Express News:
2025-02-14@00:22:09 GMT

جھوٹے الزامات کی سیاست کب تک؟

اشاعت کی تاریخ: 14th, February 2025 GMT

سربراہ تحریک تحفظ آئین پاکستان محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی اگر آج کہہ دے کہ شہباز شریف میرا بھائی، میرا یار اور اسپیکر قومی اسمبلی میرا کلاس فیلو اور میں تین سال انھیں نہیں چھیڑوں گا تو ان پر موجودہ مقدمات اور سزائیں نہیں رہیں گی اور وہ اور ان کی اہلیہ شہزادے کی طرح باہر نکل آئیں گے۔

بلوچستان میں صرف ایک نشست کے حامل محمود خان کو یہ بھی کہنا چاہیے تھا کہ ماضی میں جن سیاستدانوں پر بھرے جلسوں میں جھوٹے الزامات لگائے گئے تھے وہ عدالتوں میں ثابت نہیں ہوئے، اس لیے جھوٹے الزامات لگانے والوں کو پہلے وہ الزامات واپس لینے اور معافی مانگنی چاہیے۔

سیاستدان تو ویسے بھی آپس میں بھائی اور یار ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے ذاتی دشمن نہیں ہوتے اور نہ ہی سیاست میں ایک دوسرے سے ذاتی دشمنی ہوتی ہے اپنی اپنی سیاست چمکانے کے لیے ملک میں ایک دوسرے پر تنقید، الزامات اور جھوٹے بیانات معمول رہے ہیں۔

 1990 کی دہائی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے قائدین ایک دوسرے پر تنقید کے علاوہ کرپشن کے الزامات لگاتے رہے جس کی وجہ سے دونوں کی حکومتیں برطرف ہوئیں اور دونوں نے ہی ایک دوسرے کی حکومت ختم کرانے کی تحریکیں چلائیں اور سیاسی مخالفت میں آمروں کا ساتھ دیتے رہے مگرگیارہ سال جب ان جھوٹے الزامات میں دونوں اقتدار سے نکالے گئے اور جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کو جلاوطن ہونے پر مجبور کیا اور دونوں پر سنگین الزامات لگا کر دونوں کی سیاست ختم کرنے کی کوشش کی تھی تو دونوں کو اپنی سیاسی غلطیوں اور حکومتوں میں رہ کر انھیں گرفتار کرانے اور غلط مقدمات بنوانے کا احساس ہوا تھا تو دونوں نے لندن میں میثاق جمہوریت کیا تھا اور 2008 اور 2013 میں اقتدار میں آ کر دونوں بڑی اور دو دو بار اقتدار میں رہنے والی پارٹیوں نے میثاق جمہوریت پر عمل کر کے پہلی بار اپنی مدت اقتدار مکمل کی تھی اور 2008 میں دونوں نے مل کر جنرل پرویز کو صدارت چھوڑنے پر مجبور کیا تھا اور دونوں پارٹیاں اپنی مخالف حکومتوں پر سیاسی تنقید بھی کرتی رہیں جو دونوں کی سیاسی مجبوری تھی،کیونکہ دونوں پارٹیوں کے منشور اور نظریات بھی مختلف تھے اور دونوں نے جنرل پرویزکے اقتدار میں اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ لیا تھا اور بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کا ایک دوسرے کے ساتھ رویہ بہن بھائی جیسا رہا تھا اور صدر آصف زرداری جب رائیونڈ نواز شریف کی دعوت پر آئے تھے تو دونوں نے ہی ملکی مفاد کے لیے سیاسی مخالفت کو ایک حد تک محدود رکھنے بلکہ صدر زرداری اور میاں نواز شریف نے دونوں رہنماؤں کی اولادوں مریم نواز اور بلاول بھٹو کی مستقبل کی سیاست سے متعلق اچھے خیالات کا خیال کیا اور دونوں پارٹیوں نے دس سالہ حکومتوں میں تعمیری سیاست جاری رکھ کر مثبت پیغام دیا تھا۔

 لیگی رہنماؤں نے حکومتوں میں رہتے ہوئے، صدر زرداری کے خلاف سخت زبان بھی استعمال کی تھی جس پر معذرت بھی کی گئی تھی۔ صدر زرداری کی سیاست زیادہ تر تعمیری اور مخالفت ایک حد تک رہی اور آصف زرداری اور نواز شریف نے ایک دوسرے کے لیے کبھی ملک لوٹنے کے مبینہ الزامات لگائے نہ مقدمات میں گرفتاریاں کرائیں۔ ان دونوں کے برعکس سیاست میں نو وارد نے تحریک انصاف بنائی جو 15 سال قابل ذکر نہیں تھی۔ میاں نواز شریف بے نظیر بھٹو کی تعزیت کے لیے نوڈیرو بھی گئے اور جب ایک انتخابی مہم میں بانی تحریک انصاف اسٹیج سے گر کر زخمی ہوئے تھے تو نواز شریف نے اپنی انتخابی مہم منسوخ کردی تھی اور ملاقات کے لیے وہ ان کے پاس بھی گئے تھے۔

پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کے درمیان بے نظیر کے بعد بھی اچھے تعلقات رہے دونوں نے ایک حد تک ایک دوسرے کی سیاسی مخالفت بھی کی مگر اپنی سیاست کو ذاتی دشمنی میں تبدیل نہیں ہونے دیا تھا۔ دونوں پارٹیوں نے ایک دوسرے کی حکومتوں کو برداشت کیا اور پی ڈی ایم کے ذریعے 2022 میں انھیں مل کر پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئینی طور منظورکرانا پڑی جس کی ذمے داری اس وقت کے وزیر اعظم پر عائد ہوتی ہے جنھوں نے پی پی اور (ن) لیگ کی سیاسی مخالفت ذاتی دشمنی میں بدل کر دونوں پارٹیوں کی قیادت گرفتار کرائی تھی۔ دونوں پارٹیوں کے رہنماؤں کو جھوٹے مقدمات میں نہ صرف گرفتارکرایا اور دونوں کے رہنماؤں سے اسیری میں غیر انسانی سلوک کیا تھا اور برسوں سے اب تک دونوں پارٹیوں کی قیادت کو کرپٹ قرار دیتے آ رہے ہیں جن پر عدالتوں میں کرپشن کے الزامات ثابت ہوئے نہ انھیں عدالتوں سے سزا ہوئی تھی۔

پی ٹی آئی وزیر اعظم نے اپنے اقتدار میں مولانا فضل الرحمن جیسے قومی رہنما کو بخشا نہ بلوچستان کی محدود سیاست کرنے والے محمود خان اچکزئی کو، اور پھر سزا یافتہ بانی پی ٹی آئی پر یہ وقت بھی آیا کہ انھوں نے مفاہمت کے لیے دونوں رہنماؤں کے پاس اپنے رہنما بھیجے لیکن اخلاقی طور پر اپنے سابقہ رویے پر کوئی معذرت نہیں کی۔

 محمود اچکزئی نے بانی پی ٹی آئی کی حمایت اس لیے شروع کر رکھی ہے کہ موجودہ حکومتی پارٹیوں نے انھیں اہمیت نہیں دی جس پر وہ آج جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ غلط ہے، انھیں پتا ہے کہ بانی کیوں جیل میں ہیں اور انھوں نے مذاکراتی کمیٹی میں محمود خان کو شامل نہیں کیا تھا۔

محمود خان کو پتا ہے کہ بانی نے طے کر رکھا ہے کہ حکومت کو چلنے نہیں دینا، احتجاج جاری رکھنا ہے تاکہ انھیں رہائی مل سکے۔ بانی نے اپنے الزامات واپس نہیں لینے، اس طرح ان کی سیاست متاثر ہوگی کیونکہ جھوٹے الزامات لگا کر انھوں نے اپنی سیاست چمکائی اور جھوٹے الزامات لگائے تھے جو اب تک الزامات ہی ہیں۔ محمود خان کو بانی سے مل کر انھیں کہنا چاہیے کہ وہ شہباز شریف کو بلا شک بھائی نہ کہیں مگر اپنے عائد کردہ جھوٹے الزامات پر اپنے تمام مخالفین سے معذرت کریں اور ان سمیت سب کو ملکی مفاد کے لیے مفاہمتی سیاست شروع کرنی چاہیے، جھوٹے الزامات کی سیاست کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: دونوں پارٹیوں سیاسی مخالفت محمود خان کو پارٹیوں نے ایک دوسرے اور دونوں نواز شریف پی ٹی آئی کی سیاست تھا اور کیا تھا کے لیے

پڑھیں:

پختونخوا اسمبلی کے ممبران پر کرپشن کے الزامات، تحقیقات کیلئے وزیر اعلیٰ کو خط ارسال

وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کو ممبران صوبائی اسمبلی پر کرپشن کے الزامات کی تحقیقات کیلئے خط ارسال کر دیا گیا۔اسپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی بابر سلیم سواتی نے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کو ممبران صوبائی اسمبلی پر کرپشن کے الزامات کی تحقیقات کیلئے خط ارسال کیا ہے۔بابر سلیم سواتی کی جانب سے لکھے گئے خط کے متن کے مطابق سابق سینیٹر اعظم سواتی کی جانب سے مانسہرہ کے عوامی نمائندگان پر کرپشن کے الزامات کی غیر جانبدار تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی قائم کی جائے۔

متعلقہ مضامین

  • سیاسی بیانات دینے والے جج کو بینچ چھوڑ کر سیاست میں آنا چاہیے، رہنما ن لیگ
  • بار بار یہ کہنا کہ ادارہ سیاست میں مداخلت نہیں کرتا، قوم کی عقل کی توہین ہے
  • 2018ء کے انتخابات میں چوری اور 2024ء میں ڈکیتی ہوئی،شاہد خاقان
  • پی ٹی آئی نے آئی ایم ایف مشن کوڈوزیئر اور خط بھیج دیا،پارٹی کے خلاف اقدامات کے الزامات
  • پختونخوا اسمبلی کے ممبران پر کرپشن کے الزامات، تحقیقات کیلئے وزیر اعلیٰ کو خط ارسال
  • ریاست و سیاست کا ایک صفحہ
  • نفرت کی سیاست سے متحدہ تقسیم مگر انکے لیڈران اب بھی باز نہیں آ رہے، شرجیل میمن
  • نفرت کی سیاست نے متحدہ کو تقسیم کیا، مگر انکے لیڈ باز نہیں آ رہے: شرجیل انعام میمن
  • شرجیل میمن نے ایم کیو ایم کے الزامات کو مسترد کر دیا