پاکستان کشمیر کے بغیر نامکمل، شہ رگ کٹنے سے کوئی زندہ نہیں رک سکتا، کشمیر سیمینار
اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT
آل پارٹیز حریت کانفرنس جموں و کشمیر کے کنونیئر غلام محمد صفی نے کہا ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قراردیا تھا۔ انسان آنکھوں کے بغیر اورمعذوری کی حالت میں بھی زندہ رہ سکتا ہے لیکن شہ رگ کٹنے کی صورت میں کوئی شخص زندہ نہیں رہ سکتا، کشمیر کے بغیر پاکستان نامکمل ہے۔
جامعہ کراچی میں ’نوآبادیاتی نظام کے اثرات، کشمیر کی شناخت اور علاقائی تنازع‘ کے عنوان سے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ پارٹیشن پلان کے تحت اگرچہ مسلم اکثریتی علاقوں کو پاکستان بننا تھا اور غیرمسلم اکثریتی علاقوں کو ہندوستان بننا چاہیے تھا لیکن ایسانہیں ہونے دیا گیا کیونکہ ہندو اور انگریز قائداعظم کے دو قومی نظریے کے فلسفہ کو مات دینا چاہتے تھے اور اس کے برعکس وہ یہ بار آور کرانا چاہتے تھے کہ مسلم اکثریتی والا یہ علاقہ جموں و کشمیر ہندوستان کا حصہ ہے اور دو قومی نظریہ کی نفی کرنا چاہتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں ہندوتوا کے ماننے والے کبھی مذاکرات سے مسئلہ کشمیر حل نہیں کریں گے، حافظ نعیم الرحمان
انہوں نے کہاکہ 1947 سے لے کر آج تک مسئلہ کشمیر پر 5 لاکھ سے زیادہ لوگ شہید ہوچکے ہیں لیکن یہ مسئلہ حل نہیں ہو پا رہا جس کی وجہ ہندوستان کی ہٹ دھرمی ہے۔ دنیا بھر کے ممالک سے جتنی بھی تجاویز آئیں اسے ہندوستان ماننے کو تیار نہیں اور وہ کہتا ہے کہ میرا قبضہ ہے بس اتنا کافی ہے۔
غلام محمد صفی نے مزید کہاکہ پالیسیوں میں تسلسل ہونا چاہیے لیکن مسئلہ کشمیر کے اب تک حل نہ ہونے کی ایک وجہ حکومت پاکستان کی پالیسیوں میں تسلسل کا نہ ہونا بھی ہے جبکہ ہندوستان کی پالیسیوں میں تسلسل ہے۔ ہندوستان غلط بیانی کرتا ہے کہ جموں و کشمیر میرا اٹوٹ انگ ہے لیکن شروع سے لے کراب تک ایک ہی بیانیہ پر قائم ہے ان کا صدر، وزیراعظم جب بھی بات کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے اور غلط پر جمے ہوئے ہیں جبکہ ہمارا بالکل واضح اور صحیح مؤقف کہ کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق فیصلہ کیا جائے، اگروہ رائے شماری میں پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کرتے ہیں تو ہماری سر آنکھوں پر۔
انہوں نے کہاکہ 1989 کے بعد ہم نے ہندوستان کو ٹف ٹائم دینا شروع کردیا۔ جس کے لیے وہ پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں اور کہتے ہیں کے اس کے پیچھے پاکستان ہے۔ ہماری جدوجہد حق خودارادیت کی جدوجہد ہے جبکہ ہندوستان جموں و کشمیرمیں قبرستان جیسی خاموشی چاہتاہے۔
انہوں نے طلبا و طالبات کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ ہم چاہتے ہیں کہ جس طرح لوگ فلسطین کے لیے نکلتے ہیں اور فلسطینیوں کی حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں، اسی طرح دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی انصاف پسند افراد موجود ہیں وہ کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کریں، یہ ان پر فرض بھی اور ان کے اوپر ایک قرض بھی ہے۔
غلام محمد صفی نے کہاکہ ہندوستان کا طریقہ واردات جموں و کشمیرکے نوجوانوں کو قتل، خواتین کو بے آبرو کرنا اور لوگوں کو کشمیر سے دھکے دے کے کر باہر نکالنا ہے، انہیں ہجرت پر مجبور کرنا اور ان کی زمینوں کو اسی طرح چھیننا ہے جس طرح اسرائیل نے فلسطینیوں کی زمینوں کو چھینا اور انہیں بے گھر اور دربدر کردیا۔
انہوں نے کہاکہ ہندوستان کا مقصد جموں و کشمیر میں مسلمانوں کو نہیں بلکہ ہندوؤں اور اُردو کی جگہ ہندی دیکھنا چاہتاہے۔ وہ کشمیر میں پاکستان کا نہیں بلکہ ہندوستان کا پرچم دیکھنا چاہتے ہیں۔
آل پارٹیز حریت کانفرنس (اے پی ایچ سی) کے سینیئر رہنما الطاف حسین وانی نے کہاکہ جموں و کشمیراس وقت کشمیر میں بھارتی حکومت کا کشمیر کو نوآبادی بنانے کا حربہ عوام کو بے زمین، بے روزگار اور بے گھر کرنا ہے تاکہ وہ بھارتی تسلط کے سامنے سر تسلیم خم کرسکیں۔ جب پاکستان میں سی پیک کا آغاز ہوا تو یہ ابھی شروع ہونا باقی تھا لیکن ہندوستان اور مختلف یونیورسٹیوں میں انہوں نے سی پیک پر پی ایچ ڈی شروع کی تاکہ مغرب کو یہ تصور دیا جا سکے کہ یہ سب آپ کے خلاف ہے اوریہ اقتصادی راہداری امریکی اور مغربی مفاد ات کے خلاف ہے۔
