WE News:
2025-04-15@06:46:23 GMT

رویت ہلال سے متعلق 5 قانونی سوالات

اشاعت کی تاریخ: 26th, February 2025 GMT

بہت سے لوگ یہ سوال اٹھا رہے ہیں۔ اس کے درست جواب کے لیے ضروری ہے کہ رویت ہلال سے متعلق 5 امور کو الگ الگ دیکھا جائے۔

چاند کی ولادت

 پہلا امر یہ ہے کہ چاند کب اپنے مدار میں چکر پورا کرکے نیا چکر شروع کرتا ہے، جسے اصطلاحاً نئے چاند کی ولادت کہتے ہیں۔ یہ بات سائنسی تحقیقات اور حسابات کی روشنی میں قطعی طور پر معلوم ہوسکتی ہے اور اس وجہ سے اس امر پر کوئی اختلاف نہیں ہوتا۔ مثلاً اس مہینے کا چاند اپنا چکر پورا کرکے نیا چکر جمعہ 28 فروری کو گرین وچ وقت کے مطابق پونے 1 بجے (پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق پونے 5 بجے صبح) شروع کرے گا۔

چاند کا قابل رویت ہونا

 دوسرا امر یہ ہے کہ نئے چاند کی ولادت کے بعد وہ کب ’قابل رویت‘ ہوجاتا ہے؟ اس کے لیے کئی عوامل کو دیکھا جاتا ہے، جیسے غروب آفتاب کے بعد چاند کی عمر، غروب آفتاب اور غروب قمر کے درمیان مدت ، مطلع کا صاف یا ابر آلود ہونا، افق پر چاند کا زاویہ، دیکھنے والے کی نظر کی قوت یا کمزوری وغیرہ۔ سائنسی تحقیقات کی بنا پر اس سلسلے میں اندازے لگائے جاسکتے ہیں۔

چاند کا واقعتاً دیکھا جانا

تیسرا امر یہ ہے کہ چاند کی ولادت اور اس کے قابل رویت ہونے کے بعد واقعتاً اس کی رویت ہوجائے۔ کیا چاند کی واقعی رویت ہونا ضروری ہے؟ اس سوال کا جواب سائنس کے بجاے شریعت سے ہی لینا ہوگا اور رسول اللہ ﷺ کی متعدد احادیث سے یہ ضروری قرار پاتا ہے۔ چنانچہ بعض روایات میں آتا ہے کہ آپ نے چاند دیکھ کر روزہ رکھنے اور چاند دیکھ کر روزہ ختم کرنے کا حکم دیا، اور فرمایا کہ 29ویں دن اگر مطلع ابر آلود ہو، تو 30 دن کے روزے پورے کریں۔ اسی طرح بعض دیگر احادیث میں آپ نے سلبی پہلو سے ممانعت بھی کی کہ جب تک چاند نہ دیکھو، روزہ نہ رکھو اور جب تک چاند نہ دیکھو، روزہ ختم نہ کرو۔ رسول اللہ ﷺ کی سنت اور دیگر شرعی اصولوں کی بنا پر فقہائے کرام نے رویت کی خبر کی قبولیت کے لیے یہ معیار مقرر کیا ہے کہ مطلع صاف ہو تو بہت بڑی تعداد میں لوگ اسے دیکھیں (جسے اصطلاحاً جمّ غفیر کہا جاتا ہے) اور مطلع صاف نہ ہو تو رمضان کےلیے ایک، جبکہ شوال اور دیگر تمام مہینوں کےلیے کم از کم 2 گواہ ہونے چاہییں۔ مکرّر عرض ہے کہ یہ امر سائنسی نہیں بلکہ شرعی ہے۔

ان امور میں تعارض کا مسئلہ

اگر اس تیسرے امر اور پہلے 2 امور میں تعارض آجائے تو کیا ہوگا؟ اس سلسلے میں دو امکانات ہیں:

