Express News:
2025-02-23@04:01:26 GMT

دہلی کے انتخابات میں بی جے پی کی جیت

اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT

بھارت کے ریاستی انتخابات دہلی میںبی جے پی کے مقابلے میںمقبول مڈل کلاس جماعت عام آدمی پارٹی کی انتخابی شکست کا کسی کو بھی یہ یقین نہیں تھا ۔کیونکہ عام آدمی پارٹی نے دہلی کی سیاست میں عام اور غریب طبقہ کو بنیاد بناکر جو بنیادی نوعیت کی لوگوں کو سہولتیں دی، اس کے باوجود وہ کیونکر ہارے اس پر ان کے حمایتی ووٹرز پریشان ہیں۔

اس بار دہلی کے جو حالیہ انتخابات ہوئے عام آدمی پارٹی کل 70نشستوں میں سے محض22جب کہ بی جے پی کو 48نشستوں پر کامیابی ملی،جب کہ پچھلے انتخابات کے جو نتائج تھے اس میں عام آدمی پارٹی کو 70میں سے 62نشستوں پر کامیابی ملی تھی۔جب کہ حالیہ دہلی کے انتخابات میں کانگریس کوئی بھی نشست حاصل نہیں کرسکی ہے۔دلچسپ بات حالیہ انتخابات میں عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروندکیچروال بھی بی جے پی کے ایک عام سیاسی ورکر کے ہاتھوں شکست کھاگئے۔

27 برس کے بعد بی جے پی نے عام آدمی پارٹی کو دہلی میں شکست دی ہے جو یقینی طور پر ایک بڑی سیاسی جیت کے طور پر سمجھا جا رہا ہے۔ کیونکہ عام آدمی پارٹی نے دہلی کی سیاست میں نریندر مودی اور بی جے پی کو نہ صرف زبردست چیلنج کیا بلکہ ہر سیاسی محاذ پر ان کو سیاسی پسپائی پر مجبور کیا ہوا تھا۔

عام آدمی پارٹی نے جہاں دہلی کی سیاست میں اپنی طاقت منوائی وہیں پنجاب میں بھی اسے برتری حاصل ہوئی تھی۔اس بار ابتدا میں یہی دیکھنے کو ملا تھا کہ بی جے پی نے عام آدمی پارٹی کے مقابلے میں اپنی انتخابی مہم میں بہت زیادہ شدت پیدا کی تھی۔

لیکن تمام سیاسی پنڈتوں کا خیال تھا کہ جس طرح کی مقبولیت عام آدمی پارٹی کو حاصل ہے اور جس طرح سے اس نے عوامی سہولیات کی فراہمی عملی طور پر دہلی کے عوام کو کو دی ہیں اس سے ان کو ہرانا اتنا آسان کام نہیں ہوگا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہلی کے انتخابات میں عام آدمی پارٹی کو بی جے پی کے ہاتھوں شکست کیونکر ہوئی ہے۔اس کی ایک وجہ تو یہ ہوسکتی ہے کہ عام آدمی پارٹی انتخابی معرکے میں پہلے ہی سے بہت زیادہ پر اعتماد تھی اور اس کا خیال تھا کہ ہم آسانی سے بی جے پی کو شکست دے دیں گے۔

اس کی ایک شکل ہمیں عام آدمی پارٹی کی انتخابی مہم میں دیکھنے کو ملی جہاں ان کے مقابلے میں بی جے پی کی انتخابی مہم میں زیادہ شدت اورکافی زیادہ پرجوشیت پائی جاتی تھی۔اگرچہ دہلی کے انتخابات میں کانگریس نے بھی حصہ لیا اول وہ کوئی نشست نہیں جیت سکے اور دوئم انھوں نے تن تنہا انتخابات میں حصہ لیا۔

اگر عام آدمی پارٹی اور کانگریس مل کر انتخابات میں حصہ لیتے ہیں تو شاید انتخابی نتائج موجودہ انتخابی نتائج سے کچھ مختلف بھی ہو سکتے تھے۔یہ بات سمجھنی ہوگی کہ دہلی کی آبادی عمومی طور پر مڈل کلاس افراد پر مشتمل ہے۔اسی آبادی میں عام آدمی پارٹی نے بی جے پی سمیت دیگر جماعتوں پر مقبولیت حاصل کی تھی۔

