احمد جاوید کا متنازع انٹرویو اور اس کا تجزیہ
اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT
احمد جاوید ہمارے معروف دانشور، ماہر اقبالیات، نقاد اور شاعر ہیں۔ وہ کراچی کے ممتاز ادیب، دانشور، شاعر سلیم احمد مرحوم کے فکری حلقہ، جو ایک قدم اوپر جا کر پروفیسر حسن عسکری سے جا ملتا ہے، سے تعلق رکھتے ہیں ۔سراج منیر، سجاد میر اور احمد جاوید وغیرہ سب سلیم احمد کے تلامذہ میں سے ہیں۔
احمد جاوید کی زندگی کے بعض پہلو ہنگامہ خیز رہے ہیں، وہ کراچی کے ادبی منظرنامے کا نمایاں نام رہے، اپنی ذہانت، نکتہ سنجی کی بنا پر منفرد۔
مولانا ایوب دہلوی کراچی کے معروف متکلم اور مفکر تھے،بے پناہ علم اور یادداشت رکھنے والے، مولانا نے لکھا کم بولا زیادہ۔ ان کی کتب اسی لیے زیادہ نہیں، احمد جاوید نے برسوں پہلے مجھے ایک انٹرویو میں بتایا کہ وہ خود کو ایوب دہلوی کا شاگرد تصور کرتے ہیں، ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔
احمد جاوید بعد میں لاہور آ گئے، اقبال اکیڈمی میں برسوں کام کیا، ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ تصوف سے انہیں گہری دلچسپی ہے، مولانا حسین احمد مدنی کے ایک شاگرد ان کے مرشد ہیں، نقشبندی سلسلے سے ان کا تعلق ہے، شاید باقاعدہ مرید وہ نہیں بناتے مگرتصوف کے حوالے سے ان کے نیاز مندان موجود ہیں۔
احمد جاوید کی ایک وجۂ شہرت فلسفے پر ان کے لیکچرز ہیں۔ لاہور میں مختلف مقامات پر اس حوالے سے ان کی نشستوں کی شہرت رہی۔ شعر و ادب پر بھی لیکچر دیتے رہے۔ وہ خود بھی عمدہ شاعر ہیں، ان کی نظمیں بلند آہنگ اور بے پناہ وفور لیے ہیں۔
نائن الیون کے دنوں میں بعض ایسی قیامت خیز نظمیں لکھیں جو اگر عام اشاعت میں آتیں تو شاید ان کے لیے کچھ مسائل کھڑے ہوجاتے۔ جون ایلیا ان کے احباب میں سے تھے، جون پر احمد جاوید کے تفصیلی لیکچرز موجود ہیں۔جن میں بعض جملے جرات مندانہ ہیں۔
احمد جاوید بھی اپنے استاد ایوب دہلوی کی طرح تحریر کے بجائے گفتگو کے آدمی ہیں۔ یوٹیوب سے انہوں نے بھرپور استفادہ کیا۔ مختلف موضوعات پر احمد جاوید کے لیکچرز اور گفتگو کے بہت سے کلپس وائرل ہوئے۔
آج کل ان کا ایک تفصیلی انٹرویو وائرل ہوا ہے جس میں انہوں نے دیگر باتوں کے ساتھ حماس اور اہل غزہ پر کھل کر تنقید کی ہے ۔ اس پر خاصا شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔
روایتی مذہبی حلقے میں احمد جاوید کے خلاف خاصا بولا جا رہا ہے، سوشل میڈیا پر مختلف پوسٹیں، تنقیدی گفتگو چل رہی ہے۔ دینی مدارس کا حلقہ ماضی میں ان کے ایک آدھ تنقیدی بیان سے خفا رہا ہے، اگرچہ بعد میں احمد جاوید نے اس پر معذرت کر لی تھی۔ اب اہل غزہ اور حماس کی حکمت عملی پر ایسی سخت اور کھلی تنقید نے بہت سوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
جماعت اسلامی کے احباب جو عمومی طور پر احمد جاوید کے فلسفے اور ادبیات پر لیچکرز کے مداح پائے گئے، وہ بھی خاصے برہم ہیں کیونکہ جماعت اسلامی کا اہل غزہ اور حماس کے حق میں بڑا مضبوط مؤقف رہا ہے۔
