رویت ہلال سے متعلق 5 قانونی سوالات
اشاعت کی تاریخ: 26th, February 2025 GMT
بہت سے لوگ یہ سوال اٹھا رہے ہیں۔ اس کے درست جواب کے لیے ضروری ہے کہ رویت ہلال سے متعلق 5 امور کو الگ الگ دیکھا جائے۔
چاند کی ولادتپہلا امر یہ ہے کہ چاند کب اپنے مدار میں چکر پورا کرکے نیا چکر شروع کرتا ہے، جسے اصطلاحاً نئے چاند کی ولادت کہتے ہیں۔ یہ بات سائنسی تحقیقات اور حسابات کی روشنی میں قطعی طور پر معلوم ہوسکتی ہے اور اس وجہ سے اس امر پر کوئی اختلاف نہیں ہوتا۔ مثلاً اس مہینے کا چاند اپنا چکر پورا کرکے نیا چکر جمعہ 28 فروری کو گرین وچ وقت کے مطابق پونے 1 بجے (پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق پونے 5 بجے صبح) شروع کرے گا۔
چاند کا قابل رویت ہونادوسرا امر یہ ہے کہ نئے چاند کی ولادت کے بعد وہ کب ’قابل رویت‘ ہوجاتا ہے؟ اس کے لیے کئی عوامل کو دیکھا جاتا ہے، جیسے غروب آفتاب کے بعد چاند کی عمر، غروب آفتاب اور غروب قمر کے درمیان مدت ، مطلع کا صاف یا ابر آلود ہونا، افق پر چاند کا زاویہ، دیکھنے والے کی نظر کی قوت یا کمزوری وغیرہ۔ سائنسی تحقیقات کی بنا پر اس سلسلے میں اندازے لگائے جاسکتے ہیں۔
چاند کا واقعتاً دیکھا جاناتیسرا امر یہ ہے کہ چاند کی ولادت اور اس کے قابل رویت ہونے کے بعد واقعتاً اس کی رویت ہوجائے۔ کیا چاند کی واقعی رویت ہونا ضروری ہے؟ اس سوال کا جواب سائنس کے بجاے شریعت سے ہی لینا ہوگا اور رسول اللہ ﷺ کی متعدد احادیث سے یہ ضروری قرار پاتا ہے۔ چنانچہ بعض روایات میں آتا ہے کہ آپ نے چاند دیکھ کر روزہ رکھنے اور چاند دیکھ کر روزہ ختم کرنے کا حکم دیا، اور فرمایا کہ 29ویں دن اگر مطلع ابر آلود ہو، تو 30 دن کے روزے پورے کریں۔ اسی طرح بعض دیگر احادیث میں آپ نے سلبی پہلو سے ممانعت بھی کی کہ جب تک چاند نہ دیکھو، روزہ نہ رکھو اور جب تک چاند نہ دیکھو، روزہ ختم نہ کرو۔ رسول اللہ ﷺ کی سنت اور دیگر شرعی اصولوں کی بنا پر فقہائے کرام نے رویت کی خبر کی قبولیت کے لیے یہ معیار مقرر کیا ہے کہ مطلع صاف ہو تو بہت بڑی تعداد میں لوگ اسے دیکھیں (جسے اصطلاحاً جمّ غفیر کہا جاتا ہے) اور مطلع صاف نہ ہو تو رمضان کےلیے ایک، جبکہ شوال اور دیگر تمام مہینوں کےلیے کم از کم 2 گواہ ہونے چاہییں۔ مکرّر عرض ہے کہ یہ امر سائنسی نہیں بلکہ شرعی ہے۔
ان امور میں تعارض کا مسئلہاگر اس تیسرے امر اور پہلے 2 امور میں تعارض آجائے تو کیا ہوگا؟ اس سلسلے میں دو امکانات ہیں:
ایک یہ کہ سائنسی تحقیقات اور حسابات کی رو سے چاند کی ولادت بھی ہوئی اور وہ قابل رویت بھی ہو، لیکن واقعتاً اس کی رویت کی قابل قبول شہادت نہ مل سکے۔ اس صورت میں فقہائے کرام کے ہاں یہ امر مسلّم ہے کہ نیا مہینہ شروع نہیں ہوگا اور 30 کی گنتی پوری کی جائے گی۔ اس سے صرف عصر حاضر میں سائنسی علمیت اور مغربی تہذیب سے مرعوب بعض لوگوں، بالخصوص نام نہاد مقاصدی فکر کے علم برداروں (اور ہمارے ہاں غامدی صاحب کے حلقۂ اثر) نے ہی اختلاف کیا ہے۔ اس اختلاف کو مانا جائے یا نہ مانا جائے، یہ بات طے ہے کہ یہ امر شرعی ہے، نہ کہ سائنسی اور اس کا فیصلہ شریعت کے اصولوں کی روشنی میں کیا جائے گا اور اسی لیے فریقین اپنے اپنے موقف کےلیے شرعی اصولوں سے ہی استدلال کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ریاست کی فرضی شخصیت اور ریاستی عہدیداروں کی محدود ذمہ داری
