سیلز ٹیکس رولز میں ترمیم، ریٹیلرز کے کاروباری مراکز کو سیل کرنے کے دائرہ کار میں اضافہ
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے سیلز ٹیکس رولز مجریہ 2006 میں ترمیم کرتے ہوئے ٹیئر ون ریٹیلرز کے کاروباری مراکز کو سیل کرنے کے دائرہ کار میں اضافہ کردیا ہے۔
سیلز ٹیکس رولز 2006 میں ترمیم کا ایس آر او جاری کرتے ہوئے ایف بی آر نے بتایا ہے کہ کاروباری احاطے کو ان صورتوں میں سیل کر دیا جائے گا جہاں ریٹیلرز یعنی خوردہ فروش غیر تصدیق شدہ انوائس جاری کرنے میں ملوث ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ہم غلط جانب جا چکے، ٹیکسز میں کمی کرنی چاہیے، چیئرمین ایف بی آر
نوٹیفکیشن کے مطابق اگر کوئی اسٹور یا کاروباری مرکز ایف بی آر ڈیٹا بیس سے 48 گھنٹوں کے لیے منقطع ہو جائے یا اگلے 24 گھنٹوں میں آف لائن مدت کے انوائس سسٹم میں داخل نہ ہوں یا ڈیوائس آف لائن مدت کے دوران انوائسز کا ریکارڈ نہ رکھنے کی صورت میں بھی متعلقہ اسٹور سیل کردیا جائے گا۔
قواعد میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ رجسٹرڈ شخص کی جانب سے کی گئی مذکورہ خلاف ورزیوں پر رجسٹرڈ شخص کی کاروباری جگہ کو سیل کیا جاسکتا ہے۔
مزید پڑھیں: ایف بی آر نے افسران کے لیے ایک ہزار سے زیادہ نئی گاڑیاں خریدنے کا عمل روک دیا
ایف بی آر نے انٹیگریٹڈ ٹیئر ون ریٹیلر کے کاروباری احاطے کو ڈی سیل کرنے کے طریقہ کار کو بھی واضح کیا ہے، جہاں کاروباری احاطے کو رول l50ZF-O کے تحت سیل کر دیا گیا ہے اسے ڈی سیل کرنے کے لیے درج ذیل طریقہ کار اپنایا جائے گا۔
کمشنر ان لینڈ ریونیو جس کا اس کیس پر دائرہ اختیار ہے سیلز ٹیکس ایکٹ کے سیکشن 33 کے سیریل نمبر 24 کے تحت فراہم کردہ آرڈر پاس کرکے جرمانہ عائد کرے گا۔
مزید پڑھیں: خردہ فروش ڈیجیٹل لین دین سہولیات مربوط کریں، ایف بی آر
جرمانے کی ادائیگی اور آڈٹ کے دوران پیدا ہونے والی ڈیمانڈ کے 24 گھنٹے کے اندر متعلقہ کمشنر ان لینڈ ریونیو کی طرف سے کاروباری احاطے کی ڈی سیلنگ کا حکم جاری کیا جائے گا۔
کوئی بھی چیز کاروباری احاطے کو سیل کرنے میں رکاوٹ نہیں ڈالے گی بشرطیکہ سافٹ ویئر کی خرابی کو دور کردیا گیا ہو اور سیلز ٹیکس رولز 2006 کے باب XIV-AA کی تمام ضروریات کو مربوط ٹیئر-I ریٹیلرز یعنی خوردہ فروش نے پورا کیا ہو۔
مزید پڑھیں: لاہور کے مقابلے میں کراچی زیادہ ٹیکس کیوں دیتا ہے؟ چیئرمین ایف بی آر نے بتا دیا
رجسٹرڈ شخص حکم کے خلاف اپیل دائر کر سکتا ہے۔ کمشنر ان لینڈ ریونیو کاروباری احاطے کو سیل کرنے کے بعد تین کام کے دنوں کے اندر ایسے خوردہ فروش کی تمام شاخوں میں نصب تمام پوائنٹ آف سیل یعنی پی او ایس مشینوں کے انٹیگریٹر کے ذریعے سافٹ ویئر آڈٹ کو یقینی بنائے گا۔
کمشنر ان لینڈ ریونیو اس مدت کے دوران فروخت کو ریکارڈ کرنا یقینی بنائے گا، کمشنر ان لینڈ ریونیو سافٹ ویئر آڈٹ کے نتیجے میں غیر اعلان شدہ فروخت کی صحیح مقدار کا پتا لگائے گا اور ٹیکس کا تعین کرے گا جس سے بچنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
مزید پڑھیں: ایف بی آر افسران کو ہدف میں ناکامی پر 6 ارب کی گاڑیاں دی جارہی ہیں، فیصل واوڈا
ایف بی آر کے مطابق عدم ادائیگی کی صورت میں، ڈی سیلنگ ایک ماہ کے بعد کی جائے گی اور اگر ڈیفالٹ جاری رہا تو 15 دن کے بعد کاروباری جگہ کو دوبارہ سیل کر دیا جائے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آڈٹ سافٹ ویئر آڈٹ سیلز ٹیکس رولز غیر اعلان شدہ فروخت فیڈرل بورڈ آف ریونیو کمشنر ان لینڈ ریونیو.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: آڈٹ غیر اعلان شدہ فروخت فیڈرل بورڈ آف ریونیو کمشنر ان لینڈ ریونیو کمشنر ان لینڈ ریونیو کاروباری احاطے کو سیل کرنے کے کو سیل کرنے مزید پڑھیں ایف بی ا ر سافٹ ویئر جائے گا ڈی سیل کے لیے
پڑھیں:
این اے 241 مبینہ دھاندلی کیس، الیکشن کمیشن و دیگر سے دلائل طلب
— فائل فوٹوسندھ ہائی کورٹ نے این اے 241 کے نتائج میں مبینہ دھاندلی سے متعلق کیس کی اگلی سماعت پر الیکشن کمیشن سمیت دیگر سے دلائل طلب کر لیے۔
این اے 241 میں مبینہ انتخابی دھاندلی سے متعلق پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما خرم شیر زمان کی الیکشن پٹیشن کی منتقلی کے خلاف درخواست کی سماعت ہوئی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ الیکشن ٹریبونل کے قیام کے طریقہ کار میں ترمیم سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کہاں ہے؟
جس کے جواب میں درخواست گزار کے وکیل نے کہا ہے کہ عدالت نے قرار دیا کہ الیکشن ٹریبونلز کو ریگولیٹ کرنا ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار ہے۔
عدالت کی جانب سے ریمارکس میں کہا گیا ہے کہ پہلے ہم یہ دیکھیں گے کہ یہ معاملہ ہمارے دائرہ اختیار میں آتا ہے یا نہیں، ٹریبونلز کا قیام چیف جسٹس ہائی کورٹس کی مشاورت سے کیا جاتا ہے۔
عدالت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن ہائی کورٹ کے انتظامی دائرہ اختیار میں نہیں آتا، الیکشن ٹریبونل کے قیام سے قبل عدالت مداخلت نہیں کرتی ہے۔
جس کے جواب میں درخواست گزار کے وکیل نے کہا ہے کہ الیکشن پٹیشن کی منتقلی الیکشن پراسس کا حصہ نہیں، اس لیے عدالت کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔
سماعت کے دوران قائم مقام چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے کہا کہ ججز کو پسند نا پسند کی بنیاد پر منتخب کرنے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔
قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ ججز پر اعتماد ہونا چاہیے ورنہ یہ سسٹم نہیں چلے گا، اب نیا طریقہ شروع ہو گیا ہے، جج کے خلاف ریفرنس فائل کر کے رجسٹرار کو کہا جاتا ہے ہمارے کیسز اس جج کے سامنے نہ لگائے جائیں۔
اس کے ساتھ ہی وکیل درخواست گزار علی لاکھانی ایڈووکیٹ کے دلائل مکمل ہو گئے۔
عدالت نے درخواست کی سماعت 8 مئی تک ملتوی کر دی۔