UrduPoint:
2025-02-20@20:01:19 GMT

جرمن انتخابات: سرکردہ رہنماؤں کے درمیان اہم امور پر مباحثہ

اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT

جرمن انتخابات: سرکردہ رہنماؤں کے درمیان اہم امور پر مباحثہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 فروری 2025ء) جرمنی کے عام انتخابات کے لیے اہم سیاسی جماعتوں کی جانب سے جو چار چانسلر کے امیدوار ہیں، انہوں نے پیر کے روز عوامی نشریاتی ادارے اے آر ڈی کے ٹی وی مباحثے میں حصہ لیا اور کئی اہم امور پر اپنی پالیسیوں کے حوالے سے عوام کے سوالات کے جواب دیے۔

گرین پارٹی کے امیدوار ہابیک سے ماحولیاتی انفراسٹرکچر کے حوالے سے سوالات

گرین پارٹی کے امیدوار رابرٹ ہابیک کو توانائی کے بنیادی ڈھانچے کو اپ ڈیٹ کرنے کے لیے زیادہ لاگت سے متعلق ایک سوال کا سامنا کرنا پڑا۔

یہ سوال خاص طور پر ہاؤسنگ، سولر پینلز، ہیٹ پمپس اور عمومی طور پر بڑھتے ہوئے تعمیراتی اخراجات کے حوالے سے تھا۔

ہابیک نے یوکرین میں جنگ اور توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے ساتھ ساتھ جرمنی کی بیوروکریسی کو ختم کرنے کی ضرورت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کی پارٹی نے اس مقصد کے لیے کافی حد تک پیش قدمی کی ہے۔

(جاری ہے)

جرمن انتخابات: چانسلر شولس اور حریف میرس میں پہلا مباحثہ

ہابیک نے مزید کہا کہ ایس پی ڈی گرینز اور ایف ڈی پی کے درمیان تین طرفہ اتحاد نے اقتدار کے اپنے ابتدائی وقت کے دوران جو سب سے بڑی غلطی کی تھی وہ طویل مدتی ساختی فنڈنگ ​​میں زیادہ سرمایہ کاری نہ کرنا تھی۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ اس انتخابی مہم کے دوران ان کے خیال میں کس موضوع پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی، تو ہابیک نے فوراً جواب دیا کہ یہ ماحولیات سے متعلق ہے۔ اس کے بعد انہوں نے توانائی کے محاذ پر "تکنیکی طور پر کھلے" ہونے کے دعوے کے لیے فریڈرش میرس پر تنقید کی اور ان پر موجودہ ماحولیاتی پالیسیوں پر بیک ڈور حملے کے طور پر استعمال کرنے کا الزام لگایا۔

انہوں نے کہا کہ میرس کی متوقع تبدیلی بالآخر یورپی آب و ہوا کی تحریک کے خاتمے کا باعث بن سکتی ہے اور زور دیا کہ اگر جرمنی نے کاربن کے اخراج کو کم کرنے کی لڑائی کی حمایت چھوڑ دی تو دیگر یورپی ممالک بھی اس کی پیروی کریں گے۔

ہابیک نے یہ بھی کہا کہ صحت کی دیکھ بھال اور طلباء کے قرضوں جیسی چیزوں کی مالی اعانت میں حکومتی سرمایہ کاری کو افراط زر اور زندگی کی لاگت کے ساتھ رفتار برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔

جرمنی: تقریباً نوے فیصد ووٹرز بیرونی مداخلت سے خوفزدہ

اس کے بعد انہوں نے موجودہ کرائے کی حدوں کو ختم کرنے کے بجائے ہاؤسنگ مارکیٹوں کو ریگولیٹ کرنے والے قوانین میں موجود خامیوں کو ختم کرنے پر زور دیا اور اس معاملے پر میرس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی تجویز سے مکانات کی قیمتیں مزید بڑھ جائیں گی۔

