پی اے سی کا مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلانے کیلئے وزیراعظم کو خط لکھنے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
پی اے سی کا مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلانے کیلئے وزیراعظم کو خط لکھنے کا فیصلہ WhatsAppFacebookTwitter 0 18 February, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (آئی پی ایس )پی اے سی نے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلانے کے لئے وزیراعظم کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا ہے، وفاقی سیکرٹری پٹرولیم نے پی اے سی کو بتایا ہے کہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے پر ایران عالمی ثالثی عدالت سے رجوع کرچکا ہے۔پبلک اکاونٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین جنید اکبر کی صدارت میں منعقد ہوا، اجلاس میں وزارت پٹرولیم اور نارکوٹکس کنٹرول ڈویژن کی آڈٹ رپورٹس برائے 24-2023 کا جائزہ لیا گیا، آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا کہ نارکوٹکس کنٹرول نے مختص بجٹ سے زائد اخراجات کیے، سیکرٹری نارکوٹکس کنٹرول نے کہا کہ یہ اضافی اخراجات تنخواہوں کی مد میں کیے گئے تھے۔
سیکرٹری نارکوٹکس کنٹرول کا کہنا تھا کہ صوبوں میں لیبارٹریاں پہلے سے موجود ہیں، وفاقی دارالحکومت میں بھی پی اے آر سی کی لیبارٹری موجود ہے، ایکٹ میں درج ہے کہ کسی بھی لیبارٹری کو ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری قرار دیا جا سکتا ہے۔آڈٹ حکام نے بتایا کہ 1994 سے 2023 تک اے این ایف سندھ نے 579 گاڑیاں ضبط کیں، عدالتی احکامات کے باوجود 12 گاڑیاں نیلام نہیں کی گئیں، اور نہ 30 گاڑیاں مالکان کو واپس کی گئیں، 306 گاڑیوں کے کیسز اسوقت عدالتوں میں زیر سماعت ہیں، 18 گاڑیوں کی نیلامی مکمل کر لی گئی ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ کراچی میں گلشن جمال اور کورنگی ٹائون شپ میں چار پراپرٹیز نیلام کرنے کے بجائے اے این ایف کے زیر استعمال ہیں، پی اے سی نے معاملہ جلد از جلد نمٹانے کی ہدایت کر دی۔آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا کہ 30 جون 2023 تک جی آئی ڈی سی کی مد میں 350 ارب روپے اکٹھے کئے گئے، یہ رقم پاک ایران گیس پائپ لائن، ٹاپی سمیت اہم منصوبوں پر خرچ ہونی تھی۔ جی آئی ڈی سی میں سے 3.
حکام پیٹرولیم ڈویژن کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی پابندیوں کے باعث رقم پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر خرچ نہیں کی جا سکی۔ حنا ربانی کھر نے سوال کیا کہ اگر عالمی پابندیاں تھیں تو عوام سے جی آئی ڈی سی کیوں وصول کیا گیا۔ جی آئی ڈی سی کے 350 ارب روپے متبادل منصوبوں پر خرچ کیے جائیں۔پی اے سی نے ایک ماہ میں پیٹرولیم ڈویژن سے جی آئی ڈی سی فنڈز کے استعمال پر تجاویز طلب کر لیں۔
سیکرٹری پیٹرولیم نے کہا کہ جی آئی ڈی سی کا قانون 2015 میں لایا گیا۔2020 میں سپریم کورٹ نے جی آئی ڈی سی کو کالعدم قرار دیا، ایران پاکستان پائپ لائن منصوبے پر ایران کے ساتھ تنازعہ کے حل پر کام کر رہے ہیں۔ ایران پاکستان پائپ لائن منصوبے پر مصالحت کیلئے رقم جی آئی ڈی سی سے ہی خرچ کی جا رہی ہے۔ اب تک ٹاپی منصوبے پر 1 ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ سیکرٹری پٹرولیم نے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر ان کیمرا بریفنگ کی تجویز دے دی. مالی سال 23-2022 میں گیس ڈیولپمنٹ سرچارج کی مد میں کھاد اور بجلی کمپنیوں سے 33 ارب روپے کم وصولی کا انکشاف بھی ہوا۔
