کراچی(رپورٹ:منیر عقیل انصاری)کراچی کے منتخب نمائندوں کو حلف اٹھائے ڈیڑھ سال کا عرصہ گزر گیا ہے لیکن اب تک کراچی کے25ٹاﺅنز کے چیئرمینز میں بیشتر بے یارومدد گار ہیں،کراچی کے متعدد ٹاﺅنز کو اب تک اپنا دفتر نہیں مل سکا ہے ،ایک ٹاون کے حدود میں دوسرے ضلعے کے ٹاون کا دفتر زبردستی کام کررہا ہے جس سے ٹاون کے حدود کے تعین کے مسائل پیدا ہور ہے ہیں۔

اپنے ضلع میں ٹاﺅن کا دفتر نہ ہونے کے باعث شہری اپنے مسائل کے حل کے لیے متعلقہ ٹاﺅنز کے دفاتر کے بجائے دوسرے ٹاﺅن میں چکر لگانے پر مجبور ہیں۔18ویں ترمیم کے باوجود تاحال سندھ حکومت اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل نہیں کر رہی ہے۔

پیپلز پارٹی کے اپنے ٹاﺅنز چیئرمین دفتر نہ ہونے کے سبب دوسرے ٹاﺅنز میں دخل اندازی کررہے ہیں،کراچی کے25ٹاﺅنز میں سے اورنگی ٹاﺅن کے دفتر میں 2 مزید ٹاﺅنز کے د فاتر قائم ہیں جس میں مومن آباد ٹاﺅن اور منگھوپیر ٹاﺅن شامل ہے،اسی طرح گلشن اقبال ٹاﺅن میں جناح ٹاﺅن کا دفتر موجود ہے،صفوراٹاﺅن اب تک اپنے دفتر سے محروم ہے، نیو کراچی ٹائون کا ایک بڑے حصے پر سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ نے قبضہ کیا ہوا ہے اسی طرح گلبرگ ٹائون کے ساتھ ایک بڑے حصے پر گورنمنٹ آف سندھ کے کئی دفاتر قائم ہیں،کراچی کے25 ٹاﺅنز کو ادھوری مشینری دی گئی ہے۔

 اسی طرح ٹاﺅنز میں ملازمین کی جو تقسیم کی گئی ہے اس میں بھی بعض جگہ کلکرکل اسٹاف زیادہ ہیں تو بعض جگہ افسران زیادہ بھیج دیے گئے ہے اور بعض ٹاﺅن میں کسی شعبے کا کوئی افسر ہی موجود نہیں ہے جبکہ حکومت سندھ کی جانب سے ایس ایل جی کے لوگوں کو بڑی تعداد میں مختلف ٹائونز میں زبردستی کھپایا جارہا ہے اور انہیں ان کی مرضی سے مختلف عہدوں پر تعینات کیا جارہا ہے ۔بہت سارے سرکاری افسر ز کو ٹاﺅن سے صرف پیسے جمع کرنے کے مشن پہ بھیجا جا رہا ہے اس طرح کے دیگر مسائل کے باعث کراچی کے25 ٹاﺅنز اپنی کارکردگی اس طرح نہیں دکھا پا رہے جس طرح ان کو دکھانی چاہیے تھی۔