لیکن اب اس مڈل کلاس آبادی نے کیونکر عام آدمی پارٹی کو مسترد کر کے بی جے پی پر اعتماد کیا ہے اس کو زیادہ سنجیدگی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عام آدمی پارٹی اور کانگریس میں انتخابات سے قبل جو انتخابی اتحاد نہیں ہو سکا اس کی بڑی ذمے داری عام آدمی پارٹی کے سربراہ پر عائد ہوتی ہے جو تن تنہا انتخابی میدان میں سرخرو ہونا چاہتے تھے۔

عام آدمی پارٹی کی بڑی مقبولیت کی وجہ کرپشن کا خاتمہ، اچھی حکمرانی اور عام آدمی تک وسائل کی فراہمی کے نعرے تھے۔اسی بنیاد پر عام آدمی پارٹی نے دہلی میں نہ صرف مقبولیت حاصل کی بلکہ واقعی کچھ کام بھی کر کے دکھایا اور دہلی کی مڈل کلاس آبادی کو لگا کہ عام آدمی ہی ان کی جماعت ہے۔عام آدمی پارٹی نے تعلیم ،صحت اور علاج کے حوالے سے بہت کچھ ایسا کیا جس کی ماضی میں کوئی مثال دہلی کی سیاست میں نہیں ملتی تھی۔

عام آدمی پارٹی کی سیاست پر تجزیہ کرنے والے یہ اعتراف بھی کرتے ہیں کہ اس حکومت کا پہلے دور کے مقابلے میں دوسرا دور زیادہ بہتر نہیں تھا اور دوسرے دور میں بہت سے معاملات ایسے ہوئے جس سے ووٹر ناراض ہوئے تھے۔

حالیہ انتخابات میں عام آدمی پارٹی کی شکست کی وجہ بھی عام آدمی پارٹی کا دوٹرز تھا ۔ان ووٹروں کے بقول پارٹی نے وہ کچھ نہیں کیا جو ان کو کرنا چاہیے تھا۔یعنی عام آدمی کے اپنے ووٹرز خود بھی پارٹی کی شکست کا سبب بنے ہیں۔اس لیے دہلی کے ان انتخابات میں عام آدمی پارٹی کی شکست کی کی بڑی وجوہات میں ان کی داخلی وجوہات زیادہ مضبوط نظر آتی ہیں۔

ایسے لگتا ہے کہ عام آدمی پارٹی کے داخلی معاملات میں بہت سی ایسی خرابیاں جنم لے چکی تھی جو ان کی بڑی شکست کی وجہ بنی ہے۔اگرچہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ مرکز میں بی جے پی کی حکومت ہے تو یقینی طور پر انھوں نے ریاستی وسائل بھی دہلی کے انتخابات میں استعمال کیے ہوں گے لیکن یہ ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے اور اس کے باوجود دہلی کے عوام عام آدمی پارٹی کوہی ووٹ دیتے رہے ہیں۔

بھارت میں مودی مخالف سیاستدان دہلی کے ریاستی انتخابات میں بی جے پی کی شکست پر بہت زیادہ خوش نہیں ہیں۔ان کو لگتا ہے کہ دہلی کے ریاستی انتخابات میں بی جے پی کی جیت نے مستقبل کی سیاست میں بی جے پی کو مضبوط اور ان کو کمزور کیا ہے۔ہریانہ اور مہاراشٹرا کے ریاستی انتخابات 2024 میں بی جے پی کو کامیابی ملی تھی اس پر بھی ان کے سیاسی مخالفین کو بہت زیادہ حیرت ہوئی تھی اور اب دہلی کے ریاستی انتخابات میں بی جے پی کی جیت میں ان کو اور زیادہ حیران و پریشان کر دیا ہے۔

