انقلاب اسلامی ایران کے اثرات اور نتائج(2)
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
اسلام ٹائمز: اسلامی جمہوریہ ایران ہی وہ واحد مملکت اسلامی و انقلابی ہے، جس نے امریکہ کو ترکی بہ ترکی جواب دیا ہے۔ امریکی حملوں کا اوپن جواب دینا اور امریکہ کے عراق و شام میں فوجی اڈوں کو میزائلوں سے نشانہ بنانا اور اسرائیلی اقدامات کے جواب میں تل ابیب و حیفا پر میزائلوں کی بارش ایک ایسا عجوبہ ہے، جو فقط اسلامی جمہوریہ ایران ہی دکھا سکتا ہے، وگرنہ عرب ممالک تو اپنی حفاظت کیلئے امریکیوں پر انحصار کرتے ہیں۔ انقلاب اسلامی ایران دنیا بھر کے مظلوموں کی امید و آسرا ہے، جسکے وجود کی برکات سے مزاحمت و مقاموت زندہ ہے اور انقلاب ان سب کا پشتبان ہے۔ ہمیں افتخار ہے کہ ہم دور خمینی میں تھے اور انکے وجود اقدس کی برکات سے لطف اندوز ہوئے۔ تحریر: ارشاد حسین ناصر
11 فروری کو اسلامی انقلاب کی کامیابی سے ایران اور دنیا میں گہری تبدیلیاں آئیں، اس انقلاب نے دنیا پر جو اثرات مرتب کیے، وہ معمولی نہیں کہے جا سکتے بلکہ ان اثرات نے ایسا گہرا اثر چھوڑا ہے کہ دنیا کی سیاست یکسر تبدیل ہوچکی ہے، اب اسلامی جمہوریہ ایران ایک ایسی اسلامی ریاست ہے، جو مسلمانوں کیساتھ ساتھ باحمیت، باغیرت اور حریت و آزادی پسندوں بالاخص عالمی استعمار و طاغوتی قوتوں کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کا پشتبان و مددگار ہے۔ یہی وہ تبدیلی تھی، جس سے ڈر کر اس انقلاب کی مخالفت کی جاتی ہے۔ ان تبدیلیوں سے ڈرنے والے ہی اس کی مخالفت کر رہے تھے اور آج بھی کر رہے ہیں۔ اس انقلاب کا راستہ روکنے کی کوشش و سازش کرنے والے آج چھیالیس برس گذر جانے کے بعد بھی یہی سوچ رکھتے ہیں کہ انقلاب کا راستہ روکا جائے۔ اسی وجہ سے اس انقلاب کے خلاف یہ سارے ہمسائے عرب بادشاہ یک جان ہوگئے تھے، جو انقلاب کو نابود کرنے کیلئے امریکہ، اسرائیل اور استعمار کی چاکری میں آج بھی لگے ہوئے ہیں، مگر یہ نور خدا جو 11 فروری کو روشن ہوا اس کو پھونکوں سے بجھایا نہ جا سکے گا۔
اس وقت اسرائیل و امریکہ کی نمک خواری میں مشغول ہیں اور اسرائل کو تسلیم کرتے ہوئے امت کیساتھ غداری کرر ہے ہیں۔ اسرائیل عملی طور پر ان بادشاہان وقت پر غلبہ پا چکا ہے اور اپنی جارحیتوں و تجاوز کو بڑھاوا دینے میں مگن ہے، جبکہ عرب بادشاہوں اور مسلم حکمرانوں نے اس کے سامنے سرتسلیم خم کر رکھا ہے۔ اس کو اپنا آقا بنا چکے ہیں، واحد ایران ہی ہے، جو اسرائیل کے منصوبوں کی راہ میں رکاوٹ بنا ہے۔ جسے یہ اپنے نجس وجود کے خاتمے کیلئے خطرناک سمجھتے ہوئے نابود کرنے کی سازشوں پر عمل پیرا ہیں، جبکہ یہ انقلاب، انقلاب اسلامی ہے، یہ نور کا انفجار ہے، نور خدا کو بجھانے والے نابود ہو جائیں گے اور یہ اپنی نورانیت سے مظلوموں، محکوموں، مجبوروں ستم رسیدہ افراد کو منور کرتا رہیگا، جو استعمار، استکبار اور طاغوت کی راہیں مسدود کرتے رہینگے۔ قرآن مجید میں آیا ہے کہ
"یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پوا پھیلا کر رہے گا، خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو" (سورہ صف آیت8)
