اسلام آباد:  پبلک اکاؤنٹ کمیٹی نے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلانے کے لئے وزیراعظم کو خط لکھنے کا فیصلہ کرلیا۔
وفاقی سیکرٹری پٹرولیم نے پی اے سی کو بتایا کہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے پر ایران عالمی ثالثی عدالت سے رجوع کرچکا ہے۔
پی اے سی کا اجلاس چیئرمین جنید اکبر کی صدارت میں منعقد ہوا، اجلاس میں وزارت پٹرولیم اور نارکوٹکس کنٹرول ڈویژن کی آڈٹ رپورٹس برائے 24-2023 کا جائزہ لیا گیا، آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا کہ نارکوٹکس کنٹرول نے مختص بجٹ سے زائد اخراجات کیے، سیکرٹری نارکوٹکس کنٹرول نے کہا کہ یہ اضافی اخراجات تنخواہوں کی مد میں کیے گئے تھے۔
سیکرٹری نارکوٹکس کنٹرول کا کہنا تھا کہ صوبوں میں لیبارٹریاں پہلے سے موجود ہیں، وفاقی دارالحکومت میں بھی پی اے آر سی کی لیبارٹری موجود ہے، ایکٹ میں درج ہے کہ کسی بھی لیبارٹری کو ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری قرار دیا جا سکتا ہے۔
آڈٹ حکام نے بتایا کہ 1994 سے 2023 تک اے این ایف سندھ نے 579 گاڑیاں ضبط کیں، عدالتی احکامات کے باوجود 12 گاڑیاں نیلام نہیں کی گئیں، اور نہ 30 گاڑیاں مالکان کو واپس کی گئیں، 306 گاڑیوں کے کیسز اسوقت عدالتوں میں زیر سماعت ہیں، 18 گاڑیوں کی نیلامی مکمل کر لی گئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ کراچی میں گلشن جمال اور کورنگی ٹائون شپ میں چار پراپرٹیز نیلام کرنے کے بجائے اے این ایف کے زیر استعمال ہیں، پی اے سی نے معاملہ جلد از جلد نمٹانے کی ہدایت کر دی۔
آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا کہ 30 جون 2023 تک جی آئی ڈی سی کی مد میں 350 ارب روپے اکٹھے کئے گئے، یہ رقم پاک ایران گیس پائپ لائن، ٹاپی سمیت اہم منصوبوں پر خرچ ہونی تھی۔ جی آئی ڈی سی میں سے 3.

