رمضان میں کاہلی سے گریز کریں
اشاعت کی تاریخ: 28th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 28 فروری 2025ء) رمضان المبارک کے آتے ہی پاکستان میں سماجی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کرنے والے منتریوں سے لیکر سنتریوں کے رویہ تساہل کی عکاسی ہوتی ہے۔ اب یہ رواج ہی بن گیا ہے کہ اکثرو بیشتر سرکاری و نجی محکمہ جات رمضان کے نام پر کام نہ کرنے کا بھی روزہ رکھ لیتے ہیں۔ پبلک ڈیلنگ سے جی چرانا کوئی انسانیت کی معراج نہیں۔
اگر ان متبرک ایام میں بھی اخلاقی حالت نہیں بدلتی تو ایسی بھوک و پیاس کا کوئی فائدہ نہیں۔گزشتہ چند عشروں سے متعدد اور متواتر شکایات موصول ہو رہی ہیں کہ افسرانِ بالا رمضان کے متبرک ایام میں دنیاوی فرائض سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں۔ جب سائلین کسی ڈیپارٹمنٹ میں جاتے ہیں تو ان میں سے بعض انہیں رمضان کے بعد آنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
(جاری ہے)
شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ پبلک ڈیلنگ سے جی چرانا کوئی انسانیت کی معراج نہیں ہے۔ اگر اس مقدس مہینے میں بھی حالت نہیں بدلتی، قلب و نگاہ میں تبدیلی نہیں آتی، ڈیوٹی میں کمی کوتاہی ہوتی ہے تو پھر اس بھوک پیاس کا کوئی فائدہ نہیں جس میں ﷲ کی عدالت میں احتساب کا ڈر موجود نہ ہو۔ڈیوٹی پر مامور افسران کے تساہل پن کی وجہ سے سائلین کی بات کو نہ سننا، ان کے عدم تحفظات کو دور نہ کرنا یہ ایسے معاملات ہیں جن سے سخت تنظیمی نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے۔
اس رویے سے غیر ذمہ داری کے جراثیم پرورش پاتے ہیں اور پھر دیکھا دیکھی سب اس کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔اکثر و بیشتر سرکاری و نجی محکمہ جات رمضان کے نام پر کام نہ کرنے کا بھی روزہ رکھ لیتے ہیں۔ کتنا افسوسناک پہلو ہے کہ سرکاری امور ٹھپ ہو کر رہ جاتے ہیں۔ لوگوں کی بڑی تعداد اداروں کی کوتاہی برتنے پر فقط کف افسوس ملتی رہتی ہے۔ کام سے آنے والی سائلین سخت گرمی میں فائلیں ہاتھ میں لیے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
افسران بالا کی حاضری ہی نہیں ہوتی۔ ان کے اسسٹنٹ، گارڈز، اٹینڈنٹ، کلرک مخص اس بات کی بخششیں لیتے ہیں کہ "صاحب آ رہے ہیں یا نہیں آئیں گے۔ " حیرت انگیز بات کہ منتریوں کے سنتری بھی جابر رویہ اختیار کیے ہوتے ہیں۔اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ رمضان میں کام سے جی چرانے والے ابلیسی وسوسے کیوں آتے ہیں جبکہ طاغوتی نیٹ ورک اس بابرکت مہینے ڈی ایکٹو ہو جاتا ہے تو پھر گناہ کی طاقت نظام کے خلاف بغاوت پر کیوں اُبھارتی ہے؟ دراصل رمضان کا مہینہ ہمیں یہ باور کرواتا ہے کہ شیطان اور اس کے معاونین کے بغیر ہم نے اپنے نفسِ امارہ (گناہوں پر آمادہ کرنے والے نفس) کو کس قدر ڈھیل دے رکھی ہے۔
ہم اپنے نفس، خواہشات کے غلام ہیں۔ خواہشات کی تکمیل کی ہوس نفس کی جانب سے ہوتی ہے تو سارا الزام شیطان پر تھوپ دیتے ہیں۔ شاعرِ مشرق علامہ اقبال نے نفسِ امارہ کی کیا خوب تصویر کشی کی ہے۔ہنسی آتی ہے مجھے حسرتِ انسان پر،
گناہ کرتا ہے خود، لعنت بھیجتا ہے شیطان پر۔