بی جے پی کے خلاف ان کے سیاسی مخالفین نے عام انتخابات کے انتخابی معرکے میں ایک وسیع تر اتحاد بھی تشکیل دیا تھا۔لیکن ہمیں ان ریاستی انتخابات کے تناظر میں ہمیں بی جے پی کے خلاف بننے والے اس بڑے اتحاد کی کوئی مشترکہ حکمت عملی دیکھنے کو نہیں مل رہی۔ایسے لگتا ہے کہ بی جے پی کے خلاف بننے والا یہ اتحاد خود اپنے داخلی تضادات کا شکار ہے اور اس کا فائدہ بی جے پی کو ہورہاہے۔

اسی برس اکتوبر میں بہار کے ریاستی انتخابات ہیں اور اگلے برس مغربی بنگال کے انتخابات بھی ہیں۔ اپوزیشن پارٹیوں کو یہ خدشہ ہے کہ اگر بی جے پی ان ریاستی انتخابات میں بھی کامیابی حاصل کر لیتی ہے تو اس سے ان کی مستقبل کی سیاست پر سیاسی گرفت اور زیادہ مضبوط ہو جائے گی۔

نریندر مودی کی کوشش ہے کہ وہ جہاں جہاں ریاستی انتخابات ہو رہے ہیں وہاں بی جے پی کی کامیابی کو یقینی بنائیں۔کیونکہ ان ریاستی انتخابات کی کامیابیاں ہی ان کو اگلے عام انتخابات میں ایک بڑی سیاسی طاقت کے طور پر پیش کر سکتے ہیں۔

ویسے بھی نریندر مودی کا سیاسی جادو بدستور موجود ہے اور جو لوگ یہ رائے دے رہے تھے کہ جادو ٹوٹ چکا ہے وہ تین ریاستوں کے انتخابات کے نتائج سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ نریندر مودی کی سیاست آج بھی بھارت کی سیاست میں ایک مضبوط اثر رکھتی ہے۔

نریندر مودی اپنے سیاسی مخالفین کے مقابلے میں ون پارٹی سسٹم بنانا چاہتے ہیں اگرچہ یہ اتنا آسان کام نہیں ہے لیکن یہ ان کی خواہش ہے اور اگر ان کے سیاسی مخالفین میں داخلی تضادات بدستور قائم رہے تو پھر یہ کام نریندر مودی آسانی سے کر سکتے ہیں۔

بی جے پی کی ایک بڑی کامیابی یہ ہے کہ اس نے اپنے خلاف اٹھنے والے ایک بہت بڑے سیاسی ماڈل یعنی عام آدمی پارٹی کو انتخابی معرکے میں شکست دی ہے۔اس عام آدمی پارٹی نے بی جے پی کی سیاست کو نہ صرف چیلنج کیا تھا بلکہ ایک متبادل سیاسی نظام بھی پیش کیا تھا۔

دلی کے ان انتخابات میں عام آدمی پارٹی کی شکست سے ان کی سیاست ختم نہیں ہو گی بلکہ ان کا کردار اور زیادہ بڑھ گیا ہے۔عام آدمی پارٹی کو اپنی داخلی سیاست کا بے لاک تجزیہ کرنا ہوگا اور ان وجوہات کو سامنے لانا ہوگا جو ان کی شکست کی وجہ بنی ہے۔

عام آدمی پارٹی کو ایک نئے سرے سے ایک نئی منظم جدوجہد اور ایک مضبوط اپوزیشن کے ساتھ خود کو اپنی نئی سیاست کے طور پر پیش کرنا ہوگا۔اسی طرح عام آدمی پارٹی کو چاہیے کہ وہ بی جے پی کے سیاسی مخالفین کے ساتھ اپنے سیاسی اتحاد کو موثر بنائیں اور جہاں جہاں مل کر بی جے پی کو مشکل وقت دیا جا سکتا ہے وہاں عام آدمی پارٹی کو بھی مودی کے مخالفین کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: انتخابات میں عام آدمی پارٹی انتخابات میں بی جے پی کی میں عام آدمی پارٹی کی دہلی کے انتخابات میں ریاستی انتخابات میں کے ریاستی انتخابات عام آدمی پارٹی کو عام آدمی پارٹی کے کہ عام آدمی پارٹی دہلی کی سیاست میں عام آدمی پارٹی نے کے سیاسی مخالفین کے مقابلے میں پارٹی کی شکست انتخابات کے بی جے پی کے بی جے پی کو دہلی کے ان بہت زیادہ کا خیال شکست کی ہے اور کی بڑی

پڑھیں:

عمران خان فوج کو اپنی پارٹی کا ذیلی ادارہ بنانا چاہتے ہیں: وزیر دفاع

اسلام آباد: وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ اقتدار سے محرومی کے بعد پی ٹی آئی اپنے زخم چاٹ رہی ہے، عمران خان فوج کو پی ٹی آئی کا ذیلی ادارہ بنانا چاہتے ہیں۔ 

سرکاری ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ ایک طرف بانی پی ٹی آئی عمران خان جیل میں بیٹھ کر خط لکھ رہے ہیں، پاؤں پکڑ رہے ہیں اور دوسری طرف انہوں نے کارروائیاں شروع کی ہوئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر برطانیہ کے اہم دورے پر ہیں، آرمی چیف کے دورہ برطانیہ کے خلاف پی ٹی آئی تنقید اور غلط باتیں کررہی ہے، پاکستان کے برطانیہ کے ساتھ اہم سفارتی،عسکری اور معاشی تعلقات ہیں، دونوں ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں تعلقات مثالی ہیں۔ 

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کا مکروہ چہرہ سامنے آگیا ہے، تحریک انصاف والوں کی سیاست صرف ایک شخص کے لیے ہے، انہیں ملک کی کوئی فکر نہیں، پی ٹی آئی کا رویہ ہر گز سیاسی نہیں ہے، یہ پروپیگنڈے کے ذریعے معیشت کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ 

خواجہ آصف نے مزید کہا کہ پاکستان کے عوام باشعور ہیں اور سب کچھ دیکھ رہے ہیں، ہم نے سیاسی انتقام کا سامنا کیا لیکن ملکی وقار کےخلاف کوئی بات نہیں کی، الحمد للہ ملک استحکام کی راہ پر گامزن ہے، پاکستان کی معیشت سنبھل رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان فیض حمید کو آرمی چیف بنانا چاہتے تھے جس میں انہیں ناکامی ہوئی جس کے نتیجے میں یہ اکثریت کھو بیٹھے اور ان سے اقتدار چھن گیا، مذموم مقاصد کیلئے 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات رونماکیےگئے، قومی املاک پرحملے اور شہداکی یادگاروں کی بے حرمتی کے واقعات ایک حقیقت ہیں۔

وزیر دفاع نے کہا کہ انتشار کی سیاست ہمیشہ کے لیے دفن ہوجائے گی، دنیا میں کسی ملک میں سیاسی جماعتوں کا یہ وتیرہ نہیں ہے جو پی ٹی آئی نے اپنایا ہوا ہے، یہ کسی چیز کے ساتھ مخلص نہیں ہیں نہ ان کی کوئی کمٹمنٹ ہے۔

متعلقہ مضامین

  • جرمن انتخابات: انتخابی مہم میں سیاسی جماعتوں کی خارجہ پالیسی
  • عمران خان فوج کو اپنی پارٹی کا ذیلی ادارہ بنانا چاہتے ہیں: وزیر دفاع
  • جرمن انتخابات: سرکردہ سیاست دانوں کے درمیان آخری مباحثہ
  • نئی دہلی میں 26 سال بعد بی جے پی کی حکومت بن گئی؛ خاتون وزیر اعلیٰ نے حلف اُٹھالیا
  • ریکھا گپتا نے آج دہلی کی وزیراعلٰی کے طور پر حلف لیا
  • بھارتیہ جنتا پارٹی کی ریکھا گپتا دہلی کیلئے وزیرِ اعلی نامزد
  • جرمنی کے انتخابات اور تبدیلی؟
  • بی جے پی کی ریکھا گپتا دہلی کیلئے وزیرِ اعلیٰ نامزد
  • انتہا پسند آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والی پہلی خاتون ریکھا گپتا دہلی کی وزیراعلیٰ نامزد