اے ایف ڈی کی رہنما وائڈل سے امیگریشن اور صحت پر سوالات

انتہائی دائیں بازو کی جماعت الٹرنیٹیو فار جرمنی (اے ایف ڈی) کی جانب سے چانسلر کی امیدوار ایلس وائیڈل سے ایک کیتھولک پادری نے سوال کیا اور پوچھا کہ وہ نرسنگ میں کام کرنے والے غیر ملکیوں کو یہ کیسے یقین دلائیں گی کہ ان کا بھی جرمنی میں گھر ہے۔

اس پر انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت غیر قانونی ہجرت کے خلاف ہے لیکن یہ تسلیم کیا جرمنی کو امیگریشن کی ضرورت ہے اور پارٹی انضمام میں دلچسپی رکھتی ہے۔

وائیڈل نے افغانوں، عراقیوں اور شامیوں کا نام لیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ غیر ملکی جرمن جرائم کی شرح کو بڑھا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی اہل امیگریشن کی وکالت کرتا ہے، تاہم یہ بات غیر منصفانہ ہے کہ غیر قانونی امیگریشن کے خاتمے کو نسل پرستی کہا جائے۔

جرمنی میں انتخابی نظام کیسے کام کرتا ہے؟

ایک ہم جنس پرست سائل نے وائیڈل سے جب سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ ان کی پارٹی معاشی مواقع فراہم کر کے نوجوان شہریوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کی کوشش کرے گی۔

یہ پوچھے جانے پر کہ سوشل میڈیا یا موبائل ٹیلی فون کے استعمال پر کیا وہ بچوں کے لیے عمر کی کم از کم حد پر غور کریں گی، اس پر انہوں نے کہا کہ یہ بالغوں پر منحصر ہے کہ وہ رول ماڈل کے طور پر کام کریں، حالانکہ انہوں نے اتفاق کیا کہ اسکولوں میں سیل فون کے استعمال پر پابندی لگانا اچھا خیال ہے۔

جرمنی کو یورپی یونین سے الگ کرنے کے امکان سے متعلق ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت اے ایف ڈی یورپی یونین چھوڑنے میں دلچسپی نہیں رکھتی، لیکن انفرادی رکن ممالک کے لیے زیادہ خودمختاری کی وکالت کرتی ہے۔

شولس سے ریٹائرمنٹ ، ہیلتھ کیئر فنڈنگ ​​اور امریکہ کے تعلق سے سوالات

اس کے بعد ایس پی ڈی کے چانسلر اولاف شولس سے بھی سوال کیے گئے۔

میرس سے مصافحہ کرنے کے بعد دونوں رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ وہ 23 فروری کے انتخابات کے بعد ایک ہی انتظامیہ میں ساتھ کام نہیں کریں گے۔ سیاسی تجزیہ کار اس ممکنہ اتحاد کا تصور کرتے رہے ہیں کہ انتخابات کے بعد ایس ڈی پی اور سی ڈی یو میں ایک مضبوط اتحاد ہو سکتا ہے۔

جرمنی: بچوں پر چاقو حملہ، مشتبہ افغان ملزم سے تفتیش جاری

شولس نے ریٹائرمنٹ فنڈز کے ساتھ ساتھ صحت کی دیکھ بھال، تربیت، ادائیگی اور کم اسٹاف کے مسائل کے بارے میں سوالات کے جوابات دیے۔

ایک افغان سائل نے ایسے غیر ملکیوں کے لیے جو جرمنی میں اپنی زندگی گزارنا چاہتے ہیں، خاص طور پر صحت کی دیکھ بھال کے شعبے میں مزید مواقع کے لیے جذباتی التجا کی۔

شولس سے پوچھا گیا کہ ان کا امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھنے کا منصوبہ کیسا ہے۔ چانسلر نے امریکی-جرمن تعلقات کی تاریخی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے سلامتی کے ساتھ ہی اقتصادی تعلقات کو کلیدی قرار دیا۔

