راولپنڈی (اردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار ۔ 13 فروری 2025ء ) عمران خان نے آرمی چیف کے نام پیغام میں کہا ہے کہ سیاسی و معاشی استحکام اور ملکی سلامتی کے لیے ناگزیر ہے کہ فوج اور عوام کے درمیان خلیج کم ہو، فوج اور عوام کے درمیان بڑھتی خلیج کو کم کرنے کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ فوج اپنی آئینی حدود میں واپس جائے، سیاست سے خود کو علیحدہ کرے اور اپنی متعین کردہ ذمہ داریاں پوری کرے۔

تفصیلات کے مطابق سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اڈیالہ جیل سے آرمی چیف کے نام تیسرا کھلا خط لکھا گیا ہے۔ اپنے خط میں عمران خان کا کہنا ہے کہ " میں اپنی ذات کے لیے کوئی ڈیل یا اپنی جماعت کے لیے کسی سے کوئی رعایت نہیں مانگ رہا- بطور سابق وزیراعظم اور محب وطن پاکستانی مجھے صرف اپنی فوج کی ساکھ کی بحالی اور وطن عزیز کا مفاد مقصود ہے۔

(جاری ہے)

اس امر کے باوجود کہ فوج دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے اورروزانہ شہادتیں ہو رہی ہیں، اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں کے باعث عوام اور فوج کے درمیان ہم آہنگی نہیں ہے۔ میں آئی ایس پی آر سے کہتا ہوں کہ جھوٹا بیانیہ نہ دیا کریں۔ بار بار یہ کہنا کہ فوج سیاست میں مداخلت نہیں کرتی، قوم کی عقل کی توہین ہے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں کوئی چیز نہیں چھپ سکتی، ملک کا بچہ بچہ واقف ہے کہ آرمی چیف ہی اس ملک کا نظام چلاتے ہیں۔

انتخابات میں دھاندلی ہو یا اراکین پارلیمینٹ کی خرید و فروخت، عدلیہ کی تباہی ہو یا عوامی رائے دہی پر قدغن کے کالے قانون، ناصرف ہماری باشعور قوم بلکہ عالمی برادری کو بھی معلوم ہے کہ اس کے پیچھے کون سے "نامعلوم” ہاتھ کارفرما ہیں۔ لہذا میری ان سے گزارش ہے کہ غلط بیانی سے گریز کیا کریں کیونکہ یہ صرف من حیث الادارہ فوج کی بدنامی کا سبب بنتی ہے۔

میں پانچ نکات پر روشنی ڈالوں گا جس کی وجہ سے پاکستان آج تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے: ۱- دھاندلی زدہ انتخابات کے ذریعے قوم کی جانب سے مسترد شدہ چہروں کو ملک پر مسلط کرنا: اسٹیبلشمنٹ کی اس پالیسی کی وجہ سے ملک کا شدید نقصان ہو رہا ہے۔ ابھی چند سال قبل تک جن کی سرے محل اور مے فئیر فلیٹس جیسی بے شمار کرپشن کی داستانیں قوم کو سنائی جا رہی تھیں، انہی کے لیے پوری ریاستی مشینری اور ایجینسیز کو استعمال کر کے ناصرف قبل از انتخابات بدترین دھاندلی کی گئی بلکہ پولنگ ڈے اور اس کے بعد بھی تاریخ کا سب سے بڑا ڈاکہ ڈالا گیا اور ان کو قوم پر مسلط کر دیا گیا۔

یہ بیانیہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ شریف خاندان اور زرداری پر کیسز سیاسی نوعیت کے تھے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے دور میں نیب کے کوئی کیسز نہیں بنائے گئے- انٹیلی جنس ایجینسیوں نے انکی کرپشن کے ثبوت اکٹھے کئے- جنرل احتشام ضمیر اور فاروق لغاری نے ان کے اربوں روپے کرپشن اور منی لانڈرنگ کے ڈوزئیر دئیے تھے کہ یہ لوگ کتنے کرپٹ ہیں- نیب تو ہمارے کنٹرول میں بھی نہیں تھا، جنرل باجوہ نیب کو کنٹرول کرتا تھا- انکے خلاف تمام کیسز ہمارے دور سے پہلے بنائے گئے- ہمارے دور میں صرف شہباز شریف کے خلاف مقصود چپڑاسی والا رمضان شوگر مل کیس بنا- اس کیس کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔

قوم نے دیکھا کہ انھی نیب زدہ چہروں کو ڈیل کی ڈرائی کلین مشین سے گزار کر دوبارہ پاکستان پر مسلط کر دیا گیا۔ نیب ترامیم کے ذریعے این آر او دینے کے اس عمل سے ملکی معیشت کو ۱۱۰۰ ارب روپے کا نقصان ہوا۔ اس فراڈ کے تانے بانے ملائیں تو تمام کٹھ پتلیوں کی ڈوریاں ایک ہی ہاتھ کی طرف جاتی ہیں اور اسکا سارا نزلہ فوج پر گر رہا ہے- ۲ - جمہوریت کا خاتمہ: جمہوریت اخلاقیات پر چلتی ہے- حکومت کے پاس اخلاقی قوت ہو تو ہی جمہوریت چل سکتی ہے- 30 سال لگا کر پاکستان میں رفتہ رفتہ جمہوریت کی کچھ بحالی ہوئی تھی، عدلیہ مسلسل جدوجہد سے خودمختار ہوئی تھی اور میڈیا کچھ آزاد ہوا تھا اور ملک بہتری کی طرف جا رہا تھا۔

لیکن پہلے سازش سے ہماری حکومت کو ہٹایا گیا، پھر ناصرف ایک جعلی حکومت کو مسلط کیا گیا بلکہ ان کو دوبارہ ملک پر مسلط کرنے کے لیے آئین توڑا گیا، انتخابات ملتوی کیے گئے، الیکشن سے پہلے ہر حربہ آزمایا گیا، قاضی فائز عیسٰی کے ذریعے ہمارا نشان چھینا گیا، ہمارے ترجیحی امیدواروں کو میدان سے ہٹوایا گیا، حتیٰ کہ الیکشن کمپین تک نہیں کرنے دی گئی- یہ سب کرنے کے باوجود جب الیکشن میں پاکستانی عوام نے ہمیں دو تہائی سے بھی زیادہ نشستوں پر کامیاب کیا تو فارم 47 کے ذریعے رزلٹ تبدیل کر کے صرف 17 سیٹیں جیتنے والی پارٹی کو ملک پر مسلط کر دیا- اور اس انتخابی فراڈ کو چھپائے رکھنے کے لیے اور تحریک انصاف کو کچلنے کی کوشش میں جمہوریت کو مکمل طور پر پاؤں تلے روند دیا گیا ہے۔

الیکشن آڈٹ کے خودمختار ادارے “پتن” کی رپورٹ اس سلسلے میں سب کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے کہ کیسے اس ملک میں جمہوریت کا نقصان کر کے دھاندلی کے 64 نئے طریقے اپنائے گئے۔ میڈیا پر بدترین قدغنیں لگا کر اور انسانی حقوق کو پامال کر کے جمہوریت کے تمام ستونوں کو برباد کر دیا گیا ہے۔ لوگوں کو ان کے نمائندگان چننے کا حق نہیں ہے۔ الغرض جمہوریت کے تمام بنیادی ستون بشمول خودمختار عدلیہ، حق آزادئ رائے، آزاد میڈیا اور انسانی حقوق ختم کر دئیے گئے ہیں۔

اس سب کے پیچھے بنیادی طور پر تحریک انصاف کو کچلنے اور الیکشن ڈاکے پر پردہ ڈالنے کی قبیح کوشش کارفرما ہے۔ ‏۳- ترجیحات کی غلط سمت: ساری دنیا آگے کی جانب سفر کرتی ہے مگر ہم مخالف سمت میں گامزن ہیں۔ پاکستان کو Deep Structural Reforms ( بنیادی ڈھانچے میں اصلاحات) کی ضرورت ہے، جس میں اداروں کی مضبوطی، قانون کی حکمرانی، اقتصادی ترقی، آمدن میں اضافہ، اخراجات میں کمی، بڑھتی آبادی کے ساتھ روزگار کے مواقع پیدا کرنا، سماجی تحفظ، امن و امان اور ملک میں نئی سرمایہ کاری لانا شامل ہیں۔

اداروں کی مضبوطی میں ہی ملکی ترقی کا راز پوشیدہ ہے۔ یہ کام مشکل ہے اور صرف وہی حکومت کر سکتی ہے جس کے پاس عوامی مینڈیٹ ہو اور جس کے پاس اخلاقی طاقت (moral authority) ہو- اصلاحات کرنا این آر او اور جعلسازی سے اقتدار لینے والوں کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہاں جعلی پارلیمنٹ ہے، جعلی ایم این ایز ہیں، جعلی وزیر اور جعلی صدر ہے!! ان کا ایجنڈا صرف (reign of terror) خوف و ہراس پھیلا کر اپنے تسلط کو برقرار رکھنا ہے۔

