امریکا کو براہ راست پروازوں کی بحالی، امریکی ٹیم آئندہ ماہ پاکستان کا دورہ کریگی
اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 13 فروری2025ء)پاکستان سے امریکا کی براہ راست پروازوں کے لیے امریکن فیڈرل ایوی ایشن اتھارٹی(ایف اے ای)کی ٹیم آئندہ ماہ پاکستان کا دورہ کرے گی، اس سلسلے میں پاکستان کی جانب سے 75ہزارڈالرزرقم اداکردی گئی ہے۔ذرائع کے مطابق امریکا کے لیے پاکستان کی براہ راست پروازوں کی بحالی کے لیے پہلے مرحلے میں امریکا کی فیڈرل ایوی ایشن اتھارٹی کو درکار فیس 75ہزارڈالرادا کردیے گئے، ایف اے اے کی 5 رکنی ٹیم کی ابتدائی جائزے کے لیے مارچ میں پاکستان آمد متوقع ہے۔
واضح رہے کہ سن 2022میں پی آئی اے کے کراچی میں ایئرکریش کے بعد یورپی یونین کے قدغن کے بعد ایف اے اے نے پاکستانی پروازوں کی کیٹگری سی اے ون سے سی اے ٹوکردی تھی، ذرائع کے مطابق مذکورہ پروازوں کی بحالی کیتناظر میں سول ایوی ایشن اتھارٹی نے دستاویزات تیارکرلی ہیں، پابندی کے خاتمے پر پی آئی اے کی امریکی شہروں نیویارک، شکاگو اور ہیوسٹن کیلیے پروازیں بحال ہوجائیں گی۔(جاری ہے)
ماضی میں قومی ایئرلائن امریکا کے لیے پروازیں مانچسٹر کے راستے آپریٹ کرتی تھی، ذرائع کے مطابق امریکا کے لیے پی آئی اے کی پروازیں 28 اکتوبرسن 2017 میں بند ہوئیں، جس کی متفرق وجوہات تھیں۔اس معاملے پرپاکستان کی جانب سیاگلے چندبرسوں کے دوران تگ ودوشروع کی گئی، ان کاوشوں کے نتیجے میں امریکن ٹرانسپورٹ سیفٹی ایڈمنسٹریشن (ٹی ایس ای)کی ٹیم نے اسلام آبادایئرپورٹ کا دورہ کیا اوراس دورے کے نتیجے میں پاکستانی ہوائی اڈے پرانتظامات کوتسلی بخش قراردیا۔تاہم اس دوران کووڈ 19کی وجہ سے دنیا بھرمیں ہوابازی ایک شدید جمود کا شکارہوئی،جس کے نتیجے میں ان کوششوں کا تسلسل جاری نہیں رہا،دوران کووڈ امریکا میں مقیم پاکستانیوں کی بڑی تعداد کی وطن واپسی کے خصوصی پروازیں چلانے کیحوالے سیایک اورکوشش کا آغازکیا گیا اورانسانی بنیادوں پرپارٹ 375 کے تحت امریکا کے لیے پروازیں چلانے کے لیے بات چیت شروع کی کہ وہاں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے،انسانی بنیادوں پرامریکا اورپاکستان کے درمیان پروازیں چلانے کی اجازت دی جائے۔اس تناظر میں جان فلیگا نامی قانونی ماہر کو بھی ہائرکیا گیا،اور اس درخواست سے متعلق کارروائی شروع کی گئی،جس کے دوران 12پروازیں چلانے کی اجازت ملی تھی، جس میں سے پاکستان اورامریکا کے درمیان 7پروازیں چلائی گئیں۔پاکستان اورامریکا کے درمیان براہ راست پروازوں کے راستے میں ایک اورمعاملہ اس وقت رکاوٹ بنا،جب کراچی میں پی آئی اے کا ایک طیارہ حادثے کا شکارہوا، جس کے بعد پاکستانی کپتانوں کے حوالے سے جاری بیان اوریورپی یونین کی پابندی کے فیصلے کے سبب ایف اے اے نے پاکستان کی کیٹگری کوڈائون کردیا تھا۔ذرائع کے مطابق ایف اے اے کی ٹیم کا دورہ ابتدائی مرحلہ ہوگا،اس دوران پی آئی اے کی جانب سے ازسرنو اقدامات کیعلاوہ امریکن ٹرانسپورٹ سیفٹی ایڈمنسٹریشن کی کلیئرنس بھی درکار ہوگی،ٹی ایس اے کی ٹیم کی کلئیرنس کے بعد امریکہ کیلئے پی آئی اے براہ راست پروازوں کی راہ ہموارہوجائے گی۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے براہ راست پروازوں ذرائع کے مطابق پروازیں چلانے امریکا کے لیے پروازوں کی پاکستان کی پی آئی اے ایف اے اے کا دورہ کی ٹیم کے بعد
پڑھیں:
مخدوش سیکورٹی صورتحال اور امریکی دباو پاک چین تعلقات کے لئے چیلنج ہے، عامر رانا