ایک یہ کہ سائنسی تحقیقات اور حسابات کی رو سے چاند کی ولادت بھی ہوئی اور وہ قابل رویت بھی ہو، لیکن واقعتاً اس کی رویت کی قابل قبول شہادت نہ مل سکے۔ اس صورت میں فقہائے کرام کے ہاں یہ امر مسلّم ہے کہ نیا مہینہ شروع نہیں ہوگا اور 30 کی گنتی پوری کی جائے گی۔ اس سے صرف عصر حاضر میں سائنسی علمیت اور مغربی تہذیب سے مرعوب بعض لوگوں، بالخصوص نام نہاد مقاصدی فکر کے علم برداروں (اور ہمارے ہاں غامدی صاحب کے حلقۂ اثر) نے ہی اختلاف کیا ہے۔ اس اختلاف کو مانا جائے یا نہ مانا جائے، یہ بات طے ہے کہ یہ امر شرعی ہے، نہ کہ سائنسی اور اس کا فیصلہ شریعت کے اصولوں کی روشنی میں کیا جائے گا اور اسی لیے فریقین اپنے اپنے موقف کےلیے شرعی اصولوں سے ہی استدلال کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ریاست کی فرضی شخصیت اور ریاستی عہدیداروں کی محدود ذمہ داری

دوسرا امکان یہ ہے کہ سائنسی تحقیقات اور حسابات کی رو سے چاند کی ولادت نہ ہوئی ہو یا وہ (اس مخصوص مقام یا وقت پر ) قابل رویت نہ ہو لیکن رویت کے گواہ مل جائیں جو شرعی اہلیت پر پورا اترتے ہوں۔ اس صورت میں علمائے کرام کا اختلاف ہے۔ پشاور کے جناب پوپلزئی اور دیگر کئی اہل علم کی راے یہ ہے کہ اس صورت میں گواہی پر عمل کیا جائے گا اور سائنسی تحقیقات و حسابات کو نظرانداز کیا جائے گا جبکہ جناب مفتی منیب الرحمان صاحب اور دیگر اہل علم اس صورت میں گواہی کو ناقابل قبول ٹھہراتے ہیں۔ بہرصورت دونوں فریقوں کے نزدیک یہ امر سائنسی نہیں بلکہ شرعی ہے، یعنی اس صورت میں اختلاف کو شرعی اصولوں پر حل کیا جائے گا۔ چنانچہ جو گواہی کو مسترد کرتے ہیں وہ یہ شرعی دلیل ذکر کرتے ہیں کہ سائنسی تحقیقات چونکہ قطعی ہیں، اس لیے گواہ کی طرف غلطی کی نسبت کی جائے گی؛ جبکہ وہ علمائے کرام جو گواہی کو ترجیح دیتے ہیں، ان کی دلیل یہ ہے کہ سائنسی تحقیقات اس سلسلے میں قطعی نہیں ہیں جبکہ شریعت نے بااعتماد گواہ کی گواہی پر قتل کے مقدمات تک کے فیصلے کا حکم دیا ہے، حالانکہ متواتر سے کم درجے کی خبر پر یقینی علم حاصل نہیں ہوتا۔

جمعہ 28 فروری کو پاکستان میں غروبِ آفتاب کے وقت چاند کی عمر سوا  13 گھنٹے ہوگی۔ یہ بات قابل غور ہے کہ اگر آج، مثلاً، سائنسی تحقیقات پر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ 18 گھنٹے سے کم عمر کا چاند ناقابل رویت ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ چاند کی رویت کے متعلق دستیاب معلومات سے یہی معلوم ہوتا ہے۔ اگر بڑی تعداد میں لوگوں نے 12  گھنٹے کے چاند کی رویت کی اور دیگر قرائن سے اس کی تائید ہو، تو پھر سائنسی اعتبار سے 13  گھنٹے کے چاند کو بھی قابل رویت قرار دیا جائے گا۔ بہ الفاظ دیگر، یہ امر مشاہدے پر مبنی ہے کہ چاند کب قابل رویت ہوتا ہے اور کب نہیں اور مشاہدے کی بہتری پر حکم میں فرق بھی آسکتا ہے۔ اس لیے محض اس بنا پر کہ سائنسی اعتبار سے چاند ناقابل رویت ہے گواہی کو مسترد نہیں کرنا چاہیے، جب تک اس کو مسترد کرنے کےلیے کوئی قوی دلیل نہ ہو۔

