Nai Baat:
2025-02-19@06:11:59 GMT

کچھ خار کم تو کر گئے گزرے جدھر سے ہم

اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT

کچھ خار کم تو کر گئے گزرے جدھر سے ہم

اردو زبان کی تاریخ ہندوستان کی قدیم تاریخ جتنی پرانی نہ سہی مگر اس کاآغاز صدیوں پہلے ہوا۔ زبان کوئی بھی ہو لطیف احساسات کی ترجمانی کے لیے شاعری اس کا سب سے بڑا میڈیا ہوتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ نو زائیدہ بچہ جب بولنا سیکھتا ہے تو سب سے پہلے ملتے جلتے الفاظ اسے متوجہ کرتے ہیں برصغیر میں اردو شاعری 1700ءسے اپنا وجود رکھتی ہے جس کا orgin سنٹرل انڈیا یعنی دہلی لکھنو¿ دکن ہوا کرتا تھا یہ سلسلہ 1857ءکی جنگ آزادی تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ وہ سال تھا جس نے اردو شاعری کے مراکز کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا۔ اردو شعراءتتر بتر ہو گئے فکر معاش اور فکر جاں نے انہیں ان علاقوں سے ہجرت پر مجبور کر دیا۔
اسی اثنا میں اردو شاعری اور ادب نے لاہور میں جڑ پکڑنا شروع کی لاہور میں گورنمنٹ کالج 1864ءمیں قائم ہو چکا تھا اور اس کے پہلے پرنسپل Gottieb leitner کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ 50 زبانوں پر عبور رکھتے تھے انہیں ادب اور شاعری سے دلچسپی تھی اور لسانی ثقافتی ورثے کی آبیاری کے لیے انہوں نے انجمن اشاعت علوم مفیدہ قائم کی جس نے آگے چل کر اردو ادب اور شاعری کے بڑے بڑے نام ایک پلیٹ فارم پر جمع کیے جس میں مولانا محمد حسین آزاد اور الطاف حسین حالی شامل تھے جن کا تعلق بالترتیب دہلی اور پانی پت سے تھا مگر اس دوران وہ لاہور میں قیام پذیر تھے۔ اردو شاعری کا قبلہ دہلی سے لاہور تبدیل ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ دہلی کی بربادی کے بعد سب سے زیادہ چھاپہ خانے اور اخبارات لاہور میں پائے جاتے تھے۔
یہ تمام معلومات ہمیں محترم ڈاکٹر عامر بٹ کی حال ہی میں عکس پبلی کیشن کی جانب سے شائع کی جانے والی انگریزی کتاب "Pre Partition Evolution of Progressive Urdu Poetry in Lahore” وہ برطانوی شہری اور ماہر امراض جلد ہیں مگر ادب سے محبت ان کے خون میں شامل ہے اس سے پہلے وہ لاہور کے تاریخی ورثے پر ”لاہور“ کے نام سے کتاب لکھ چکے ہیں اور آج کل ایک اور کتاب ”طوق دار کا موسم“ پر کام کر رہے ہیں۔
مذکورہ بالا کتاب میں ڈاکٹر عامر بٹ نے لاہور میں قبل از تقسیم ترقی پسند اردو شاعری کے ارتقا کا جائزہ پیش کیا ہے۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کے قیام کی تاریخ بڑی دلچسپ ہے اس تنظیم کے خالق سجاد ظہیر 1930ءمیں آکسفورڈ سے حصول تعلیم کے بعد اپنے آبائی گھر لکھنو¿ واپس آئے ان کے آکسفورڈ میں قیام کا عرصہ وہ وقت تھا جب آکسفورڈ کے طلباءمیں سوشلسٹ اور مارکسزم نظریات کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا تھا وہ بھی اس لہر سے متاثر تھے لکھنو¿ میں انہوں نے اپنے دوست احمد علی جو ان کے ہم خیال تھے ان کے ساتھ مل کر ایک حلقہ یاراں تشکیل دینے پر اتفاق کیا یہ دونوں اس وقت تک بطور لکھاری ادبی حلقوں میں متعارف ہو چکے تھے۔ ان کے اس دو رکنی کاررواں میں محمود الظفر اور ڈاکٹر رشید جہاں شامل ہوئے۔ ڈاکٹر رشید جہاں علی گڑھ سے تھیں اور لکھنو¿ میں گائنی ڈاکٹر تھیں۔ اسی دوران کچھ اور ادیب بھی شامل ہو ئے تھے۔ 1932ءمیں اس گروپ نے ”انگارے“ کے نام سے شارٹ سٹوری یا افسانوں کی ایک کتاب شائع کی کہا جاتا ہے کہ اس دوران سجاد ظہر اور محمود الظفر کے ساتھ ڈاکٹر رشید جہاں کی رومانوی وابستگی منظر عام پر آئی انگارے کے موضوعات اور ڈاکٹر رشید جہاں کے سکینڈل کو بنیاد بنا کر ہندوستان کے Patriarchalیا پدرسری اور قدامت پسند طبقہ انگاروں پر لوٹ رہا تھا اس پر وسیع احتجاج ہوئے اور انگریز حکومت نے دفعہ 259A کے تحت انگارے پر پابندی لگا دی اور اس کی کاپیاں ضبط کر لی گئیں۔ سجاد ظہیر دلبرداشتہ ہو کر ملک سے باہر چلے گئے۔ سب سے زیادہ اعتراضات ڈاکٹر رشید جہاں پر ہوئے انہیں انگارے والی کا لقب دیا گیا۔ سجاد ظہر نے خود ساختہ جلا وطنی میں برطانیہ میں قیام کیا انہوں نے انگارے کا دفاع کیا اور انگلینڈ میں زیر تعلیم ہندوستانی طالب علموں کی ایک تنظیم تشکیل دینا شروع کی جس کا مقصد ترقی پسند طبقے کو اکٹھا کرنا تھا۔ انڈین سٹوڈنٹس کی تنظیم سازی کے ساتھ انہوں نے باقاعدہ طور پر کیمونسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ 1934ءمیں انہوں نے لندن میں ایسوسی ایشن آف انڈین رائیٹرز کی بنیاد رکھی جس کے اجلاس ایک چائینز ریسٹورنٹ میں ہوتے تھے۔ اس کے اغراض و مقاصد میں طبقاتی تقسیم کا خاتمہ غربت کا خاتمہ استحصال کا خاتمہ اور سماجی انصاف اور برابری و مساوات شامل تھے۔ اس کے علاوہ برطانوی استعمار سے آزادی حاصل کرنا بھی شامل تھا۔
1935ءمیں سجاد ظہیر وطن واپس آئے اور آل انڈیا پراگریسو رائیٹرز ایسوسی ایشن کے قیام کی جدوجہد کا آغاز کیا۔
اگلے سال 1936ءمیں اس کا اجلاس لاہور میں منعقد ہوا جہاں آل انڈیا پراگریسو رائیٹرز ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی گئی لاہور برانچ میں صوفی تبسم اس کے پہلے سیکرٹری تھے۔ اجلاس کے شرکاءمیں سجاد ظہیر ، محمد الظفر ،ڈاکٹر رشید جہاں لکھنو¿ سے تشریف لائے یہ وفد علامہ اقبالؒ سے بھی ملا وہ خرابی¿ صحت اور اپنی اہلیہ سردار بیگم کے انتقال کیو جہ سے عملی زندگی سے الگ تھلگ تھے تاہم انہوںنے اس وفد کی آشیر باد دی اور ان کے مقاصد کی تائید کی۔ پہلے اجلاس کے شرکاءمیں منشی پریم چند، جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض، صوفی تبسم، سبط حسن، علی سردار جعفری، جانثار اختر، مجاز، خواجہ احمد عباس، شاہد لطیف ،اختر شیرانی اور کرشن چندر شامل تھے۔ یہ ایک نظریاتی تنظیم تھی جو قطعاً غیر سیاسی تھی۔
پراگریسو رائیٹرز نے اردو شاعری کو ایک نئی جہت دی ان کا نظریہ یہ تھا کہ شاعری کو محبوب کے لب و رخسار اور ہجرو وصال کے تصورات سے بالاتر ہو کر دور حاضر کے مسائل اور معاملات کو بھی موضوع بنانا چاہیے۔ ڈاکٹر عامر بٹ نے اس کتاب میں علامہ اقبالؒ، فیض احمد فیض اور ساحر لدھیانوی کی شاعری کو بڑی تفصیل سے بحث کی ہے کہ کس طرح انہوںنے روایتی شاعری سے ہٹ کر اس میں نئی راہیں تلاش کیں اور انقلاب اور تبدیلی کے لیے عوام کو شعور دیا۔
ہم میں سے اکثر لوگ سوال اٹھاتے ہیں کہ اردو شاعری کے فروغ میں سب سے زیادہ کردار پنجابی بولنے والوں بلکہ لاہور والوں کا ہے۔ ڈاکٹر عامر بٹ صاحب کی کتاب پڑھنے سے آپ کو اس سوال کا جواب مل جاتا ہے۔
پراگریسو رائیٹرز گو اپنے مقاصد کے حصول میں مکمل کامیابی نہیں حاصل کر سکے جس کا اعتراف مصنف نے کتاب کے عنوان سے ہی کر دیا ہے جو ہمارے اس کالم کا عنوان بھی ہے کہ
کچھ خار کم تو کر گئے گزرے جدھر سے ہم