7 ارب روپے قرض کی ادائیگی پر خرچ کیے گئے۔
حکام پیٹرولیم ڈویژن کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی پابندیوں کے باعث رقم پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر خرچ نہیں کی جا سکی۔ حنا ربانی کھر نے سوال کیا کہ اگر عالمی پابندیاں تھیں تو عوام سے جی آئی ڈی سی کیوں وصول کیا گیا۔ جی آئی ڈی سی کے 350 ارب روپے متبادل منصوبوں پر خرچ کیے جائیں۔
پی اے سی نے ایک ماہ میں پیٹرولیم ڈویژن سے جی آئی ڈی سی فنڈز کے استعمال پر تجاویز طلب کر لیں۔
 سیکرٹری پیٹرولیم نے کہا کہ جی آئی ڈی سی کا قانون 2015 میں لایا گیا۔2020 میں سپریم کورٹ نے جی آئی ڈی سی کو کالعدم قرار دیا، ایران پاکستان پائپ لائن منصوبے پر ایران کے ساتھ تنازعہ کے حل پر کام کر رہے ہیں۔ ایران پاکستان پائپ لائن منصوبے پر مصالحت کیلئے رقم جی آئی ڈی سی سے ہی خرچ کی جا رہی ہے۔ اب تک ٹاپی منصوبے پر 1 ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں۔
سیکرٹری پٹرولیم نے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر ان کیمرا بریفنگ کی تجویز دے دی. مالی سال 23-2022 میں گیس ڈیولپمنٹ سرچارج کی مد میں کھاد اور بجلی کمپنیوں سے 33 ارب روپے کم وصولی کا انکشاف بھی ہوا۔
سید نوید قمر نے کہا کہ صوبوں کا حق مار کر کھاد کمپنیوں کو فائدہ پہنچایا جا رہا ہے، فرٹیلائزر کمپنیاں اربوں روپے کا منافع کماتی ہیں۔ ڈی جی گیس کا کہنا تھا کہ جی ڈی ایس کی مد میں کم وصولی فرٹیلائزر سیکٹر کو سبسڈی کے باعث ہوئی۔
جی ڈی ایس کے حوالے سے قانون میں ترمیم تجویز کی گئی ہے، ترمیم پر وزارت قانون کی طرف سے لاعلمی پر پی اے سی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سیکرٹری قانون کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا، سیکرٹری پٹرولیم کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ مشترکہ مفادات کونسل میں جائے گا جس پر نوید قمر نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس طلب نہیں کیا جا رہا، اجلاس نہ بلا کر آئین کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ کمیٹی نے سیکرٹری بین الصوبائی رابطہ کو بھی سی سی آئی اجلاس جلد بلانے کی ہدایت کردی۔
 اجلاس میں دو پیٹرولیم کمپنیوں سے لیوی اور جرمانے کی مد میں 68 ارب روپے وصول نہ کرنے کا انکشاف ہوا ہے، سیکرٹری پٹرولیم نے پی اے سی کو بتایا کہ ایک کمپنی بائیکو نے ڈیفالٹ ہونے کے بعد نام تبدیل کرکے سنرجیکو رکھ لیا، تاہم اب یہ کمپنی ایک ارب روپے سالانہ کے حساب سے ادا کرنے پر رضامند ہو گئی ہے۔
چیئرمین پی اے سی کا کہنا تھا کہ کمپنی دوسرے نام سے کیسے رجسٹر ہوئی؟ اس بارے چیئرمین ایس ای سی پی جواب جمع کرائیں، اس پر آڈٹ حکام نے بتایا کہ یہ معاملہ ایس آئی ایف سی کو بھجوا دیا گیا ہے، کیس ایف آئی اے اور نیب کو بھی بھجوایا گیا تھا۔
نوید قمر نے استفسار کیا کہ کس قانون کے تحت یہ معاملہ ایس آئی ایف سی کو بھجوایا گیا، تاہم ایف آئی اے اور نیب حکام کیس کی تازہ ترین معلومات سے لاعلم نکلے جس پر چیئرمین پی اے سی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے آئندہ اجلاس میں وضاحت کیلئے چیئرمین نیب اور ڈی جی ایف آئی اے کو طلب کر لیا۔

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: پائپ لائن منصوبے پر نارکوٹکس کنٹرول کہ مفادات کونسل کا کہنا تھا کہ گیس پائپ لائن جی ا ئی ڈی سی پی اے سی نے کی مد میں نے کہا کہ کا اجلاس ارب روپے بتایا کہ

پڑھیں:

سینیٹ کمیٹی اجلاس؛ وزارت مذہبی امور نے حاجیوں کے ٹرانسپورٹ میں کتنے ملین ریال بچائے؟

اسلام آباد:

سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور کے اجلاس میں ایڈیشنل سیکرٹری مذہبی امور نے شرکاء کو حج سے متعلق اور محکمہ اوقاف کی زمین واگزار کروانے کے معاملے پر آگاہ کیا۔

چیئرمین کمیٹی سینیٹر عطاء اللہ کی سربراہی میں اجلاس ہوا۔ ایڈیشنل سیکرٹری وزارت مذہبی امور نے بتایا کہ معاونین حج کے لیے این ٹی ایس کا طریقہ کار اپنایا گیا جبکہ معاونین حج کے لیے سی ایس ایس ایس کی طرز پر کوٹہ دیا گیا۔

سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ این ٹی ایس کا پیپر پچھلی دفعہ دوران پیپر ہی لیک ہوا جبکہ دوران پیپر، پیپر کی ویڈیو بنائی گئی اور وہ ویڈیو لیک کی گئی، وہ ویڈیو بھی ہمارے پاس موجود ہے۔

ایڈیشنل سیکرٹری نے کہا کہ سر لیکیج کی اصطلاح ٹھیک نہیں، چیٹنگ ضرور ہوئی لیکن چیلنج کرتے ہیں یہ تمام کام میرٹ کی بنیاد پر ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ 150 حاجیوں پر ایک معاون ہوگا جو گھر سے گھر تک ساتھ ہوں گے، اگر لیکیج ہوتی تو ہم اس ٹیسٹ کو دوبارہ کنڈکٹ کرتے۔