احمد جاوید کے مؤقف پر رائے دینے سے پہلے ضروری ہے کہ ان کے انٹرویو کے ان حصّوں کو خود سن لیا جائے۔ دراصل یہ ڈیڑھ گھنٹے کا تفصیلی انٹرویو ہےجس کا بنیادی موضوع حماس سے زیادہ احمد جاوید کی ایران اور ایرانی پالیسیوں پر تنقید ہے۔
انٹرویو نگاروں نے زیادہ سوالات اس تناظر میں پوچھے۔ شیعہ فکر بھی زیربحث آئی۔ ہم ان پہلوؤں سے سردست صرفِ نظر کرتے ہوئے احمد جاوید کے حماس کے بارے میں نقطہ نظر پر بات کرتے ہیں۔
ان کے انٹرویو میں حماس اور غزہ والوں کے حوالے سے یہ چند باتیں کہی گئیں،منتخب ٹکڑے ہی دے سکوں گا، تفصیل جاننے کے لیے یوٹیوب پر ان کا انٹرویو سن لیا جائے۔
احمد جاوید کہتے ہیں کہ ’میں حماس کے اقدام کو جارحانہ، ظالمانہ، غیر اسلامی سمجھتا ہوں اس کی پشت پناہی کے سارے نظام کو اسلام دشمنی پر محمول کرتا ہوں۔ آج کل غزہ کی حمایت میں تو سب مزے ہیں۔ جرات اور بہادری تو ان کی مخالفت اور ان پر تنقید کرنا ہے۔ ہماری ہمت دیکھیے کہ آپ کے درمیان بیٹھ کر حماس پر تنقید کر رہے ہیں،کہہ رہے ہیں کہ حماس نے ظلم کیا ہے‘۔
’میں نے طالبان پر بھی بہت سخت تنقید کی تھی۔ غزہ کے حالات ایسے تھے جن پر مجھے شدید خوف، مایوسی اور غصہ تھا کہ بچے مروائے جا رہے ہیں اور اس کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ یعنی آپ اگر اپنی ٹوٹی پھوٹی رومانوی سی آزادی کی خاطر بچوں کو کٹوا رہے ہیں تو نہ قرآن اس کی تائید میں ہے نہ سنت اس کی حمایت میں ہے۔ آپ بچوں کو اس بے پروائی سے کٹوا رہے ہیں چاہے وہ آپ کے اپنے بچے ہی کیوں نہ ہوں‘۔
احمد جاوید نے ایران پر بھی سخت تنقید کی، ان کا کہنا تھا کہ ’ایران کا مظلوم کی حمایت کا جو ڈھونگ سا تھا، جس کے بل پر حزب اللہ اور حماس نے اپنے وجود تک کو خطرے میں ڈالا دیا تھا کہ ایران ہماری پشت پر ہے۔ اس پورے عمل کے دوران میری شدید احتجاجی کیفیت رہی۔مگر اب میں خاموش ہوں کچھ نہیں کہہ رہا، حالانکہ اب تو مجھے انہیں للکارنا چاہیے کہ کہاں گیا ایران اور کہاں گیا وہ سب زعم؟ لیکن اب یہ دینی مصلحت کے خلاف ہوگا۔ اب نہیں کہہ رہا، جب حماس کو کہنا تھا تو سخت الفاظ میں کہا۔
احمد جاوید کا کہنا تھا کہ وہ حماس کے مخالف نہیں، اس کے بانی شیخ احمد یاسین کا بہت احترام کرتے ہیں اور مجبور ہو کر ہم اپنے محبوب ترین کردار کے چھوڑے ہوئے ترکے پر اتنی سخت تنقید کر رہے ہیں۔
احمد جاوید سے پوچھا گیا کہ حماس والے مؤقف پر جماعت اسلامی کے لوگوں نے زیادہ سخت تنقید کی۔ اس پر احمد جاوید کا یہ کہنا تھا کہ حماس کے معاملے میں ہمدردی محسوس کرنا بھی سنگدلی ہے۔ ایران اگر پشت پناہی پر نہ ہوتا تو کبھی حماس 7 اکتوبر والا حملہ کرنے کی جرات نہیں کرتا۔ ایران بڑھ چڑھ کر بڑھکیں مارتا رہا، اب وہ بڑھکیں کہاں گئیں ؟