دوسرا امکان یہ ہے کہ سائنسی تحقیقات اور حسابات کی رو سے چاند کی ولادت نہ ہوئی ہو یا وہ (اس مخصوص مقام یا وقت پر ) قابل رویت نہ ہو لیکن رویت کے گواہ مل جائیں جو شرعی اہلیت پر پورا اترتے ہوں۔ اس صورت میں علمائے کرام کا اختلاف ہے۔ پشاور کے جناب پوپلزئی اور دیگر کئی اہل علم کی راے یہ ہے کہ اس صورت میں گواہی پر عمل کیا جائے گا اور سائنسی تحقیقات و حسابات کو نظرانداز کیا جائے گا جبکہ جناب مفتی منیب الرحمان صاحب اور دیگر اہل علم اس صورت میں گواہی کو ناقابل قبول ٹھہراتے ہیں۔ بہرصورت دونوں فریقوں کے نزدیک یہ امر سائنسی نہیں بلکہ شرعی ہے، یعنی اس صورت میں اختلاف کو شرعی اصولوں پر حل کیا جائے گا۔ چنانچہ جو گواہی کو مسترد کرتے ہیں وہ یہ شرعی دلیل ذکر کرتے ہیں کہ سائنسی تحقیقات چونکہ قطعی ہیں، اس لیے گواہ کی طرف غلطی کی نسبت کی جائے گی؛ جبکہ وہ علمائے کرام جو گواہی کو ترجیح دیتے ہیں، ان کی دلیل یہ ہے کہ سائنسی تحقیقات اس سلسلے میں قطعی نہیں ہیں جبکہ شریعت نے بااعتماد گواہ کی گواہی پر قتل کے مقدمات تک کے فیصلے کا حکم دیا ہے، حالانکہ متواتر سے کم درجے کی خبر پر یقینی علم حاصل نہیں ہوتا۔
جمعہ 28 فروری کو پاکستان میں غروبِ آفتاب کے وقت چاند کی عمر سوا 13 گھنٹے ہوگی۔ یہ بات قابل غور ہے کہ اگر آج، مثلاً، سائنسی تحقیقات پر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ 18 گھنٹے سے کم عمر کا چاند ناقابل رویت ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ چاند کی رویت کے متعلق دستیاب معلومات سے یہی معلوم ہوتا ہے۔ اگر بڑی تعداد میں لوگوں نے 12 گھنٹے کے چاند کی رویت کی اور دیگر قرائن سے اس کی تائید ہو، تو پھر سائنسی اعتبار سے 13 گھنٹے کے چاند کو بھی قابل رویت قرار دیا جائے گا۔ بہ الفاظ دیگر، یہ امر مشاہدے پر مبنی ہے کہ چاند کب قابل رویت ہوتا ہے اور کب نہیں اور مشاہدے کی بہتری پر حکم میں فرق بھی آسکتا ہے۔ اس لیے محض اس بنا پر کہ سائنسی اعتبار سے چاند ناقابل رویت ہے گواہی کو مسترد نہیں کرنا چاہیے، جب تک اس کو مسترد کرنے کےلیے کوئی قوی دلیل نہ ہو۔
فیصلے کا اختیار کس کے پاس ہے؟چوتھا امر یہ ہے اور یہ سب سے اہم ہے کہ چاند کی ولادت ہوچکی ہو، وہ قابل رویت بھی ہو، اس کی رویت کا دعویٰ کرنے والے لوگ بھی ہوں، تب بھی یہ فیصلہ کرنے کا اختیار کس کے پاس ہے کہ ان لوگوں کا یہ دعویٰ قابلِ قبول ہے اور اسی بنا پر رمضان کا مہینہ ختم ہوا، اب روزہ نہیں رکھا جاسکتا، شوال کا مہینہ شروع ہوچکا اور اب عید کی نماز پڑھنی ہے اور فطر کا صدقہ دینا ہے؟ جیسا کہ ظاہر ہے، یہ امر تو بالخصوص شرعی ہے اور اس کا فیصلہ شرعی اصولوں پر ہی ہوسکتا ہے۔