فیصلے کا اختیار کس کے پاس ہے؟

چوتھا امر یہ ہے اور یہ سب سے اہم ہے کہ چاند کی ولادت ہوچکی ہو، وہ قابل رویت بھی ہو، اس کی رویت کا دعویٰ کرنے والے لوگ بھی ہوں، تب بھی یہ فیصلہ کرنے کا اختیار کس کے پاس ہے کہ ان لوگوں کا یہ دعویٰ قابلِ قبول ہے  اور اسی بنا پر رمضان کا مہینہ ختم ہوا، اب روزہ نہیں رکھا جاسکتا، شوال کا مہینہ شروع ہوچکا اور اب عید کی نماز پڑھنی ہے اور فطر کا صدقہ دینا ہے؟ جیسا کہ ظاہر ہے، یہ امر تو بالخصوص شرعی ہے اور اس کا فیصلہ شرعی اصولوں پر ہی ہوسکتا ہے۔

اس ضمن میں شریعت کے چند بنیادی اصول یہ ہیں:

رمضان کے چاند کی رویت ’دینی امر‘ ہے۔ چنانچہ جس شخص کا یہ دعویٰ ہے کہ اس نے خود چاند دیکھا، اس پر رمضان کا روزہ رکھنا واجب ہوجاتا ہے، خواہ مجاز حاکم اس کی خبر مسترد کردے اور یہ قرار دے کہ رمضان شروع نہیں ہوا، کیونکہ جب اس کے خیال کے مطابق اس پر روزہ لازم ہوچکا ہے تو اس کےلیے اسے کسی شخص سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔

تاہم یہ شخص کسی اور پر اپنا فیصلہ نافذ نہیں کرسکتا، بلکہ کسی اور پر فیصلہ صرف حکمِ حاکم سے ہی نافذ ہوسکتا ہے۔

مزید پڑھیے: سپریم کورٹ میں ججوں کی تعیناتی: پس منظر اور پیش منظر

شوال (اور دیگر تمام مہینوں) کا معاملہ رمضان سے مختلف ہے کیونکہ وہ صرف ’دینی امر‘ نہیں بلکہ ’بندوں کے حقوق‘ کا بھی معاملہ ہے۔ چنانچہ اگر کسی شخص نے شوال کا چاند دیکھنے کا دعویٰ کیا تو وہ دوسروں پر تو ویسے بھی اپنا فیصلہ نافذ نہیں کرسکتا، خود اس کے لیے بھی جائز نہیں ہوگا کہ وہ روزے ترک کرکے عید کرے! یہاں تک کہ اگر اس کے 30 پورے ہوئے ہوں، تب بھی وہ عید نہیں کرسکتا، بلکہ یہ فرض کیا جائے گا کہ اس سے ابتدا میں غلطی ہوئی تھی۔

یہی حکم باقی 10 مہینوں کےلیے بھی ہے۔

رمضان کے چاند کی رویت کی خبر شرعی اصطلاح میں ’روایت‘ ہے جبکہ شوال اور دیگر 100 مہینوں کے چاند کی رویت ’شہادت‘ ہے۔ چنانچہ رمضان کے گواہ پر جرح نہیں ہونی چاہیے اور اگر بظاہر قابل قبول، حتی کہ مستورالحال، ہے تب بھی اس کی خبر قبول کرنی چاہیے، جبکہ شوال اور دیگر مہینوں کے چاند کی رویت کے گواہوں پر باقاعدہ جرح ہونی چاہیے اور جب تک ان کا قابل اعتماد ہونا ثابت  نہ ہو، ان کی خبر پر فیصلہ نہیں سنانا چاہیے۔ نیز چونکہ شوال اور دیگر 10 مہینوں کی خبر شہادت ہے، اس لیے اس کے گواہ کو باقاعدہ مجلس قضاء (عدالت) میں آکر گواہی ریکارڈ کرنی چاہیے، البتہ مجبوری کے عالم میں شہادۃ علی الشہادۃ اور دیگر قانونی طریقوں سے اس کی گواہی مجلس قضاء میں پہنچائی جاسکتی ہے۔

مسلمانوں کا حاکم خواہ خود شرعی امور سے ناواقف ہو یا فاسق ہو فیصلہ اسی کا نافذ ہوتا ہے البتہ اس پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اہل علم کی رائے پر فیصلہ دے۔