احمد جاوید نے یہ بھی کہا کہ اب حماس کی شکست کی گلوریفیکیشن ہو رہی ہے۔ یہ قرآن کے حکم کے صریحاً خلاف ہے کہ جب تک تمہارے پاس ہمارا بنایا ہوا طاقت کا توازن نہ ہو تو تب تک صبر کرو۔ صحابہ کو کہا گیا کہ ایک اور 10 کا تناسب پہلے ہوتا تھا، اب تو ایک اور 2 کا تناسب ہو تو تب ٹھیک ہے۔
ایک سوال پر احمد جاوید نے کہا کہ میرا مؤقف معذرت خواہانہ نہیں اور نہ مغرب سے مرعوبیت کی بنا پر ہے۔ میں نے جدیدیت پر سب سے زیادہ اور سخت حملے کیے، مگر علمی انداز میں یہ سب کیا گیا۔
احمد جاوید سے سوال کیا گیا کہ حماس نے جس طرح یرغمالی چھپائے رکھے اور امریکا اپنی جدید ترین ٹیکنالوجی سے بھی نہیں ڈھونڈ سکا، یہ قابل تعریف نہیں؟ احمد جاوید کا کہنا تھا کہ یہ کوئی بات نہیں۔ اس طرح تو منشیات چھپانے والے گینگ بھی فخریہ کہیں گے کہ دیکھیں ہم نے کیسے مال چھپائے رکھا، امریکی حکومت نہیں ڈھونڈ سکی اور ویسے بھی جہاں یرغمالی تھے، وہاں پر دانستہ بمباری نہیں کی گئی ۔ وغیرہ وغیرہ۔
سچی بات یہ ہے کہ کئی حوالوں سے میں احمد جاوید کا مداح ہوں اور ان کے مؤقف سے بہت کچھ علمی استفادے کا موقع ملتا ہے۔ میں اس بات کا قائل ہوں کہ مختلف نقطہ نظر کو نہ صرف برداشت کیا جائے بلکہ اس کی گنجائش بھی رکھی جائے تاکہ کسی بھی مؤقف پر اختلاف رائے رکھنے والے سکالرز کھل کر اپنی بات کہہ سکیں۔ یہ علمی سپیس رہنی چاہیے، اس سے سماج کو اور علمی مباحث کو فائدہ پہنچتا ہے ۔
اس لیے میں احمد جاوید سے اختلاف رکھنے کے باوجود ان کے اس مؤقف رکھنے کے حق کو تسلیم کرتا ہوں۔ وہ جسے درست سمجھتے ہیں، وہ بات بلا کم وکاست کہہ رہے ہیں۔ حالانکہ اس وقت یہ بات کہنا خاصا مشکل اور خود کو متنازع بنانا ہے۔
اس سب کے ساتھ میں سمجھتا ہوں کہ احمد جاوید کی فکری غلطی حماس اور اہل غزہ کے مؤقف کو ان کے تناظر میں نہ سمجھنا ہے۔ جب ایسے کسی پیچیدہ معاملے پر ہم رائے دیں تو اسے مکمل غیر جذباتی اور منطقی ہونا چاہیے، ایسا کرتے ہوئے خود کو اس گروہ یا تنظیم کی جگہ پر رکھ کر دیکھنا چاہیے کہ اس انتہا تک وہ کیونکر پہنچے؟
آخر کیا اسباب تھے کہ وہ ایسی شدت اور خود اپنے وجود تک کو خطرے میں ڈالنے کی حد تک چلے گئے؟ کیا یہ صرف ان کی سادہ لوحی، جذباتیت ہے یا پھر وہاں کے لوگوں کی ذہنی کیفیت بھی ایسی ہوچکی ہے کہ زندگی موت ان کے نزدیک بے معنی ہوچکی ہے؟ یہ وہ سب نکات ہیں جن کا خیال رکھناازحد ضروری ہے۔
حماس اور اہل غزہ کے حوالے سے کوئی بھی رائے دینے سے پہلے 3، 4 نکات کو سامنے رکھنا چاہیے۔ پہلا یہ کہ اتنی بڑی تباہی، ایسے بڑے اجتماعی نقصان کے بعد بھی اہل غزہ اور فلسطینیوں کی جانب سے حماس یا اس کی قیادت پر کوئی تنقید نہیں کی گئی ۔ ابتدائی دنوں میں بھی نہیں ہوا اور بعد میں بھی ایسا کچھ سامنے نہیں آیا۔
ایسا نہیں کہ یہ سب حماس کی دہشت اور ہیبت سے خوفزدہ ہیں۔ آج کل ویڈیوز کا دور ہے، کوئی بھی کسی بھی جگہ بیٹھ کر ماسک پہن کر بھی کوئی ویڈیو بنا سکتا ہے۔ لاکھوں فلسطینی مغربی ممالک میں آباد ہیں، کئی لاکھ عرب ممالک میں برسوں سے مقیم ہیں۔ لاکھوں فلسطینی ویسٹ بنک میں رہتے ہیں جہاں حماس کا نہیں بلکہ حماس کی سیاسی مخالف فلسطینی اتھارٹی کا کنٹرول ہے۔
