Jasarat News:
2025-04-15@11:26:17 GMT

مسلمانوں کا فکری دھارا مختلف کیوں ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT

مسلمانوں کا فکری دھارا مختلف کیوں ہے؟

جاوید احمد غامدی اس حد تک مغرب سے مرعوب ہیں کہ وہ مسلمانوں کو بھی مغرب کے رنگ میں رنگے دیکھنا چاہتے ہیں۔ مغرب نے خدا اور مذہب کا انکار کیا ہے۔ غامدی صاحب مسلمانوں سے خدا اور مذہب کے انکار کے لیے تو نہیں کہتے مگر وہ یہ ضرور کہتے ہیں کہ ہمیں ترقی یافتہ مغرب کی تقلید کرنی چاہیے۔ خورشید ندیم غامدی صاحب کے شاگرد رشید ہیں چنانچہ وہ بھی اپنے کالموں میں مغرب زدگی کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک حالیہ کالم میں فرمایا ہے کہ چین بدل گیا، جاپان بدل گیا مگر مسلمان اب تک خلافت کے احیا کے تصور میں پھنسے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے کالم میں بنیادی سوال یہ اُٹھایا ہے کہ مسلم فکری دھارا باقی دنیا کے فکری دھارے سے مختلف کیوں ہے۔ انہوں نے اپنے کالم میں کیا لکھا ہے۔ انہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے۔ لکھتے ہیں۔

’’مادی و دنیاوی ترقی کے باب میں مسلمانوں کا عمومی زاویۂ نظر دیگر اقوام سے مختلف کیوں ہے؟

گزشتہ تین صدیوں کی تاریخ پر ایک نظر ڈالیے اور ان اقوام کے احوال کو دیکھیے جن کے عروج و زوال سے دنیا کی تاریخ عبارت ہے۔ ان اقوام کے فکری اختلافات کے باوصف ان کے احوال میں یکسانیت ہے۔ انہوں نے اگر مادی ترقی کی ہے تو ان کی حکمت ِ عملی ایک رہی ہے۔ یہ حکمت ِ عملی اس زمین پر جاری قوانین ِ فطرت سے ہم آہنگ ہونا ہے۔ جن اقوام نے ایک مرحلے پر قدرے مختلف زاویۂ نظر اپنایا انہوں نے بھی تجربات سے سیکھتے ہوئے خود کو اس نظامِ فطرت سے ہمنوا بنا لیا۔

انیسویں اور بیسویں صدی میں ہمیں دو بڑے فکری دھارے دکھائی دیے۔ اشترکیت اور سرمایہ داری۔ دونوں میں بحث ومباحثہ جاری رہا۔ دونوں نے دو مختلف نظام ہائے فکر کو اپنایا۔ دونوں میں کشمکش رہی جو سر مایہ دارانہ نظام کی فتح پر منتج ہوئی۔ اس سے اشتراکی قوتوں نے سیکھا اور اس طرزِ عمل کو اپنایا جو سرمایہ داری کی کامیابی کا سبب بنا تھا۔ حال ہی میں چین نے مصنوعی ذہانت کے باب میں امریکا کے لیے ایک بڑا چیلنج پیدا کر دیا۔ یہ دراصل اْنہی خطوط پر پیش قدمی ہے جن پر امریکا آگے بڑھا۔ چین نے امریکا کو کھلی منڈی کی تجارت میں بھی ایک بڑے چیلنج سے دوچار کر دیا۔ چین یا روس کے نظامِ فکر میں اس تصورِ معیشت کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ چین نے لیکن اس کو اپنا لیا۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ امریکا اس سے جان چھڑا رہا ہے اور چین اس کا پیچھا کر رہا ہے۔