اس ضمن میں شریعت کے چند بنیادی اصول یہ ہیں:رمضان کے چاند کی رویت ’دینی امر‘ ہے۔ چنانچہ جس شخص کا یہ دعویٰ ہے کہ اس نے خود چاند دیکھا، اس پر رمضان کا روزہ رکھنا واجب ہوجاتا ہے، خواہ مجاز حاکم اس کی خبر مسترد کردے اور یہ قرار دے کہ رمضان شروع نہیں ہوا، کیونکہ جب اس کے خیال کے مطابق اس پر روزہ لازم ہوچکا ہے تو اس کےلیے اسے کسی شخص سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔
تاہم یہ شخص کسی اور پر اپنا فیصلہ نافذ نہیں کرسکتا، بلکہ کسی اور پر فیصلہ صرف حکمِ حاکم سے ہی نافذ ہوسکتا ہے۔
مزید پڑھیے: سپریم کورٹ میں ججوں کی تعیناتی: پس منظر اور پیش منظر
شوال (اور دیگر تمام مہینوں) کا معاملہ رمضان سے مختلف ہے کیونکہ وہ صرف ’دینی امر‘ نہیں بلکہ ’بندوں کے حقوق‘ کا بھی معاملہ ہے۔ چنانچہ اگر کسی شخص نے شوال کا چاند دیکھنے کا دعویٰ کیا تو وہ دوسروں پر تو ویسے بھی اپنا فیصلہ نافذ نہیں کرسکتا، خود اس کے لیے بھی جائز نہیں ہوگا کہ وہ روزے ترک کرکے عید کرے! یہاں تک کہ اگر اس کے 30 پورے ہوئے ہوں، تب بھی وہ عید نہیں کرسکتا، بلکہ یہ فرض کیا جائے گا کہ اس سے ابتدا میں غلطی ہوئی تھی۔
یہی حکم باقی 10 مہینوں کےلیے بھی ہے۔
رمضان کے چاند کی رویت کی خبر شرعی اصطلاح میں ’روایت‘ ہے جبکہ شوال اور دیگر 100 مہینوں کے چاند کی رویت ’شہادت‘ ہے۔ چنانچہ رمضان کے گواہ پر جرح نہیں ہونی چاہیے اور اگر بظاہر قابل قبول، حتی کہ مستورالحال، ہے تب بھی اس کی خبر قبول کرنی چاہیے، جبکہ شوال اور دیگر مہینوں کے چاند کی رویت کے گواہوں پر باقاعدہ جرح ہونی چاہیے اور جب تک ان کا قابل اعتماد ہونا ثابت نہ ہو، ان کی خبر پر فیصلہ نہیں سنانا چاہیے۔ نیز چونکہ شوال اور دیگر 10 مہینوں کی خبر شہادت ہے، اس لیے اس کے گواہ کو باقاعدہ مجلس قضاء (عدالت) میں آکر گواہی ریکارڈ کرنی چاہیے، البتہ مجبوری کے عالم میں شہادۃ علی الشہادۃ اور دیگر قانونی طریقوں سے اس کی گواہی مجلس قضاء میں پہنچائی جاسکتی ہے۔
مسلمانوں کا حاکم خواہ خود شرعی امور سے ناواقف ہو یا فاسق ہو فیصلہ اسی کا نافذ ہوتا ہے البتہ اس پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اہل علم کی رائے پر فیصلہ دے۔
کسی حاکم کا فیصلہ صرف اس کے زیر اختیار علاقوں میں ہی نافذ ہوتا ہے۔ کسی دوسرے حاکم کے زیر اختیار علاقے میں اس کا فیصلہ تب ہی نافذ ہوسکتا ہے جب وہاں کے حاکم تک یہ فیصلہ باقاعدہ قانونی طریقے سے پہنچایا جائے اور پھر وہ حاکم اس فیصلے کو قبول کرکے اپنے علاقے میں اسے نافذ کرنے کا حکم جاری کرے۔
جہاں مسلمانوں کا حاکم نہ ہو وہاں مسلمانوں کا جس عالم پر اعتماد ہو اسے حاکم کے قائم مقام کی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے اور رمضان و عیدین اور دیگر مہینوں کے آغاز و اختتام کا فیصلہ اس کے فتویٰ پر ہونا چاہیے تاکہ مسلمانوں کا نظم اجتماعی کسی نہ کسی صورت میں برقرار ہےاور انتشار نہ ہو۔
اصل اہمیت قانونی اختیار کی ہے، نہ کہ اختلاف مطالع کی۔
