جوڈیشل کمپلیکس میانوالی حملہ کیس، عمر ایوب سمیت دیگر ملزمان پر فرد جرم عائد
اشاعت کی تاریخ: 25th, February 2025 GMT
انسداد دہشتگردی عدالت سوگادھا نے جوڈیشل کمپلیکس میانوالی حملہ کیس میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب اور دیگر شریک ملزمان پر فرد جرم عائد کردی ہے۔
منگل کے روز سوگودھا کی انسداد دہشتگردی عدالت میں 9 مئی کو جوڈیشل کمپلیکس میاںوالی کے مقدمے کی سماعت ہوئی، عدالت نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمرایوب اور پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر احمد خان بھچر سمیت دیگر ملزمان پر فرد جرم عائد کردیی ہے جبکہ ملزمان نے فرد جرم تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 9مئی واقعات میں ملوث 19 مجرمان کے لیے معافی کا اعلان بڑی پیش رفت نہیں، بیرسٹر گوہر
دوسری طرف اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کا کہنا ہے کہ اس وقت پورے ملک میں افراتفری مچی ہوئی ہے، ایسے میں نئے الیکشن کی طرف جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی سے ملنے نہیں دیا جارہا، عدالتی پراسیس میں تاخیر ہورہی ہے، یہ اس چیز کی علامت ہے کہ ملک میں لاقانونیت ہے اور ملک میں آئین و قانون کا بول بالا نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جوڈیشل کمپلیکس حملہ و توڑ پھوڑ کیس، تحریک انصاف کے 10 رہنماؤں کے دائمی وارنٹ گرفتاری
عمر ایوب کا کہنا تھا کہ بلوچستان کو تباہ کیا جارہا ہے، ہوش کے ناخن لیں، ملک کو آپ نے کمزور کرکے رکھ دیا ہے، شہبازشریف، مریم نواز اور ان کے حواریوں کو پیغام ہے کہ آپ کے پاس مینڈیٹ نہیں ہے، ملک پہ رحم کریں، نئے الیکشن مسائل سے نکلنے کا واحد حل ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news انسداد دہشتگردی پاکستان پی ٹی آئی توڑ پھوڑ جوڈیشل کمپلیکس حملہ کیس سرگودھا عمر ایوب فرد جرم.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: انسداد دہشتگردی پاکستان پی ٹی ا ئی توڑ پھوڑ جوڈیشل کمپلیکس حملہ کیس سرگودھا عمر ایوب جوڈیشل کمپلیکس اپوزیشن لیڈر عمر ایوب
پڑھیں:
ملٹری ٹرائل کیس: کیا ایوب خان کے دور میں بنیادی حقوق میسر تھے؟ آئینی بنچ
اسلام آباد: سپریم کورٹ میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کیخلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت جاری ہے۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی سات رکنی آئینی بنچ کیس کی سماعت کررہا ہے، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہر رضوی بنچ میں شامل ہیں، جسٹس مسرت ہلالی ،جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن بھی بنچ کا حصہ ہیں۔
دوران سماعت جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ 1962 کے آئین میں ایوب خان کا دور تھا کیا اس وقت لوگوں کو بنیادی حقوق میسر تھے؟ جس پر ایڈووکیٹ عزیر بھنڈاری نے جواب دیا کہ اس وقت بھی بنیادی حقوق اصلاًدستیاب نہیں تھے، سویلینز کی حد تک کرمنل دفعات پہ ٹرائل عام عدالت ہی کر سکتی ہے، آرڈیننس میں بہت ساری دفعات تھیں جو آرمڈ فورسز کے حوالے سے تھیں ۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ یہاں تعلق سے کیا مراد ہے؟ وکیل بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ آرمی ایکٹ خود کو سبجیکٹ کر سکتا ہے یا نہیں، کس قانون کے تحت کیا جا سکتا ہے وہ متعلقہ ہے یا نہیں۔
اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس میں کہا کہ ٹو ون ڈی میں سویلینز کا تعلق کیسے بنایا گیا ہے؟ جس پر ایڈووکیٹ عزیر بھنڈاری نے جواب دیا کہ ٹو ون ڈی کے حوالے سے ایف بی علی کیس میں کچھ نہیں کہا گیا، ٹرائل دفعات پر نہیں اسٹیٹس پر ہو گا۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس میں کہا کہ محرم علی کیس اور راولپنڈی بار کیس میں دہشتگردی کی دفعات تھیں، فوجی تنصیبات پر حملہ ہوا ان کی سکیورٹی کسی آرمی پرسنل کے کنٹرول میں ہو گی، ان سے تحقیقات پولیس افسر کرے گا؟ جہاں ملٹری کی شمولیت ہو وہاں ملٹری کورٹ شامل ہوں گی؟
عزیر بھنڈاری نے عدالت کو بتایا کہ 103 ملزمان ایسے ہیں جن کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہو رہا ہے جس پر جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے کہ میڈیا پر ہم نے فوٹیجز دیکھی ہیں۔