سینیٹر عطاء الرحمان نے کہا کہ یہ بتائیں کہ دوران پیپر موبائل پکڑے گئے یا نہیں۔ سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ آپ ایک طرف تو آپ مانتے ہیں کہ لیکیج ہوئیں اور دوسرے لمحے آپ اس کو نہیں مانتے، آپ غلطی تسلیم نہیں کرتے، آپ سمجھتے ہیں این ٹی ایس ایک مقدس ادارہ ہے یا آپ غلطیوں سے پاک ہیں۔

این ٹی ایس حکام نے بتایا کہ 50 ہزار امیدواروں کا ٹیسٹ ہو رہا ہے، اس دوران کوئی دو تین لوگ موبائل لے کر آئے ہیں۔ سینیٹر بشریٰ بٹ نے کہا کہ ایک طرف آپ کہہ رہے ہیں کہ پیپر دوران ٹیسٹ لیک ہوا، موبائل کی چیکنگ میں نااہلی ہوئی۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ آپ اگر صرف این ٹی ایس کو لے کر آتے ہیں تو کہا جائے گا کہ این ٹی ایس کا وزارت کے ساتھ سودا ہوچکا ہے۔

ایڈیشنل سیکرٹری مذہبی امور نے بتایا کہ چار ملین ریال ہم نے حاجیوں کے ٹرانسپورٹ میں بچائے ہیں، ماضی میں صرف جان پہچان اور سفارش سے معاونین کو بھیجا جاتا تھا، حج انتظامات کے لیے پروکیورمنٹ کمیٹی بنی ہوئی ہے جس کے 12ارکان ہیں۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ کسی پارلیمنٹیرین کو بھی اس کمیٹی کا رکن بنایا جانا چاہیے، حاجیوں کو ہر بار بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ہمارے پاکستانی حرم میں بیٹھ کر منتظمین کو بد دعائیں دے رہے ہوتے ہیں۔

ایڈیشنل سیکرٹری نے کہا کہ این ٹی ایس اور وزارت مذہبی امور حکام میں کوئی پیسے کا لین دین کا کچھ ہے تو بتایا جائے۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ہمارے ملک میں صرف ایک ہی ادارہ ہے جو دودھ کا دھلا ہوا ہے باقی سب چور ہیں، آپ پروکیورمنٹ کمیٹی میں علماء اور پارلیمنٹیرین کو شامل کریں، ایک سینیٹ اور ایک قومی اسمبلی سے نمائندہ لے لیں تو یہ آپ کی بہتر رہنمائی کر سکتے ہیں۔

محکمہ اوقاف سے متعلق

ایڈیشنل سیکرٹری مذمبی امور نے کہا کہ سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا اوقاف کی زمین کو واگزار کروایا جائے اور ہمارا قانون ہے کہ 2010 تک قابض ہمارا کرایہ دار بن جائے، ہم زمینوں کو واگزار کروا رہے ہیں۔ اوقاف کی آمدنی کو گردواروں اور مندروں کی دیکھ بھال پر خرچ کیا جاتا ہے۔

ممبر سینیٹر گردیپ نے کہا کہ پنجہ صاحب کی اردگرد زمینوں پر رہائشی کمرے بنائیں۔

ایڈیشنل سیکرٹری مذمبی امور ڈاکٹر عطاء الرحمٰن نے بتایا کہ 100 کمروں کا مزید ننکانہ صاحب پر بنا رہے ہیں، کٹاس راج مندر پر رہائشی کمرے بنا دیے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ہماری بہت ساری زمین قبضے میں ہے، قانون بنایا ہے کہ جو پراپرٹی شہری علاقوں میں ہے ان کو کمرشل استمال کرکے آمدن وصول کی جائے۔ اربوں روپوں کی جائیدادوں کو کراچی میں واگزار کروایا، متروکہ وقف املاک کی زمین کا کرایہ بہتر بنایا جائے، کرایہ مارکیٹ کے قریب قریب ہے۔

سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ متروکہ وقف املاک کی آمدنی اور خرچ کا آڈٹ منگوایا جائے، متروکہ وقف املاک کی کتنی زمین اوقاف کے پاس، کتنی قبضہ اور کتنی زمین کا معاملہ عدالتوں میں زیر التوا ہے۔

سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ متروکہ وقف املاک پر بہت سارے کرپشن کے معاملے ہیں۔

ایڈیشنل سیکرٹری وزارت مذہبی آمور نے کہا کہ کچھ ہماری زمین گمشدہ ہیں ان کا ریکارڈ چیک کیا جا رہا ہے، ہم اپنی زمینوں پر خود پلازہ بنائیں تاکہ ہماری آمدنی میں اضافہ ہو۔

سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ کٹاس راج تلاب کا پانی غائب کر دیا گیا۔ سینیٹر دنیش کمار نے کہا کہ متروکہ املاک وقف صرف پنجاب میں مندروں اور گردواروں پر کام کر رہے ہیں، بلوچستان اور کے پی میں گردواروں و مندروں پر متروکہ وقف املاک دیکھ بھال نہیں کر رہا۔

ایڈیشنل سیکرٹری نے کہا کہ بلوچستان میں اقلیتی عبادت گاہوں کا انتظام صوبائی حکومت کے پاس ہے، دادو کا مندر ہم بنا رہے ہیں، ہنگلا لسبیلا صوبائی حکومت کا پراجیکٹ ہے ہم ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہیں، اگر ہم دنیا کو ہنگلا کا مندر دیکھا دیں تو سیاحت کا مرکز بن جائے گی، ہنگلاج مندر پر افسانوی منظر ہے بہت خوبصورت جگہ ہے۔ سینیٹر دنیش کمار نے کہا کہ میں اپنے خرچ پر کمیٹی ممبران کو ہنگلا لیکر جاؤں گا۔

ایڈیشنل سیکرٹری مذہبی آمور نے کہا کہ 18مندروں اور گردواروں پر ہماری قانونی ذمہ داری ہے، ہنگلاج مندر پر جانے کے لیے انفرا اسٹرکچر بنانا صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے۔

سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ مسلم فیملی قانون میں ترامیم بل پر وزارت قانون نے جواب جمع نہیں کروایا، پوری دنیا کے اسکالرز فیملی ترامیم قانون پر زوم پر بریفننگ دینے کو تیار ہیں۔

سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ شادی ویسے بھی معاہدہ ہے، شادی اور شادی کے معاملے کو مشکل نہیں بنایا جائے۔ سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ مرد کمائی کرتا ہے اور عورت بچوں کو پالتی ہے تو مرد کی کمائی سے بننے والا گھر دونوں کا ہونا چاہیے، اگر طلاق ہو تو دونو کو گھر کا حصہ ملنا چاہیے۔

چیئرمین کمیٹی عطاء اللہ نے کہا کہ شریعت میں طلاق کی صورت میں نان نفقہ کی ذمہ داری سابقہ خاوند پر ہوگی۔

سینیٹر ڈاکڑ افنان نے کہا کہ اگر شادی کے معاملے پر جائیداد کے معاملے کے قانون کو چھیڑا گیا تو لوگ یورپ کی طرح شادیاں ہی نہیں کریں گے۔ سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ میرا معاملہ ہے جو اثاثے شادی سے بعد اور طلاق سے پہلے بناتے ہیں ان کو میاں بیوی میں تقسیم ہونا چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • وزیراعظم کی منظوری کے بغیر سی ای او انجینئرنگ بورڈ 2 سال سے تعینات
  • پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سی ایس ایس امتحان کے نتائج جاری نہ کرنے پر برہم
  • کلائمیٹ اکاؤنٹیبلٹی بل2024ء اورانکم ٹیکس ترمیمی بل 2025 ء منظور
  • پاکستان کو ڈی سی او کونسل کی 2026 کی صدارت اور ایگزیکٹو کمیٹی کی نشست مل گئی
  • ڈیجیٹل کرنسی ریگولیٹ کرنے سے متعلق مشاورت جاری ؛وزیراعظم
  • سینیٹ کمیٹی اجلاس؛ وزارت مذہبی امور نے حاجیوں کے ٹرانسپورٹ میں کتنے ملین ریال بچائے؟
  • وزیراعظم کی منظوری کے بغیر سی ای او ای ڈی بی کی مدت ملازمت میں توسیع کا انکشاف
  • پی اے سی کا مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلانے کیلئے وزیراعظم کو خط لکھنے کا فیصلہ
  • پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اجلاس، ساؤنڈ سسٹم بیٹھ گیا