پابندی کے باوجود کتوں کو بےرحمانہ طریقے سے ہلاک کرنے سے متعلق تفصیلی فیصلہ جاری
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
پنجاب میں پابندی کے باوجود کتوں کو بے رحمانہ طریقے سے ہلاکتوں کے خلاف دائر مقدمہ کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا گیا۔
لاہور ہائی کورٹ، راولپنڈی بینچ نے جسٹس جواد حسن کی سربراہی میں فیصلہ جاری کیا ہے، جس میں حکومت پنجاب اور مقامی حکام کو آوارہ کتوں کے ساتھ انسانی سلوک کے پروٹوکول پر سختی سے عمل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
یہ اینیمل برتھ کنٹرول پالیسی 2021 کے نفاذ کے لیے پہلا بڑا فیصلہ ہے، اس کیس میں انوائرمینٹل اینڈ اینیمل رائٹس کنسلٹنٹس کے بانی التمش سعید ایڈوکیٹ اور احمد شعیب عطا ایڈووکیٹ نے عدالت میں دلائل دیئے۔
آئین پاکستان 1973 کے آرٹیکل 199 کے تحت دائر کی گئی درخواست میں راولپنڈی میں آوارہ کتوں کے بے دریغ قتل کو چیلنج کیا گیا تھا، جو 1890 کے پریوینشن آف کروئلٹی ٹو اینیملز ایکٹ کی شق 5 اور پنجاب اینیمل ہیلتھ ایکٹ 2019 کی شق 16 کی خلاف ورزی تھی۔
عدالت نے آوارہ کتوں کے بے دریغ قتل پر سختی سے پابندی عائد کرتے ہوئے ہدایت دی ہے کہ حکام اینیمل برتھ کنٹرول (ڈاگز) پالیسی 2021 کی شق 8 اور 9 پر عمل کریں، اب صرف وہی کتے جو ناقابل علاج بیمار یا مہلک زخموں کا شکار ہوں، ویٹرنری ماہر کی نگرانی میں انسانی طریقوں کے ذریعے مارے جا سکیں گے۔
اس کے علاوہ، عدالت نے حکم دیا ہے کہ کسی بھی کتے کو دوسرے کتے کی موجودگی میں نہیں مارا جائے گا، اور تمام اقدامات انسانی سلوک کے معیارات کے مطابق ہونے چاہئیں۔ اس فیصلے کے نتیجے میں کتے مارنے پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
مزید برآں، مردہ کتوں کی مناسب تدفین ضروری ہوگی، اور حکام کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ مرنے سے پہلے کسی بھی جانور کو دفن نہ کیا جائے۔
عدالت نے یہ بھی برقرار رکھا کہ پاکستانی شہری جانوروں کے ساتھ ظلم و ستم کو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے طور پر چیلنج کر سکتے ہیں، جس سے جانوروں کے تحفظ کے لیے قانونی منظرنامہ مزید مستحکم ہوا ہے۔
جسٹس جواد حسن نے اپنے فیصلے میں زور دیا کہ عدالت کسی بھی پالیسی معاملے میں مداخلت نہیں کر سکتی جب تک کہ وہ غیر آئینی، غیر معقول یا غیر قانونی نہ ہو۔ تاہم، انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ جانوروں کے حقوق کو قانونی فریم ورک کے اندر محفوظ بنایا جانا چاہیے اور حکام کو ہدایت دی کہ وہ اینیمل برتھ کنٹرول (ڈاگز) پالیسی 2021 کو اس کی اصل روح کے مطابق نافذ کریں۔
ایڈووکیٹ التمش سعید کاکہنا ہے کہ یہ فیصلہ پاکستان میں جانوروں کی فلاح و بہبود کی جدوجہد میں ایک سنگ میل ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ یہ ایک قانونی اعتراف ہے کہ اجتماعی طور پر کتوں کا قتل غیر قانونی ہے اور اسے انسانی اور سائنسی متبادل کے ذریعے تبدیل کیا جانا چاہیے۔
پارٹنر احمد شعیب عطا نے مزید کہا کہ حکومت کو اب اخلاقی، طویل مدتی حل جیسے کہ نس بندی اور ویکسینیشن کو ترجیح دینی چاہیے بجائے اس کے کہ بڑے پیمانے پر قتل کو اپنایا جائے۔
انہوں نے حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ عدالت کی ہدایات پر مکمل طور پر عمل کریں۔
انہوں نے بتایا یہ کیس اس وقت دائر کیا گیا جب راولپنڈی میں آوارہ کتوں کے اجتماعی قتل کی متعدد رپورٹس منظر عام پر آئیں، جہاں مقامی حکام نے کتوں کو گولی مارنے اور زہر دینے جیسے ظالمانہ اقدامات کیے۔
درخواست گزاروں نے مؤقف اختیار کیا کہ ظالمانہ پالیسیوں کی بجائے، ویکسینیشن، نس بندی اور کمیونٹی پر مبنی دیکھ بھال جیسے انسانی متبادل نافذ کیے جانے چاہئیں۔ اگرچہ حکومت نے ریبیز اور کتوں کے کاٹنے کے حوالے سے عوامی تحفظ کے خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے اقدامات کا دفاع کیا، درخواست گزاروں نے کامیابی سے ثابت کیا کہ اجتماعی طور پر قتل نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ ایک غیر اسلامی عمل بھی ہے۔