سرکاری و نجی ملازمین کو چاہیے کہ مقررہ اوقات میں بہترین پرفارمنس دیں کیونکہ جو اختیارات آپ کو تفویض کیے گئے ہیں وہ ریاست کی امانت ہیں اور دن بھر ڈیوٹی کے فرائض سے جی چرا کر امانت میں خیانت کرتے ہوئے روزہ افطار کرنا کیسا ہوگا؟
کوئی بھی شخص رمضان کے فیوض و برکات سے اس وقت تک آشنا نہیں ہو سکتا جب تک وہ دنیا کے جنجال میں اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتے ہوئے اپنے تقویٰ کا ٹیسٹ نہ کر لے۔
بعض افسر مذہبی لبادہ اوڑھتے ہوئے کئی کئی روز دفاتر کا رخ ہی نہیں کرتے اور جب دفتر پہنچتے ہیں تو انتہائی ڈھٹائی سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ ان جیسا کوئی ریگولر ہے ہی نہیں۔ مضحکہ خیز بات کہ آخری عشرے میں نمودار ہو کر پھر توقع بھی کی جاتی ہے کہ انہیں ان کی حسن کارکردگی پر "عید بونس"بھی ملے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے رمضان کے لیتے ہیں ہیں کہ
پڑھیں:
واشنگٹن کو بانی پی ٹی آئی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، سینئر وزیر
اسلام آباد:مسلم لیگ (ن) حکومت کو یہ احساس ہو چکا ہے کہ توقعات کے برعکس بانی پی ٹی آئی کو کم ازکم فی الحال واشنگٹن سے ریلیف ملنے کا امکان نہیں۔
بانی پی ٹی آئی کے حامی اس امید پر کئی ماہ سوشل میڈیا پر یہ تاثر دیتے رہے کہ امریکی انتظامیہ کی تبدیلی کے بعد وائٹ ہاؤس سے ایک کال ان کے رہنما کی قسمت بدل دے گی۔
تاہم ن لیگ کے نئی امریکی انتظامیہ کیساتھ حالیہ سفارتی رابطوں سے لگتا ہے کہ ان کی توقعات مبالغہ آرائی کے علاوہ کچھ نہ تھیں۔
مزید پڑھیں: بانی پی ٹی آئی نے اپنی جماعت میں خود دراڑیں ڈالیں، عامر الیاس رانا
نام ظاہر نہ کرنے پر مسلم لیگ ن کے سینئر وزیر نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی امریکی ترجیحات کی فہرست میں ہی شامل نہیں ہیں۔ سینئر وزیر کے دوٹوک ریمارکس ن لیگ کے موڈ کے علاوہ پی ٹی آئی کی توقعات ٹھنڈی ہونے کی عکاسی کرتے ہیں۔
سینئر وزیر نے انکشاف کیا کہ امریکی حکام نے حالیہ رابطوں کے پاکستانی ہم منصبوں سے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کے حوالے سوشل میڈیا مہم کی پرواہ نہ کریں، امریکی سرکاری حلقوں میں اس حوالے سے کسی تشویش کا اظہار نہیں کیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: بانی پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ میں مثبت پیش رفت ہو سکتی ہے
انہوں نے کہا کہ امریکی حکام کیساتھ حالیہ رابطوں میں یہ واضح ہو گیا ہے کہ انہیں بانی پی ٹی آئی میں کوئی دلچسپی نہیں، نہ سوشل میڈیا پر جاری مہم کی پرواہ ہے، وہ پاکستان کے داخلی امور میں عدم مداخلت کے موقف پر قائم ہیں۔
اس کے باوجود افواہ سازی کی سلسلہ جاری ہے، 10 اپریل کو امریکی وفد کی اڈیالہ جیل میں بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کا بھی دعویٰ کیا گیا، جسے سینیٹر عرفان صدیقی نے افواہ قرار دیکر مسترد کر دیا۔
ادھر پی ٹی آئی کی مقتدرہ حلقوں سے بات چیت شروع کرنے کی کوششوں میں بھی خاص پیش رفت نہیں ہوئی، اس کے باوجود سوشل میڈیا پر بانی کی جلد رہائی یا بڑی سیاسی تبدیلی کی پیش گوئیوں کا سلسلہ جاری ہے۔