رضی احمد رضوی؛ پاکستان کے بڑے براڈ کاسٹر جنہوں نے امریکہ میں بھی نام بنایا
اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT
"عمیر صاحب، ہم کراچی میں ہیں۔ پیر کو دن 11 بجے چلے آئیے۔ پھر گپ لگائیں گے۔”
رضی صاحب کا فون پر حکم تھا۔ میں نے سوال کیا کہ کب پہنچے؟ انہوں نے بتایا ایک مہینہ ہونے کو آ رہا ہے اور دو دن بعد اسلام آباد روانگی ہے۔ میں نے مصنوعی ناراضی کا اظہار کیا کہ اتنی دیر سے کیوں بتا رہے ہیں۔ کہنے لگے کہ بس آتے ہی بیمار پڑ گیا تھا۔
وقتِ مقررہ پر ہمارے کولیگ تنزیل اور میں ان سے ملنے پہنچ گئے۔ وہ اپنے بھتیجے کے ہاں مقیم تھے۔ رضی صاحب نے صوفے سے اٹھ کر گلے لگایا۔ دیکھنے میں کم زور تو لگے لیکن یہ گمان نہیں تھا کہ اس ملاقات کے محض 15 دن بعد ان کے دنیا سے رخصت ہونے کی خبر ملے گی۔
بہت دیر گپ شپ ہوئی۔ زیادہ تر وقت کراچی کی ‘بربادی’ پر تاسف کا اظہار اور پرانے کراچی کو یاد کرتے رہے۔ ملازم نے انہیں آ کر اطلاع دی کہ دوسرے مہمان انتظار کر رہے ہیں۔ لیکن انہوں نے نظر انداز کر دیا اور باتوں میں لگے رہے۔ کہنے لگے اسلام آباد میں بھی ایک ماہ قیام ہے لیکن جانے کا بالکل دل نہیں چاہ رہا۔ اب گھر یاد آ رہا ہے۔
میں نے یاد دلایا کہ مہمان انتظار کر رہے ہیں تو اسے بھی نظر انداز کر گئے۔ جب ہم نے رخصت کی اجازت چاہی تو بمشکل صوفے سے اٹھے۔ میں نے کہا تسنیم آپا (ان کی اہلیہ) کو بھی سلام کرتے چلتے ہیں۔ ہمارے ساتھ پائیں باغ میں آئے اور جب ہم نے سلام دعا کے بعد اجازت چاہی تو انہوں نے کہا ابھی کہاں، بیٹھیے۔ اور ملازم کو کرسیاں لانے کا اشارہ کیا۔ ہم پھر بیٹھ گئے اور وہ مہمانوں سے سلام دعا کے بعد پھر ہم سے گفتگو میں مصروف ہو گئے۔
رضی احمد رضوی صاحب سے میرا پہلا تعارف فون پر ہوا تھا۔ سن 2010 میں کراچی میں میری ہائرنگ کے کچھ ہی عرصے بعد مجھے ریڈیو کے اسائنمنٹ ملنے لگے تو ریڈیو سروس کے دیگر سینئرز کے ساتھ ساتھ ان سے بھی فون پر بات ہونے لگی۔
وہ ریڈیو سروس کے مینیجنگ ایڈیٹر تھے اور 2022 میں اپنی ریٹائرمنٹ تک اسی ذمے داری پر رہے۔ وہ فون پر بہت محتاط اور لیے دیے انداز میں گفتگو کرتے تھے۔ لیکن لہجہ ہمیشہ نرم ہوتا تھا اور ہمیشہ کچھ نہ کچھ سمجھانے یا کسی غلطی کی تصحیح کرنے کے لیے ہی فون کرتے تھے۔
سال 2016 میں وائس آف امریکہ کے واشنگٹن ڈی سی میں واقع صدر دفتر میں ایک سال کام کرنے کا موقع ملا تو وہاں پہنچتے ہی رضی صاحب سے دوستی ہوگئی۔ اندازہ ہوا کہ اپنی محتاط اور کم گو طبیعت کے باوجود وہ ایک ہم درد اور بہت محبت کرنے والے شخص ہیں۔ جلد ہی ان کی طرف سے کافی پینے کی دعوت ملنے لگی۔ وہ دن میں کم از کم ایک بار دفتر کے سامنے موجود مک ڈونلڈز سے کافی لینے جاتے تھے۔ وہاں سینئر سٹیزنز کو کافی 50 سینٹ کی ملتی تھی۔ وہ کافی لینے جانے کا کہنے جب بھی میری ڈیسک پر آتے، جعفری صاحب آواز لگاتے، "ہاں بھئی، آٹھ آنے کی کافی پلانے لے جا رہے ہو۔”
رضی صاحب کا آبائی تعلق متحدہ ہندوستان کے صوبے بہار کے تاریخی شہر گیا سے تھا۔ روایت ہے کہ مہاتما بودھ کو نروان اسی علاقے میں ملا تھا۔ شاید اس سرزمین کا ہی اثر تھا کہ رضی صاحب انتہائی صلح جو طبیعت کے مالک تھے۔ میں نے انہیں کبھی کسی سے الجھتے یا اونچی آواز میں بات کرتے نہیں دیکھا۔