ملک میں استحکام تب آتا ہے جب قانون کی حکمرانی ہو اور جمہور کو آزادی حاصل ہو۔ یہاں تو اکیسیوں صدی میں یہ حال ہے کہ انٹرنیٹ تک بندش کا شکار ہے۔ آئی ٹی کے اس دور میں لوگ نہ صرف تعلیمی و سماجی بلکہ معاشی طور پر بھی انٹرنیٹ پر منحصر ہیں۔ اس کے منقطع ہو جانے سے پہلے سے ہی تباہی کے دہانے پر کھڑی معیشت کو مزید زد پہنچ رہی ہے۔ “ورلڈ جسٹس پراجیکٹ” کے رول آف لأ انڈیکس میں ہم چھبیسویں ترمیم کے بعد صرف گنتی کے چند ممالک سے آگے ہیں۔

“دی اکانومسٹ” کے انٹیلیجنس یونٹ کے “Democracy Index” میں ہم ہائبرڈ نظام سے آمرانہ/ استبدانہ نظام کی جانب گامزن ہیں۔ اسی طرح ملک میں امن صرف تب آئے گا جب اپنے پڑوسی ممالک سے تعلقات کی پالیسیوں کو بہتر کریں گے اور پاکستان کے مفادات کو سامنے رکھ کر پالیسیاں بنائیں گے۔ ہماری افغانستان کو لے کر پالیسی سنجیدہ نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے ہمیں دہشتگردی کے بڑھتے ناسور کا سامنا ہے۔

۴- ہنرمند پاکستانیوں اور سرمائے کی ملک سے باہر منتقلی: پاکستان میں جاری ظلم و جبر کے ماحول اور لاقانونیت سے عوام شدید مایوس ہے۔ سرمایہ کار اور ہنرمند افراد جوق در جوق بیرون ملک منتقل ہو رہے ہیں۔ دو سال کے عرصے میں تقریباً 17 لاکھ افراد کے بیرون ملک منتقل ہونے سے ملکی معیشت کو اندازاً 15 سے 20 ارب ڈالرز کا نقصان ہو چکا ہے۔ معاشی عدم استحکام اپنی انتہا پر ہے۔

گروتھ ریٹ صفر ہے اور پاکستان میں سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ ملک میں غربت اور بےروزگاری عروج پر ہے- لوگ ہر حال میں ملک سے باہر جا رہے ہیں، آئے روز لوگوں کے ڈوبنے کی خبر آتی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ملک میں مایوسی کس قدر عروج پر ہے۔ ۵- ملک میں انسانی حقوق کی پامالیاں: ملک میں ہر جانب فسطائیت کا بازار گرم ہے۔ بنیادی انسانی حقوق کی معطلی، اور حرمتوں کی پامالی سمیت وہ سب کچھ ہو رہا ہے جو مشرقی پاکستان میں کیا گیا تھا اور سقوط ڈھاکہ جیسا سانحہ وقوع پذیر ہوا۔

آٹھ فروری کو ایک بار پھر ہمارے احتجاج کو ناکام بنانے کی کوشش میں ملک بھر میں چھاپے مار کر چادر چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا۔ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ پنجاب پولیس شاہ سے زیادہ شاہ کی وفادار بن کر بدمعاشی پر اتری ہوئی ہے۔ وزیرآباد میں پولیس نے ہمارے ایک کارکن کا جنازہ تک نہیں پڑھنے دیا۔ نو مئی اور 26 نومبر جیسے سانحات میں ریاست کی جانب سے کی جانے والی انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں پر بھی کوئی ایکشن نہیں ہوتا تو اس ملک میں کسی کو انصاف ملنا ممکن نہیں ہے۔

9 مئی اور 26 نومبر کو ہمارے نہتے، جمہوریت پسند کارکنان پر ظلم و تشدد کی انتہا کر دی گئی۔ پر امن شہریوں پر سیدھی گولیاں چلا کر شہید کیا گیا۔ سیاسی انتقام کی آڑ میں تین سال میں ایک لاکھ سے زائد مرتبہ شہریوں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے، ہمارے 20 ہزار سے زائد ورکرز اور سپورٹرز کو گرفتار کیا گیا اور سینکڑوں کو اغواء کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ہزاروں بےگناہ لوگوں کو کئی کئی ماہ جھوٹے کیسز میں جیلوں میں رکھا گیا- لوگوں سے سیاست کرنے کا حق چھینا گیا۔

