نجی میڈیکل کالجز کی سالانہ فیس 12 لاکھ روپے مقرر کرنے کی تجویز
اشاعت کی تاریخ: 24th, February 2025 GMT
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن )وفاقی وزارت صحت اور پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے حکام پر مشتمل ایک خصوصی حکومتی کمیٹی نے نجی میڈیکل اور ڈینٹل کالجز میں داخلہ لینے والے طلبہ کے لئے سالانہ فیس 12 لاکھ روپے مقرر کرنے کی تجویز دی ہے۔
نجی ٹی وی جیو نیوز نے وفاقی وزارت صحت کے حکام کے حوالے سے بتایا کہ یہ تجویز وزارت صحت اور پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کے حکام پر مشتمل ایک اعلی سطح کی کمیٹی نے دی ہے تاکہ نجی تعلیمی اداروں میں بڑھتی ہوئی ٹیوشن فیس کو قابو میں رکھا جاسکے۔پی ایم ڈی سی حکام کے مطابق اس وقت نجی کالجز میں طلبہ سے سالانہ 25 سے 30 لاکھ روپے فیس کی مد میں وصول کئے جا رہے ہیں۔
دستیاب سرکاری دستاویزات کے مطابق اس فیس کا تعین تفصیلی غور و فکر کے بعد کیا گیا ہے لیکن اس پر حتمی فیصلہ کمیٹی آن میڈیکل ایجوکیشن کو کرنا ہے، جس کی سربراہی ڈپٹی وزیر اعظم اسحاق ڈار کر رہے ہیں۔ اس کے بعد یہ معاملہ 27 فروری 2025 کو پی ایم ڈی سی کونسل کے اجلاس میں پیش کیا جائے گا تاکہ اسے باضابطہ طور پر منظور اور نافذ کیا جا سکے۔
دوسری جانب حکام کا بتانا ہے کہ کئی بار یاد دہانیوں کے باوجود ڈپٹی وزیر اعظم کے دفتر سے ابھی تک کوئی جواب نہیں ملا جس کی وجہ سے فیصلہ تاخیر کا شکار ہے۔ اگر یہ منظوری مل جائے تو ہزاروں میڈیکل اور ڈینٹل طلبہ اور ان کے خاندانوں کو مالی ریلیف حاصل ہو سکتا ہے۔وفاقی وزارت صحت کے ایک عہدیدار نے تصدیق کی کہ وزارت صحت اور پی ایم ڈی سی کو پارلیمنٹ کے ارکان اور والدین کی جانب سے ٹیوشن فیس کے حوالے سے سخت دباوکا سامنا ہے۔دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملے کی چھان بین کے لئے ایک ذیلی کمیٹی بنائی گئی تھی، جس نے نجی میڈیکل کالجز کی فیسوں کا جائزہ لیا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ 2010 میں نجی میڈیکل کالجز کی سالانہ فیس 5 لاکھ روپے تھی جو 2012 میں بڑھا کر 6 لاکھ روپے کر دی گئی۔
2018 میں سپریم کورٹ نے سالانہ فیس ساڑھے آٹھ لاکھ روپے مقرر کی اور 2020-21 کے قواعد کے مطابق سالانہ 5 فیصد اضافے کی اجازت دی، جس کے بعد یہ فیس 9,97,500 روپے تک پہنچ گئی۔ تاہم حالیہ برسوں میں نجی کالجز نے فیسوں میں غیر معمولی اضافہ کرتے ہوئے انہیں 25 سے 30 لاکھ روپے تک پہنچا دیا، جو مقررہ حد سے کہیں زیادہ ہے۔
وفاقی وزارت صحت اور پی ایم ڈی سی کی جانب سے قائم ایک ذیلی کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ تجویز کردہ نئی فیس 12,12,468 روپے فی سال ہونی چاہئے اور یہ پورے تعلیمی پروگرام کے دوران یکساں رہے گی تاکہ طلبہ پر غیر متوقع اضافے کا بوجھ نہ پڑے۔
ایک سرکاری اہلکار نے کہا کہ نجی کالجز اپنی فیسوں میں اضافے کو بڑھتے ہوئے اخراجات کا جواز بنا کر پیش کرتے ہیں لیکن کمیٹی کی تحقیقات کے مطابق یہ اضافے غیر ضروری اور مہنگائی و صارف قیمت اشاریہ (CPI) کے تناسب سے کہیں زیادہ ہیں۔حکومتی کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ نجی میڈیکل اور ڈینٹل کالجز پر سخت نگرانی رکھی جائے، قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی پر جرمانے عائد کئے جائیں اور سالانہ آڈٹ لازمی قرار دیا جائے۔اس کے علاوہ طلبہ اور والدین کی شکایات سننے کے لئے ایک مو¿ثر شکایتی نظام قائم کرنے کی بھی تجویز دی گئی ہے تاکہ اضافی اور غیر منصفانہ فیسوں کے مسائل حل کئے جا سکیں۔