کسی حاکم کا فیصلہ صرف اس کے زیر اختیار علاقوں میں ہی نافذ ہوتا ہے۔ کسی دوسرے حاکم کے زیر اختیار علاقے میں اس کا فیصلہ تب ہی نافذ ہوسکتا ہے جب وہاں کے حاکم تک یہ فیصلہ باقاعدہ قانونی طریقے سے پہنچایا جائے اور پھر وہ حاکم اس فیصلے کو قبول کرکے اپنے علاقے میں اسے نافذ کرنے کا حکم جاری کرے۔

جہاں مسلمانوں کا حاکم نہ ہو وہاں مسلمانوں کا جس عالم پر اعتماد ہو اسے حاکم کے قائم مقام کی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے اور رمضان و عیدین اور دیگر مہینوں کے آغاز و اختتام کا فیصلہ اس کے فتویٰ پر ہونا چاہیے تاکہ مسلمانوں کا نظم اجتماعی کسی نہ کسی صورت میں برقرار ہےاور انتشار نہ ہو۔

اصل اہمیت قانونی اختیار کی ہے، نہ کہ اختلاف مطالع کی۔

پانچواں امر یہ ہے کہ دنیا کے مختلف خطوں کا مطلع ایک نہیں ہے؛ بعض اوقات ایک ہی ملک کے مختلف حصوں کا مطلع بھی مختلف ہوتا ہے؛ اور اس کے برعکس بعض اوقات مختلف ممالک کا مطلع ایک ہوتا ہے۔ ایسے میں شرعاً اور قانوناً اصل اہمیت اختلاف یا وحدت مطالع کی نہیں، بلکہ اس کی ہے کہ کسی خاص خطے میں فیصلہ نافذ کرنے کا اختیار کس کے پاس ہے؟ مثلاً سعودی عرب کی عدالت کا فیصلہ پاکستان میں نافذ نہیں ہوسکتا جب تک قانونی تقاضے پورے نہ کیے جائیں اور یہاں کی عدالت اس فیصلے کو قبول کرکے یہاں نافذ کرنے کی اجازت نہ دے۔ یہی معاملہ رویتِ ہلال کا بھی ہے۔ مثلاً جمعہ 28 فروری کو غروب آفتاب کے وقت شمالی اور مرکزی امریکا میں چونکہ چاند کی عمر زیادہ ہوگی، اس لیے وہاں رویت ممکن ہوگی۔ اب اگر پاکستان میں کوئی انفرادی طور پر اس رویت کے مطابق ہفتے کے دن روزہ رکھنا چاہے، تو اس کی مرضی، لیکن وہ کسی دوسرے کو اس پر مجبور نہیں کرسکتا، جب تک یہاں کی حکومت یا حکومتی کمیٹی اس فیصلے کو قبول کرکے پاکستان میں نافذ کرنے کی اجازت نہ دے۔ یہ تو رمضان کا معاملہ ہے جو عبادت اور دینی معاملہ ہے۔ شوال اور عید کے معاملے میں البتہ انفرادی سطح پر بھی اس کی اجازت نہیں ہوگی جب تک حکومت یا حکومتی کمیٹی اس کا فیصلہ نہ کرے۔ یوں عملاً یہ امکان ہے کہ کوئی شخص شمالی امریکا یا سعودی عرب کے فیصلے پر روزہ رکھے، اور پھر عید کے معاملے میں اس پر رویت کے متعلق پاکستان کا فیصلہ ماننا لازم ہو اور اس صورت میں اسے 30 کے بجاے 31 روزے رکھنے پڑ جائیں۔ رمضان کے معاملے میں وہ اپنی مرضی کرسکتا ہے، لیکن عید کے معاملے میں نہیں کرسکتا۔

مزید پڑھیں: کشمیر سے متعلق 3 اہم قانونی سوالات

اس لیے عالمی سطح پر ایک ہی دن رمضان یا عید کرنے کےلیے پہلا قدم یہ لینا ہوگا کہ مسلمان ممالک آپس میں معاہدہ کرکے فیصلہ کرلیں کہ ایک ملک کی رویت دوسرے ملک میں قابل قبول ہوگی۔ اس کے بعد کچھ مزید قانونی اور عملی رکاوٹیں باقی رہیں گی، لیکن ان پر گفتگو کسی اور وقت کریں گے، ان شاء اللہ۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