ایک لاکھ سے زیادہ فلسطینی غزہ سے نکل کر مصر میں چلے گئے، قاہرہ کے نزدیک العرشیہ وغیرہ اور دیگر کئی محلے فلسطینی مہاجرین کا گڑھ بن چکے ہیں۔
یہ وہ ہیں جن کے گھر تباہ ہوگئے، جانی اموات ہوئیں۔ یہ سب حماس کے 7 اکتوبر کے ایکشن سے براہ راست متاثر ہوئے۔ ان کی زندگیاں بدل گئیں، ازحد مشکلات در آئیں۔ اس کے باوجود ان میں سے کسی نے بھی حماس پر تنقید نہیں کی۔
میں نے خاصی ریسرچ کی کہ اس حوالے سے کچھ نامعلوم، گمنام سی ویڈیوز ہی مل جائیں۔ عرب دنیا سے ایسی کوئی خبریں نہیں آئیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حماس نے اچھا کیا، یا برا کیا، غلط یا درست اس کی مکمل حمایت اہل غزہ اور فلسطینوں میں موجود ہے۔ یہ بہت اہم فیکٹر ہے۔ کوئی بھی حتمی رائے سے پہلے اسے سامنے رکھنا ہوگا۔
دوسرا یہ کہ حماس کی قیادت، ان کے جنگجوؤں اور عام کارکنوں نے بھی بھرپور قربانیاں دی ہیں۔ حماس کی پوری قیادت ہی اس جنگ کی نذر ہوئی، سیاسی شعبہ بھی متاثر ہوا۔ قربانیوں کی اس دوڑ میں حماس کی تنظیم کسی سے پیچھے نہیں رہی۔ ایسا نہیں کہ عام آدمی کٹ گیا اور تنظیم کے لوگ محفوظ مقامات پر رہے۔ ایسا نہیں ہوا‘۔
تیسرا یہ کہ فلسطینیوں کے مائنڈ سیٹ کو سمجھنے والے یہ کہتے ہیں کہ غزہ کے فلسطینیوں میں خاص طور سے یہ سوچ واضح اور مستحکم تھی کہ ان کی زندگی ہر روز جہنم سے بدتر بن چکی تھی، مسلسل اموات ہو رہی تھیں، معصوم بچے بھی نشانہ بن رہے تھے۔ وہاں یہ رائے موجود تھی کہ ایسے میں 7 اکتوبر جیسا کوئی بھی ایکشن جسٹی فائیڈ تھا۔ سب کچھ داؤ پر لگادینا چاہیے تھا تاکہ یہ ایشو پوری طرح دنیا کے سامنے فلیش ہو اور ظالم وغاصب پوری طرح ایکسپوز ہوسکے۔
چوتھا فیکٹر جو اہم ہے، وہ یہ کہ حماس نے اس سب کچھ کے باوجود اپنی مزاحمت اور فائٹنگ سپیرٹ میں کمی نہیں لائی۔ اس حکمت عملی پر ممکن ہے تنقید کی جائے، مگر انہوں نے یرغمالیوں کی رہائی کے موقع پر بڑا باوقار اور سربلند انداز اپنایا۔ اسرائیلی ماہرین اور تجریہ کار حیران رہ گئے کہ حماس تو ابھی ویسے کی ویسے ہی موجود ہے، جس کے پاس جنگجوؤں کی کمی نہیں اور نہ ہی دم خم کی۔ بے شک عسکری میدان میں انہیں شکست ہوئی، مگر مزاحمت اور کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی ہتھیار نہ ڈالنے کی خو نے انہیں ممتاز اور منفرد بنایا ہے۔ حماس نے بہرحال مزاحمت کی ایک ایسی مثال تو قائم کی ہے جس کی مسلم دنیا کو ضرورت تھی۔
جناب احمد جاوید کی تنقید اس حوالے سے جارحانہ، ضرورت سے زیادہ سخت اور ایک گونہ بے رحمی کو چھوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ خاص کر منشیات فروش گینگز سے موازنہ تو نامناسب تھا۔
تاہم احمد جاوید کی رائے میں اخلاص اور دردمندی موجود ہے، یہ ایک مایوس، پریشان اور تکلیف محسوس کرنے والے ہمدرد کی تنقید ہے۔ آپ احمد جاوید کی رائے سے اختلاف کر سکتے ہیں، مگر ان پر غیر شائستہ حملوں اور انہیں ٹرول کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ یہ نامناسب ہے۔
