Nai Baat:
2025-02-21@13:16:01 GMT

عید کے بعد احتجاجی تحریک

اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT

عید کے بعد احتجاجی تحریک

بانی پی ٹی آئی نے کہا ہے عید کے بعد احتجاجی تحریک شروع کی جائے گی ۔ اس سے پہلے انھوں نے اپنے ایک ٹویٹ میں 8فروری کو ان کے کہنے پر پورے ملک میں عوام احتجاج کے لئے جو گھروں سے باہر نکلے اس پر انھوں نے عوام کا شکریہ ادا کیا۔ احتجاجی تحریک پر بات کرنے سے پہلے مختصر سا ذکر اس شکریہ کا کہ جو بانی پی ٹی آئی نے آٹھ فروری کو پورے ملک میں ان کے کہنے پر احتجاج کرنے پر عوام کا ادا کیا ہے ۔ ہمیں نہیں معلوم کہ بانی پی ٹی آئی کو جو لوگ جیل میں ملتے ہیں وہ انھیں کس طرح کی بریفنگ دیتے ہیں لیکن ملنے والوں کو دوش دینے کا تو کوئی سوال ہی نہیں ہے اس لئے کہ عمران خان کو بارہ ٹی وی چینل کی سہولت ہے اور ساتھ میں ہر روز دواخبار دیئے جاتے ہیں ۔ اس کا سیدھا اور صاف مطلب یہ ہے کہ خان صاحب جیل سے باہر کی خبروں کے لئے کسی کے محتاج نہیں ہیں بلکہ انھیں اخبار اور ٹی وی کے ذریعے دنیا بھر کی خبریں ملتی رہتی ہیں تو سوال یہ ہے کہ آٹھ فروری 2025کو پورے ملک میں ایک جلسہ خیبر پختون خوا کے شہر صوابی میں ہوا اور تمام مبصرین کے نزدیک اس جلسے میں گذشتہ جلسوں سے جو اسی شہر میں ہوئے ان سے کم تعداد میں لوگ آئے جبکہ ملتان میں چند درجن لوگ شامل تھے اس کے علاوہ پورے ملک میں کہیں کوئی ایک بندہ بھی احتجاج کے لئے باہر نہیں نکلا تو عید کے بعد وہ کون سا انقلاب آ جائے گا کہ جس کے بعد پورے ملک میں احتجاجی تحریک نہ صرف یہ کہ شروع ہو جائے گی بلکہ اس سے موجودہ حکومت میں تھرتھلی مچ جائے گی ۔ اس سے پہلے بھی اگلی کال ، اب پوری تیاری کے ساتھ اسلام آباد آئیں گے اور ایک سے زائد فائنل کالز دی جا چکی ہیں اور یہ سب کی سب ناکامی سے دور چار ہوئی ہیں اور اسی بات کا ذکر وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز نے کیاکہ بانی پی ٹی آئی کی احتجاج کی ہر کال ناکام ہوئی ہے تو پھر ان کی مقبولیت کہاں ہے اور اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم کہیں گے کہ یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں میںعمران خان کی سب سے زیادہ مقبولیت ہے تو خان صاحب نے سول نا فرمانی کی کال کے تحت جب بیرون ملک پاکستانیوں سے کہا کہ وہ ترسیلات زر پاکستان نہ بھیجیں تو اس کا بالکل الٹا اثر ہوا اور جنوری 2025میں گذشتہ سال جنوری 2024کے مقابلے میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے25%زیادہ ترسیلات زر پاکستان بھجوائیں ۔ ہمیں بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت سے کوئی مسئلہ نہیں لیکن سوشل میڈیا کے پروپیگنڈے اور ہم خیال تجزیہ کاروں کے بیانات سے ہٹ کر ہمیں یہ مقبولیت جب بھی زمین پر حقیقت میں نظر آئی تو ہم اسے تسلیم کرنے میں ایک لمحہ نہیں لگائیں گے لیکن پہلے کہیں ثابت تو ہو کہ مقبولیت کی حقیقت کیا ہے ۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا عید تک گرینڈ الائنس بن جائے گا ۔ اس لئے کہ ہفتہ دس دن کے بعد رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہو رہا ہے اور اس مہینہ میں سیاسی سرگرمیاں ویسے ہی ماند پڑ جاتی ہیں ویسے بھی ایک الائنس تو پاکستان تحفظ آئین کے نام سے پہلے ہی بنا ہوا ہے جس کے سربراہ محمود خان اچکزئی ہیں اور اسی تحفظ آئین کے تحت بار بار اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کی بات کی جاتی ہے اور اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ چونکہ تمام اختیارات اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہیں تو بات بھی تو انہی سے ہو گی ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ تحریک انصاف اور خاص طور پر بانی پی ٹی آئی کو اسٹیبلشمنٹ کے اختیارات سے کون سے کام لینا ہیں کہ وہ موجودہ حکومت کو بے اختیار کہہ کر ان سے مذاکرات نہیں کرتے لیکن بحث سے بچنے کے لئے ہم تسلیم کر لیتے ہیں کہ موجودہ حکومت واقعی بے اختیار ہے تو 2018میں تحریک انصاف کی حکومت بھی تو بے اختیار ہی تھی اور اس کا ثبوت بھی ہے کہ جب بانی پی ٹی آئی سے سوال کیا گیا کہ آپ چیف الیکشن کمیشن پر تنقید کرتے ہیں لیکن اسے آپ نے ہی تو اس منصب پر لگایا تھا تو خان صاحب کا جواب تھا کہ ’’ میں نے اسے جنرل باجوہ کے کہنے پر لگایا تھا ‘‘ ۔ تحریک انصاف کی حکومت اور خود بانی پی ٹی آئی کس حد تک بے اختیار تھے یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں تھی کہ کسی کو علم نہ ہوتا لیکن اس کے باوجود بھی جب 2018کی اسمبلی معرض وجود میں آئی تو حلف کے بعد میاں شہباز شریف نے اور بلاول بھٹو زرداری دونوں بڑی جماعتوں کے قائدین نے آپ کو میثاق معیشت پر مذاکرات کی دعوت دی تھی لیکن بانی پی ٹی آئی نے انتہائی تکبرانہ انداز میں اس پیشکش کو رد کر دیا تھا ۔اب بھی اگر بانی پی ٹی آئی سمجھتے ہیں کہ سیاست دان بے اختیار ہیں اور اصل طاقت اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہے تو اس کا بہترین حل یہ ہے کہ آپ اسٹیبلشمنٹ کے ترلے منت کرنے کی بجائے موجودہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کر کے انھیں طاقت ور کریں ۔ آج اگر موجودہ حکومت مضبوط ہو گی تو کل کو جب آپ حکومت میں آئیں گے تو یہی مضبوطی آپ کو بھی ورثے میں ملے گی لیکن آپ کا مقصد آئین و قانون کی بالادستی نہیں بلکہ کوشش ہے کہ کسی بھی طرح اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد آپ کے سر پر آ جائے ۔
خیر بات ہو رہی تھی عید کے بعدحکومت کے خلاف تحریک کی تو جے یو آئی والوں نے تو کہہ دیا ہے کہ اگر مولانا کو اس مجوزہ اتحاد کا سربراہ بنایا جائے تو وہ اس میں شامل ہو جائیں گے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا جماعت اسلامی بھی اس اتحاد میں شامل ہو گی اور کیا وہ بھی مولاناکی سربراہی قبول کر لے گی اور اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ جس طرز کا احتجاج تحریک انصاف کرتی ہے تو کیا الائنس میں شامل دیگر جماعتیں بھی اس طرز کے احتجاج پر راضی ہو جائیں گی ۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر اگر ایک نظر ڈالیں تو اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر کوئی تحریک کامیاب نہیں ہوئی اور پھر یہ تحریک کہ جو عوامی مسائل پر نہیں بلکہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لئے ہو گی کیا اسے عوامی پذیرائی مل پائے گی ۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: بانی پی ٹی ا ئی اسٹیبلشمنٹ کے احتجاجی تحریک موجودہ حکومت پورے ملک میں تحریک انصاف عید کے بعد بے اختیار یہ ہے کہ ہیں اور سے پہلے کے لئے اور اس ہے اور

