بھوکا و پیاسا رہا جس کی باری تعالیٰ کو کوئی ضرورت نہیں۔ لہذا اس اہم نکتہ سمجھنے کے بعد سب پہلے تو اس بات کا پختہ عزم کیجیے کہ رمضان میں پاکیزہ اور محتاط زندگی گزاریں گے۔
آنکھوں کا غلط استعمال نہ ہونے پائے، کانوں سے گناہ والی باتوں کو نہ سنے ، بے کار کاموں اور لایعنی کاموں میں مشغول نہ ہو۔ اسی طرح کسی کو دل میں کینہ، حسد اور غصہ رکھنا یہ بھی بہت بڑا گناہ ہے۔ کینہ رکھنا یہ اتنی بڑی بدبختی ہے کہ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ ایسا شخص شب قدر کی تجلیات مغفرت اور قبولیت دعا سے محروم رہے گا۔ لہذا رمضان کے برکات کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ اپنے آپ پر ایک نظر ڈالو کہ اور دیکھو کہ کسی کے ساتھ کینہ اور غصہ تو نہیں ہے۔ کسی کی حق تلفی تو نہیں ہوئی ہے، کسی کو ہماری ذات سے تکلیف تو نہیں پہنچی ہے۔
اﷲ پاک اس وقت تک راضی نہیں ہوتے جب تک ان کی مخلوق ہم سے راضی نہیں ہوجاتی۔ لغو اور فضول باتوں سے پر ہیز کریں کیوں کہ ان سے عبادت کا نُور جاتا رہتا ہے۔ اسی طرح رمضان میں کثرت سے نمازوں کا اہتمام کرنا چاہیے۔ تراویح کی نماز، تہجد، اشراق اور اوابین کا خاص طور پر اہتمام ہو۔ تلاوت کلام پاک کی کثرت سے تلاوت ہو کیوں کہ روزہ اور قرآن کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ تلاوت سے ہم بہت سارے فوائد سمیٹ لے سکتے ہیں۔ اسی طرح درود شریف کی بھی کثرت رکھیے۔ دفتر میں کام کرتے ہو تو اس بات کا خاص اہتمام ہو کہ تمہارے ہاتھ، زبان اور قلم سے خدا کی مخلوق کو کوئی پریشانی نہ ہو کسی ناجائز غرض سے اس کا کام نہ روکو۔ آنکھیں گناہوں کی پہلی سیڑھی ہیں ان پر خاص خیال رکھیں۔
ہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ بدنگاہی اور آنکھوں کی گناہ صرف کسی پر بُری نظر ڈالنا نہیں ہے بل کہ کسی کو حقارت کی نظر سے دیکھنا، حسد کی نظر سے دیکھنا بھی بدنگاہی ہے۔ روزہ داروں کے بارے میں مشہور ہے کہ بات بات پر غصہ آتا ہے یہ بات اچھی نہیں۔ روزہ تو بندگی اور شائستگی پیدا کرتا ہے۔ عاجزی پیدا کرتا ہے۔ پھر یہ روزے کا بہانہ بنا کر ہر بات پر لڑائی کرنا اس کا کیا مقصد ؟
ایک افسوس ناک اور خطرناک رجحان بالخصوص نوجوانوں میں ابھرتا ہوا دیکھنے میں آرہا ہے کہ رمضان میں سارا دن نیند میں گزار کر ساری رات جاگتا ہے، بازاروں میں وہی رونق اور چلت پھرت۔ رات کو رمضان بھول جاتے ہیں اور سرے سے رمضان کے اثرات بھی دکھائی نہیں دیتے۔ یہ انتہائی افسوس ناک پہلو ہے۔ رمضان کی راتیں عبادتوں میں گزارنے سے دن میں بھی سچائی اور دیانت سے کام کی عادت ہوجاتی ہے۔
لہذا اس بات کا خاص کر اہتمام لازم ہے کہ جس طرح دن میں رمضان نظر آرہا ہے تو سارے دن کی کمائی رات میں ضایع نہ ہونے دیں ۔ باجماعت نماز کا اہتمام خود پر لازم کرلیں۔ رمضان کا مہینہ خیر اور ایک دوسرے کو نفع رسانی کا مہینہ ہے۔ لہذا اس ماہ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ مخلوق خدا کو زیادہ سے زیادہ خیر ہی پہنچائے۔ ضروری ہے کہ رمضان ہمارے زندگی اور اعمال میں نمایاں تبدیلی لاسکے، اس کی برکات اور ثمرات ہم مستفید ہوسکیں یہ تب ہی ممکن ہے کہ ہم رمضان کی قدر کریں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ضروری ہے اپنے ا پ کیوں کہ