انہوں نے کہاکہ یہ ہر پاکستانی اور ماہر تعلیم کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھارت کی فالٹ لائنز پر سوچیں اور ایک فالٹ لائن کشمیر ہے اور کشمیر کے حقیقی سبب پر پاکستان کی ہر جامعہ میں بحث ہونی چاہیے اور اس پر لکھنا چاہیے اور ان کا کشمیر پر ریسرچ سینٹر ہونا چاہیے۔
الطاف حسین وانی نے مزید کہاکہ کشمیر میں ہونے والے حالیہ الیکشن کو ہم تسلیم نہیں کرتے کیونکہ یہ الیکشن 10 لاکھ فوج کی موجودگی میں بندوق کے سائے میں لڑے گئے۔ بھارت نے 5 اگست 2019 کو قلم کے ایک جھٹکے سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی اور کشمیری عوام کو ان کی شناخت سے محروم کیا۔
انہوں نے کہاکہ ہم سمجھوتہ نہیں کریں گے، ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے اور بھارت بھی یہ جانتا ہے کہ کشمیر میں جدوجہد جاری رہے گی۔ ان کی تمام فوجی طاقت کشمیر میں جدوجہد آزادی کو روکنے میں ناکام رہی ہے اور ہندوستان نے جھوٹ کا ایک پورا مجموعہ پھیلایا ہوا ہے۔
جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی نے کہاکہ کشمیر کا مسئلہ زمین یا خطے کا مسئلہ نہیں بلکہ 10 ملین لوگوں کا مسئلہ ہے، ان کے حقوق، حق خودارادیت اور آزادی کا مسئلہ ہے۔ بدقسمتی سے ہمیں کشمیر کے مسئلے کے حوالے سے بین الاقوامی اسٹینڈرز نظر نہیں آتے۔ ہمیں نتائج کی پرواہ کیے بغیر حق کے لیے آواز اٹھانی چاہیے۔
انہوں نے کہاکہ میں کشمیری ماؤں کو سلام پیش کرتا ہوں جو آزادی کے حصول کے لیے اپنے جگر کے ٹکڑوں کے نذارنے پیش کرتے کرتے نہیں تھکتی۔ اپنی اولاد کی جان کے نذرانے پیش کرنا آسان کام نہیں لیکن کشمیری مائیں اس پر فخرکرتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی پہلی قرارداد کے 76 سال، کچھ بھی تو نہ بدلا
ڈاکٹر خالد عراقی نے مزید کہاکہ بھارت نے کشمیر پر جو مظالم ڈھائے ہوئے ہیں وہ انسانیت کے لیے شرمندگی ہے، کشمیر کا مسئلہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں، بلکہ انسانی حقوق کا مسئلہ ہے۔ ہماری نوجوان نسل کو جموں و کشمیر کی تاریخ اور اس کی پاکستان کے لیے اسٹرٹیجک اہمیت کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنا ناگزیر ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews بھارت پاکستان جامعہ کراچی غلام محمد صفی کشمیر سیمینار مسئلہ کشمیر وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بھارت پاکستان جامعہ کراچی غلام محمد صفی مسئلہ کشمیر وی نیوز انہوں نے کہاکہ غلام محمد صفی مسئلہ کشمیر ہندوستان کا کشمیر کے کہ کشمیر کا مسئلہ اور ان ہے اور کے لیے
پڑھیں:
کوئی قانون آئین سے متصادم ہو تو غیر موثر سمجھا جائے گا: اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ نے فنانس ایکٹ 2015ء کی شق 7 کو آئین پاکستان سے متصادم قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس ارباب محمد طاہر نے آڈیٹر جنرل آرڈیننس 2001ء میں فنانس ایکٹ کے ذریعے ترمیم کے خلاف درخواست پر تفصیلی فیصلہ جاری کیا۔ عدالت نے فنانس ایکٹ 2015ء کی شق 7 کو آئین کے متصادم قرار دیتے ہوئے اس قانون کے تحت کیے گئے تمام احکامات اور کارروائیاں بشمول نوٹیفکیشنز کو بھی کاالعدم قرار دے دیا۔ تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین ملک کا سب سے بڑا اور بنیادی قانون ہے، باقی قوانین اپنی طاقت آئین سے حاصل کرتے ہیں، اگر کوئی قانون اپنے دیے گئے اختیارات سے تجاوز کر جائے یا کسی آئینی شق کے خلاف ہو تو اسے غیرآئینی یا آئین سے متصادم الٹرا وائرس قرار دیا جاتا ہے۔ پارلیمنٹ آئین کے دئیے گئے اختیارات کے تحت قوانین بناتی ہے، اگر کوئی قانون آئین یا اصل قانون پیرنٹ ایکٹ سے متصادم ہو تو وہ قانون غیر مؤثر سمجھا جائے گا، کسی قانون کو آئینی ثابت کرنے کیلئے ضروری ہے کہ وہ منطقی، واضح اور عمومی قوانین یا آئین سے متصادم نہ ہو۔ اگر بائی لاز بنانے میں قانونی طریقہ کار کی خلاف ورزی کی گئی ہو تو انہیں کالعدم کیا جا سکتا ہے، بائی لاز کسی دوسرے قانون سے متصادم ہوں یا اپنے بنیادی قانون کے خلاف ہوں تو انہیں کالعدم کیا جا سکتا ہے۔ مبہم، غیر واضح، غیر معقول اور غیر منطقی ہونے کی بنیاد پر بھی بائی لاز کو کاالعدم قرار دیا جا سکتا ہے۔