تاہم انہوں نے امریکی نائب صدر جے ڈی وینس پر جرمن انتخابات میں مداخلت کا الزام بھی لگایا۔

جب ان سے مقررہ آمدن والے بزرگ غربت اور بڑھتے ہوئے کرائے کے مسئلے کے بارے میں پوچھا گیا تو، شولس نے کہا کہ کرایوں کو محدود کرنے کے لیے قوانین پاس کیے جانے چاہئیں اور مزید سستی رہائش کی ضرورت ہے۔

انہوں نے اپنی انتظامیہ کے اقدامات کا دفاع کرتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کیا کہ انہوں نے لاکھوں نئے اپارٹمنٹس کی بنیاد رکھ دی ہے۔

البتہ ان کی تعمیر کا وعدہ ابھی تک پورا نہیں ہوا ہے۔

جرمنی: انتہائی دائیں بازو کی جماعت اے ایف ڈی نے ایلس وائیڈل کو بطور چانسلر امیدوار منتخب کر لیا

فریڈرش میرس کا ملک بدری پر اصرار

قدامت پسند جماعت سی ڈی یو کے رہنما فریڈرش میرس سے جب پوچھا گیا کہ وہ جرمنی کے جرائم کے مسئلے کو کیسے حل کرنے کی توقع رکھتے ہیں، جو کہ ایک سائل نے تجویز کیا کہ یہ زیادہ تر نفسیاتی بیماری کا معاملہ ہے، تو انہوں نے جواباً کہا کہ امیگریشن قوانین کے ذریعے۔

میرس تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کے اپنے منصوبے پر قائم رہے اور کہا کہ یہاں غیر قانونی طور پر رہنے والوں کو ایسا سلوک نہیں کرنا چاہیے اور یہ ناقابل تردید بات ہے کہ وہ جرائم کر رہے ہیں۔

میرس نے سیاسی مصروفیات کے بارے میں ایک نوجوان ووٹر کے ایک سوال کا استعمال سیاسی جماعتوں میں مزید ذاتی مصروفیت کا مطالبہ کرنے کے لیے کیا۔

ایک استاد کے جواب میں جس نے پوچھا تھا کہ وہ تعلیمی نظام میں کیا تبدیلیاں دیکھنا چاہیں گے، میرس نے کہا کہ یہ جرمنی کی ریاستوں کا حق ہے نہ کہ وفاقی حکومت کا۔ انہوں نے اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے والدین کی زیادہ ذمہ داری پر زور دیا۔

ص ز/ ج ا (ڈی پی اے)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انہوں نے کہا کہ کہا کہ ان کی کرتے ہوئے اے ایف ڈی کی ضرورت کی جماعت ہابیک نے کے ساتھ کرنے کے کے بعد کیا کہ کے لیے

پڑھیں:

غزہ کے حوالے سے عرب رہنماؤں کا متبادل منصوبہ ابھی نہیں دیکھا،ڈونلڈ ٹرمپ

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے عرب رہنماؤں کا وہ مجوزہ منصوبہ نہیں دیکھا جو غزہ میں جنگ بندی کے بعد زیر بحث آیا ہے۔

وائس آف امریکا کے مطابق صحافیوں سے گفتگو کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ جب میں معاہدہ ایک بار دیکھ لوں گا تو اس کے حوالے سے آگاہ کر سکوں گے۔

مجوزہ منصوبہ کیا ہے؟

واضح رہے کہ عرب رہنماؤں کے مجوزہ منصوبے کے تحت غزہ میں بسنے والے فلسطینیوں کو یہاں سے بے دخل نہیں کیا جائے گا جب کہ بحیرۂ روم کے ساحل پر موجود اس 41 کلومیٹر طویل ساحلی پٹی کا انتظام بھی فلسطینی خود سنبھالیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: یوکرین امن مذاکرات کی میزبانی پر پیوٹن کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کا بھی سعودی عرب کا شکریہ

