کراچی پریس کلب ملک کا واحد جمہوری ادارہ ہے جو ہمیشہ مظلوموں اور منحرفین کی آواز بنا۔کراچی پریس کلب کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ 1959میں اپنے قیام کے بعد سے یہاں ہر سال باقاعدہ انتخابات منعقد ہوتے ہیں۔ پریس کلب نے صحافیوں کے حالات کارکو بہتر بنانے، آزادئ صحافت کے لیے چلائی جانے والی تحریکوں اور ملک میں جمہوریت کے لیے چلائی جانے والی تمام تحریکوں کی میزبانی کی ہے۔
سینئر صحافی اشرف شاد کی زیرِ ادارت کتاب ’’کراچی پریس کلب The Island of Truth‘‘ صحافت کے متعلق لٹریچر میں ایک بیش بہا اضافہ ہے۔ اشرف شاد کا شمار ملک کے سینئر صحافیوں میں ہوتا ہے۔ اشرف شاد نوجوانی میں بائیں بازو کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں شامل ہوئے، پھر صحافت کا شعبہ اختیار کیا۔ اشرف شاد صحافیوں کی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹسPFUJ کے فعال کارکنوں میں شامل ہوگئے۔
جوانی میں ملازمت سے برطرفی اور جیل کی صعوبتیں برداشت کیں۔ اشرف شاد ایک طرف ٹریڈ یونینسٹ کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئے تو دوسری طرف ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا بھی اعتراف ہوتا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں پہلے ان کے لیے روزگارکے دروازے بند ہوئے اور پھر ان کی تلاش شروع ہوگئی تو اشرف شاد ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ وہ امریکا، متحدہ عرب امارات میں رہے اور آج کل آسٹریلیا میں مقیم ہیں۔ اشرف شاد کو بظاہر ملک سے گئے 40 برس کا عرصہ گزرگیا مگر وہ آج بھی کسی نہ کسی طرح پاکستانی صحافت سے جڑے ہوئے ہیں۔
اشرف شاد نے کئی شہرۂ آفاق ناول تحریرکیے ہیں مگر گزشتہ سال ان کی یاد داشتوں پر مشتمل ایک کتاب شایع ہوئی۔ یہ کتاب دراصل پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی تاریخ ہے۔ اگرچہ اشرف شاد طویل بیماری سے گزرچکے ہیں مگر ان کی ہمت مثالی ہے۔ اشرف شاد نے ’’ انڈر گراؤنڈ‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب مرتب کی ہے جس میں ان کے علاوہ کئی اور معروف صحافیوں کے کمیونسٹ سیاست کے بارے میں تجربات شامل ہیں، مگرگزشتہ سال جب وہ پاکستان آئے تو انھوں نے کراچی پریس کلب کے بارے میں سینئر اور جونیئر صحافیوں سے یاد داشتیں لکھوانے کا کام شروع کردیا۔
اشرف شاد نے آسٹریلیا میں بیٹھ کر بہت سے صحافیوں سے رابطے کیے اور انھیں کراچی پریس کلب کے بارے میں تاثرات قلم بند کرنے کی دعوت دی، یوں وہ 10 کے قریب سینئر اور جونیئر صحافیوں سے کراچی پریس کلب کے بارے میں تاثرات تحریرکرانے میں کامیاب ہوئے، یہ کتاب 190 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں صحافیوں کی تحریروں کے علاوہ 1959 سے 2014 تک منتخب ہونے والے صدور اور سیکریٹریوں کی فہرست کے علاوہ اہم دستاویزات کا علمی اور قیمتی تصاویر بھی شامل ہیں۔ جن صحافیوں کی تحریریں اس کتاب میں شامل ہیں ان میں حسین احمد، اشرف شاد، عبدالحبیب غوری، مجاہد بریلوی، شہناز احد، مظہر عباس، فاضل جمیلی، فیصل سیانی اور راقم شامل ہیں۔