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: پراگریسو رائیٹرز ڈاکٹر رشید جہاں ڈاکٹر عامر بٹ لاہور میں سجاد ظہیر انہوں نے شاعری کے اور ان

پڑھیں:

سندھ ہائیکورٹ‘ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی درخواستوں کی سماعت

کراچی (اسٹاف رپورٹر) سندھ ہائیکورٹ میںبلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی درخواستوں کی سماعت۔ اس موقع پر عدالت نے درخواستوں کی فوری سماعت کی استدعا منظور کرتے ہوئے4 ہفتے میں فریقین سے جواب طلب کر لیا۔ دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے2 درخواستیں دائر کی ہیں، ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو بیرون ملک جاتے ہوئے غیر قانونی طور پر روکا گیا اور پاسپورٹ ضبط کیا گیا، ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے خلاف اشتعال انگیز تقریر کا مقدمہ درج کیا گیا ہے، سندھ ہائیکورٹ نے ایف آئی آر پر کارروائی معطل کی ہوئی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • قرآن ہمارا عقیدہ پر ایک تبصرہ
  • امام بخاریؒ ایک نابغہ روز گار محدث
  • سندھ ہائیکورٹ‘ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی درخواستوں کی سماعت
  • کتاب ہدایت
  • تحریک انصاف کی کتاب کا آخری باب
  • میئرحیدرآباد کا اظہارتعزیت
  • بُک شیلف
  • وادی کشمیر میں بین المذاہب ہم آہنگی پر لکھی کتاب کی رسم رونمائی
  • غالب کی بیٹھک: وہ کیفے، جہاں چائے سے زیادہ شاعری چلتی ہے!
  • مرزا غالب کی حیات و فن پر پہلی عربی کتاب کا اجرا