فی الحال یہ معاملہ کمیٹی آن میڈیکل ایجوکیشن کے پاس ہے لیکن ڈپٹی وزیر اعظم اسحاق ڈار کے دفتر کی خاموشی کے باعث فیصلہ رکا ہوا ہے۔
پارلیمنٹیرینز، طلبہ اور والدین کے مسلسل دباوکے پیش نظر صحت کے حکام حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ جلد از جلد اس تجویز کو منظور کرے تاکہ میڈیکل اور ڈینٹل تعلیم کو عام طلبہ کے لئے قابلِ رسائی بنایا جا سکے۔
پاکستان میں بڑا سکور بن رہا ہے، 400 رنز کا سوچ رہے ہیں، ایلکس کیری
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: وفاقی وزارت صحت وزارت صحت اور پی ایم ڈی سی نجی میڈیکل سالانہ فیس لاکھ روپے کمیٹی نے کے مطابق رہے ہیں کے حکام کے لئے
پڑھیں:
بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کے لیے کیا ریلیف ملے گا، مجوزہ تفصیلات سامنے آ گئیں
تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دینے کے لیے تجاویز کی منظوری آئی ایم ایف سے مشروط ہو گی۔ دوسری جانب بھاری پنشن لینے والے پنشنرز پر بھی 5 فیصد سے 20 فیصد تک ٹیکس کی تجویز کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو کیا ریلیف ملے گا، اس حوالے سے مجوزہ تفصیلات سامے آ گئیں۔ وفاقی حکومت کی جانب سے آئندہ مالی سال 26-2025ء کے وفاقی بجٹ میں تنخواہ دار ملازمین کو ریلیف دینے کے لیے قابل ٹیکس آمدن کی حد 6 لاکھ روپے سالانہ سے بڑھانے کا امکان ہے جب کہ ٹیکس سلیبز بھی تبدیل کیے جانے کی توقع ہے۔ تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دینے کے لیے تجاویز کی منظوری آئی ایم ایف سے مشروط ہو گی۔ دوسری جانب بھاری پنشن لینے والے پنشنرز پر بھی 5 فیصد سے 20 فیصد تک ٹیکس کی تجویز کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ ایف بی آر کے مطابق آئندہ بجٹ میں صرف نیچے والے سلیبز کو تبدیل کیا جائے گا۔ بجٹ میں زیادہ تنخواہ والے طبقے کے لیے فی الحال کوئی ریلیف کی تجویز نہیں ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دینے کے لیے 3تجاویز زیر غور ہیں، جن میں پہلے سلیب میں ماہانہ 50 ہزار سے زائد تنخواہ والوں کے لیے سالانہ آمدن کی شرح بڑھائے جانے کا امکان ہے۔
قابل ٹیکس آمدنی کی حد 6 لاکھ سے بڑھا کر 8 لاکھ روپے سالانہ تک کیے جانے کی تجویز ہے البتہ حتمی فیصلہ مشاورت کے بعد ہو گا۔ اسی طرح انکم ٹیکس ریٹرن فارم سادہ و آسان بنایا جائے گا اور ٹیکس سلیبز میں تبدیلی کی جائے گی۔ بجٹ میں 6 لاکھ سے 12 لاکھ روپے سالانہ آمدن کے سلیب میں ریلیف بھی دیے جانے کا امکان ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ 8 لاکھ روپے سالانہ تک پنشن آمدنی پر 5 فیصد، 8 سے 15 لاکھ سالانہ آمدنی پر 10 فیصد، 15 سے 20 لاکھ روپے سالانہ آمدنی پر ساڑھے 12 فیصد، 20 سے 30 لاکھ روپے سالانہ آمدنی پر 15 فیصد اور 30 لاکھ روپے سالانہ سے زائد آمدنی پر 20 فیصد ٹیکس کی تجویز ہے۔ ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ ابھی ابتدائی تجاویز ہیں، تاہم اس بارے میں تفصیلی جائزہ اور مشاورت کے بعد تجاویز کو شامل کیا جائے گا۔