کراچی: مئیر کراچی مرتضیٰ وہاب دو دن قبل کراچی کے شہریوں کو فری پارکنگ کی سہولت فراہم کرنے کے بیان سے مکر گئے،46 سائیڈ میں سے 40  پارکنگ سائیڈ کا ٹھیکہ پیپلز پارٹی کے مند پسند کارکنوں کے پاس ہونے اور ان کے شدید دباؤ کے باعث اب پارکنگ فیس کی وصولی کا فیصلہ جون کے مہینے میں کیا جائے گا۔

تفصیلات کےمطابق کراچی کے شہری رمضان المبارک کے مہینے میں پارکنگ مافیا کے ہاتھوں ایک بار پھر سے لٹنے پر مجبور ہوں گے پارکنگ مافیا کراچی کے مختلف سائیڈ پر از خود طے کردہ پارکنگ فیس وصول کررہا ہے موٹر سائیکل کی پارکنگ فیس 20 روپے کے بجائے 50 اور 70 روپے جبکہ گاڑیوں کی فیس 50 روپے کے بجائے کہی 100 تو کہیں 150 روپے فیس وصول کی جارہی ہے۔

ذارئع کے مطابق میئر کراچی کو پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنماؤں کی جانب سے پارکنگ فیس کی وصول نہ کرنے کے اعلان پر متعدد فون کالز  موصول ہوئی ہے کیونکہ پیپلز پارٹی کے بہت سے رہنماؤں کے کراچی میں پارکنگ کے ٹھیکے چل رہے ہیں ان مرکزی رہنماؤں نے فون کرکے مرتضی وہا ب کو اپنے بیان کو واپس لینے پر اصرار کیا گیا۔

ذرائع کے مطابق فون کرنے والوں میں کچھ وہ لوگ بھی تھے جنہوں نے پارکنگ کے ٹھیکے حاصل کر رکھے تھے اور کچھ وہ لوگ بھی تھے جن کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے تھا اور ان کے اپنے من پسند لوگوں کو ٹھیکے دلوائے گئے تھے تو اس وجہ سے مئیر کراچی کو اپنا بیان واپس دلوانا انتہائی ضروری ہو گیاتھا اور پھر میئر کراچی پارٹی پریشر برداشت نہ کر پائے اور چارجڈ پارکنگ سائٹس کی جو فیس ختم کرنے کا بیانیہ تھا وہ واپس لینا پڑا۔

اب میئر کراچی کا یہ کہنا ہے کہ کراچی کے شہری فی الحال پارکنگ فیس پیسے ادا کریں جون کے بعد دیکھا جائے گا کہ چارج پارکنگ کی فیس کو ختم کرنا ہے یا نہیں۔

اس بیان کے بعد سوشل سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے مئیر کراچی کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ایک سوشل میڈیا صارف نے مئیر کراچی کو عمران خان کا یوٹرن ماسٹر ڈکلیئر کیا ہیں اور بعض صارفین کا خیال ہے کہ عمران خان تو پھر بھی چھوٹا یوٹرن ماسٹر تھا مرتضیٰ وہاب تو اس سے کئی زیادہ بڑے نکلے ہے۔

 ایک صارف نے لکھا ہے کہ مرتضی وہاب کراچی والے اپ سے امید رکھ کے بیٹھے تھے اور ان کو خاصی امیدتھی کہ کراچی کے شہریوں کو آپ پارکنگ مافیا سے نجات دلانے گے لیکن آپ نے تو فورا یو ٹرن لیکر کراچی کے لوگوں کو مایوس کیا ہے کراچی کے لوگوں کے ساتھ آپ نے دھوکہ کیا ہے۔

 ایک اور صارف نے لکھا ہے کہ کراچی میں پہلے ہی بہت سے مسائل موجود ہیں کہی ٹریفک کا مسئلہ کراچی کی سڑکوں کا مسئلہ کراچی کے انفراسٹرکچر کا مسئلہ کراچی میں چارج پارکنگ سائیڈ پر غنڈہ گردی کا مسئلہ ہے۔یہ کراچی کے لوگ پہلے ہی آپ سے بہت زیادہ مایوس ہیں اور اب مزید مایوس ہو جائیں گے۔