سویلنز کو ملٹری حراست میں دے کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بلوچستان میں جو انسانی حقوق کا حال تھا اب پورا ملک اس کی لپیٹ میں ہے۔ میرے کیسز کے لیے “پاکٹ ججز” بھرتی کیے جا رہے ہیں- میرے وکلاء کو جیل ٹرائل میں جانے نہیں دیا جاتا اور صحافیوں کو بھی اپنی من مرضی سے اندر بھیجا جاتا ہے۔ یہ سب اس وجہ سے ہے کیونکہ پاکستان میں چھبیسویں آئینی ترمیم کے بعد نظام عدل کا مکمل طور پر جنازہ نکل چکا ہے اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون چل رہا ہے۔

لوگوں سے جینے کا حق چھینا جا رہا ہے۔ اس دلدل سے جب تک پاکستان کو نہیں نکالا جائے گا تب تک ملک آگے نہیں بڑھے گا- ‏مندرجہ بالا نکات پر غور و خوض اور ان کی روشنی میں اسٹیبلشمنٹ کا اپنی پالیسیوں کو فوری تبدیلی کرنا، وقت کی ضرورت ہے تاکہ بطور ادارہ فوج کی بدنامی کا عمل رک سکے۔ ملکی خزانہ لوٹ کر بیرون ملک ڈھیر لگانے والی اشرافیہ کا کیا ہے، وہ تو اگلی پرواز سے ملک سے نکل جاتے ہیں۔

پورا نظام اور اس کی توانائیاں اس ٹولے کو بچانے پر صرف کرنے کی بجائے اپنی ترجیحات درست کرنے اور ان 24 کروڑ پاکستانیوں کا سوچنے کی ضرورت ہے، جن کا جینا مرنا پاکستان میں ہے۔ ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر اور اپنی غلطیوں سے سیکھ کر تمام اقدامات اور پالیسیز کو آئین و قانون کے دائرے میں لانا پاکستان کی بقاء اور ترقی کا واحد راستہ ہے- سیاسی و معاشی استحکام اور ملکی سلامتی کے لیے ناگزیر ہے کہ فوج اور عوام کے درمیان خلیج کم ہو، اور اس بڑھتی خلیج کو کم کرنے کی صرف ایک ہی صورت ہے، اور وہ ہے فوج کا اپنی آئینی حدود میں واپس جانا، سیاست سے خود کو علیحدہ کرنا اور اپنی متعین کردہ ذمہ داریاں پوری کرنا، اور یہ کام فوج کو خود کرنا ہو گا ورنہ یہی بڑھتی خلیج قومی سلامتی کی اصطلاح میں فالٹ لائنز بن جائیں گی۔

".

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے فوج اور عوام کے درمیان پاکستان میں کر دیا گیا ہے کہ فوج کے ذریعے کیا گیا اور ملک نہیں ہے ملک میں کی جانب کے لیے ہے اور سے ملک اور ان اور اس رہا ہے گیا ہے

پڑھیں:

جوابی خط

ہم تمہارے اُس خط کا جواب دے رہے ہیں جو ہمیں ابھی تک نہیں ملا، البتہ تمہارا یہ خط پڑھ کر ہمیں دُکھ ہوا جب ہم نے تمہیں یہ سہولت فراہم کر رکھی ہے تم اپنے جذبات براہ راست بھی ہم تک پہنچا سکتے ہو پھر تمہیں یہ خط والی چول مارنے کی کیا ضرورت تھی؟ تم نے جو کچھ ہم سے کہنا تھا بشریٰ بی بی کو بتا دیتے، ہم بھی تو اُسے بتا دیتے ہیں ناں، تم نے اپنے خط میں ایک بار پھر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ’’ہم اس ملک سے ٹُوٹ کر پیار نہیں کرتے‘‘، تمہاری سوچ غلط ہے، ملک ٹوٹنے کے بعد ہم نے اپنی جو اصلاح کی ہے اسی کا نتیجہ ہے ملک دوبارہ نہیں ٹوٹا، اللہ جانے تم بار بار کیوں لوگوں کو حمودالرحمان کمیشن کی رپورٹ پڑھنے کے لیے کہتے ہو؟ اگر لوگ یہ رپورٹ نہیں پڑھنا چاہتے تم زبردستی کیوں انہیں پڑھانا چاہتے ہو؟ یہی بات حامد میر کو بھی ہم سمجھاتے ہیں کہ حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کا بار بار ذکر نہ کیا کرو، پاکستان میں اس وقت اور تھوڑے ’’کمیشن‘‘ چل رہے ہیں جو تم اپنی ہر تقریر اور پروگرام میں حمودالرحمان کمیشن لے کر بیٹھ جاتے ہو؟، پر کیا کریں ہماری اکثر باتیں حامد میر کی سمجھ میں نہیں آتیں، کاش وہ وارث میر کا بیٹا نہ ہوتا، یا پھر وہ وارث میر کا بیٹا ہوتا تو اپنے بھائی عامر میر جیسا ہوتا جو ہم جیسا ہے، اور خان جی ہماری ایک اور بات کان و دیگر اعضاء وغیرہ کھول کر سن لو ہم اگر تمہارے اتنے ناز نخرے اٹھا رہے ہیں اس کی واحد وجہ یہ ہے ہم چاہتے ہیں ملک ٹوٹنے کا سانحہ دوبارہ نہ ہو، یہ خدشہ اگر ہمیں نہ ہوتا تمہیں بیشمار سہولتیں فراہم کرنے کے تمام بیرونی دباؤ بھی ہم رد کر دیتے، تمہیں جیل میں بیشمار سہولیات اسی خدشے کے پیش نظر ہم نے فراہم کر رکھی ہیں ورنہ ہمارے زیر اثر موجودہ سیاسی حکمرانوں کا بس چلے پھانسی کی سزا سے پہلے ہی جیل کی ’’کال کوٹھری‘‘ میں تمہیں بند کرا دیں، ان کا بس چلے استنجے کی سہولت بھی تم سے چھین لیں، ان کا بس چلے جیل میں تم سے ٹائیلٹ صاف کرائیں، اور تمہیں یہ حکم دیں جیل کے تمام افسروں کے کپڑے فرائی پین سے استری کرو، جس کے بعد تمہیں باامر مجبوری ہماری وزیراعلیٰ مریم نواز سے یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس ہونے لگے ’’فرائی پین سے کپڑے کیسے استری کیے جاتے ہیں؟‘‘، ہمارے زیر اثر سیاسی حکمرانوں کا بس چلے جیل میں ہفتے میں دو بار تمہیں کھانے کے لیے ملنے والی دیسی مرغے کی سہولت بھی بند کرا دیں جس کے بعد تمہیں ’’جیل کی دال کے شورے‘‘ پر گزارا کرنا پڑے، یہ دیسی مرغا ہی ہے جس کی وجہ سے تم ابھی تک اپنی پارٹی کے راہنماؤں مراد سعید اور عائلہ ملک کو نہیں بھولے، ورنہ جیل کے ’’دال شورے‘‘ پر تمہیں صرف اعجاز چودھری اور میاں محمود الرشید ہی یاد آنا تھے، تمہاری اور اپنی وجہ سے ہم نے تمہاری اور اپنی بشریٰ بی بی کو بھی ان کی مرضی کے خلاف تنگ نہیں کیا، حتیٰ کہ ان کی بہترین رازدان سہیلی فرح گوگی کا چیپٹر بھی اب تقریباً کلوز ہی کر دیا ہے، ورنہ ہم اتنے بھی گئے گزرے نہیں کہ بیرون ملک جہاں وہ بیٹھی ہے اسے گرفتار کر کے واپس نہ لا سکیں، ہمیں پتہ ہے تم بزدار کے لیے بھی ابھی تک نرم گوشہ رکھتے ہو، چنانچہ اس کے باوجود کہ بزدار نے مال بنانے میں ہمارے مقابلے پر اترنے کی پوری کوشش کی ہم نے اسے صرف اس چھوٹی سی شرط پر معاف کر دیا کہ وہ فی الحال تم سے لاتعلقی کا اعلان کر دے، ضرورت پڑی ہم اسے دوبارہ تم سے جوڑ دیں گے بلکہ ضرورت پڑی تمہارے دیگر تمام لوٹے بھی دوبارہ تم سے جوڑ دیں گے، ہم جانتے ہیں تم اس وقت پاکستان کے ایک مقبول ترین سیاسی راہنما ہو، مگر تمہیں مقبول ترین سیاسی راہنما سمجھنا تو دور کی بات ہے ہم تمہیں سیاستدان ہی نہیں سمجھتے، تم اگر سیاستدان ہوتے اب تک ہمارے تمام مطالبات تسلیم کر چکے ہوتے، تم اگر سیاستدان ہوتے کوئی نہ کوئی ڈیل کر کے اپنے لیے بھی آسانیاں پیدا کر چکے ہوتے ہمارے لیے بھی کر چکے ہوتے، اللہ جانے تم کس مٹی سے بنے ہوئے ہو؟ کم از کم اس ’’وطن کی مٹی‘‘ سے تو بالکل ہی نہیں بنے ہوئے، تم خود کو پاکستان کا مقبول ترین سیاسی راہنما سمجھتے ہو تو سمجھتے رہو، جب تک ہم تمہیں پاکستان کا مقبول ترین سیاسی راہنما نہیں سمجھتے بہتر ہے تم بھی نہ سمجھو، کیونکہ فی الحال تمہیں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہونا؟ ہماری نظر میں فی الحال پاکستان کا مقبول ترین سیاسی راہنما ’’اُوں اُوں اُوں‘‘ والا شہباز شریف ہی ہے، جتنی اچھی وہ اُوں اُوں اُوں کرتا ہے تم جب کر لو گے پھر دیکھیں گے ہم نے تمہارا کیا کرنا ہے؟ وہ ہماری محبت میں اسقدر آگے نکل چکا ہے جس قدر تم پیچھے رہ گئے ہو، یہاں تک کہ ہماری محبت میں اُس نے مستقل طور پر اپنے بڑے بھائی کو بھی قائل کر لیا ہے کہ بار بار ہم سے لڑائی کا کوئی فائدہ نہیں ہونا، ہمارے مقبول ترین سیاسی راہنما شہباز شریف کو ہماری کوئی بات رد کرنے کا شعور ہی نہیں رہا، چنانچہ ہم نے یہ طے کر لیا ہے اپنی بات نہ ماننے والے کسی واہیات کو بار بار وزیراعظم بنانے کے بجائے اپنی ہر بات ماننے والے کسی کو بھی تاحیات وزیراعظم بنا دیا جائے سارے جھگڑے ہی ختم ہو جائیں گے، تم یہ سمجھتے ہو 2023 کے الیکشن میں اپنی مرضی کا سیٹ اپ لا کر ہم نے زیادتی کی، بھئی اگر ہم 2018 کے الیکشن میں اپنی مرضی کا سیٹ اپ لا سکتے ہیں تو 2023 کے الیکشن میں اپنی مرضی کا سیٹ اپ لاتے ہوئے ہمیں موت پڑنا تھی؟ تم اگر چاہتے ہو ہم تمہاری مرضی کا کوئی سیٹ اپ لائیں پھر اپنی 2018 والی پوزیشن پر تمہیں واپس آنا پڑے گا، اپنی مقبولیت کے بجائے ہماری قبولیت پر دوبارہ ایمان لانا پڑے گا، اگر اس پر تم غور کر کے یعنی ہماری تمام باتیں مان کے تم ہمیں کوئی خط لکھو وہ فوراً ہمیں مل جائے گا اور فوراً اُس کا جواب بھی تمہیں مل جائے گا، ورنہ تم جتنے مرضی خط لکھتے رہو ہم نے کبھی یہ اعتراف ہی نہیں کرنا تمہارا خط ہمیں مل گیا ہے اور ہاں یاد آیا تمہیں یہ اطلاع تو مل گئی ہو گی عمران ریاض خان بیرون ملک چلا گیا ہے، کیا اس بات پر ہمارا شکریہ نہیں بنتا؟؟

متعلقہ مضامین

  •    سیاسی کشیدگی حکمرانی اورقومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار
  • سیاسی استحکام ہے نہ الائنس بننے کا معلوم: مفتاح اسماعیل 
  • ٍٍپی ٹی آئی کا آئی ایم ایف کو ڈوزیئر معیشت کو نقصان کی ایک اور کوشش: حنیف عباسی
  • معاشی استحکام کے لیے زرعی شعبے کی ترقی ناگزیر ہے، احسن اقبال
  • معاشی استحکام، مستقبل کے چیلنجز
  • معاشی استحکام کے لئے زرعی شعبے کی ترقی ناگزیر ہے: احسن اقبال
  • معاشی استحکام کے لیے پنشن اصلاحات ناگزیر ہیں. ویلتھ پاک
  • جوابی خط
  • ملک معاشی سیاسی استحکام کی طرف جارہا ہے سیاسی جماعتوں کو محاذ آرائی سے نکلنا چاہئے