اس کتاب میں دنیا بھر کے کئی اور پریس کلبوں کے تعارف بھی شامل ہے۔ اشرف شاد نے کتاب کا انتساب ’’پریس کلب کی دیوار گریہ ‘‘کے نام سے منسوب کیا ہے۔ کتاب کے آغاز پر لکھ دیا گیا ہے کہ کتاب کی فروخت سے جو آمدنی ہوگی وہ صحافیوں کی بہبود کے کسی ادارے کو عطیہ کی جائے گی۔ اشرف شاد نے کتاب کا پیش لفظ ’’ایک ادارہ ایک تاریخ‘‘ کے عنوان سے یوں شروع کیا ہے۔ ’’ کراچی پریس کلب کی یادوں کا ایک ابال تھا جو بے چین کیے رکھتا تھا، ایک زمانہ وہاں گزارہ تھا۔ پریس کلب اس وقت دوسرا نہیں پہلا گھر تھا۔ کارڈ روم جو ادارہ کے اندر ایک ادارہ تھا وہاں دنیائے صحافت کے قیمتی ہیرے اپنی چمک دکھاتے رہتے تھے۔ ‘‘ وہ لکھتے ہیں کہ اس کتاب کی ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ پریس کلب کی کہانی میں ایک تسلسل ہے۔ مختلف زمانوں کی ڈور جڑتی چلی گئی ۔
مصنف کا کہنا ہے کہ یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ یہ کتاب علمی اور تحقیقی کام نہیں ہے بلکہ ان دوستوں نے جو پریس کلب میں سرگرم رہے اپنی اپنی یاد داشتیں لکھی ہیں۔ کراچی پریس کلب پر ایک اچھے تحقیقی کام کی ضرورت ہے۔ کتاب کا آغازکراچی پریس کلب کے سب سے سینئر ترین رکن حسین احمد سے گفتگو سے ہوتا ہے۔
طویل عرصے تک بے روزگار رہنے والے صحافی امین راجپوت مرحوم نے یہ انٹرویو لیا تھا۔ امین راجپوت اس کتاب کی اشاعت سے بہت پہلے انتقال کرگئے تھے۔ حسین احمد نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ کراچی پریس کلب کے قیام کا سہرا اقبال حسین برنی کے سر ہے ۔ مسلم لیگ نے اوریئینٹ نیوز کے نام سے ایک خبررساں ایجنسی بنائی تھی۔ برنی صاحب دہلی میں اس کے نمایندے تھے۔ حسین احمد نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ 60 اور 70 کی دہائی کلب کے حوالے سے بہترین تھی۔ بقول حسین احمد جو حال صحافت کا ہے وہی پریس کلب کا بھی ہے۔
کتاب کے مصنف اشرف شاد اپنے آرٹیکل میں لکھتے ہیں کہ ’’ کراچی پریس کلب کی برطانوی عہد کی پتھروں کی بنی ہوئی قدیم عمارت کراچی کا ایک اہم محلاتی ورثہ ہے۔ حال ہی میں اس عمارتی ورثے کو محفوظ کرنے کے لیے اس کی تزئین نو کی گئی ہے۔‘‘ اشرف شاد نے اپنے پرانے ساتھیوں کو یاد کرتے ہوئے مشتاق میمن کا یوں ذکرکیا ہے کہ ٹیرس کے ساتھ چھوٹا لان تھا، وہ رات کو تاریک ہوجاتا تھا۔ ایک کونے میں مشتاق کا گوشہ آباد ہوجاتا، وہ پکے مارکسٹ کامریڈ تھے۔
اپنے نظریات کا پرچارکرتے اورکسی مصلحت کے قائل نہیں تھے، ان کی دوستی آسان نہیں تھی۔ وہ لکھتے ہیں کہ سچائی کا جزیرہ کی اصطلاح پریس کلب کے کارڈ روم کے ایک مستقل کھلاڑی سابق سیکریٹری اطلاعات علی احمد پریس نے استعمال کی تھی۔ کراچی پریس کلب کی تاریخ کے اہم کردار عبدالحبیب خان غوری جو کلب کے صدر اور سیکریٹری کے عہدوں پر فائز رہے کا انٹرویو سینئر صحافی شہناز احد نے کیا ہے۔ کراچی پریس کلب میرا دوسرا گھر ہے۔ ایک گھر میں رات کو سوتا اور صبح تیار ہوکر نکل جاتا ہوں۔ اپنے دوسرے گھر میں دن کے سرگرم جیتے جاگتے لمحات گزارا ہوں۔