اس حوالے سے جسارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سٹی کونسل میں جماعت اسلامی کے اپوزیشن لیڈرسیف الدین ایڈووکیٹ نے کہا کہ کراچی کے ٹاﺅنز کو بنے ہوئے ڈھائی سال ہو گئے ہیں ،کیونکہ2021 میں سندھ حکومت کا لوکل گورنمٹ کا قانون آیا تھاا ورانہوں نے اس وقت25 ٹاﺅنز بنانے کا علان کیا تھا اس کے بعد 15جنوری 2022 کو بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے اور پھر بہت تاخیر کے بعد جو ن 2022میں منتخب نمائندوں نے حلف اٹھایا تو ٹاﺅنز بنے ہوئے تو تقریبا ڈھائی سال ہوگئے ہیں اور منتخب نمائندوں کو حلف اٹھائے ڈیڑھ سال ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کو کراچی میں 25 ٹائون بنانے کا بہت شوق تھا اور وہ کراچی میں ایسی ٹاﺅنز کی کٹنگ کرنا چاہتے تھے جس میں ان کے ٹاﺅنز زیادہ سے زیادہ آجائے توانہوں نے یہ شوق پورا کر لیا لیکن ٹائونز کی جو ضروریات اور فنکشنز ہیں اس کے حساب سے اب تک نہ تو ان ٹاﺅنز کو مشینری دی گئی نا ایمپلائیز اس حساب سے ہیں اور نہ ہی دفاتر کو اس طرح انتظام کیا گیا ہے اس وقت بھی صورتحال یہ ہے کہ صفورا ٹاﺅن جہاں پاکستان پیپلز پارٹی کا ٹائون چیئر مین ہے ڈیڑھ سال بعد بھی اس کا اپنا دفتر نہیں ہے،اورنگی ٹاﺅن کے دفتر میں مومن آباد ٹاﺅن اور منگھوپیر ٹاﺅن کے دفاتر کام کررہے ہیں، گلشن اقبال ٹائون ،جناح ٹائون کے ساتھ ان کے دفتر میں بیٹھا ہوا ہے نیو کراچی ٹائون کے ایک بڑے حصے پر سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ نے قبضہ کیا ہوا ہے اسی طرح گلبرگ ٹائون کے دفترکے ساتھ ایک بڑے حصے پر گورنمنٹ آف سندھ کے کئی دفاتر قائم ہے تو یہ صورتحال ہے۔

سیف الدین ایڈووکیٹ نے کہا کہ ٹاﺅ نز کو تقسیم تو کردیا گیا ہے ،تقسیم کرنے کے بعد اوکٹرائے ضلع ٹیکس( او زیڈ ٹی) کا مسئلہ تھا طویل عرصے تک تنخواہیں اتنی کم بھیجی گئی کہ ایمپلائیز کو پوری نہیں ہو رہی تھی اب دو تین مہینے قبل انہوں نے اتنی او زیڈ ٹی بھیجنی شروع کی ہے جس سے ایمپلائیز کی تنخواہیں پوری ہو رہی ہیں لیکن ٹاﺅن کے پاس جو ایمپلائیز ہیں ان کی واجبات پوری کرنے کے پیسے نہیں ہیں کیونکہ حکومت سندھ اب تک وہ پیسے نہیں دیے ہیں تو آج تک ملازمین پریشان گھوم رہے ہیں اور ٹائونز بڑی مشکل سے اپنے ڈیولپمنٹ فنڈ وغیرہ میں کٹ لگا کر بالخصوص جو جماعت اسلامی کے ٹائونز میں وہ ان ملازمین کو واجبات ادا کر رہے ہیں لیکن پنشن کے لیے ابھی بھی وہ رلتے پھر رہے ہیں کیونکہ پنشن کے ایم سی کودینی ہے اور کے ایم سی پنشن نہیں دے رہی، یہ تقریباً 3 ہزار کے قریب لوگ ہیں جو اس وقت شدید پریشان ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ اسی طریقے سے مشینری ہے جب ٹائونز میں تقسیم کیے گئے تو مشینری اس طرح تقسیم کی گئی کہ کسی کے حصے میں کچھ آیا توکسی حصے میں کچھ آیا ہے، جس زمانے 2001 میں لوکل گورنمنٹ کاقانون نافذ تھا تو اس وقت کراچی میں 18 ٹائونز بنائے گئے تھے اوران 18 ٹائونزکو اس وقت کی حکومت سندھ نے وافر مقدار میں مشینری فراہم کی تھی اور تمام ٹاﺅنز کے پاس اپنی اپنی مکمل گاڑیاں تھیں جس میں اسٹریٹ لائٹس صحیح کرنے والی گاڑیاں،ڈمپرز ،پورا ایک سینٹیشن کا نظام تھا ٹریکٹر، لوڈرز، ببکٹس تھے پوری مشینری تھی لیکن وہ اس طویل عرصے میں خرابی ہو گئی نئی مشینری نہیں آئی اب جو ٹائونز تقسیم ہوئے ہیں تو تمام ٹاﺅنز کو ادھوری مشینری دی گئی ہے تو یہ بہت بڑا مسئلہ ہے اسی طرح ٹاﺅنز میں ملازمین کی جو تقسیم کی گئی ہے اس میں بھی بعض جگہ کلکرکل اسٹاف زیادہ چلا گیا ہے تو بعض جگہ افسران زیادہ چلے گئے ہے بعض جگہ کسی شعبے کا کوئی افسر ہی موجود نہیں ہے اور اب مسئلہ دوسرا یہ بنا ہوا ہے کہ حکومت سندھ ایس ایل جی کے لوگوں کو مختلف ٹاﺅنز میں بھیجے چلی جا رہی ہے اور ان کرپٹ لوگوں ان کی مرضی کے مطابق مختلف عہدوں پر تعینات کیا جارہا ہے اور یہ کوئی کام نہیں کرتے ہیں اور کسی دوسرے کو کام نہیں کرنے دیتے ہیں دوسرں کے کام میں روٹے اٹکار ہے ہوتے ہیں۔

سیف الدین ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ بہت سارے صرف پیسہ جمع کرنے کے مشن پر بھیجے گئے ہیں تو یہ سارے مسائل ہیں جس کی وجہ سے ٹاﺅنز اپنی کارکردگی اس طرح نہیں دکھا پا رہے جس طرح ان کو دکھانی چاہیے تھی اس کے باوجود جماعت اسلامی کے جو ٹائونز ہیں چونکہ جماعت اسلامی نے یہ اعلان کیا تھا کہ ہم یہ شکوہ تو نہیں کریں گے اپنے حق کے لیے مطالبات ضرور کریں گے ۔چنانچہ جماعت اسلامی کے پاس جو9 ٹائونز ہے وہ بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں وسائل کم ہونے کے باوجود حکومت سندھ کی جانب سے کوئی ترقیاتی فنڈز نہ ملنے کے باوجود بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں ۔

سیف الدین ایڈووکیٹ نے بتایا کہ پہلے فیس پر انہوں نے بڑی تعداد میں پارکس کو ٹھیک کیے ہیں ،اسٹریٹ لائٹس روشن کی ہیں اور ایک بہت بڑا مسئلہ جو ہے ٹائونز کے ابھی تک ادھوراہے وہ سینیٹیشن کا نظام جو ٹائونز کے پاس نہیں ہے اس سے سندھ حکومت نے سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے ما تحت رکھا ہوا ہے چنانچہ سوئی پر بھی سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ دیکھتا ہے ان ملازمیں کو نہ یوسی نہ ہی ٹائون چیک کر سکتا ہے تو یہ بڑا ادھورا سا نظام ہے کہ ٹاﺅنز اور یو سی کے پاس یہ نظام نہیں ہے واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کا پورا سسٹم وہ بھی حکومت سندھ کے پاس ہے جس کی وجہ سے یہ ساری کی ساری چیزیں نامکمل ہیں اور ڈھائی سال ہوگئے ٹاﺅنز کو بنے ہوئے ڈیڑھ سال ہوگئے ہیں منتخب ٹاﺅنز چیئرمینز کو حلف لیے ہوئے لیکن یہ ساری بنیادی چیزیں ہیں اس کے لیے بھی لوگ اب تک مارے مارے پھررہے ہیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: جماعت اسلامی کے الدین ایڈووکیٹ ایک بڑے حصے پر حکومت سندھ ٹاﺅنز میں ہے اسی طرح کے باوجود نے کہا کہ ٹاﺅنز کو ٹاﺅنز کے ٹائون کے ڈیڑھ سال کراچی کے تقسیم کی انہوں نے ٹاﺅن کے نہیں ہے کرنے کے رہے ہیں ہیں اور گئے ہیں بعض جگہ نہیں کر دفتر نہ کے دفتر سال ہو ہیں تو گئی ہے کے لیے ہے ہیں گیا ہے ہوا ہے ہے اور کے پاس