محمد مشتاق احمد

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیرِ ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں پروفیسر اور سربراہ شعبۂ شریعہ و قانون ہیں۔ اس سے پہلے آپ چیف جسٹس آف پاکستان کے سیکرٹری اور شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ آپ سول جج/جوڈیشل مجسٹریٹ کی ذمہ داریاں بھی انجام دے چکے ہیں۔ آپ اصولِ قانون، اصولِ فقہ، فوجداری قانون، عائلی قانون اور بین الاقوامی قانونِ جنگ کے علاوہ قرآنیات اور تقابلِ ادیان پر کئی کتابیں اور تحقیقی مقالات تصنیف کرچکے ہیں۔

چاند ولادت رویت ہلال رویت ہلال سے متعلق 5 قانونی سوالات.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: چاند ولادت رویت ہلال کہ سائنسی تحقیقات کے چاند کی رویت کے معاملے میں پاکستان میں نہیں کرسکتا شرعی اصولوں مسلمانوں کا امر یہ ہے کہ کیا جائے گا اس کا فیصلہ ہے کہ چاند کہ چاند کی رویت ہلال نافذ کرنے مہینوں کے قابل قبول قابل رویت رمضان کے کے مطابق رویت کے ہوتا ہے شرعی ہے رویت کی کے گواہ کرنے کا بھی ہو گا اور اور اس اس لیے ہے اور کی خبر یہ امر کے بعد کے لیے

پڑھیں:

“زیادہ تمباکو ٹیکس صحت نہیں، غیر قانونی مارکیٹ کو فروغ دیتا ہے” ، امین ورک

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) فیئر ٹریڈ اِن ٹوبیکو (FTT) کے چیئرمین امین ورک نے ایک تفصیلی گفتگو میں عالمی ادارۂ صحت (WHO) کے پاکستان میں نمائندہ کی تمباکو کنٹرول پالیسیوں اور ٹیکس نظام سے متعلق حالیہ بیانات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں یک طرفہ، بے بنیاد اور زمینی حقائق سے لاتعلق قرار دیا۔

امین ورک نے گفتگو کا آغاز WHO عہدیدار کی طرف سے پیش کیے گئے اعداد و شمار پر سوال اٹھاتے ہوئے کیا۔ “ہمیں پوچھنا چاہیے کہ پاکستان میں ہر سال تمباکو سے متعلقہ بیماریوں کے باعث 1,64,000 اموات اور معیشت کو 700 ارب روپے کا نقصان ہونے کا دعویٰ کس بنیاد پر کیا گیا ہے؟ اس کا ڈیٹا کہاں ہے؟ آڈٹ ٹریل کیا ہے؟ یہ چند این جی اوز کے نیٹ ورک کا بنایا ہوا بیانیہ ہے، جنہیں ممنوعہ بین الاقوامی تنظیموں سے فنڈز ملتے ہیں،” انہوں نے کہا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ WHO نمائندہ نے 2023 میں ٹیکس محصولات میں اضافے کو کامیابی قرار دیا، لیکن یہ نہیں بتایا کہ اس کا بڑا خمیازہ قانونی صنعت کو بھگتنا پڑا، جو اب غیر قانونی تجارت کی وجہ سے سکڑ رہی ہے۔ “وہ یہ تو بتاتے ہیں کہ ریونیو بڑھا، لیکن یہ نہیں کہ پاکستان میں غیر قانونی سگریٹس کا مارکیٹ شیئر 56 فیصد سے تجاوز کر چکا ہے۔ کوئی بھی سنجیدہ پالیسی مکالمہ اس حقیقت کو کیسے نظر انداز کر سکتا ہے؟” ورک نے سوال اٹھایا۔

فروخت اور عمل درآمد سے متعلقہ رپورٹوں اور مارکیٹ سروے کے مطابق، پاکستان میں فروخت ہونے والے 413 سگریٹ برانڈز میں سے 394 فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) کے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کی خلاف ورزی کرتے ہیں، جب کہ 286 برانڈز وزارت صحت کی طرف سے لاگو کردہ گرافیکل ہیلتھ وارننگ قانون کی پابندی نہیں کرتے۔ مزید برآں، 40 سے زائد مقامی کمپنیاں فیڈرل ایکسائز اور سیلز ٹیکس ادا کیے بغیر کام کر رہی ہیں۔ “جب آپ قانونی اور غیر قانونی مارکیٹ کے فرق کو نظرانداز کرتے ہیں، تو آپ کی پوری دلیل پاکستان کے زمینی حقائق سے غیر متعلق ہو جاتی ہے،” انہوں نے زور دیا۔

