ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنیوالوں کیخلاف کریک ڈاؤن وسیع تر عوامی مفاد کا حصہ ہے، شرجیل میمن
اشاعت کی تاریخ: 21st, February 2025 GMT
سینئر وزیر نے کہا کہ شہریوں کی جانوں کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے محکمہ ٹرانسپورٹ غیر معیاری گاڑیوں اور لاپرواہ ڈرائیوروں کے خلاف سخت کارروائی جاری رکھے گا، کارروائیاں باقاعدگی سے کی جائیں گی اور خلاف ورزی کرنے والے ٹریفک قوانین کی پاسداری کریں ورنہ سخت نتائج بھگتنا ہوں گے۔ اسلام ٹائمز۔ سینئر وزیر شرجیل انعام میمن نے کہا کہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کریک ڈان وسیع تر عوامی مفاد کا حصہ ہے۔ سینئر وزیر شرجیل انعام میمن کی ہدایات پر محکمہ ٹرانسپورٹ کا ان فٹ کمرشل گاڑیوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری، جس کے نتیجے میں 53 گاڑیاں تحویل میں لے لی گئیں، جبکہ 15 ڈرائیور گرفتار کر لیے گئے۔ مجموعی طور پر 1,115 گاڑیوں کی جانچ کی گئی، 565 کو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر چالان کردیا گیا۔
اس کے علاوہ سڑک پر چلنے کے قابل نہ ہونے کی وجہ سے سات کمرشل گاڑیوں کے فٹنس سرٹیفکیٹس منسوخ کر دیئے گئے۔ لاپرواہی اور غفلت برتنے والی ڈرائیونگ کرنے والوں کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 279 کے تحت 17 ایف آئی آر درج، جبکہ ہیوی ٹریفک پر عائد وقت کی پابندی کی خلاف ورزی پر دفعہ 188 کے تحت چھ مقدمات درج کر لیے گئے۔ موٹر وہیکل آرڈیننس کی دفعات 99 اور 113 کے تحت 15 ڈرائیوروں کو لاپرواہی سے ڈرائیونگ کرنے پر گرفتار کیا گیا۔
شرجیل انعام میمن نے اس حوالے سے کہا کہ کریک ڈاؤن کا مقصد سڑکوں پر نظم و ضبط قائم رکھنا اور لاپرواہی کے باعث ہونے والے حادثات کو روکنا ہے۔ شرجیل انعام میمن نے مزید یہ بھی کہا کہ شہریوں کی جانوں کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے محکمہ ٹرانسپورٹ غیر معیاری گاڑیوں اور لاپرواہ ڈرائیوروں کے خلاف سخت کارروائی جاری رکھے گا، کارروائیاں باقاعدگی سے کی جائیں گی اور خلاف ورزی کرنے والے ٹریفک قوانین کی پاسداری کریں ورنہ سخت نتائج بھگتنا ہوں گے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: شرجیل انعام میمن ٹریفک قوانین کی کی خلاف ورزی کے خلاف کہا کہ
پڑھیں:
جموں وکشمیر میں مولانا مودودی کی تصانیف کے خلاف کریک ڈاؤن
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 فروری 2025ء) بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پولیس نے کتابوں کی درجنوں دکانوں پر چھاپے مارتے ہوئے ایک اسلامی اسکالر کی کتابوں کی سینکڑوں کاپیاں قبضے میں لے لیں، جس پر مسلم رہنماؤں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ پولیس نے کہا کہ یہ تلاشیاں ''ایک کالعدم تنظیم کے نظریے کو فروغ دینے والے لٹریچر کی خفیہ فروخت اور تقسیم کے حوالے سے معتبر انٹیلی جنس معلومات‘‘ پر مبنی تھیں۔
افسران نے مصنف کا نام نہیں بتایا لیکن اسٹور مالکان نے کہا کہ انہوں نے جماعت اسلامی کے بانی ابوالاعلیٰ مودودی کا لٹریچر ضبط کیا۔ 1947ء میں برطانوی راج سے آزادی کے بعد سے کشمیر بھارت اور پاکستان کے مابین تقسیم ہے اور یہ دونوں ممالک اس ہمالیائی علاقے کی مکمل ملکیت کے دعویدار ہیں۔
(جاری ہے)
کشمیر کی آزادی یا اس کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا مطالبہ کرنے والے باغی گروپ کئی دہائیوں سے بھارتی افواج سے لڑ رہے ہیں جبکہ اس تنازع میں دسیوں ہزار افراد مارے جا چکے ہیں۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت نے سن 2019 میں جماعت اسلامی کی کشمیر شاخ کو ''غیر قانونی انجمن‘‘کے طور پر کالعدم قرار دے دیا تھا۔ نئی دہلی نے گزشتہ سال اس پابندی کی تجدید کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ اقدام ''قوم کی سلامتی، سالمیت اور خودمختاری کے خلاف سرگرمیوں‘‘ کی وجہ سے اٹھایا گیا تھا۔سادہ لباس میں ملبوس اہلکاروں نے ہفتہ کو مرکزی شہر سری نگر میں چھاپے مارنے شروع کیے، اس سے پہلے کہ مسلم اکثریتی علاقے کے دیگر قصبوں میں کتابیں ضبط کی جائیں۔
سری نگر میں ایک بک شاپ کے مالک نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا،''پولیس والے آئے اور ابوالاعلیٰ مودودی کی تصنیف کردہ کتابوں کی تمام کاپیاں یہ کہہ کر لے گئے کہ ان پر پابندی ہے۔‘‘ پولیس نے ایک بیان میں کہا،''یہ کتابیں قانونی ضابطوں کی خلاف ورزی کرتی ہوئی پائی گئیں اور ایسے مواد کے قبضے میں پائے جانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جا رہی ہے۔‘‘پولیس کا مزید کہنا تھا کہ یہ تلاشیاں ''جماعت اسلامی سے منسلک ممنوعہ لٹریچر کی گردش کو روکنے کے لیے کی گئیں۔‘‘ چھاپوں سے جماعت اسلامی کے حامیوں میں غصہ پھیل گیا۔ ایک کشمیری شمیم احمد ٹھاکر نے کہا کہ ضبط شدہ کتابیں اچھی اخلاقی اقدار اور ذمہ دار شہریت کو فروغ دیتی ہیں۔
کشمیر کے مرکزی عالم دین اور حق خودارادیت کی وکالت کرنے والے ممتاز رہنما میر واعظ عمر فاروق نے پولیس کی کارروائی کی مذمت کی۔
فاروق نے ایک بیان میں کہا، ''اسلامی لٹریچر کے خلاف کریک ڈاؤن کرنا اور انہیں کتابوں کی دکانوں سے ضبط کرنا مضحکہ خیز ہے۔‘‘ یہ لٹریچر آن لائن دستیاب تھا۔انہوں نے مزید کہا، '' ورچوئل ہائی ویز پر تمام معلومات تک رسائی کے دور میں کتابوں کو ضبط کر کے پولیسنگ کا سوچنا مضحکہ خیز ہے۔‘‘ ناقدین اور کشمیر کے بہت سے باشندوں کا کہنا ہے کہ مودی کی حکومت نے 2019 میں کشمیر کی آئینی طور پر دی گئی جزوی خودمختاری کو ختم کر کے نئی دہلی کی براہ راست حکمرانی نافذ کرنے کے بعد شہری آزادیوں کو بڑی حد تک محدود کر دیا۔
ش ر⁄ ا ا (اے ایف پی)