ہمسایہ ملکوں کے تعلقات کا جائزہ لیتے ہوئے عامر رانا کہتے ہیں کہ چین نہیں چاہتا کہ پاکستان بیجنگ کے ساتھ اپنے تعلقات کا فائدہ اٹھائے اور بیک وقت واشنگٹن کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرے خاص طور پر جب پاکستان اور امریکا کے تعلقات کشیدہ ہوں۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان کے معروف تجزیہ کار عامر رانا نے صدر مملکت آصف علی زرداری کے دورہ چین کے تناظر میں پاک چین تعلقات کا جائزہ لیتے ہوئے ہمسایہ اور دو دوست ممالک کو سی پیک سمیت معاہدوں پر عمل درآمد میں درپیش مشکلات اور رکاوٹوں کا ذکر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حالیہ دورہ چین کے دوران صدر آصف علی زرداری نے چین کے ساتھ اسٹریٹجک شراکت داری کے لیے عزم کا اعادہ کیا۔ چینی رہنماؤں بالخصوص چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ ملاقاتوں میں صدرِ مملکت پاکستان نے پاک-چین اقتصاری راہداری (سی پیک) پر تعاون کے نئے دروازے کھولنے پر زور دیا۔
انہوں نے ایک اہم وقت میں دورہ کیا کہ جب پاکستان میں دہشت گردی اور سلامتی کے چیلنجز چین کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کے لیے آزمائش کا باعث بن رہے ہیں۔ اگرچہ بیجنگ کے ساتھ پاکستان کے اسٹریٹجک اور دفاعی تعلقات مضبوط ہیں لیکن اپنی خارجہ پالیسی کے مؤقف خاص طور پر امریکا و مغرب کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے سمجھوتہ کیے بغیر انہیں مضبوط بنانا مقصود ہے۔ تاہم سیکیورٹی خطرات، قرضوں کی ادائیگی کی غیر یقینی صورت حال، بیوروکریٹک مسائل اور بیوروکریسی کے مغرب کی جانب جھکاؤ کی وجہ سے چینی سرمایہ کار یہاں سرمایہ لگانے میں ہچکچا رہے ہیں۔
چین نے کبھی بھی پاکستان کے مغرب کے ساتھ فعال تعلقات پر اعتراض نہیں کیا جبکہ وہ واقف ہے کہ پاکستان اور امریکا کے دو طرفہ تعلقات کی ایک طویل تاریخ ہے۔ درحقیقت پاکستان کے ساتھ امریکا کے جو تعلقات ہیں وہ بیجنگ کے مفاد میں بھی ہیں جیسے مثال کے طور پر 1970ء کی دہائی میں پاکستان نے چاؤ این لائی اور ہنری کسنجر کے درمیان خفیہ ملاقات کی سہولت کاری کی تھی۔ تاہم بیجنگ کے خدشات کی وجوہات کچھ اور ہیں۔ چین نہیں چاہتا کہ پاکستان بیجنگ کے ساتھ اپنے تعلقات کا فائدہ اٹھائے اور بیک وقت واشنگٹن کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرے خاص طور پر جب پاکستان اور امریکا کے تعلقات کشیدہ ہوں۔
عامر رانا کے نزدیک محسن نقوی کے بارے میں چین کا نظریہ ہے کہ وہ پاکستان کی سویلین حکومت کا اہم حصہ ہونے کے بجائے پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے قریبی ہیں۔ اگر محسن نقوی ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریبِ حلف برداری کے دوران واشنگٹن میں موجود تھے تو چین اسے مختلف نقطہ نظر سے دیکھتا ہے یعنی اس کے نزدیک پاکستان آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ذریعے اپنی مالیاتی امداد کو برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ ان کی بنیادی تشویش یہ ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں پر پاکستان کا انحصار سی پیک کو قرضوں کی ادائیگی سے لے کر پروجیکٹ کی رازداری کو برقرار رکھنے جیسے متعدد عوامل متاثر ہوتے ہیں۔
پاکستان کو چین اور مغرب کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن قائم کرنے میں جدوجہد کا سامنا ہے۔ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے چند قریبی مشیروں بشمول سابق سفارتکاروں اور جنرلز یہ کہہ کر چین کے ساتھ قریبی تعلقات کی وکالت کرتے ہیں کہ چین کا عروج سوویت یونین کے عروج سے مختلف ہے۔ تاہم اسٹیبلشمنٹ کو محض ایک عالمی طاقت پر انحصار کرنے کے طویل مدتی نتائج اور مضمرات کا سامنا کرنا ہے خاص طور پر اس سوال کے پیش نظر کہ اس طرح کا تعلق اسٹریٹجک، سیاسی اور اقتصادی تعاون میں کیسے کارآمد ثابت ہوگا۔ طالبان حکومت اور اس کی وسیع تر اسٹریٹجک فریم ورک جیسے چیلنجز کو بھی سنگین بناتا ہے۔ ان پیچیدگیوں کے باوجود چین قراقرم ہائی وے فیز ٹو اور ایم ایل ون پر رواں سال کام کا آغاز کرے گا۔