اس کے برخلاف ہمیں مسلم دنیا میں سوچ و فکر کی کوئی ایسی لہر اٹھتی دکھائی نہیں دی جو فطرت میں کارفرما ان اصولوں سے ہم آہنگ ہو۔ ترکی کے استثنا کے ساتھ تمام تر مسلم ذہانت ماضی پرست رہی اور ’’پدرم سلطان بود‘‘ کی نفسیات میں جیتی رہی۔ اس نے اگر مسلمانوں کو درپیش مسائل کا کوئی حل پیش کیا تو وہ تھا ماضی کی بازیافت۔ یہی کہا گیا کہ مسلمانوں کو خلافت کا احیا کرنا چاہیے اور اسی میں ان کی بقا ہے۔ کہیں یہ ادراک موجود نہیں تھا کہ دنیا بدل گئی ہے اور اب ماضی کی طرف لوٹنا ممکن نہیں۔ عالمی سطح پر اقتدار صرف مسلمانوں کا نہیں‘ برطانیہ جیسی سلطنت کا بھی ختم ہو رہا تھا لیکن برطانیہ میں ایسی کوئی تحریک نہیں اُٹھی کہ اسے دوبارہ عظیم تر (Great Britain) بنایا جائے یا دنیا کو ایک بار پھر فتح کیا جائے۔ ماضی کی عالمی طاقتوں نے اگر یہ چاہا بھی کہ دنیا میں ان کا تسلط برقرار رہے تو انہوں نے نئے طریقے ایجاد کیے۔ جیسے اقوامِ متحدہ اور اس میں ویٹو پاور۔

مسلمانوں میں جو مفکر اٹھا اس نے سیاسی احیا اور عالمی خلافت کی بحالی کا حل پیش کیا۔ جمال الدین افغانی ہوں یا برصغیر کے مفکرین‘ سب اسی نظامِ فکر کے ساتھ سوچتے تھے۔ انہوں نے یہ بھی ضروری نہیں سمجھا کہ دنیا میں ترقی کرنے والی اقوام کے احوال ہی پر ایک نظر ڈالیں اور ان کے منہج کو سمجھیں۔ اس فکر میں یہ غلط فہمی کہیں سے در آئی کہ ہم ترکیب میں خاص ہیں اور ہمارے لیے قدرت نے ترقی کا ایک مختلف راستہ منتخب کر رکھا ہے۔ اس سارے عمل کو ایک صدی سے زیادہ عرصہ بیت چکا مگر ہماری اجتماعی سوچ آج بھی اسی نظامِ فکر کی اسیر ہے۔ وہی خلافت کا احیا۔ وہی جہاد بالسیف۔ وہی موت کو گلیمرائز کرنا۔ کشمیر ہو یا فلسطین‘ آج بھی موت پر خوشی منائی جاتی ہے اور مرنے کو کارنامہ سمجھا جاتا ہے‘‘۔ (روزنامہ دنیا، 4 فروری 2025ء)

اقبال نے کہا تھا
اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
ان کی ملت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری

مسئلہ یہ ہے کہ مسلمان صرف اقوامِ مغرب ہی سے مختلف نہیں ہیں بلکہ اس وقت مسلمان روئے زمین پر موجود ہر قوم سے مختلف ہیں۔ عیسائی خدا اور مغرب کو مانتے ہیں مگر انہوں نے سیدنا عیسیٰؑ کو خدا کا بیٹا بنا کر شرک ایجاد کرلیا ہے۔ ہندو بھی خدا اور مذہب کو تسلیم کرتے ہیں مگر انہوں نے خدا کی ذات سے اس کی صفات کو الگ کرکے ایک سطح پر تین اور دوسرے سطح پر 33 کروڑ خدا ایجاد کرلیے۔ ہندو کہتے ہیں کہ برہما ہے جس نے کائنات بنائی ہے، وِشنو ہے جو کائنات کو چلا رہا ہے اور شِو ہے جو بالآخر کائنات کو ختم کرے گا۔ یہودی بھی خدا اور مذہب کو مانتے ہیں مگر انہوں نے بھی سیدنا عزیرؑ کو خدا کا بیٹا بنا کر شرک کا ارتکاب کرلیا ہے۔ اس طرح روئے زمین پر صرف مسلمان ہیں جن کے پاس ’’خالص توحید‘‘ موجود ہے۔ چنانچہ اگر دنیا کو بالآکر ایک خدا کے تصور کی جانب لوٹنا ہے تو پوری انسانیت کے لیے صرف مسلمان ہی توحید تک پہنچنے کا ذریعہ بنیں گے۔ باقی دنیا کا حال یہ ہے کہ وہ تو خدا ہی کو نہیں مانتی۔ بدھ ازم میں خدا کا تصور بہت مبہم ہے۔ چینی اپنے روایتی مذہب تائو ازم اور کنفیوشزم کو عرصہ ہوا ترک کربیٹھے۔ بلاشبہ مسلمانوں کو رسول اکرمؐ سے بے پناہ عقیدت ہے مگر مسلمان انہیں صرف ’’خدا کا رسول‘‘ اور ’’خدا کا بندہ‘‘ ہی مانتے ہیں۔ مسلمان رسول اللہؐ سے کسی الوہیت کو وابستہ نہیں کرتے۔ اس کے باوجود کہ آپ کو معراج کے لیے طلب کیا گیا اور آپ خدا سے براہِ راست ہم کلام ہوئے۔ چونکہ مسلمان باقی دنیا سے مختلف ہیں اس لیے ان کا فکری دھارا بھی باقی دنیا سے مختلف ہے۔ لیکن مسلمان صرف الٰہیات یا ontology کے دائرے میں ہی باقی اقوام سے مختلف نہیں ان کا تصور انسان بھی کم از کم جدید مغرب سے یکسر مختلف ہے۔

مسلمانوں کے لیے انسان روح، نفس اور جسم کا مرکب ہے۔ مسلمانوں کے لیے روح ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔ البتہ نفس اور جسم موت سے ہمکنار ہوجاتے ہیں۔ اس کے برعکس جدید مغربی اقوام روح کے وجود کی قائل ہی نہیں ہیں۔ وہ انسان کو صرف مادی وجود سمجھتی ہیں۔ مغرب نے علم نفسیات میں بڑی ترقی کی ہے۔ فرائڈ، ژنگ اور ایڈلر کی نفسیات کا پوری دنیا میں چرچا ہے مگر مغرب کا علم نفسیات نفس کو جبلتوں کے ایک مجموعے کے سوا کچھ نہیں سمجھتا۔ اس کے برعکس مسلمانوں کا ’’تصورِ نفس‘‘ غیر معمولی ہے۔ ہمارے صوفیا نے نفس کے سات درجے بیان کیے ہیں۔ نفسِ امارہ، نفسِ لوامہ، نفسِ مطمئنہ، نفسِ ملہمہ، نفسِ راضیہ، نفسِ مرضیہ اور نفس مطلقہ۔ ہم اپنی کئی تحریروں میں نفس کے ان تصورات کے معنی بیان کرچکے اس لیے ہم یہاں نفس کے ان تصورات کی وضاحت نہیں کریں گے لیکن اتنا ضرور عرض کریں گے کہ مسلمانوں کا تصورِ نفس پورے مغرب کے نفسیاتی علم پر بھاری ہے۔

مسلمانوں کا فکری دھارا اس لیے بھی پوری دنیا بالخصوص مغربی دنیا سے مختلف ہے کہ مسلمانوں کا تصور علم بھی مغرب سے مختلف ہے۔ مسلمانوں میں گزشتہ صدیوں کے دوران سیکڑوں خامیاں در آئی ہیں مگر مسلمانوں کی ایک بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ ابھی تک علم وحی کو سب سے برتر اور حتمی علم سمجھتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ قرآن و حدیث ہی مسلمانوں کے لیے سرچشمہ ہدایت ہیں۔ اس کے برعکس مغرب کا مسئلہ یہ ہے کہ اس نے وحی کی روشنی سے محروم عقل کو اپنا رہنما بنایا ہوا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ اس عقل کا پیدا کردہ فلسفہ مغرب کا رہنما تھا اور ایک وقت یہ ہے کہ اس عقل کی پیدا کردہ سائنس مغرب کی رہنما ہے۔ اس سائنس کے علم کی دو بنیادیں ہیں۔ ’’سائنسی مشاہدہ‘‘ اور ’’سائنسی تجربہ‘‘ اب مسئلہ یہ ہے کہ سائنسی مشاہدے اور سائنسی تجربے سے نہ خدا کا وجود ثابت ہوتا ہے، نہ فرشتوں کا، نہ جنت دوزخ کا، نہ خیر کا نہ شر کا۔ چنانچہ مغرب خدا کا بھی منکر ہے، وحی کا بھی منکر ہے، فرشتوں کا بھی منکر ہے، جنت و دوزخ کا بھی منکر ہے۔ سوال یہ ہے کہ مسلمان ایسے مغرب کی تقلید کریں تو کیسے اور اس سے الگ فکری دھارا نہ بنائیں تو کیوں نہ بنائیں۔

یہ حقیقت بھی راز نہیں کہ مسلمانوں اور مغرب کا تصور تخلیق بھی ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ مسلمانوں کا تصورِ تخلیق یہ ہے کہ خدا نے کُن کہہ کر پوری کائنات کو خلق کیا۔ اس کے برعکس مغرب کا عقیدہ یہ ہے کہ کائنات کسی نے خلق نہیں کی۔ کائنات ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ موجود رہے گی۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ خدا نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور انسان کو انسان ہی پیدا کیا۔ اس کے برعکس جدید مغرب ڈارون کے تصور ارتقا کے تحت انسان کو بندر کی اولاد سمجھتا ہے۔ ان امتیازات کی وجہ سے بھی مسلمانوں کا فکری دھارا باقی دنیا بالخصوص جدید مغربی اقوام سے مختلف ہے۔

اسلام کے زیر اثر مسلمان معروضی اخلاق Objective Morality کے قائل ہیں۔ اس تصور کے تحت مذہب نے جو چیز حلال قرار دے دی وہ قیامت تک حلال ہے اور مذہب نے جس شے کو حرام کردیا وہ قیامت تک کے لیے حرام ہے۔ اس کے برعکس مغرب موضوعی اخلاق یا Subjective Morality کا قائل ہے۔ اس تصور کے تحت اخلاقی معیارات وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ مغرب میں عیسائی اخلاق کے تحت زنا حرام تھا مگر اب فریقین مرضی سے زنا کریں تو اس میں کوئی بری بات نہیں۔ یہاں تک کہ اب تو مغرب میں کروڑوں ہم جنس پرست جوڑے موجود ہیں اور مغرب ان کے تعلق کو ’’جائز‘‘ قرار دیتا ہے۔ مسلمانوں کے امتیازی تصور اخلاق نے بھی مسلمانوں کے فکری دھارے کو مختلف بتانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

جہاں تک خورشید ندیم کے اس نکتے کا تعلق ہے کہ مسلمان آج تک خلافت کے ادارے کے احیا کا خواب دیکھ رہے ہیں تو عرض ہے کہ مسلمان ایسا کسی ’’رومانس‘‘ کی وجہ سے نہیں کررہے ہیں بلکہ خلافت کے احیا کا خیال مسلمانوں کے مقدس متن یا Sacred Text کا حصہ ہے۔ خدا نے قرآن میں خود کہا ہے کہ وہ اپنے نور کا اتمام کرکے رہے گا چاہے یہ بات کافروں کو کتنی ہی ناگوار کیوں نہ محسوس ہو۔ جو لوگ قرآن پر نظر رکھتے ہیں ان کا خیال ہے کہ اس آیت ِ مبارکہ میں مسلمانوں کو اسلام کے عالمگیر غلبے کی بشارت دی گئی ہے۔ ہمیں حیرت ہے کہ خورشید ندیم کی نظر سے آج تک وہ حدیث نہیں گزری جس میں رسول اکرمؐ نے خلافت علیٰ منہاج النبوہ کے تجربے کی واپسی کی بشارت دی ہے۔ حدیث کے مطابق رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ میرا زمانہ رہے گا جب تک کہ اللہ کو منظور ہوگا۔ اس کے بعد خلافت راشدہ ہوگی اور اس کا زمانہ رہے گا جب تک اللہ کی مرضی ہوگی۔ اس کے بعد ملوکیت ہوگی اور اس کا عہد رہے گا جب تک اللہ چاہے گا۔ اس کے بعد کاٹ کھانے والی آمریت ہوگی اور اس کا عرصہ رہے گا۔ جب تک اللہ کی منشا ہوگی اور اس کے بعد دنیا ایک بار پھر خلافت علیٰ منہاج النبوہ کے تجربے کی جانب لوٹے گی۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان صدیوں سے خلافت کے احیا کے منتظر ہیں۔ خورشید ندیم کی اطلاع کے لیے عرض یہ ہے کہ ’’عہد زریں‘‘ کی واپسی کا خیال صرف مسلمانوں ہی میں موجود نہیں ہندوئوں کے مقدس Text کے مطابق بہترین زمانہ ست یُگ تھا۔ اس کے بعد ترتایُگ کا عہد تھا۔ اس کے بعد دوا پریُگ آیا اور آج کل ’’کل یُگ‘‘ چل رہا ہے لیکن دنیا ایک بار پھر بہترین زمانے یعنی ست یُگ کی جانب لوٹے گی۔ عیسائیوں میں یہ خیال موجود ہے کہ بہترین زمانہ سیدنا عیسیٰؑ کا تھا اور سیدنا عیسیٰؑ دوبارہ لوٹیں گے تو دنیا پھر بہترین زمانے میں داخل ہوگی۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کا بھی منکر ہے خدا اور مذہب ہے کہ مسلمان مسلمانوں کا مسلمانوں کے کہ مسلمانوں مسلمانوں کو ہوگی اور اس سے مختلف ہے اس کے برعکس باقی دنیا اس کے بعد انسان کو انہوں نے دنیا میں یہ ہے کہ مغرب کا کے احیا ہیں مگر کا تصور ہیں کہ خدا کا رہا ہے رہے گا کے تحت کے لیے ہے اور

پڑھیں:

مطالعہ کیوں اورکیسے کریں؟

انسانی زندگی کے ہر دور میں کتاب اور اس کے مطالعے کو ہمیشہ بلند مقام حاصل رہا ہے لیکن موجودہ دور میں مطالعے کا شوق اب خطرناک حد تک زوال پذیر ہے۔ طالب علموں نے صرف نصابی ضروریات کی تکمیل اور امتحانات پاس کرنے کی حد تک خود کو محدود کر لیا ہے وہ نصابی کتب کے علاوہ کچھ پڑھنے پر راضی نہیں، ایسے حالات میں ضروری ہو جاتا ہے کہ طالب علموں پر مطالعے کی اہمیت واضح کی جائے۔

ان پر واضح کیا جائے کہ انسان کے مزاج اور اس کی شخصیت کو متوازن رکھنے میں بہت سے عوامل کلیدی کردار ادا کرتے ہیں مگر سب سے بڑا اور فیصلہ کن کردار مطالعے کا ہوتا ہے۔ منظم مطالعہ انسانی فکر کو پختہ اور گفتگو کو پُر دلیل بنا دیتا ہے مطالعہ فکر اور نظر کو وسعت عطا کرتا ہے۔ اس سے خیالات میں بلندی اور سوچ میں معاملہ فہمی پیدا ہوتی ہے۔ اس طرح مطالعہ انسانی شخصیت کی تعمیر میں غیر معمولی کردار ادا کرتا ہے۔

مطالعے کے ضمن میں طلبا کو ایک مشکل پیش آتی ہے وہ یہ ہے کہ زندگی محدود ہے، علم لامحدود، اس لیے یہ ممکن نہیں کہ انسان اپنی زندگی میں سب کچھ پڑھ ڈالے۔ سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں طالب علم کیا راہ اختیار کرے۔

اس ضمن میں یاد رکھیں کہ کوئی علم بھی اپنی افادیت کے حوالے سے خالی نہیں مثلاً مذہب انسانی تخلیق کا راز بتاتا ہے اور انسان کو زندگی کا صحیح فلسفہ حیات دیتا ہے اور انسان کو فکری انتشار سے محفوظ کرکے اس کی زندگی کو معنی عطا کرتا ہے۔ اس لیے مذہب کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے اس کی اہمیت سے کوئی ذی شعور شخص انکار نہیں کر سکتا۔

تاریخ کا مطالعہ بھی اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے، تاریخ واقعات کا مجموعہ ہوتی ہے۔ واقعات کے رونما ہونے میں سیاسی، معاشی، سماجی اور فکری اسباب پوشیدہ ہوتے ہیں اسی کو سمجھنے کا نام تاریخ ہے اس کے مطالعے سے ہمیں تاریخی شعور حاصل ہوتا ہے اس شعور کی بدولت ہم بحرانوں کا تجزیہ کرکے اس کی اصل وجوہات کی تہہ تک پہنچنے کے قابل ہو جاتے ہیں اور اس کے حل کی صلاحیت حاصل کر لیتے ہیں بشرط یہ کہ ہم نے تاریخ کا مطالعہ تعصب کی عینک اتار کر اور آزادی فکر کے ساتھ مطالعہ کیا ہو۔

نفسیات میں انسان کی ذہنی کیفیت، طرز عمل اور کردار کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس کی مدد سے ہمیں فرد اور اس کے طرز عمل کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے جس طرح نفسیات میں فرد کے انفرادی طرز عمل کا مطالعہ کیا جاتا ہے بالکل اسی طرح عمرانیات (سماجیات) میں افراد یعنی معاشرے اور سماج کے اجتماعی طرز عمل اور رویے کا مطالعہ کیا جاتا ہے معاشرے یا سماج کو کس طرح اصول اور قوانین کے تحت ضابطے میں لایا جاتا ہے اس مطالعے کا نام سیاست ہے۔ نفسیات، عمرانیات اور سیاست کے مطالعے کے نتیجے میں ہمیں سماجی اور سیاسی شعور حاصل ہوتا ہے۔ اس لیے ان مضامین کے مطالعے کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔

فلسفہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہمیں کس طرح سوچنا چاہیے ادب احساس کی قوت کو جگاتا ہے۔ یہ مذہب کی طرح انسان سے برائے راست مخاطب نہیں ہوتا بلکہ غیر محسوس انداز میں آنکھوں اور کانوں کے راستے آپ کے دل و دماغ میں اتر کر آپ کے زاویہ نگاہ کو بدل دیتا ہے اس سے آپ کو زندگی گزارنے کا سلیقہ حاصل ہوتا ہے۔

فنون لطیفہ مثلاً مجسمہ سازی، رقص، موسیقی اور مصوری وغیرہ ہمارے خیالات اور جذبات کو خوبصورت بناتے ہیں۔ یہ خوب صورت خیالات اور جذبات ہماری خوبصورت زندگی کے ضامن ہوتے ہیں، اس لیے ادب اور فنون لطیفہ کا مطالعہ اپنی جگہ ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔

اب سوال یہ ہے ہر علم اپنی جگہ اپنی ایک افادیت رکھتا ہے کسی کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا تو ایسی صورت حال میں کس علم کو مطالعے کے حوالے سے خصوصی حیثیت دی جائے۔میری ذاتی رائے میں ہر موضوع پر تعارفی کتب کے طور پر واجبی معلومات لازمی حاصل کر لیں تاکہ زندگی کے تمام پہلوؤں سے ضروری آگاہی حاصل ہو جائے جہاں تک خصوصی مطالعے کا تعلق ہے اس ضمن میں اسی علم کا انتخاب کیا جائے جس میں آپ کا رجحان اور دلچسپی ہو۔ کتابوں کے انتخاب میں ہمیشہ احتیاط کی ضرورت پڑتی ہے۔ خام ذہن کے لیے بغیر سوچے سمجھے ہر طرح کی کتابوں کا مطالعہ فائدے کے بجائے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ اس حوالے سے چند باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔

اکثر طالب علم مطالعہ کرنے کے لیے صحیح کتابوں کا انتخاب نہیں کرتے وہ ابتدا میں دقیق اور خشک موضوعات چنتے ہیں نتیجے میں وہ ابتدا میں ہی عدم دلچسپی کا شکار ہو کر مطالعے کے شوق سے دست بردار ہو جاتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ مطالعے کے وقت کتب کی درجہ بندی کر لی جائے۔ ابتدا میں ابتدائی کتب کا مطالعہ کریں اوپر درجے کی وہ کتابیں جو ایک مدت بعد سمجھ میں آسکتی ہیں انھیں ابتدائی کتب کے مطالعے کے بعد زیر مطالعہ لیا جائے۔

ہر انسان کا کسی بھی چیز کو دیکھنے کا اپنا ایک زاویہ نگاہ ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں بیشتر لکھنے والے جب کسی موضوعات بالخصوص کسی سیاسی موضوع پر لکھتے ہیں۔تو عموماً تصویر کا ایک رخ پیش کرتے ہیں تصویر کا دوسرا رخ نظرانداز کر دیتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ تصویر کا دوسرا رخ پیش کرنے سے ان کا موقف کمزور ہو جائے گا۔

یہ بات درست نہیں ہے میری ذاتی رائے میں تصویر کا دوسرا رخ پیش کرنے سے تحریر نہ صرف دلکش ہو جاتی ہے بلکہ پراثر بھی اس لیے پڑھنے والوں کو ایسی کتابوں کا انتخاب کرنا چاہیے جس کے لکھنے والے متوازن سوچ کے حامل ہوں۔ انتہا پسندانہ تحریر کے مطالعے کے نتیجے میں انسان نہ صرف تنگ نظر ہو جاتا ہے بلکہ مطالعے کی افادیت سے بھی محروم ہو جاتا ہے۔ لسانی تعصبات اور فرقہ واریت پر مبنی کتب کے مطالعے سے گریز ضروری ہے ایسی کتب کے مطالعے سے انسان میں منفی جذبات جنم لیتے ہیں اور انسان ایسی چمگادڑ بن جاتا ہے جسے روشنی میں بھی اندھیرا دکھائی دیتا ہے۔

انسان کی ترجیحات میں اس کے معاشی سماجی اور مذہبی فرائض کی ادائیگی کو اولین حیثیت حاصل ہے اس لیے مطالعے کے لیے اپنا مناسب وقت مقرر کریں اس میں اتنا غرق نہ ہوں کہ زندگی کے باقی امور متاثر ہوں ان سب میں توازن ضروری ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کانگریس کسی مسلمان کو پارٹی کا صدر کیوں نہیں بناتی، نریندر مودی کی اپوزیشن پر تنقید
  • نیا وقف قانون سیاسی ہتھیار ہے مسلمانوں کیلئے ہرگز موزوں نہیں ہے، مولانا محمود مدنی
  • عوام ریلیف سے محروم کیوں؟
  • وقف قانون میں 44 خامیاں ہیں حکومت کی منشا وقف املاک پر قبضہ کرنا ہے، مولانا فیصل ولی رحمانی
  • قومیں کیوں ناکام ہوتی ہیں؟
  • امریکہ کی جانب سے مغرب سے شمال یمن تک نئے فضائی حملے
  • مطالعہ کیوں اورکیسے کریں؟
  • پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں واٹس ایپ سروس متاثر
  • پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں صارفین کو واٹس ایپ کے استعمال میں مشکلات کا سامنا
  • واٹس ایپ کی سروس ڈاؤن، پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں صارفین کو مشکلات کا سامنا