جانوروں کے حقوق کے کارکن اب مطالبہ کر رہے ہیں کہ اینیمل برتھ کنٹرول (ڈاگز) پالیسی 2021 کا فوری نفاذ کیا جائے، جس کے لیے آزاد نگرانی کے طریقہ کار، تحصیل عملدرآمد کمیٹی کی تشکیل، بڑے پیمانے پر کتوں کی نس بندی اور ویکسینیشن کے قومی پروگراموں میں سرکاری سرمایہ کاری، اور عوام میں جانوروں کی ذمہ دارانہ دیکھ بھال اور آوارہ کتوں کے انسانی طریقے سے انتظام کے لیے آگاہی مہم چلائی جائے۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان آوارہ کتوں کے جانوروں کے پالیسی 2021 انہوں نے کے لیے کیا کہ
پڑھیں:
9 مئی کیسز پر ٹرائل 4 ماہ میں مکمل کرنے کا ایک ہی بار آرڈر جاری کرینگے: چیف جسٹس
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا ہے کہ 9 مئی کے تمام کیسز پر ٹرائل 4 ماہ میں مکمل کرنے کا ایک ہی مرتبہ آرڈر جاری کریں گے۔
نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے9 مئی مقدمات میں نامزد ملزمان کی ضمانت منسوخی کیلئے اپیلوں پر سماعت کی۔
عدالت نے سینیٹر اعجاز چودھری کی درخواست ضمانت پر پنجاب حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت جمعرات تک ملتوی کر دی۔
دریں اثنا پی ٹی آئی کے حافظ فرحت عباس اور امتیاز شیخ کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواستوں پر سماعت کی، سپریم کورٹ نے حافظ فرحت عباس کو جمعرات تک گرفتار کرنے سے روک دیا اور ان کی عبوری ضمانت 50 ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض منظور کر لی۔
اسلام آباد میں اوورسیز پاکستانیوں کا پہلا سالانہ کنونشن،دنیا بھر سے پاکستانیوں کی شرکت
وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ امتیاز شیخ پہلے ہی عبوری ضمانت پر ہیں، جس پر سپریم کورٹ نے امتیاز شیخ کی عبوری ضمانت میں جمعرات تک توسیع کر دی۔
اس کے علاوہ9 مئی واقعات میں نامزد ملزم محمد فہیم قیصر کے وکیل بابر اعوان عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ 4 ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کے حکمنامے سے کارکنان کو مشکلات پیش آ رہی ہیں، کوئی چھلیاں بیچنے والا ہے تو کوئی جوتے پالش کرنے والا، جنہیں 200 کلومیٹر کا سفر طے کرنا پڑ رہا ہے، ٹرائل سرگودھا کے بجائے میانوالی میں چلانے کی استدعا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ ہمارا کام نہیں ہے کہ طے کریں عدالت کہاں ہوگی، یہ ٹرائل کورٹ نے خود طے کرنا ہے۔
امریکی وفد کے سامنے اپوزیشن نے بانی پی ٹی آئی کا دور تک ذکر بھی نہیں کیا، سپیکر ایاز صادق
بابر اعوان نے استدعا کی کہ ایف آئی آر ختم کی جائے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایف آئی آر ختم کرانے کیلئے متعلقہ فورم سے رجوع کریں۔
بابر اعوان نے عدالت کو بتایا کہ انسانی طور پر 4 ماہ میں ٹرائل مکمل ہونا ممکن نہیں ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ قانون میں ٹرائل 3 ماہ میں مکمل کرنے کا ذکر ہے، ہم اپنے تحریری حکمنامے میں ٹرائل مکمل کرنے کیلئے ڈیڈ لائن والی تاریخ بھی لکھ لیں گے۔
بابر اعوان نے کہا کہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ تو ہر ہفتے عمل درآمد رپورٹس لے رہی تھیں، ہم 4 ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کریں گے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ٹھیک ہے آپ چیلنج کر لیجیے گا، ہم اپیل خارج کر رہے ہیں۔
ملزمان کو گنجا کرکے ویڈیو چلانے کیس: ایسا کوئی واقعہ دوبارہ ہوا تو متعلقہ ڈی پی او ذمہ دار ہوگا، عدالت
سپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے کہا کہ ضمانت منسوخی کیلئے مجھے گزارشات تو کرنے دیں، ضمانت کا غلط استعمال بھی کیا جاسکتا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ضمانت کا غلط استعمال کیا گیا تو آپ متعلقہ فورم سے رجوع کر سکتے ہیں۔
بابر اعوان نے کہا کہ ہم سے تعاون کرنے کی بات کی جا رہی ہے اور کیا سر کاٹ کر دے دیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 9 مئی کے تمام کیسز پر ٹرائل 4 ماہ میں مکمل کرنے کا ایک ہی مرتبہ آرڈر جاری کریں گے۔