ان کی ابتدائی زندگی مشرقی پاکستان میں گزری۔ بنگال کی محبت ان میں رچی بسی تھی اور وہ اسے ہمیشہ محبت سے یاد کرتے تھے۔ شاید اسی محبت کی وجہ سے وائس آف امریکہ کی بنگلہ سروس کے سینئر صحافیوں سے ان کی اچھی دوستی تھی۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد رضی صاحب نے ڈھاکہ میں پاکستان پریس انٹرنیشنل (پی پی آئی) سے اپنے صحافتی کریئر کا آغاز کیا۔ انہوں نے 1967 میں پاکستان ٹیلی ویژن کا ذیلی ادارہ ایشین ٹیلی ویژن سروس جوائن کیا۔ سال 1970 میں انہوں نے پی ٹی وی کے کراچی سینٹر میں سینئر نیوز پروڈیوسر کی ذمے داریاں سنبھالیں۔ خود ان کے بقول وہ محض ڈیڑھ سال کراچی میں رہے اور اس دوران ان کا قیام نارتھ ناظم آباد بلاک جے میں اپنے بڑے بھائی کے گھر ہوتا تھا۔ لیکن وہ اپنی آخری عمر تک اس دور کے کراچی کو یاد کرتے تھے۔
اپریل 1972 میں راولپنڈی اسلام آباد سینٹر میں نیوز ایڈیٹر کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ پی ٹی وی میں وہ کنٹرولر نیوز سمیت کئی اہم ذمے داریوں پر رہے۔ رضی صاحب جولائی 1985 میں وائس آف آمریکہ کی اردو سروس سے منسلک ہو کر واشنگٹن ڈی سی آ گئے تھے جہاں وہ 37 برس کی طویل سروس کے بعد 2022 میں ریٹائر ہوئے۔
اپنا تقریباً پورا صحافتی کریئر ان دو سرکاری اداروں میں گزارنے کی وجہ سے ان کی طبیعت میں ایک ٹھیراؤ اور احتیاط پیدا ہو گئی تھی جسے صرف سرکاری نشریاتی اداروں کے مزاج آشنا صحافی ہی سمجھ سکتے ہیں۔ وہ 1970 کی دہائی میں پاکستان کی سیاست کے کئی اہم ترین واقعات کے عینی شاہد تھے۔ رضی صاحب نے اس دور کے تمام بڑے سیاست دانوں اور شخصیات کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔
مشرقی پاکستان میں مارچ 1971 میں ہونے والے فوجی آپریشن کے فوراً بعد ذوالفقار علی بھٹو کا مشہور جملہ "شکر ہے کہ پاکستان بچ گیا” کے مخاطب رضی صاحب ہی تھے جو ڈھاکہ سے کراچی پہنچنے والے بھٹو کے انٹرویو کے لیے پی ٹی وی کے نمائندے کے طور پر ایئرپورٹ کے ٹارمک پر کھڑے تھے۔ وہ ایسے کئی واقعات نجی محفلوں اور ملاقاتوں میں سنایا کرتے تھے۔ لیکن انہیں کبھی قلم بند کرنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ میں نے انہیں قائل کرنے کی سر توڑ کوشش کی کہ وہ اپنی یادداشتیں قلم بند کرلیں یا کم از کم مجھے ڈکٹیٹ کرادیں۔ لیکن وہ ہمیشہ ٹال جاتے۔
اگر کبھی خالد حمید صاحب اور رضی صاحب کو فرصت سے مل بیٹھنے کا موقع ملتا تو پی ٹی وی کے آغاز اور اس کے ابتدائی برسوں کی یادوں اور دلچسپ واقعات کی پٹاری کھل جاتی۔ رضی صاحب ادب کا عمدہ ذوق رکھتے تھے اور جب تک ان کی صحت نے اجازت دی، وہ واشنگٹن ڈی سی اور اس کے مضافات میں ہونے والی ادبی تقریبات اور مشاعروں میں شریک ہوتے رہے۔ وائس آف امریکہ سے ریٹائر ہوجانے والے اپنے کولیگز سے مستقل رابطے میں رہتے اور جب پاکستان آتے، پی ٹی وی کے اپنے دور کے ساتھیوں سے ضرور ملتے۔