امین ورک نے بار بار ٹیکس بڑھانے کی تجویز کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ “جب نفاذ کا نظام کمزور ہو، تو غیر معمولی ٹیکس سے تمباکو نوشی کم نہیں ہوتی، بلکہ صارفین سستے اور غیر قانونی متبادل کی طرف چلے جاتے ہیں۔ اس سے قانونی صنعت کو نقصان، ٹیکس چوری میں اضافہ اور مجرمانہ نیٹ ورکس کو فائدہ پہنچتا ہے،” انہوں نے کہا۔

انہوں نے کہا کہ کئی مقامی NGOs، جو مبینہ طور پر ممنوعہ غیر ملکی تنظیموں سے فنڈز حاصل کرتے ہیں، صرف قانونی شعبے کو نشانہ بناتے ہیں جبکہ غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث 40 سے زائد کمپنیوں کے بارے میں خاموش رہتے ہیں۔ “یہ خاموشی محض مشکوک نہیں بلکہ مکمل حکمتِ عملی کے تحت ہے،” انہوں نے کہا۔

انہوں نے بین الاقوامی تنظیموں پر پاکستان کی سماجی و معاشی حقیقتوں کو نظرانداز کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی قانونی تمباکو صنعت نے پچھلے سال تقریباً 300 ارب روپے کے ٹیکس دیے، اور ہزاروں لوگوں کو روزگار فراہم کیا۔ “اس تعاون کو نظرانداز کرنا اور پوری صنعت کو بدنام کرنا صحت عامہ کی وکالت نہیں بلکہ ایک تباہ کن عمل ہے،” انہوں نے کہا۔

آخر میں امین ورک نے حکومت پاکستان، ایف بی آر اور وزارت داخلہ سے مطالبہ کیا کہ ایسے بیانیوں کے اصل مقاصد اور ذرائع کا جائزہ لیا جائے۔ “ہم مقامی زمینی حقائق، تصدیق شدہ ڈیٹا، اور خودمختار پالیسی سازی پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم ضابطہ بندی کا خیر مقدم کرتے ہیں، مگر بیرونی ایجنڈے کے تحت بننے والی نام نہاد ہیلتھ پالیسیوں کو مسترد کرتے ہیں،” انہوں نے کہا۔

انہوں نے شواہد پر مبنی پالیسی سازی، منصفانہ ٹیکس نظام، اور غیر قانونی سگریٹ ساز اداروں کے خلاف سخت کارروائی کی حمایت دہراتے ہوئے کہا، “وہ بیانیہ جو صرف قانونی صنعت کو سزا دیتا ہے اور غیر قانونی مارکیٹ کو پروان چڑھاتا ہے، اسے مکمل طور پر رد کرنا ہوگا۔”

متعلقہ مضامین

  • “زیادہ تمباکو ٹیکس صحت نہیں، غیر قانونی مارکیٹ کو فروغ دیتا ہے” ، امین ورک
  • ججز تبادلہ کیس میں جسٹس نعیم اختر افغان نے اہم سوالات اٹھادیے
  • ایران سے متعلق فیصلہ جلد کریں گے: ڈونلڈ ٹرمپ
  • ایران سے متعلق فیصلہ جلد کریں گے، ڈونلڈ ٹرمپ
  • ہم یمن کی قابل فخر استقامت کو نہیں بھولیں گے، ابو عبیدہ
  • نظریاتی اختلافات کے باوجود سیاسی شخصیات قابل احترام ہیں، علامہ مقصود ڈومکی
  • پاکستان میں آج پنک مون کا نظارہ کیا جا سکے گا
  • جے یو آئی پنجاب کا پی ٹی آئی سے اتحاد سے متعلق اہم فیصلہ
  • پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹلز خالی، غیر قانونی قابضین کو سامان واپس کرنے کا فیصلہ
  • پنجاب یونیورسٹی، ہاسٹلز میں مقیم غیر قانونی افراد کا ضبط کیا گیا سامان واپس کرنے کا فیصلہ