پڑھیں:

بھارت میں نوجوان ڈکیتوں کی دہشت، 90 سیکنڈز میں بڑی واردات

BIHAR:

بھارت کی ریاست بہار میں دو نوجوان مسلح ڈکیتوں نے 90 سیکنڈ میں بڑی واردات کرکے دہشت پھیلا دی ہے۔

این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق نوجوان ڈکیتوں نے وہ آئے، انہوں نے لوٹا اور غائب ہوگئے کے مصداق ڈکیتی کی کارروائی مکمل کی اور انہوں نے یہ پوری کارروائی محض 90 سیکنڈز میں مکمل کی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ مسلح ڈکیتوں نے ماسک پہنا ہوا تھا اور بہار کے ایک بینک میں داخل ہوتے ہی وقت ضائع کیے بغیر ڈیڑھ لاکھ بھارتی روپے اٹھائے اور اطمینان کے ساتھ واپس چل دیے۔

اس حوالے سے بتایا گیا کہ بہار کے ضلع ویشالی کے علاقے حاجی پور قائم پنجاب نیشنل بینک (پی این بی) کی ایک شاخ میں ڈکیتی ہوئی اور اس کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی حاصل کرلی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق ایک ڈکیت نے اسلحے کے زور پر بینک میں موجود صارفین کو دھماکایا اور دوسرے نے پیسے اکٹھے کیے جو ڈیڑھ لاکھ بھارتی روپے سے زائد تھے۔

پولیس افسر سرابھی سومان نے بتایا کہ 17 اور 18 سال کی عمر کے دو ڈکیت اسلحے کے ساتھ بینک میں داخل ہوئے اور ڈیڑھ لاکھ روپے اٹھالیے تاہم ڈکیتوں کی تصاویر تمام گروپس میں بھیج دی گئی ہیں تاکہ لوگ ان افراد کی شناخت کرسکیں اور مقامی پولیس اسٹیشن کا آگاہ کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈکیتوں نے جاتے جاتے بینک کے عملے اور صارفین کو اندر بند کردیا تھا۔

بہار میں ڈکیتی کے واقعات کے حوالے سے بتایا گیا کہ اس واقعے سے ایک روز پہلے ہی دارالحکومت پٹنہ میں پولیس اور ڈکیتوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا تھا۔

متعلقہ مضامین

  • پیپلز پارٹی نے 17سال میں شہر کا انفرا اسٹرکچر ہی نہیں تعلیم کو بھی تباہ کیا‘منعم ظفر خان
  • پیپلز پارٹی نے کراچی کا انفرا اسٹرکچر ہی نہیں تعلیم بھی تباہ کردی: منعم ظفر خان
  • بھارت میں نوجوان ڈکیتوں کی دہشت، 90 سیکنڈز میں بڑی واردات
  • کراچی میں 100 سے زائد شہریوں کی ہلاکت کے باوجود ڈمپرز اور ٹرالرز سے متعلق کوئی فیصلہ کیوں نہ ہوسکا؟
  • کراچی کے بیشترٹاؤنز چیئرمینز ڈیڑھ برس سے بے یارومددگار۔دفاترتک نہ مل سکے!
  • ڈمپر و ٹینکر ز سے اموات پر جماعت اسلامی عدالت پہنچ گئی ۔ 21فروری کو احتجاج کا اعلان
  • کراچی میں ڈمپرز اور ٹینکرز سے اموات: جماعت اسلامی کا جمعہ کو شہر بھر میں احتجاج کا اعلان
  • کراچی کے 25 ٹاؤنز کے منتخب نمائندوں میں سے ڈیڑھ سال بعد بھی بیشتر بے یارومددگار
  • کراچی میں ڈمپرز اور ٹینکر ز سے اموات: جماعت اسلامی کا جمعہ کو شہر بھر میں احتجاج کا اعلان