احمد جاوید کسی بھی اعتبار سے مغرب زدہ انسان نہیں، وہ مغربی تہذیب کے شدید ترین نقاد ہیں۔ وہ بزدل بھی نہیں کہ پاکستان میں بیٹھ کر ایسی رائے رکھنا اور اس کا اظہار کرنا بڑی جرات مندی کی علامت ہے۔ احمد جاوید جہاد یا تحاریک اسلامی کے مخالف بھی نہیں۔ ان کی تنقید کی الگ وجوہات ہیں جنہیں سمجھ کر ان سے اختلاف کیا جائے، شائستہ علمی انداز میں۔ یہی درست طریقہ ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔
احمد جاوید امریکا ایران برطانیہ بلند آہنگ پاکستان پہلو تناظر تنقید جماعت اسلامی جون ایلیا حماس ڈیڑھ گھنٹے سوشل میڈیا شیعہ فکر ظالمانہ فلسطین کالم کلپس لیکچرز ماہر اقبالیات مدارس مہاجرین نائن الیون نقاد وائرل.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: احمد جاوید امریکا ایران برطانیہ پاکستان پہلو جماعت اسلامی ڈیڑھ گھنٹے سوشل میڈیا شیعہ فکر ظالمانہ فلسطین کالم کلپس لیکچرز مہاجرین نائن الیون وائرل میں احمد جاوید احمد جاوید کے احمد جاوید کا احمد جاوید کی احمد جاوید نے پر احمد جاوید جماعت اسلامی کہنا تھا کہ اہل غزہ اور کہ حماس نے بھی نہیں کوئی بھی تنقید کی سے زیادہ حماس اور حوالے سے ہیں اور حماس کی نہیں کہ رہے ہیں حماس کے ہیں کہ غزہ کے ہیں جن
پڑھیں:
حماس فوجی قوت کے طور پر جاری نہیں رہ سکتی،امریکی وزیرخارجہ اسرائیل پہنچ گئے
امریکی وزیرخارجہ مارکو روبیو منصب سنبھالنے کے بعد اسرائیل پہنچ گئے
امریکہ کے وزیرِ خارجہ مارکو روبیو منصب سنبھالنے کے بعد مشرقِ وسطیٰ کے اپنے پہلے دورے پر اسرائیل پہنچ گئے ۔
مارکو روبیو نے نیتن یاہو سے ملاقات میں غزہ میں جنگ بندی معاہدے پر تبادلۂ خیال کیا ۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا ہے کہ حماس ایک فوجی قوت کے طور پر جاری نہیں رہ سکتی حماس کے گروپ کو ختم کرنا ہو گا۔
خبر ایجنسی کے مطابق نیتن یاہو کے دفتر کا کہنا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم اور امریکی وزیر خارجہ کی یروشلم میں ملاقات ہوئی جس کے بعد وزیرخارجہ نے کہا کہ ایران خطے میں عدم استحکام کاسب سے بڑا ذریعہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ لبنان میں امریکا اور اسرائیل کے اہداف ایک دوسرے سے منسلک ہیں لبنان میں مضبوط حکومت حزب اللہ کا مقابلہ اور اسے غیرمسلح کر سکتی ہے۔
امریکی وزیرخارجہ مارکو روبیو نے مزید کہا کہ حماس فوجی یا حکومتی فورس کے طور پر قائم نہیں رہ سکتی۔
ان کا کہنا تھا کہ ایران شام کو غیرمستحکم کرنے اور مقبوضہ مغربی کنارے تشدد کو ہوا دینے کاذمہ دار ہے ایران کو جوہری طاقت نہیں بننے دیں گے۔
واضح رہے کہ امریکی وزیر خارجہ کا مشرق وسطیٰ کا چھ روزہ دورے پر ہیں جو اسرائیل سے شروع ہوا، اس کے بعد وہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کریں گے۔