امریکی صدر نے رواں ماہ کے آغاز میں کہا تھا کہ وہ غزہ سے تمام (تقریباً 20 لاکھ) فلسطینیوں کو پڑوسی ممالک اردن اور مصر میں منتقل کرنا چاہتے ہیں جس کے بعد امریکا اس علاقے کا انتظام سنبھال کر اس کی تعمیر و ترقی کرے گا۔ تاہم عرب ممالک نے امریکی صدر کے اس منصوبے کو مسترد کر دیا تھا۔

رواں ہفتے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کی تھی جس میں انہوں نے اشارہ دیا تھا کہ اگر علاقائی رہنما کوئی جوابی پیش کش سامنے رکھیں تو اس منصوبے کو مؤخر کیا جا سکتا ہے۔

مصر، اردن، سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات کے سفارت کار جمعے کو سعودی دارالحکومت ریاض میں ملاقات کریں گے۔

عرب رہنماؤں کی ملاقات میں زیربحث آنے والے معاملات

عرب رہنماؤں کی ملاقات میں غزہ کی تعمیر نو کے معاملے پر تبادلۂ خیال کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ مصر کا غزہ کی تعمیر نو کے لیے 20 ارب ڈالر جمع کرنے کا منصوبہ بھی زیرِ بحث آئے گا جو تین برس میں مشرقِ وسطیٰ کے ممالک سے جمع کیے جائیں گے۔

واضح رہے کہ امریکا، قطر اور مصر کی ثالثی کے نتیجے میں اسرائیل اور حماس کے درمیان گزشتہ ماہ 3 مراحل پر مشتمل جنگ بندی معاہدے پر اتفاق ہوا تھا۔

مزید پڑھیے: ’ان کے پاس ہم سے زیادہ پیسہ ہے،‘ ڈونلڈ ٹرمپ نے انڈیا کو فنڈنگ بند کردی

جنگ بندی کے تحت پہلے مرحلے میں حماس کو 33 یرغمال جب کہ اسرائیل کو سینکڑوں فلسطینی قیدی رہا کرنے ہیں جس کے بعد فریقین کے درمیان جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کے لیے مذاکرات ہوں گے۔

غزہ جنگ کا آغاز 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد ہوا تھا جس میں اسرائیلی حکام کے مطابق 1200 افراد ہلاک اور لگ بھگ 250 کو یرغمال بنالیا گیا تھا۔ امریکا، یورپی یونین اور دیگر مغربی ممالک حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔

حماس کی کارروائی کے بعد غزہ پر قہر ڈھاتے ہوئے اسرائیلی فوج نے 48 ہزار 291 فلسطینیوں کو شہید کردیا۔ جب کہ ایک لاکھ 11 ہزار 722 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ سرکاری میڈیا آفس نے اپنی ہلاکتوں کی تعداد کو کم از کم 61 ہزار 709 بتایا ہے کیوں کہ اس میں ان افراد کو بھی شامل کیا گیا ہے جو ملبے تلے دبے اور اب تک لاپتا ہیں اور وہ مردہ تصور کیے جا رہے ہیں۔

فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کی کسی بھی کوشش کو مسترد کرتے ہیں، امارات

دریں اثنا متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید النہیان نے امریکا کے وزیر خارجہ مارکو روبیو کو بتایا ہے کہ وہ امارات فلسطینیوں کو ان کی زمین سے بے گھر کرنے کی کسی بھی کوشش کو مسترد کرتے ہیں۔ مارکو روبیو نے بدھ کو ابوظہبی کا دورہ کیا جہاں انہوں نے امارات کے صدر سے ملاقات کی۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق مارکو روبیو کی اماراتی صدر سے ملاقات ان کے اس کثیر الملکی دورے کا حصہ تھی جس میں انہوں نے اسرائیل اور سعودی عرب کے رہنماؤں سے بھی ملاقات کی تھی۔

یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب غزہ کی پٹی میں اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے درمیان 19 جنوری سے شروع ہونے والی جنگ بندی کا پہلا مرحلہ مکمل ہونے کے قریب ہے۔

یرغمالوں کی رہائی

اس سے قبل حماس کے ایک رہنما خلیل الحیا نے ایک ریکارڈڈ بیان میں اعلان کیا تھا کہ ان کی تنظیم ہفتے کو 6 زندہ اسرائیلی یرغمالوں کو رہا کرنے اور جمعرات کو 4 کی لاشیں دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔

مزید پڑھیں: غزہ، فرانس نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کا منصوبہ مسترد کردیا

یہ اعلان اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی میں طویل عرصے سے مطلوب موبائل ہومز اور تعمیراتی سامان کی اجازت دینے کے بعد سامنے آیا ہے۔

ایک اسرائیلی عہدے دار کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو نے یرغمالوں کی رہائی میں تیزی لانے کے لیے غزہ میں موبائل ہومز اور تعمیراتی سامان کی اجازت دینے پر رضا مندی ظاہر کی ہے۔

گزشتہ ہفتے حماس نے موبائل ہوم کے مسئلے اور جنگ بندی کی مبینہ خلاف ورزی کا حوالہ دیتے ہوئے مزید یرغمالوں کی رہائی روکنے کی دھمکی دی تھی۔

غزہ میں جنگ بندی معاہدے کا پہلا مرحلہ مارچ کے شروع میں ختم ہونے جا رہا ہے۔ اس معاہدے کے تحت اب تک حماس نے 24 یرغمالوں جب کہ اسرائیل نے ایک ہزار سے زیادہ فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا ہے۔

جنگ بندی کا دوسرا مرحلہ

اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے دوسرے اور زیادہ مشکل مرحلے پر مذاکرات ہونے ہیں۔

حماس کا کہنا ہے کہ وہ لڑائی میں طویل تعطل اور غزہ سے اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا کی صورت میں ہی باقی یرغمالوں کو رہا کرے گی۔

دوسری جانب اسرائیل غزہ میں حماس کے کسی بھی طرح کے عسکری یا حکومتی کردار کو ختم کرنے کے اپنے مقصد پر قائم ہے۔

یہ بھی پڑھیے: حماس کا ٹرمپ منصوبے کیخلاف مصر و اردن کے مؤقف کا خیر مقدم

اسرائیل کے وزیرِ خارجہ غدعون ساعر نے منگل کو کہا تھا کہ اسرائیل دوسرے مرحلے کی تفصیلات پر مذاکرات شروع کرنے کے لیے تیار ہے۔ جنگ بندی معاہدے کے تحت یہ بات چیت 2 ہفتے پہلے شروع ہونی تھی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکا حماس حماس اسرائیل جنگ بندی عرب رہنما غزہ غزہ متبادل منصوبہ فلسطین

متعلقہ مضامین

  • جرمنی میں آباد پاکستانیوں کو اپنا سماجی رویہ بدلنا ہو گا، کومل ملک
  • غزہ کے حوالے سے عرب رہنماؤں کا متبادل منصوبہ ابھی نہیں دیکھا،ڈونلڈ ٹرمپ
  • جرمنی کے انتخابات اور تبدیلی؟
  • جرمن اور ڈچ ہاکی کلب ٹیموں کے اعزاز میں تقریب
  • پاکستان و آسٹریلیا کے درمیان تجارت پائیدار بنیاد پر بڑھایا جائے
  • جماعت اسلامی کا پی ٹی آئی کے گرینڈ الائنس کا حصہ بننے سے انکار
  • جرمنی: پاکستانی تارکین وطن کی سیاست میں عدم شمولیت کیوں؟
  • فیکٹ چیک: روس، جرمن انتخابات پر کس طرح اثر انداز ہو رہا ہے؟
  • معروف کرکٹر جے پی ڈومنی اور اہلیہ کے درمیان طلاق ہوگئی