سید نوید قمر نے کہا کہ صوبوں کا حق مار کر کھاد کمپنیوں کو فائدہ پہنچایا جا رہا ہے، فرٹیلائزر کمپنیاں اربوں روپے کا منافع کماتی ہیں۔ ڈی جی گیس کا کہنا تھا کہ جی ڈی ایس کی مد میں کم وصولی فرٹیلائزر سیکٹر کو سبسڈی کے باعث ہوئی۔جی ڈی ایس کے حوالے سے قانون میں ترمیم تجویز کی گئی ہے، ترمیم پر وزارت قانون کی طرف سے لاعلمی پر پی اے سی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سیکرٹری قانون کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا، سیکرٹری پٹرولیم کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ مشترکہ مفادات کونسل میں جائے گا جس پر نوید قمر نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس طلب نہیں کیا جا رہا، اجلاس نہ بلا کر آئین کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ کمیٹی نے سیکرٹری بین الصوبائی رابطہ کو بھی سی سی آئی اجلاس جلد بلانے کی ہدایت کردی۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: کو خط لکھنے کا فیصلہ پائپ لائن منصوبے پر نارکوٹکس کنٹرول کا کہنا تھا کہ گیس پائپ لائن جی آئی ڈی سی پی اے سی نے کی مد میں ارب روپے
پڑھیں:
گیس انفرااسٹرکچر کیلئے 350 ارب استعمال نہ کیے جاسکے، آڈٹ حکام
گیس انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس (جی آئی ڈی سی) میں جمع 350 ارب روپے انفرااسٹرکچر کےلیے استعمال نہیں کیے جاسکے۔
اسلام آباد میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کا اجلاس چیئرمین جنید اکبر کی زیر صدارت ہوا، جس میں پیٹرولیم ڈویژن کے مالی سال 24-2023ء کی آڈٹ رپورٹ کا جائزہ لیا گیا۔
اسلام آباد میں پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے اجلاس میں ساؤنڈ سسٹم بیٹھ گیا۔
آڈٹ حکام نے بتایا کہ جی آئی ڈی سی میں جمع 350 ارب روپے کو انفرااسٹرکچر کیلئے استعمال نہیں کیا جاسکا، پیٹرولیم ڈویژن نے 3 ارب 70 کروڑ روپے خرچ کیے ہیں۔
اس پر چیئرمین پی اے سی نے استفسار کیا کہ کیا یہ اخراجات درست کیے گئے ہیں؟
پیپلز پارٹی کے نوید قمر نے کہا کہ آئی پی پائپ لائن اورتاپی پائپ لائن پر مختلف ایشوز کے باعث کام نہیں ہوسکتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان پیسوں کو گیس انفرااسٹرکچر میں استعمال کیا جانا ہے، وفاقی کابینہ سے ان کے متبادل استعمال پر رائے لی جاسکتی ہے۔
ن لیگ کے طارق فضل چوہدری نے کہا کہ فنڈز تو موجود ہیں ان کے استعمال کیلئے پیٹرولیم ڈویژن سے تجویز مانگی جائے۔
اس موقع پر حنا ربانی کھر نے کہا کہ ٹیکس گیس انفرااسٹرکچرکے نام پر وصول کیا گیا ہے، اب ٹیکس کو عوام کی بہتری کیلئے استعمال کیا جائے، ان پیسوں کو عوام سے وصول کرکے استعمال نہ کرنا درست نہیں ہے۔
دوران اجلاس اپوزیشن رہنما عامر ڈوگر نے کہا کہ تاپی منصوبہ قابل عمل ہے مگر اس پر پروگریس کیا ہے۔
جنید اکبر نے استفسار کیا کہ وزارت کی فنڈز کے استعمال پر کیا تجویز ہے؟وزارت پیٹرولیم ایک ماہ میں اپنے لائحہ عمل پر کمیٹی کو بریفنگ دے۔
سیکریٹری پیٹرولیم نے اجلاس کے شرکاء کو بتایا کہ یہ سیس2011ء میں لایا گیا اور 2020ء میں اس کو ختم کردیا گیا، ایران گیس پائپ لائن اور تاپی گیس پائپ لائن کو مکمل کیا جانا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایران کے ساتھ پائپ لائن پر تنازع ہے، جو پیرس کورٹ میں پہنچ گیا ہے، اس مقدمہ بازی کے اخراجات بھی اس فنڈ سے دیے جارہے ہیں۔
سیکریٹری پیٹرولیم نے یہ بھی کہا کہ اس معاملے کے حل کےلیے غور جاری ہے، انٹر اسٹیٹ گیس کمپنی کو الگ کمپنی کے طور پر چلایا جا رہا ہے۔
آڈٹ حکام نے شرکاء کو بتایا کہ پیٹرولیم ڈویژن 34 ارب روپے گیس ڈویلپمنٹ سرچارج کی وصولی میں ناکام رہا۔
اس پر نوید قمر نے کہا کہ یہ جی ڈی ایس کا پیسہ وفاقی حکومت کا نہیں صوبوں کا ہے، اس کا فائدہ صرف کھاد کمپنیوں کو ہوا، صوبائی حکومتوں کی بجائے کھاد کمپنیوں کو فائدہ پہنچایا گیا۔