 سوشل میڈیا صارف کا مزید کہنا ہے کہ اس وقت شہر کراچی کی جو 48 سے زاید پارکنگ سائٹس چل رہی ہیں وہاں پر چارج پارکنگ کی جو رولز اینڈ ریگولیشنز ہیں اس کے خلاف ورزیاں بھی کھلے عام جاری ہے اس کو کون دیکھے گا موٹر سائیکلوں کی ایک لائن کی اجازت ہوتی ہے چار چار لائنیں لگ جاتی ہیں ٹریفک جام ہو جاتا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے اس مسلئے پر ڈی ائی جی ٹریفک بھی متعدد مرتبہ کے ایم سی کو اور ٹاؤنز ایڈمنسٹریشنز کو خط لکھ چکے ہیں کہ چارج پارکنگ کی مافیا کو کنٹرول کیا جائے لیکن یہ ایک مافیا کنٹرول ہونے کا نام نہیں لے رہی ایسے میں اپ کی جانب سے یہ بیان جاری ہونا کہ چارج پارکنگ کی سائٹس کو فری کر دیا گیا ہے اور پھر اس بیان کو واپس لے لینا کراچی کے لوگوں کے ساتھ دھوکا نہیں تو پھر کیا ہے۔

خیال رہےکہ  چند روز قبل مئیر کراچی مرتضی وہاب کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ کراچی کی تمام چارجڈ پارکنگ سائیڈ سے پارکنگ فیس کی وصولی کو ختم کر دیا گیا ہے ابھی یہ بیان سامنے ایا ہی تھا کہ کراچی کے شہری پھولے نہیں سما رہے تھے کیونکہ روزانہ کی بنیاد پر وہ مختلف چارج پارکنگ سائٹس پر فیس ادا کررہے تھے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: چارج پارکنگ کی پیپلز پارٹی مئیر کراچی پارکنگ فیس کی جانب سے کہ کراچی کراچی کو کراچی کے کا مسئلہ

پڑھیں:

کراچی کا بحران!