پڑھیں:

چل بشیرے چک سوا تے ٹائر پھاڑیئے!

سرکاری عہدہ جتنا باوقار ہے اتنا ہی خوفناک بھی ہے۔ اختیارات، طاقت اور عہدہ سر چڑھ جائے تو اچھے خاصے سمجھدار انسان کو اوقات بھلا دیتا ہے۔ اسے المیہ نہ کہیں تو کیا کہیں۔ پاکستان میں سرکاری ملازمین فرائض کی آڑ میں جرم کی حد تک پہنچ جاتے ہیں۔ بعض ’’فرض شناس‘‘ ایس ایچ او ایسے بھی ہیں جو جہاں تعینات ہوتے ہیں وہاں موٹرسائیکلوں کے پلگ کی تار کاٹنے کا ’’مشن‘‘ پورا کراتے ہیں۔ ان کے تھانے کا عملہ سرشام گشت کرتا ہے اور اہم مقامات پر کھڑی موٹر سائیکلوں کے پلگ کی تار کاٹتا جاتا ہے، جواز یہ دیا جاتا ہے کہ موٹر سائیکل چوری ہونے سے بچاتے ہیں۔ انہیں آج تک یہ معلوم نہیں ہوا کہ کسی پراپرٹی کو نقصان پہنچانا بذات خود جرم ہے۔ اسی طرح شاہراہوں پر کھڑے پھل فروشوں کی ریڑھیوں کو سرکاری ٹرک میں الٹانے والے درجہ چہارم کے ملازمین کا انداز بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ ریڑھی ضبط کم اور تباہ زیادہ کی جاتی ہے، اکثر سوشل میڈیا پر بھی ویڈیوز سامنے آ جاتی ہیں جن میں سرکاری ملازمین ریڑھی الٹاتے ہوئے اس پر موجود اجناس ضائع کر دیتے ہیں۔ یہ چھوٹے چھوٹے ’’زکوٹا جن‘‘ ہمارے معاشرے کا ناسور ہیں جنہیں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ کسی کا مکمل کاروبار تباہ کر کے اسے جرائم کی راہ پر دھکیل رہے ہیں۔ عجیب سسٹم ہے جہاں ایک محکمہ محنت کش کو مجرم بنا دیتا ہے اور دوسرا اس مجرم کو گرفتار کر لیتا ہے۔ سرکاری احکامات پر عمل درآمد ضروری ہے لیکن اس فرض شناسی کے دوران فرض اور جرم میں فرق رکھنا بھی لازم ہے۔ کاش حکومت اپنے ملازمین کو ایسے ریفریشر کورسز بھی کراتی رہے جس میں انہیں ان کے اختیارات اور جرائم کی حد سے آگاہ کیا جائے۔ سرکاری اہلکار پراپرٹی تباہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتے البتہ ضبط کرنے یا جرمانے کا اختیار رکھتے ہیں۔ سنجیدہ بیوروکریٹ بتاتے ہیں کہ سرکاری سیٹ پر افسر کا نام نہیں بلکہ سیٹ کا کام بولتا ہے لیکن اب بہت سے افسران نے اپنے عہدوں کو ذاتی شہرت کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس ذاتی تشہیری مہم پر پابندی لگنا ضروری ہے۔ اگلے روز لاہور گلبرگ تھانے کے ایس ایچ او نے ملزمان کے ساتھ گروپ فوٹو سوشل میڈیا پر جاری ہوئی۔ جس نے بہت سے سوالات کھڑے کر دیئے۔ اس تصویر کے ساتھ بتایا گیا کہ تھانیدار صاحب بہادر نے ایک بڑی کارروائی کرتے ہوئے ویلنٹائن ڈے پر ایک ہوٹل میں چھاپا مار کر 8 خواتین سمیت 15 افراد کو گرفتار کر لیا۔پولیس نے ان سے ایک عدد حقہ، شیشہ فلیور اور ساؤنڈ سسٹم بھی برآمد کر لیا ۔ المیہ یہ ہوا کہ ان کی شناخت چھپائے بغیر ان کے ساتھ تھانیدار صاحب بہادر نے گروپ فوٹو بنا کر سوشل میڈیا پر جاری کر دی۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ اخلاقی و قانونی طور پر درست تھا ؟ کیا تھانیدار کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ان افراد کا مستقبل تباہ کر دے۔ اس تصویر کے بعد اگر ان میں سے کسی خاتون کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا گیا یا کوئی اس بدنامی کے بعد خودکشی کر لے تو کیا اس کی ذمہ داری تھانیدار پر عائد ہو گی ؟ کیا تھانیدار نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال نہیں کیا؟ ملزمان کو عدالتی ٹرائل سے پہلے میڈیا پر پیش نہیں کیا جا سکتا ۔