ایک نایاب جانور کے بارے میں، جو ایک عرصے کے بعد کشمیر کی گریز وادی میں دوبارہ نظر آ رہا ہے۔ یہ جانور ہے یوریشن اوٹر (اود بلا)۔

حال ہی میں یوریشن اوٹرز کو وادی کشمیر میں کشن گنگا دریا کے کنارے پر ٹراؤٹ مچھلی کھاتے ہوئے دیکھا گیا۔ 27 اور 28 جنوری 2025 کو گریز کے رہائشی، واجد منور شاہنگرو نے 3 اوٹرز کو دریا کے کنارے مچھلی کھاتے ہوئے دیکھا۔ انہوں نے اس منظر کی ویڈیو بنائی اور سوشل میڈیا پر پوسٹ کردی۔یہ گزشتہ کئی دہائیوں میں اوٹرز کی پہلی ویڈیو ہے جو اس علاقے میں بنائی گئی۔

اگست 2023 میں شیر کشمیر یونیورسٹی آف ایگری کلچر اینڈ سائنس اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے محققین نے گریز کے علاقے تاربل میں کیمرہ ٹریپس نصب کیے تھے، جہاں 2 یوریشن اوٹرز کی تصاویر ریکارڈ ہوئیں۔

یہ بھی پڑھیےسائنسدانوں نے 27 کے قریب جنگلی اور آبی حیات کی نئی اقسام دریافت کر لیں

اس سے پہلے، ان اوٹرز کو 2001-2002 کے درمیان گریز کے علاقے میں دیکھا گیا تھا۔ 25 سے 30 سال پہلے، یوریشن اوٹرز وادی کشمیر کی لدر اور جہلم وادیوں سے لے کر وولر جھیل تک بکثرت پائے جاتے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تعداد کم ہوتی گئی۔ اب وہ شاذ و نادر ہی نظر آتے ہیں۔

یاد رہے کہ اس جانور کو مقامی طور پر ‘وودر’ یا ‘آب وودر’ کہا جاتا ہے۔ اس جانور کی معدومیت کی سب سے بڑی وجہ مسکن کی تباہی، آلودگی، اور بڑھتی ہوئی انسانی مداخلت تھی۔

گریز کا علاقہ لائن آف کنٹرول کے قریب واقع ہے، جہاں 1990 سے 2021 تک گولہ باری اور فائرنگ کا سلسلہ چلتا رہا، اس سے بھی ماحول اور جنگلی حیات پر بہت بُرا اثر پڑا۔

اود بلا  کی واپسی کیوں ہوئی؟

ماہرین کہتے ہیں کہ گریز میں اوٹرز کا دوبارہ نمودار ہونا اس بات کا اشارہ ہے کہ یہاں کے قدرتی ماحول میں بہتری آئی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آبی ماحولیاتی نظام میں ایک تبدیلی آئی ہے۔

اکتوبر 2020 میں ایک مختصر کیمرہ ٹریپ میں نیرو اسٹریم، جو چناب دریا کی بائیں جانب کی معاون ندی ہے، میں 3 یوریشین اوٹرز کو دیکھا گیا۔ اسی طرح 2015 میں لداخ میں اوٹر کے لیے پہلا منظم سروے کیا گیا۔

یہ سروے لداخ اور کرگل اضلاع میں اُپر انڈس دریا اور اس کی متعدد معاون ندیوں میں کیا گیا۔ یہ سروے 25 اگست سے 30 اکتوبر 2015 تک کیا گیا۔ سروے میں 4  میں سے 2 دریاؤں میں اوٹرز کی موجودگی کا پتہ چلا، لیکن اوٹرز کی تعداد کم تھی۔ اس کمی کی وجہ سے انسانی مداخلت، مویشیوں کا چرنا اور کتوں کی موجودگی بتائی گئی۔

یہ بھی پڑھیےگلگت بلتستان: بلیوشیپ ایوارڈ حاصل کرنے والے افسر کمال الدین جنگلی حیات کا تحفظ کیسے کرتے ہیں؟

یوریشین اوٹر لداخ، جموں و کشمیر، ہماچل پردیش اور اتراکھنڈ کے علاوہ شمال مشرقی ہمالیائی پہاڑی دامن اور وسطی و جنوبی بھارت کے کچھ حصوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ بھارت کے علاوہ یہ  پاکستان، بھوٹان اور نیپال میں بھی  پائے جاتے ہیں۔

یوریشن اوٹر نایاب جانور ہے جس کی وجہ سے عالمی اتحاد برائے تحفظ فطرت (آئی یو سی این) کی ریڈ لسٹ میں جانوروں کے اس درجے میں رکھا گیا ہے جن کو خطرات لاحق ہیں۔ یہ بین الاقوامی تجارت برائے خطرات سے دوچار جنگلی حیات و نباتات کے تحفظ کے کنونشن (سی آئی ٹی ای ایس) میں بھی درج ہے۔

یہ ایک کثیرالملکی معاہدہ ہے جو خطرے سے دوچار جانوروں اور پودوں کی بین الاقوامی تجارت کو باقاعدہ بناتا ہے۔ اس کے تحت خطرے سے دوچار انواع کی بین الاقوامی تجارت پر پابندی عائد کی جاتی ہے یا ان کی تجارت کو محدود کیا جاتا ہے۔

یوریشین اوٹر کی لمبی اور نرم پشم والی کھال، پتلا اور مضبوط جسم، اور پانی میں تیرنے کے لیے موزوں پاؤں ہوتے ہیں۔ اس کا جسم تقریباً 60 سے 90 سینٹی میٹر تک ہوتا ہے اور اس کی دم کی لمبائی 30 سے 40 سینٹی میٹر کے درمیان ہوتی ہے۔

اوٹر کی کھال اس کے جسم کو سردی اور نمی سے بچانے میں مدد دیتی ہے۔ اس کی ساخت اسے پانی کے نیچے تیز رفتاری سے حرکت کرنے کے قابل بناتی ہے۔

 یہ دریاؤں، جھیلوں اور دیگر آبی وسائل میں مچھلیوں، کیڑے مکوڑوں اور دیگر آبی جانداروں کا شکار کرتا ہے۔ ان کا شکار کرنے کا طریقہ انتہائی مہارت کا حامل ہوتا ہے۔ یہ تیراکی میں ماہر ہوتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اود بلا کشمیر یوریشن اوٹرز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اود بلا اوٹرز کی میں اوٹر اود بلا

پڑھیں:

امی، اب میں آپ کو گلے کیسے لگاؤں گا؟ — فلسطینی بچے کی تصویر نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا

غزہ / نیویارک: اسرائیلی بمباری میں اپنے دونوں بازو کھو دینے والے 9 سالہ فلسطینی بچے محمود اجّور کی درد بھری تصویر کو ورلڈ پریس فوٹو آف دی ایئر 2025 کے اعزاز سے نوازا گیا ہے۔

یہ تصویر دی نیویارک ٹائمز کے لیے غزہ کی فوٹو جرنلسٹ سمر ابو الؤف نے کھینچی تھی، جو خود بھی فلسطینی ہیں۔

تصویر میں محمود کو انتہائی زخمی حالت میں دکھایا گیا ہے۔ فوٹوگرافر کے مطابق محمود کی ماں نے بتایا کہ بازو کھونے کے بعد اس نے روتے ہوئے کہا: ’’امی، اب میں آپ کو گلے کیسے لگاؤں گا؟‘‘

مارچ 2024 کے حملے کے بعد محمود کو علاج کے لیے قطر کے دارالحکومت دوحہ منتقل کیا گیا، جہاں اب وہ اپنے پیروں سے لکھنے، کھیلنے، اور زندگی گزارنے کے نئے طریقے سیکھ رہا ہے، تاہم اب بھی روزمرہ کے کئی کاموں کے لیے مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔

ورلڈ پریس فوٹو ایوارڈ کے منتظمین نے کہا کہ یہ تصویر صرف ایک بچے کی کہانی نہیں، بلکہ غزہ میں جاری جنگ اور اس کے بے گناہ متاثرین کی نمائندہ ہے۔ ایگزیکٹو ڈائریکٹر جمانہ الزین خوری نے اس تصویر کو ایک "خاموش لیکن گہری چیخ" قرار دیا۔

ایوارڈ جیوری نے تصویر کی روشنی، جذبات، اور تکنیکی مہارت کی تعریف کی، اور اس پر بھی روشنی ڈالی کہ کیسے غزہ میں صحافیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور عالمی میڈیا کی رسائی محدود کی جا رہی ہے۔

ورلڈ پریس فوٹو کے بیان میں کہا گیا ہے کہ محمود کا خواب سادہ ہے: وہ مصنوعی بازو چاہتا ہے اور ایک عام بچے کی طرح زندگی گزارنا چاہتا ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارے انروا کے مطابق دسمبر 2024 تک دنیا بھر میں سب سے زیادہ بچوں کے اعضا غزہ میں ضائع ہوئے ہیں۔

گزشتہ سال بھی غزہ کی ایک تصویر کو ورلڈ پریس فوٹو آف دی ایئر ایوارڈ دیا گیا تھا، جس میں ایک خاتون اپنی 5 سالہ بھتیجی کی لاش کو گود میں لیے دکھائی گئی تھیں۔

 

متعلقہ مضامین

  • مقبوضہ کشمیر میں امن و ترقی کے بھارتی حکومت کے دعوے جھوٹے ہیں، کانگریس رہنما
  • یاد رکھنا عمران خان دوبارہ وزیراعظم بنیں گے، عمر ایوب کی بیوروکریسی کو دھمکیاں
  • بیوروکریسی یاد رکھے، بانی پی ٹی آئی دوبارہ وزیراعظم بنیں گے، عمر ایوب
  • امی، اب میں آپ کو گلے کیسے لگاؤں گا؟ — فلسطینی بچے کی تصویر نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا
  • اسلام آباد میں دوبارہ شدید ژالہ باری کا امکان، محکمہ موسمیات نے خبردار کردیا
  • اسلام آباد میں شدید ژالہ باری دوبارہ کب ہو سکتی ہے، محکمہ موسمیات نے بتادیا
  • اسلام آباد میں شدید ژالہ باری دوبارہ کب ہو سکتی ہے، محکمہ موسمیات نے بتادیا
  • بھارتی عدالت نے حزب المجاہدین کے سربراہ کو اشتہاری قرار دے دیا
  • پاک فوج کے سربراہ کے بیان سے کشمیریوں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں، حریت کانفرنس
  • یہ دوبارہ نہیں ہوگا، ابراہیم علی خان نے پاکستانی نقاد کو دیئے ردعمل پر غلطی تسلیم کرلی