رضی صاحب نے امریکہ میں 40 سال گزارے۔ کئی ملکوں کا سفر کیا۔ لیکن ان کا دل پاکستان میں ہی لگا رہتا تھا۔ اپنے خاندان کے بہت قریب تھے اور اس لیے ہر کچھ عرصے بعد اپنے احباب سے ملنے پاکستان ضرور آتے۔ بیرونِ ملک مقیم اکثر پاکستانیوں کی طرح صرف ملک کے حالات پر کڑھتے ہی نہیں تھے بلکہ کئی فلاحی اداروں اور مشکل میں گھرے واقف کاروں کی خاموشی سے دادرسی کیا کرتے تھے۔
سروس میں ان سے سب سے زیادہ بے تکلف قمر عباس جعفری صاحب تھے۔ جعفری صاحب سروس کے واحد شخص تھے جو انہیں "یار رضی” کہہ کر پکارتے۔ باقی تمام لوگوں کے لیے وہ رضی صاحب تھے۔ جعفری صاحب ان پر آتے جاتے جملے کستے اور وہ جواباً صرف مسکراتے۔
میں جب ڈی سی پہنچا تو میں نے دیکھا کہ سروس میں ان کی سب سے زیادہ دوستی اسد نذیر صاحب کے ساتھ تھی۔ ہفتے میں کم از کم ایک بار رضی صاحب کے شیشے کے کمرے میں دونوں کی ایک نشست ضرور ہوتی تھی جس کے موضوعات کے بارے میں ہمارا اندازہ یہ تھا کہ دونوں حضرات اپنے باقی کولیگز کے متعلق اپنے نوٹس ایکسیچینج کرتے ہیں۔ ان دونوں صاحبان کی یہ دوستی اور رابطہ رضی صاحب کے آخری دنوں تک قائم رہا۔
سروس میں پے در پے آنے والی انتظامی تبدیلیوں اور بدلتے حالات کی وجہ سے ملازمت کے بڑھتے تقاضوں کے باعث رضی صاحب نے کووڈ سے قبل ہی ریٹائرمنٹ کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا تھا۔ ان سے جب فون پر بات ہوتی، وہ یہی کہتے کہ بس اب وقت آ گیا ہے۔ لیکن اسد صاحب کہتے ہیں کہ بیٹھے رہیے۔ اب تو پھل کھانے کا وقت آیا ہے۔ پھر جب کووڈ کے دوران ریڈیو سروس بند کرنے کا فیصلہ ہوا تو رضی صاحب نے ریٹائرمنٹ لینے میں زیادہ دیر نہیں لگائی۔
دراز قامت رضی صاحب خوش لباس آدمی تھے۔ دفتر ہمیشہ فل سوٹ میں خود ڈرائیو کر کے آتے۔ صبح 10 بجے دفتر پہنچتے اور شام چھ بجے کے بعد گھر روانہ ہوتے۔ اردو سروس کے بیشتر ساتھیوں کی چھٹی پانچ بجے تک ہوجاتی تھی۔ پانچ بجے کے بعد دفتر میں رضی صاحب، خلیل بگھیو صاحب اور خاکسار ہی بچتے تھے۔ عموماً وہ اپنا کام ختم کرچکے ہوتے تو ان سے گپ شپ ہوتی۔ کبھی کبھار وہ نیشنل مال پر واک کے لیے جاتے تو میں ساتھ ہو لیتا اور اس دوران ان سے کرید کرید کر ان کے کریئر کے دلچسپ واقعات سنتا۔ بعض اوقات ہمارے ساتھ ہمارے ریڈیو کے آنجہانی کولیگ انجم ہیرلڈ گِل بھی ہوتے جنہیں اکثر اپنے ورکنگ آورز پورے کرنے کے لیے چھٹی کے بعد بھی دفتر میں بیٹھنا پڑتا تھا۔
گزشتہ ماہ کراچی میں ہونے والی ملاقات کے اختتام پر اٹھتے اٹھتے رضی صاحب نے کہا تھا کہ بھئی اب رابطے میں رہیے گا۔ کم از کم میسجز پر تو حال احوال ہوتے رہنا چاہیے۔ میں نے شرمندہ ہوتے ہوئے انہیں یقین دلایا تھا کہ اب مستقل رابطہ رہے گا۔ ملاقات کے دوران تسنیم آپا نے میری اور تنزیل کی ان کے ساتھ تصویر کھینچی تو رضی صاحب نے کہا کہ یہ اسد نذیر صاحب کو بھیج دیجیے گا۔ ان کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے یہ تصویر اسد صاحب کو واٹس ایپ کر دی۔ ان کا جواب آیا: "رضی صاحب کو میرا سلام کہنا۔ ان کو خوش و خرم دیکھ کر خوشی ہوئی، اب ان کو وہیں روک لو۔”