پانچواں امر یہ ہے کہ دنیا کے مختلف خطوں کا مطلع ایک نہیں ہے؛ بعض اوقات ایک ہی ملک کے مختلف حصوں کا مطلع بھی مختلف ہوتا ہے؛ اور اس کے برعکس بعض اوقات مختلف ممالک کا مطلع ایک ہوتا ہے۔ ایسے میں شرعاً اور قانوناً اصل اہمیت اختلاف یا وحدت مطالع کی نہیں، بلکہ اس کی ہے کہ کسی خاص خطے میں فیصلہ نافذ کرنے کا اختیار کس کے پاس ہے؟ مثلاً سعودی عرب کی عدالت کا فیصلہ پاکستان میں نافذ نہیں ہوسکتا جب تک قانونی تقاضے پورے نہ کیے جائیں اور یہاں کی عدالت اس فیصلے کو قبول کرکے یہاں نافذ کرنے کی اجازت نہ دے۔ یہی معاملہ رویتِ ہلال کا بھی ہے۔ مثلاً جمعہ 28 فروری کو غروب آفتاب کے وقت شمالی اور مرکزی امریکا میں چونکہ چاند کی عمر زیادہ ہوگی، اس لیے وہاں رویت ممکن ہوگی۔ اب اگر پاکستان میں کوئی انفرادی طور پر اس رویت کے مطابق ہفتے کے دن روزہ رکھنا چاہے، تو اس کی مرضی، لیکن وہ کسی دوسرے کو اس پر مجبور نہیں کرسکتا، جب تک یہاں کی حکومت یا حکومتی کمیٹی اس فیصلے کو قبول کرکے پاکستان میں نافذ کرنے کی اجازت نہ دے۔ یہ تو رمضان کا معاملہ ہے جو عبادت اور دینی معاملہ ہے۔ شوال اور عید کے معاملے میں البتہ انفرادی سطح پر بھی اس کی اجازت نہیں ہوگی جب تک حکومت یا حکومتی کمیٹی اس کا فیصلہ نہ کرے۔ یوں عملاً یہ امکان ہے کہ کوئی شخص شمالی امریکا یا سعودی عرب کے فیصلے پر روزہ رکھے، اور پھر عید کے معاملے میں اس پر رویت کے متعلق پاکستان کا فیصلہ ماننا لازم ہو اور اس صورت میں اسے 30 کے بجاے 31 روزے رکھنے پڑ جائیں۔ رمضان کے معاملے میں وہ اپنی مرضی کرسکتا ہے، لیکن عید کے معاملے میں نہیں کرسکتا۔
مزید پڑھیں: کشمیر سے متعلق 3 اہم قانونی سوالات
اس لیے عالمی سطح پر ایک ہی دن رمضان یا عید کرنے کےلیے پہلا قدم یہ لینا ہوگا کہ مسلمان ممالک آپس میں معاہدہ کرکے فیصلہ کرلیں کہ ایک ملک کی رویت دوسرے ملک میں قابل قبول ہوگی۔ اس کے بعد کچھ مزید قانونی اور عملی رکاوٹیں باقی رہیں گی، لیکن ان پر گفتگو کسی اور وقت کریں گے، ان شاء اللہ۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیرِ ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں پروفیسر اور سربراہ شعبۂ شریعہ و قانون ہیں۔ اس سے پہلے آپ چیف جسٹس آف پاکستان کے سیکرٹری اور شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ آپ سول جج/جوڈیشل مجسٹریٹ کی ذمہ داریاں بھی انجام دے چکے ہیں۔ آپ اصولِ قانون، اصولِ فقہ، فوجداری قانون، عائلی قانون اور بین الاقوامی قانونِ جنگ کے علاوہ قرآنیات اور تقابلِ ادیان پر کئی کتابیں اور تحقیقی مقالات تصنیف کرچکے ہیں۔
چاند ولادت رویت ہلال رویت ہلال سے متعلق 5 قانونی سوالات.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: چاند ولادت رویت ہلال کہ سائنسی تحقیقات کے چاند کی رویت کے معاملے میں پاکستان میں نہیں کرسکتا شرعی اصولوں مسلمانوں کا امر یہ ہے کہ کیا جائے گا اس کا فیصلہ ہے کہ چاند کہ چاند کی رویت ہلال نافذ کرنے مہینوں کے قابل قبول قابل رویت رمضان کے کے مطابق رویت کے ہوتا ہے شرعی ہے رویت کی کے گواہ کرنے کا بھی ہو گا اور اور اس اس لیے ہے اور کی خبر یہ امر کے بعد کے لیے