پیٹرولیم ڈویژن حکام نے کہا کہ حکومت نے گزشتہ 3 سال میں کھاد کمپنیوں کا ٹیرف نہیں بڑھایا، گیس ٹیرف میں اضافہ 3 سال بعد کیا گیا، گیس ٹیرف میں اضافہ کی منظوری مشترکہ مفادات کونسل دیتی ہے۔
شازیہ مری نے کہا کہ گزشتہ ایک سال میں مشترکہ مفادات کونسل کا ایک بھی اجلاس نہیں ہوا، اگر پی اے سی میں افسران مناسب جواب نہ دیں تو ان کو اجلاس میں نہ بیٹھنے دیں۔
عامر ڈوگر نے کہا کہ کھاد کمپنیاں اتنی با اثر ہیں کہ ایک سال سے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس نہیں ہونے دیا۔
سیکریٹری پیٹرولیم نے کہا کہ اس مالی سال کے آخر تک جی ڈی ایس میں 70 ارب روپے جمع ہوں گے، کھاد فیکٹریوں کا ٹیرف کافی عرصہ نہیں بڑھایا گیا تھا تاہم اب اس کو بڑھا دیا ہے۔
کمیٹی ارکان نے اجلاس میں رائے دی کہ گزشتہ 3 سالوں کا جی ڈی ایس کھاد کمپنیوں سے وصول کیا جانا چاہیے۔ نوید قمر نےکہا کہ اس معاملے پر آپ وزیراعظم کو ہدایت نہیں کرسکتے، تاہم سیکرٹری بین الصوبائی رابطہ کو مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلانے کا کہہ سکتے ہیں۔
ایم ڈی جنکو ٹو نے کہا کہ جنکو ٹو جی ڈی ایس میں 23 ارب روپے ایک سال میں ادا کردیں گے، حکومت جب کیپیسٹی چارجز دے گی تو ہم بھی ادا کر دیں گے۔
طارق فضل چوہدری نے کہا کہ افسران میٹنگ میں مکمل تیاری کر کے نہیں آتے، اس پر چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ آئندہ اجلاس میں سیکرٹری پاور سے جواب لیا جائے گا۔
آڈٹ حکام نے اجلاس کے شرکاء کو بتایا کہ دو کمپنیوں نے پیٹرولیم لیوی جمع نہیں کرائی جو 14 ارب 63 کروڑ روپے بنتی ہے۔
جنید اکبر نے کہا کہ ان میں سے تو ایک کمپنی ڈیفالٹ ہوئی اور نئے نام سے آگئے، میرا سوال تھا کہ ڈیفالٹ شدہ کمپنی نئے نام پر کس طرح کام کر رہی ہے؟
سیکریٹری پیٹرولیم نے کہا کہ ان کمپنیوں نے 2019 سے 2022 تک کم لیوی ادا کی، اصل رقم 47 ارب روپے ہے جس پر لیٹ پیمنٹ سرچارج 21 ارب روپے ہے، اس معاملے کا جواب سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن دے سکتا ہے۔
دوران اجلاس ثناء اللّٰہ خان نے تجویز دی کہ اس معاملے کو نیب کو بھیجا جائے جبکہ نوید قمر نے کہا کہ اس معاملےکو نیب نے سیٹل کیا ہے نیب سے تفصیلات لی جائیں۔
سیکریٹری پیٹرولیم نے کہا کہ کمپنیوں نے ایک ارب روپے ماہانہ ادا کرنے پر اتفاق کیا مگر لیٹ پیمنٹ سرچارج ادا کرنے کو تیار نہیں، یہ ساری رقم 4 سال میں ادا ہوگئی تاہم ہم لیٹ پیمنٹ سرچارج بھی وصول کریں گے۔
حنا ربانی کھر نے کہا کہ کمپنیوں نےعوام سے47 ارب کی پیٹرولیم لیوی وصول کرلی اب حکومت کو ادا تیار کو تیار نہیں، اس طرح کا کام کسی ملک میں نہیں ہوسکتا، اس کی اجازت کس طرح دی جاسکتی ہے۔
چوہدری جنید انوار نے کہا کہ کیا اس ریفائنری میں وہی لوگ ڈائریکٹرز ہیں جو نام کی تبدیلی سے پہلے تھے؟ اس سوال پر سیکریٹری پیٹرولیم نے کہا کہ اس کا جواب سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن دے سکتا ہے۔
چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ آئندہ اجلاس میں چیئرمین نیب اورڈی جی ایف آئی اے کو بریفنگ کیلئے بلایا جائے۔
اجلاس میں پیٹرولیم ڈویژن کی آڈٹ پیراز پر غور کیا گیا، حکام نے بتایا کہ مالی سال 2022-23 میں پیٹرولیم ڈویژن نے 20 کروڑ 40 لاکھ روپے کی گرانٹ سرنڈر کی۔
سیکریٹری پیٹرولیم نے کہا کہ اس مالی سال پی ایس او کو ایکسچینج ریٹ نقصانات پر 57 ارب روپے دیے گئے۔
نوید قمر نے کہا کہ پیٹرولیم ڈویژن کیلئے فنڈز مختص کیے گئے تھے اتنے ہی 63 ارب روپےکی سپلیمنٹری گرانٹ لی گئی، لگتاہے وزارت کی طرف سے اپنا کام پورا نہیں کیا گیا جس کے باعث ضمنی گرانٹ لی گئی۔
سیکریٹری پیٹرولیم نے کہا کہ ان سالوں میں ایکسچینج ریٹ کےنقصانات کافی زیادہ تھے جس کے باعث ضمنی گرانٹ لی گئی۔