ان کی شناخت پبلک نہیں کی جا سکتی ، ان کے چہرے چھپا لیے جاتے ہیں لیکن یہاں اس "بہت بڑی کارروائی” کو کیش کرانے کے چکر میں تمام اخلاقیات کی دھجیاں اڑانے والا وہ شخص ہے جسے قانون کا محافظ کہا جاتا ہے ۔ یہ سرکاری عہدے اور وردی میں ایسی سیلف پروموشن ہے جو کئی زندگیاں تباہ کر گئی ہے۔ ابھی ہم ایک ایس ایچ او کی حرکت پر رو رہے تھے تو دوسری جانب صادق آباد میں اسسٹنٹ کمشنر نے نیا چاند چڑھا دیا ۔ سوشل میڈیا پر اس کی ویڈیو تیزی سے وائرل ہوئی جس میں وہ صادق آباد میونسپل کمیٹی کے 4 ملازمین کے ہمراہ صادق آباد کی مختلف سڑکوں پر گاڑیوں، رکشوں اور موٹر سائیکلوں کے ٹائر پنکچر کر رہے ہیں ۔ صاحب بہادر سڑک پر کھڑی ایسی گاڑیوں کے ٹائر بھی پنکچر کروا رہے تھے جن میں ڈرائیور موجود تھے ۔ اختیارات کا ایسا گھٹیا استعمال احساس کمتری سے جنم لیتا ہے ۔ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ڈپٹی کمشنر خرم پرویز نے ایکشن لیا اور میونسپل کمیٹی کے ملازمین کے خلاف تحقیقات کا حکم دے دیا حالانکہ یہ تحقیقات اسسٹنٹ کمشنر سے ہونا چاہیے تھی، میونسپل کمیٹی کے ملازمین تو اے سی کے حکم کے ماتحت تھے لیکن "برق گرتی ہے تو بیچارے مسلماں پر” کے مصداق ایک ملازم کو معطل کر دیا گیا ۔ بیوروکریسی میں طاقت اور اختیار کا یہ غلط استعمال بھی عام ہے کہ ماتحت کے کسی بھی اچھے کام کا کریڈٹ خود لیا جاتا ہے جبکہ اپنے غلط فیصلوں کا ملبہ ماتحت پر ڈال دیا جاتا ہے ۔ پولیس میں جان خطرے میں ڈال کر جرائم پیشہ افراد سے لڑنے والی اکثریت کانسٹیبلز کی ہے جو ایس ایچ او تک پہنچ کر تمام ہو جاتی ہے لیکن ایسی ہر اہم کارروائی کا کریڈٹ "فلاں افسر کی ہدایت یا کمانڈ میں کی گئی کارروائی ” لکھ کر اعلیٰ عہدے تک منتقل کر دیا جاتا ہے ۔ مقابلوں کے دوران شہادتیں کانسٹیبلری کے حصہ میں آتی ہیں جبکہ کامیاب کارروائیوں کی شاباش افسران کو ملتی ہیں۔ یہی سول بیوروکریسی میں چلتا ہے ۔ احکامات افسران کے ہوتے ہیں لیکن گلے پڑ جائیں تو معطل ماتحت ملازمین ہوتے ہیں ۔ صادق آباد میں بھی واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ احکامات ہی نہیں بلکہ اے سی صاحب بہادر خود بھی ٹائر پنکچر کرنے کے مشن پر فیلڈ میں نکلے ہوئے ہیں لیکن معطل اس اہلکار کو کر دیا گیا جو اے سی کے احکامات پر عمل کر رہا تھا ۔ تصور کیجیے کہ یہ کوئی فلم ہوتی تو صاحب بہادر سلطان راہی کے انداز میں دبکا مارتے ” چل بشیرے چک سوا ،تے ٹائر پھاریئے ” اور پھر ٹائر پھاڑنے پر بشیرے کی معطلی سے لطف اندوز ہوتے ۔ بعض افسران کی زندگی بھی سلطان راہی یا مصطفی قریشی کی فلم سے کم نہیں ہے جو پوسٹنگ ملنے کے بعد اختیارات سے تجاوز کر کے اپنی ہی عدالت لگاتے اور اپنے ہی فیصلے سناتے ہیں چاہے یہ فیصلے ملکی قوانین کے تحت جرم ہی کیوں نہ ہوں۔

متعلقہ مضامین

  • پی ٹی آ ئی نے لندن میں آرمی چیف کی آمد پر احتجاج کر کے غیر ملکی ایجنسیوں کا ایجنڈا پورا کیا، وزیراطلاعات پنجاب
  • اسپتال فعال کرنے کے مخالف نہیں لیکن حکومت لائبریری کو متبادل بھی فراہم کرے، لائبریری انتظامیہ
  • عمران خان کی رہائی کیلیے نئی حکمت عملی، 11 رکنی کمیٹی تشکیل
  • گندم کی خراب فصل سے خوراک کی قلت کا خدشہ
  • تحریک انصاف کا اڈیالہ جیل کے باہر احتجاجی کیمپ لگانے کا فیصلہ
  • چل بشیرے چک سوا تے ٹائر پھاڑیئے!
  • سندھ میں ڈاکو راج کیخلاف عوامی تحریک کی احتجاجی ریلی
  • مہنگائی میں کمی کے دعوے لیکن عوام ریلیف سے محروم
  • حافظ نعیم الرحمن کارمضان کے بعد بڑی تحریک کا اعلان