پڑھیں:
کمپٹیشن کمیشن کا انعامی سکیم کے ذریعے کارٹل اور گٹھ جوڑ کے خلاف عوامی تعاون حاصل کرنے فیصلہ
پاکستان میں اشیاء ضرورت اور خدمات کی قیمتوں میں مصنوعی بڑھوتری، معیاری اشیاء کی کمی ، کافی حد تک مارکیٹوں میں کاروباری گٹھ جوڑ یعنی کارٹلائزیشن کا نتیجہ ہیں۔ کارٹل، مارکیٹ میں موجود سپلائرز کے مابین باہمی ہم آہنگی یا ایسے معاہدے کے نتیجے میں بنتے ہیں، جس میں سپلائرز ناجائز منافع کے لئے اشیا و خدمات کی قیمتیں باہمی ہم آہنگی سے طے کرتے ہیں اور اس سلسلے میں مارکیٹ میں سپلائی کو بھی کنٹرول کرتے ہیں، جو کہ ایک غیر قانونی عمل ہے۔
صافین کو اشیاء و خدمات کی بہتر معیار اور متناسب قیمت پر فراہمی کے لئے ضروری ہے کہ، مارکیٹ میں سپلائی فراہم کرنے والے تمام فریق، صارفین کو راغب کرنے کے لئے ایک دوسرے سے بہتر سروسز اور پراڈکٹ ، بہتر قیمت پر فراہم کرنے کے لئے مقابلہ میں رہیں، نا کہ گٹھ جوڑ کر کے، قیمتیں فکس کر لیں۔ ناجائز منافع خوری یا اشیاء و خدمات کے معیار یا رسد پر کنٹرول کے لئے پر آپس میں خفیہ یا اعلانیہ معاہدہ یا سمجوتھہ کر لینا، کمٹیشن ایکٹ 2010 کے تحت ایک سمگین جرم ہے۔
کمپیٹیشن کمیشن آف پاکستان نے ایسے غیر قانونی کاروباری گٹھ جوڑ اور کارٹلز کے خلاف سخت اقدامات کرنے اور ایسے کسی عمل کی اطلاع دینے کے لئے عوام اور خاص طور پر متعلقہ اسٹیخ پولڈروں سے تعاون کی اپیل کی ہے۔
اگر کسی شخص کو معلوم ہو کہ کسی بزنس ایسوسی ائیشن یا کسی پراڈکٹ کے سپلائرز نے اپنی پراڈکٹ یا سروسز کی قیمتوں کو فکس کرنے یا سپلائی کو کنٹرول کرنے کے لئے آپس میں معاہدہ یا سمجھوتہ کیا ہوا ہے، تو ایسے عمل کی اطلاع اور معلومات فوری طور پر کمپٹیشن کمیشن آف پاکستان کر فراہم کرے۔ ایسے غیر قانونی کارٹل، کو پکڑوانے اور ان کے خلاف کارروائی کے لئے معلومات اور کسی بھی قسم کے ثبوت فراہم کرنے پر ، اُسے 2 لاکھ سے 20 لاکھ روپے تک کا انعام دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ اطلاع و معلومات فراہم کرنے والے کا نام خفیہ رکھا جائے گا۔
کمپٹیشن کمیشن آف پاکستان کا یہ اقدام عوامی شراکت داری کو فروغ دینے کے لیے ہے تاکہ ایسے غیر قانونی کاروباری طریقوں کا قلم قلعہ کیا جا سکے۔ کمپٹیشن کمیشن کی یہ سکیم نہ صرف ایک قانونی راستہ فراہم کرتی ہے بلکہ عوام کو اس عمل کا حصہ بنانے کی ترغیب بھی دیتی ہے تاکہ وہ ملک کی معیشت اور اپنے معاشی حقوق کا تحفظ کر سکیں۔
کمپٹیشن کمیشن آف پاکستان کا مقصد معیشت میں منصفانہ مقابلے کو فروغ دینا ہے تاکہ ہر پاکستانی کو معیاری اشیاء اور مناسب قیمتوں تک رسائی حاصل ہو۔ آئیے اپنے اندر موجود ان کالی بھیڑوں کی نشاندہی کریں اور صارفین کے حقوق کے تحفظ اور شفاف کاروباری ماحول کے لئے کمپٹیشن کمیشن کا ساتھ دیں۔
رابطہ کریں: آپ CCP سے فون، ای میل یا ویب سائٹ کے ذریعے رابطہ کر سکتے ہیں اور گٹھ جوڑ کی اطلاع دے سکتے ہیں۔ اگر آپ کی معلومات درست ثابت ہوئیں تو آپ نہ صرف انعام حاصل کریں گے بلکہ قومی ہیرو کے طور پر شناخت بھی کی جائیں گے۔
اشتہار