اسد صاحب! ہم نے رضی صاحب کو یہیں روک لیا ہے۔ اب وہ سدا اسی مٹی میں رہیں گے جس کی مہک سات سمندر پار سے انہیں اپنی جانب کھینچتی تھی۔
.ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پی ٹی وی کے کراچی میں انہوں نے کرتے تھے سروس کے کے ساتھ وائس آف صاحب کو اور اس کے لیے فون پر کے بعد تھا کہ نے کہا
پڑھیں:
پاک امریکہ تعلقات: ایک نیا موڑ یا پرانی حکمت عملی کی واپسی؟
کیا ہو رہا ہے؟پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ہمیشہ سے ہی پیچیدہ مگر باہمی دلچسپیوں پر مبنی رہے ہیں۔ کبھی یہ تعلقات دوستی اور تعاون کی معراج پر ہوتے ہیں تو کبھی شک اور بداعتمادی کی دھند میں لپٹے دکھائی دیتے ہیں۔ آج ایک بار پھر پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ایک نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں۔ لیکن اس دفعہ منظرنامہ روایتی سے کچھ مختلف ہے۔
جب 2025 ء کے آغاز میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دوبارہ امریکی صدارت کا منصب سنبھالا تو دنیا کو ایک بار پھر امریکہ کی جارح مزاج اور واضح ترجیحات والی خارجہ پالیسی ملی۔ ٹرمپ نے اپنے پہلے ہی خطاب میں افغانستان سے بگرام ایئر بیس واپس لینے اور وہاں چھوڑا گیا اسلحہ اور جنگی ساز و سامان واپس لانے کا اعلان کیا۔ بظاہر یہ ایک سادہ اعلان تھا مگر اس کے پیچھے چھپی حکمت عملی نے خطے کے ماہرین کو سوچنے پر مجبور کر دیا۔بگرام کی واپسی کا مطلب صرف افغانستان میں موجودگی نہیں بلکہ ایک وسیع تر پلان کا عندیہ تھا۔ایسا پلان جس میں امریکہ نہ صرف افغانستان بلکہ ایران، چین اور روس جیسی طاقتوں کو قریب سے مانیٹر اور ممکنہ حد تک قابو میں رکھنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے اور اس مقصد کے لیے پاکستان کی جغرافیائی اہمیت ایک بار پھر مرکزی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔
صدر ٹرمپ کے دوبارہ منتخب ہونے کے کچھ ہی دن بعد امریکہ کا ایک اعلیٰ سطحی انویسٹمنٹ وفد پاکستان پہنچا۔ اس وفد کی قیادت ٹیکساس ہیج فنڈ کے منیجر اور ٹرمپ خاندان کے قریبی بزنس پارٹنر جینٹری بیچ نے کی۔ دورے کے دوران پاکستان اور امریکہ کے درمیان مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کے معاہدے طے پائے جن میں توانائی، ٹیکنالوجی، انفراسٹرکچر اور زراعت کے شعبے شامل تھے۔یہ دورہ محض ایک سرمایہ کاری مشن نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے سفارتی، اقتصادی اور دفاعی حکمت عملی کا ایک گہرا تناظر موجود تھا۔ابھی حال ہی میں امریکی کانگریس کے ایک تین رکنی وفد نے اسلام آباد کا دورہ کیا۔ اس وفد میں نمایاں نام جوناتھن جیکسن، جیک برگ مین اور ٹام سوازی کے ہیں۔ ٹام سوازی امریکہ کی آرمڈ فورسز ملٹری یونٹ میں خدمات انجام دے چکے ہیں اور لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں جس سے ان کی عسکری بصیرت اور اسٹرٹیجک سوچ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ جو ظاہر کرتا ہے کہ یہ محض رسمی سفارتی دورہ نہیں بلکہ ایک اسٹرٹیجک مشن ہے۔