ملک کی اقتصادی شہ رگ اور عروص البلاد، کراچی مسائل کی آماج گاہ بن چکا ہے، پورا شہر کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا ہے، ملک کو 70 فی صد ریونیو دینے والا شہر ’’شہر ِ بے اماں‘‘ کا منظر پیش کر رہا ہے، کسی کی جان و مال، عزت آبرو محفوظ نہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شہر میں انتظامیہ نامی کوئی ادارہ سرے سے موجود ہی نہیں، کراچی کے شہری گوناگوں مسائل کا شکار ہیں اور المیہ یہ ہے کہ حکومت سمیت کسی بھی ادارے کو شہریوں کو پہنچنے والی دکھ، تکلیف اور اذیتوں کا احساس تک نہیں، شہر میں نہ صفائی ستھرائی کا بندوبست ہے نہ سیوریج سسٹم کا، اسپتالوں میں طبی سہولتوں کی فراہمی کی صورتحال انتہائی ناگفتہ بہ ہے، پینے کے صاف پانی کا انحصار اب صرف ٹینکروں پر رہ گیا ہے، حکومت شہریوں کو نلکوں سے پانی دینے پر تیار نہیں، شہر پر ٹینکرز مافیا کا راج ہے جسے سرکاری سرپرستی حاصل ہے، سرکاری تعلیمی اداروں کا انفرا اسٹرکچر اور تعلیمی معیار سوالیہ نشان بن چکا ہے، جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر پڑے ہوئے ہیں، جنہیں ٹھکانے لگانے کا کوئی بندوبست نہیں، پبلک ٹرانسپورٹ ناپید ہے، شہری چنگ چیوں میں دھکے کھانے پر مجبور ہیں، بجلی کی اذیت ناک لوڈ شیڈنک کے شکار عوام اب گیس کے بحران کا عذاب جھیل رہے ہیں، جگہ جگہ تجاوزات قائم ہیں، تعمیرات کے نام پر متبادل راستے بنائے اور ہموار کیے بغیر پورے شہر کو کھود کر رکھ دیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں گرد، دھول اور مٹی سے شہریوں کا نظام تنفس بری طرح متاثر ہورہا ہے، سانس کے مسائل پیدا ہورہے ہیں جبکہ سڑکوں کی خستہ حالی، ٹوٹ پھوٹ اور ہولناک گڑھوں کی وجہ سے شہری ہڈیوں اور مسلز کے مختلف عوارض کا شکار ہیں، اسپتالوں میں رپورٹ ہونے والے کمر درد کے ستر فی صد مریض موٹر سائیکل سوار یا رکشے میں سفر کرنے والے افراد ہیں، کمر کے مہروں میں تکلیف کی شکایت عام ہوگئی ہے۔ اہم شاہراہیں اب راہ داریوں میں تبدیل ہوگئی ہیں، ٹریفک کی آمد و رفت کے لیے باقی ماندہ سڑکیں پتھارے داروں کے قبضے میں ہیں، جا بجا تجاوزات قائم ہیں، پولیس، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور شہریوں کو سیکورٹی فراہم کرنے والے اپنے فرائض انجام دینے کے بجائے شہریوں کی جیبوں پر ہاتھ صاف کر رہے ہیں، شہری نہ گھروں میں محفوظ ہیں نہ سڑکوں پر نہ ہی کاروباری مراکز اور اے ٹی ایم سینٹرز میں۔ شہری عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا ہیں، بینکوں کے اے ٹی ایم سینٹرز سے پیسے نکالتے وقت شہری خوف محسوس کرنے لگے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جان بوجھ کر کراچی کے عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے شہریوں میں محرومی کے احساسات جنم لے رہے ہیں، کراچی کے شہری یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ آخر ان کے ٹیکس اور وسائل کہاں خرچ ہورہے ہیں، وہ ٹریفک پولیس جس کی بنیادی ذمے داری ٹریفک سگنلز وقوانین پر عمل درآمد کرانا، تیز رفتاری، غیر قانونی پارکنگ، خطرناک ڈرائیونگ کے خلاف کارروائی کرنا اور ٹریفک کے بہاؤ کو منظم کرنا تھا، اس نے اپنے اصل فرائض کو بالائے طاق رکھ کر، جگہ جگہ ناکہ لگا کر صرف چالان اور رشوت اینٹھنے کو ہی اپنا سرکاری فرض کیوں سمجھ لیا ہے، محکمہ ٹریفک سے وابستہ پولیس اہلکاروں کی اپنے فرائض سے غفلت و لاپروائی کے نتیجے میں خطرناک ٹریفک حاثات رونما ہو رہے ہیں جس سے قیمتی انسانی جانوں کا زیاں ہو رہا ہے، ایک رپورٹ کے مطابق سال 2025 کے محض ابتدائی 40 دنوں میں یکم جنوری سے 10 فروری تک، ڈمپرز، ٹینکرز، ٹرکوں اور بسوں کی ٹکر سے 100 سے زاید شہری جاں بحق ہوچکے ہیں۔ تیز رفتار اور بے لگام ڈمپر سے ہونے والی ہلاکتوں کی وجہ سے شہریوں میں سخت رد عمل پیدا ہورہا ہے۔ چھیپا کے مرتب کردہ اعداد وشمار کے مطابق، جنوری اور فروری 2025 کے پہلے تیرہ دنوں کے دوران ٹریفک حادثات میں 105 افراد ہلاک ہوئے، ریسکیو کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ان 105 اموات میں سے 14 ڈمپرز اور 8 واٹر ٹینکرز کے سبب ہوئیں۔ ایدھی فاؤنڈیشن کے مطابق گزشتہ 44 دن میں ٹریفک حادثات میں 90 افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے 64 اموات صرف جنوری میں ہوئیں۔ ان میں سے تین افراد ڈمپرز اور دو ٹرکوں کے نیچے آ کر ہلاک ہوئے۔ ڈمپر کے حادثے میں اب تک 12 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ پے در پے ہونے والے ان واقعات کے نتیجے میں شہریوں میں سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ پانی سر سے گزرنے کے بعد حکومتی اداروں کو جب تھوڑا ہوش آیا تو کمشنر کراچی نے شہر میں دفعہ 144 نافذ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ہیوی گاڑیاں دن میں شہر میں داخل نہیں ہوسکیں گی، صرف رات 10 بجے سے صبح 6 بجے تک ہی ہیوی ٹریفک شہر میں داخل ہوگا۔ واضح رہے کہ یہ پابندی صرف دو ماہ کے لیے عاید کی گئی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دو ماہ گزرنے کے بعد کیا ہوگا؟ کیا حکومتی اداروں نے اس پر قابو پانے کے کچھ اقدامات کیے ہیں یا یہ دو ماہ کی پابندی صرف شہریوں کے غصے کو کم کرنے اور انہیں طفل تسلی دینے کے لیے عاید کی گئی ہے۔ ان اندوہناک واقعات پر پورا شہر سکتے میں ہے، شہریوں کا غم و غصہ اور اضطراب قابل فہم ہے مگر دکھ کی بات یہ ہے کہ ایک انتظامی اور شہری مسئلے کو بعض عناصر کی جانب سے اپنے مذموم مقاصد کو پورا کرنے کے لیے استعمال کرنا کسی طور مناسب نہیں، مہاجر قومی موومنٹ کے سربراہ آفاق احمد نے اس صورتحال پر اپنی ایک پریس کانفرنس میں گاڑیاں روکنے کا اعلان کیا، جس کے نتیجے میں مشتعل افراد نے مال بردار گاڑیوں کو آگ لگادی، یہ سراسر قانون ہاتھ میں لینے اور انارکی پیدا کرنے کی کوشش ہے۔ المناک صورتحال یہ ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ جس نے روشنیوں کے اس شہر کو تاریکی میں مبتلا کیا، یہاں کی رونقوں کو لسانی سیاست کی بھینٹ چڑھایا، بے گنا انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار کر شہر کی تعلیمی، تہذیبی اور ثقافتی تاریخ کو داغدار کیا، اس سے وابستہ سندھ کے گورنر کامران ٹیسوری بھی ڈمپرز سے ہونے والی ہلاکتوں کو لسانی منافرت کو ہوا دینے کی کوشش کر رہے ہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ ڈمپرز سے 70 افراد ہلاک ہوچکے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ کیا کراچی کے بچے لاوارث ہیں؟ ڈمپروں سے ہلاکتیں نہ رکیں تو خود ڈمپروں کے آگے آؤں گا، گورنر سندھ کا یہ اندازِ بیان کسی طور ان کے منصب سے ہم آہنگ نہیں، 1988 سے متحدہ ہر دور میں حکومت میں شامل رہی ہے مگر المیہ یہ ہے کہ اس نے ذاتی اور پارٹی مفادات سے بالا تر ہو کر کراچی کے عوام کے مسائل و مشکلات کے حل کے لیے عملاً کوئی قدم نہیں اٹھایا، اس کے برعکس اس نے ہر اس اقدام کی تائید اور حمایت کی جو کراچی کے عوام کے مفاد کے برخلاف تھا اس کی واضح مثال کے الیکٹرک کی نجکاری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج شہر جس صورتحال سے دو چار ہے اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ کراچی کے عوام نے بلدیاتی انتخابات کے موقع پر جماعت اسلامی پر اپنے بھرپور اعتماد کا اظہار کیا مگر شہر میں جماعت اسلامی کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیا گیا، عوام کے مینڈیٹ پر شب خون مارا گیا، نتائج تبدیل کیے گئے اور پورا شہر پیپلز پارٹی کے حوالے کردیا گیا، جس کے نتیجے میں آج جو صورتحال ہے وہ کسی سے مخفی نہیں، کراچی کے عوام کے ساتھ ہونے والی ظلم وزیادتی کے تدارک اور شہر کی تعمیر و ترقی کے لیے سنجیدگی سے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا تو عوامی ردعمل کو نمائشی اقدامات سے نہیں روکا جا سکے گا، اربابِ اختیار کو کراچی کی بگڑتی ہوئی صورتحال کا فوری نوٹس لینا چاہیے، تاکہ شہر تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن ہو اور شہریوں کو درپیش مشکلات کا ازالہ ہوسکے۔

متعلقہ مضامین

  • نادرا کا شہریوں کیلئے ایک اور احسن اقدام، نئی سہولت آگئی
  • کراچی‘ شائقین کرکٹ کی پارکنگ کیلیے خصوصی ٹریفک پلان مرتب
  • کراچی کے شہریوں کے لیے ڈمپر بدستور خطرہ
  • صوبائی وزیر شرجیل میمن کے احکامات نظرانداز
  • کراچی کے شہریوں کیلئے بجلی 4 روپے95 پیسے فی یونٹ سستی کرنے کی درخواست
  • شرجیل میمن کا حکم نظرانداز، کراچی میں چارجڈ پارکنگ مافیا کا راج برقرار
  • کراچی میں راہ چلتی خاتون سے لوٹ مار کی کوشش؛ ویڈیو سامنے آ گئی
  • سندھ حکومت کا تمام چارجڈ پارکنگ ختم کرنے کا اعلان
  • سندھ حکومت کا آج سے تمام چارجڈ پارکنگ ختم کرنے کا اعلان
  • کراچی کا بحران!