پڑھیں:
3 اسلامی ممالک کا 2 مارچ کو رمضان المبارک کا پہلا روزہ ہونے کا اعلان
جکارتہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 28 فروری2025ء) 3 اسلامی ممالک کا 2 مارچ کو رمضان المبارک کا پہلا روزہ ہونے کا اعلان، انڈونیشیا، ملائیشیا اور برونائی دارالاسلام میں ماہ مبارک کا چاند نظر نہ آنے کا اعلان، آسٹریلیا میں یکم مارچ کو پہلا روزہ ہو گا۔ جبکہ پاکستان میں پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں بھی چاند نظر نہیں آیا۔ لاہور کی زونل رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس ختم ہو گیا جس کے بعد بتایا گیا ہے کہ صوبائی دارالحکومت سے چاند کی کوئی شہادت موصول نہ ہوئی، چاند کی رویت کا حتمی اعلان چئیرمین مرکزی رویت ہلال کمیٹی کی جانب سے کیا جائے گا۔ مزید بتایا گیا ہے کہ ماہ مبارک کے چاند کی پیدائش پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق جمعہ کی صبح 5 بج کر 45 منٹ پر ہو چکی، رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کیلئے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس پشاور میں جاری ہے۔(جاری ہے)
ملک بھر کی زونل رویت ہلال کمیٹیوں کے اجلاس بھی جاری ہیں۔ چاند کی رویت کا حتمی اعلان چئیرمین مرکزی رویت ہلال کمیٹی کی جانب سے کیا جائے گا۔
دوسری جانب پاکستان اور سعودی عرب میں رمضان المبارک کے چاند کی رویت سے متعلق سپارکو ماہرین کی پیشن گوئی سامنے آئی ہے۔ سپارکو ترجمان کے مطابق نئے چاند کی پیدائش 28 فروری 2025 کو پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق پانچ بج کر 45 منٹ پر ہو گی اور 28 فروری کو غروب افتاب کے وقت چاند کی عمر 12 گھنٹے ہوگی۔ سپارکو کے مطابق 28 فروری کو غروب آفتاب کے وقت چاند کی عمر 12 گھنٹے اور بلندی 5 ڈگری ہوگی، فاصلے اور کم بلندی کی وجہ سے اس کا نظر آنا مشکل ہے۔ سپارکو کے مطابق 28 فروری کو چاند اور سورج کے درمیان زوایے کا فاصلہ 7 ڈگری ہوگا جس کی وجہ سے چاند کو انسانی آنکھ سے نہیں دیکھا جائے گا۔ اس پیش گوئی کے پیش نظرپاکستان میں رمضان المبارک 2 مارچ 2025 سے شروع ہونے کا امکان ہے۔ سپارکو کا یہ بھی کہنا ہے کہ سعودی عرب میں 28 فروری کو ہلال نظر آسکتا ہے، سعودی عرب میں رمضان یکم مارچ سے شروع ہوگا، شوال کا چاند 30 مارچ کو متوقع ہے، عید الفطر 31 مارچ کو ہوسکتی ہے۔ سپارکو ترجمان نے یہ بھی واضح کیا کہ رمضان اور عید الفطر کے کے چاند کی رویت کا حتمی فیصلہ رویت ہلال کمیٹی کے پاس ہے۔ جبکہ ماہرین موسمیات کی بھی اہم پیشن گوئی سامنے آئی ہے۔ رواں سال ماہ صیام کا آغازموسم سرما کے اختتام اور موسم بہارکا آغاز پر ہورہا ہے،گزشتہ سالوں کی نسبت روزے قدرے ٹھنڈے ہوں گے۔ توقع ہے کہ کئی عرب ممالک مثلا سعودی عرب ، امارات ، قطر ، کویت اور مصر سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں رمضان کے ابتدائی ایام میں روزے کا دورانیہ تقریباً 13 گھنٹے ہوگا۔