سفارتی ذرائع کے مطابق اس دورے کا مقصد معاشی تعاون، تجارتی مواقع، دفاعی اور عسکری تعلقات، تعلیم، ٹیکنالوجی، اور سرمایہ کاری جیسے شعبوں میں گفتگو کرنا ہے۔
پاکستان کی جغرافیائی حیثیت ہمیشہ سے دنیا کی بڑی طاقتوں کے لیے کشش کا باعث رہی ہے۔ ایک طرف افغانستان، دوسری طرف ایران، تیسری طرف چین اور شمال میں روس۔ایسے میں پاکستان کی سرزمین امریکہ کے لیے ایک خواب کی تعبیر بن سکتی ہے، خاص طور پر اگر وہ اس خطے میں دوبارہ کسی قسم کی فوجی موجودگی قائم کرنا چاہتا ہے۔اگرچہ پاکستان نے ماضی میں ’’ڈو مور‘‘ کے دبائو کا سامنا بھی کیا ہے مگر اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان ایک واضح اور متوازن خارجہ پالیسی مرتب کرے جو قومی خودمختاری، علاقائی امن، اور اقتصادی استحکام کی ضمانت دے۔پاکستان کے لیے چیلنج یہ ہے کہ وہ افغانستان، امریکہ، چین، روس اور ایران جیسے ممالک کے درمیان کس طرح توازن برقرار رکھتا ہے۔ امریکہ کی قربت سے اقتصادی فائدے حاصل کیے جا سکتے ہیں لیکن اس کے ساتھ چین ، ایران اور روس کی ناراضگی مول لینا ممکنہ طور پر مہنگا سودا بھی بن سکتا ہے۔امریکی کانگریس کے حالیہ دورے، سرمایہ کاری وفود کی آمد، اور صدر ٹرمپ کی پالیسیوں سے واضح ہے کہ پاکستان ایک بار پھر عالمی طاقتوں کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ مگر اب پاکستان وہ نہیں جو پہلے تھا۔ اگر پاکستان نے دانشمندی، تدبر اور خودداری کا مظاہرہ کیا تو یہ وقت پاکستان کی تاریخ کا ایک نیا، سنہرا باب بن سکتا ہے۔
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی تاریخ اگرچہ اتار چڑھائو سے بھرپور رہی ہے مگر ہر موڑ پر یہ تعلقات عالمی سیاست کی دھڑکنوں کے عین مطابق بدلتے رہے ہیں۔ کبھی یہ اتحاد جنگی حکمت عملیوں کی بنیاد پر قائم ہوا تو کبھی صرف سفارتی رسموں تک محدود رہا۔ مگر حالیہ چند ہفتوں میں جس تیزی سے پاکستان میں امریکی وفود کی آمد ہوئی ہے وہ محض اتفاق نہیں بلکہ ایک گہرے اور باقاعدہ منصوبے کی عکاسی کرتی ہے۔ ان غیر معمولی حرکات نے سیاسی و عسکری تجزیہ کاروں کو ایک بار پھر اس بحث میں ڈال دیا ہے کہ کیا امریکہ ایک مرتبہ پھر جنوبی ایشیا میں اپنی موجودگی کو بڑھانے کے لیے پر تول رہا ہے؟
جب سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2025 ء کے آغاز میں دوسری مدت کے لیے امریکی صدر کا منصب سنبھالا ہے عالمی سیاست میں ایک واضح تبدیلی محسوس کی جا رہی ہے۔ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی ہمیشہ سے جارحانہ اور یک طرفہ رہی ہے۔
امریکی وفدکے حالیہ دورے کا شیڈول اور دائرہ کار اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ امریکہ پاکستان میں صرف سفارتی دلچسپی نہیں رکھتا بلکہ وہ سٹریٹیجک سطح پر تعلقات کو ازسرنو ترتیب دینے کی کوشش کر رہا ہے۔اگر ہم نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا تو پاکستان نہ صرف ایک علاقائی طاقت کے طور پر ابھر سکتا ہے بلکہ بین الاقوامی برادری میں بھی اپنی قدر و قیمت میں اضافہ کر سکتا ہے۔ مگر اگر ہم نے یہ موقع گنوا دیا تو ایک بار پھر ہم عالمی طاقتوں کی شطرنج کا مہرہ بن کر رہ جائیں گے۔