جب غوری نے بتایا کہ ایک وقت تھا کہ کراچی پریس کلب کے پاس ملازمین کو تنخواہ دینے کے لیے پیسے نہیں ہوتے تھے تو اتنے مشکل وقت میں عبدالحمید چھاپرا آگے آتے تھے۔ چھاپرا کے بزنس کمیونٹی سے ہمیشہ اچھے تعلقات رہے، وہ انھیں لے کر آتے اور عطیہ کا اعلان کروا دیتے تھے۔ بقول غوری جو کام چھاپرا کر گئے وہ کوئی دوسرا نہیں کرسکا۔ جب غوری صاحب نے انکشاف کیا کہ چند سال قبل سب سے بڑے سرچ انجن گوگل کو خط لکھ کر پوچھا تھا کہ دنیا میں کوئی ایسا پریس کلب ہے جہاں سے سیاسی تحریکوں کا آغاز ہوا ہو یا اس کا کردار مرکزی حیثیت کا رہا ہو؟ غوری نے بتایا کہ گوگل نے کافی دن بعد جواب دیا۔ ان کی معلومات کے مطابق کوئی اور کلب نہیں ہے۔ سینئر صحافی مجاہد بریلوی نے ’’پریس کلب میرا گھر‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے کہ ہماری عمرکا وہ پہر تھا جب شباب اور انقلاب برپا ہوتا تھا۔
پیپلز پارٹی کے اخبار روزنامہ مساوات اور پھر ہفت روزہ معیار اور الفتح کی بندش پر تحریک چلی، ریگل چوک پر ہمیں گرفتاری دینی پڑی اور رہائی ملی تو کراچی پریس کلب دوسرا نہیں پہلا گھر بن گیا۔ شادی کا پھندا ابھی لگا نہیں تھا۔ اس وقت ادبی کمیٹی کے تحت حبیب جالب کا پروگرام کرنا تھا تو ضیاء الحق مارشل لاء کے سبب کراچی شہر میں کسی سیاسی سرگرمی کی اجازت نہیں تھی۔ کراچی پریس کلب ہی ایسی جگہ تھی جہاں سارے ملک سے آئے سیاست دان اور ٹریڈ یونین رہنما جمع ہوئے۔ مجھے 1981 کی ایک یادگار تقریب یاد آرہی ہے۔
جی ہاں، PCO کے تحت حلف نا اٹھانے والے ججوں کے گلوں میں ہار ڈالے جا رہے تھے۔ شہناز احد نے کلب کی خواتین اراکین شین فرخ، انیس ہارون ، سلطانہ مہر، مہناز رحمن، نرگس خانم، لالہ رخ، صفیہ رشید وغیرہ کا جذباتی انداز میں ذکرکیا ہے۔ کراچی پریس کلب کے سابق سیکریٹری مظہر عباس نے ’’ قومی جمہوری اثاثہ ‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے کہ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے پوچھا تھا کہ ’’ میں کراچی پریس کلب کے لیے اور صحافیوں کے لیے کیا کرسکتی ہوں؟‘‘ تو ہم سب نے جمہوریت کے لیے اپنے اپنے پلیٹ فارم سے طویل جدوجہد کی ہے۔ فیصل سیانی نے اپنی یادداشتوں کے حوالے سے ان لوگوں کا ذکر کیا ہے جو اس دنیا سے چلے گئے۔
انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ فروری 2017میں شطرنج والے کمرے کے برابر میں ایک بک بینک کی بنیاد رکھی تھی۔ اس وقت کلب میں ہم خیال ترقی پسندوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ اشرف شاد مبارکباد کے مستحق ہیں کہ ان کی نگرانی میں کراچی پریس کلب کی تاریخ مرتب ہوئی۔ امید ہے کہ نئی نسل کے نوجوان اس کتاب سے مستفید ہوں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کراچی پریس کلب کی کراچی پریس کلب کے سینئر صحافی کے بارے میں کے عنوان سے صحافیوں کی شامل ہیں بتایا کہ اس کتاب کے لیے ہیں کہ کیا ہے
پڑھیں: