پیکا ایکٹ کالا قانون ہے کسی صورت قبول نہیں،حامد میاں شیخ
اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT
حیدرآباد:ایچ یو جے کے تحت پیکا ایکٹ کےخلاف دوسرے روز بھی پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا جارہا ہے
حیدرآباد (اسٹاف رپورٹر ) پی ایف یو جے کے مرکزی صدر رانا محمد عظیم اور سیکرٹری جنرل شکیل احمد کی کال پر پیکاایکٹ کےخلاف ملک بھر میں دو روزہ احتجاج کے سلسلے میں ایچ یو جے کی جانب سے حیدرآباد پریس کلب کے سامنے دوسرےے ویز بھیاحتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں پی ایف یوجے کے نائب صدرجنیدخانزادہ، ایچ یو جے کے صدرحامد شیخ سیکرٹری علی حمزہ زیدی، سیکرٹری پریس کلب حمید الرحمان محمد حسین خان ،آفتاب میمن ،ہارون آرائیں، ناصر حسن خان، فیروز ببر، محمد حسن ،اخلاق احمد ،عبدالخالق ،ریاست علی ناغڑ، تصور راجپوت، چودھری وقاص، ندیم خان، ارشد انصاری ناظم سعلی، عباس علی، محمد نسیم ،عمران مشتاق، قسیم قریشی ،طیب علی سمیت صحافیوں نے بڑی تعدادمیں شرکت کی۔ مظاہرے کے شرکاءنے ہاتھوں میں احتجاجی بینر اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر پیکا ایکٹ کے خلاف نعرے درج تھے اور شرکاءشدید نعرے بازی کررہے تھے اس موقع پر
ایچ یو جے کے صدر حامد میاں شیخ نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ حکومت کی جانب سے عجلت میں پاس کیے گئے پیکا ایکٹ کو ملک بھر کے صحافی مسترد کرچکے ہیں اور اس کالے قانون کو ہر گز تسلیم نہیں کیا جائیگا ۔حامد شیخ نے کہاکہ چیف جسٹس آف سپریم کورٹ عجلت میں منظور کیے گئے پیکا ایکٹ کے خلاف ازخود نوٹس لیکر ملک بھر کے صحافیوں میں پائی جانے والی بے چینی کا خاتمہ کریں ۔ انہوں نے کہاکہ پیکا ایکٹ جیسے کالے قانون کے خلاف صحافی برادری کی جدوجہد وقت گزرنے کے ساتھ تیز سے تیز تر ہوتی چلی جائیگی اور صحافی اس کالے قانون کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے حکمران ہوش کے ےناخن لیں ایچ یو جے کے سیکرٹری علی حمزہ زیدی نے کہاکہ ایچ یو جے پی ایف یو جے کے ساتھ پیکا ایکٹ کے خاتمے تک جدوجہد جاری رکھے گی حکومت اس جانب توجہ دے اور پیکا ایکٹ کے خاتمے کا اعلان کرے مظاہرے سے ناصر حسن خان محمد حسن اور فیروز ببر نے بھی خطاب کیا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پیکا ایکٹ کے ایچ یو جے کے
پڑھیں:
پیکا قانون کے خلاف آئینی درخواست سندھ ہائیکورٹ میں دائر
پیکا قانون کے خلاف آئینی درخواست سندھ ہائیکورٹ میں دائر کر دی گئی،درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ یہ قانون آزادی اظہار اور آزادی رائے پر حملہ ہے۔ درخواست میں کہا گیا کہ پیکا قانون کے تحت صحافیوں کو اپنے خبر کے ذرائع بتانے ہوں گے، جو کسی صورت قابل قبول نہیں۔درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ پیکا قانون آئین کے آرٹیکل 8، 9، 10 اے، 18، 19 اور 19 اے کی خلاف ورزی ہے جبکہ اسلامی قوانین اور عالمی قانون آئی سی سی پی آر کے آرٹیکل 19 کے بھی منافی ہے، جو صحافیوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔درخواست گزار نے موقف دیا کہ پاکستان نے کائرو ڈیلگیشن ہیومن رائٹس پر بھی دستخط کر رکھے ہیں، جو آزادی اظہار کا تحفظ فراہم کرتا ہے۔درخواست میں کہا گیا کہ پیکا قانون کے تحت بننے والے ٹربیونل کا چیئرمین اور ممبران انتظامیہ کے زیرِ کنٹرول ہوں گے، جس کے باعث اس کے فیصلے جانبدارانہ ہوں گے۔درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی کہ پیکا قانون کو غیر آئینی قرار دے کر کالعدم قرار دیا جائے۔