دوسری طرف نگاہ دوڑائیں تو انقلاب اسلامی اس وقت اپنے اوج و عروج پق دیکھا جا سکتا ہے۔ اس وقت انقلاب کی حمایت، امت جہان اسلامی، امت مظلومین جہاں، استعمار کے سامنے ڈٹ جانے والے گروہ، جماعتیں اور تحاریک، یہ انقلاب جبر و ظلم اور غاصبانہ رویوں کے سامنے ڈٹ جانے والوں کے قلوب، ظلم کا مقابلہ کرنے والوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور غاصبین کے خلاف علم جہاد بلند کرنے والے عظیم مجاہدین، چاہے ان کا تعلق فلسطین سے ہو یا لبنان سے، یمن سے ہو یا حجاز سے، افغانستان سے ہو یا عراق سے، شام سے ہو یا آذربائیجان سے، ان کا نام حسینیون ہو یا زینبیون، یہ فاطمیون کی شکل میں ہوں یا حیدریون کے نام سے، یہ حماس کی شکل میں مزاحمت دکھا رہے ہوں یا جہاد اسلامی کے نام سے وارد میدان جہاد ہوں۔ یہ حزب اللہ کے پرچم تلے ہوں یا انصار اللہ کے لواء اٹھا کر میدان میں وارد ہوں۔ یہ حشد الشعبی کے عنوان سے میدان سجاتے ہوں یا پاکستان کے انقلابی طلباء تنظیم امامیہ اسٹوڈنٹس کا حی علیٰ خیر العمل، کے شعار کو بلند کرتے ہوں۔
امام خمینی کی انقلابی فکر اور حریت کا درس لے کر دنیا بھر میں انقلاب کے ساتھ متمسک دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان کے زندہ ہونے کی سب سے بڑی مثال حالیہ لبنان و غزہ کی اسرائیل کیساتھ جنگ ہے، جس میں انقلاب اسلامی کے فرزندان نے ظالمین کے خلاف برسر پیکار مجاہدین کی پشتبانی کا حق ادا کیا ہے، جس پر جنگ بندی کے بعد بھرپور تشکر کا اظہار کیا گیا ہے، جبکہ خائن حکمرانوں نے امریکہ اسرائیل کیساتھ دیتے ہوئے اسرائیل کو ایک اور اسلامی تاریخی ملک شام تھالی میں رکھ کر پیش کر دیا ہے۔ منافق و خائنین امت کی خیانت و غداری کے نتیجہ میں اسرائیل ایک بار پھر گریٹر اسرائیل کے نقشے جاری کر رہا ہے اور اسلامی زمینوں کو ہڑپ کرر ہا ہے۔ ایران نے اپنی بے بہا قیمتی قربانیاں دے کر شام و عراق میں اسرائیلی و امریکہ مفادات کو زک پہنچائی اور ان کے راستے کی دیوار بن کر انہیں تجاوز کے بجائے پیچھے دھکیلا، جو ایران کے شام سے انخلا کے بعد مزید اسلامی زمینوں پر قابض ہوچکا ہے۔ ترکیہ، قطر، سعودیہ جیسے منافق و غدار کردار ان مجرمانہ اقدامات پر اس کا ساتھ دے رہے ہیں۔
آج انقلاب اسلامی ایران اس قدر قوی ہے کہ اس سے قبل اس کی نظیر نہیں ملتی۔ میزائل ٹیکنالوجی سے لیکر جدید ترین ڈرونز کی پیداوار اور سائبر فورسز کے ساتھ ساتھ جرات مند قیادت و رہبری کی وجہ سے دنیا اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ پنگا لیتے گھبراتی ہے۔ لہذا امریکہ و اسرائیل حملہ کرنے کی باتیں تو کرتے رہتے ہیں، مگر جواب کے ڈر سے ایسا کرنا حماقت کی بدترین مثال ہوسکتی ہے۔ اسی کے عشرے کے اوائل میں جب ایران پر اپنے پٹھو صدام کے ذریعے حملہ کروایا گیا تو ایران کے ساتھ کسی بھی قسم کی ٹیکنالوجی یا اسلحہ نہیں تھا۔ اس کے باوجود آٹھ برس تک مسلسل جنگ لڑی اور اپنی زمینوں کا دفاع کیا، جبکہ آج تو ایران جدید ترین فوج و اسلحہ رکھنے والے ممالک میں شامل ہوچکا ہے۔ آج ایران کو دھمکانا اور ان دھمکیوں پر عمل درآمد کرنا بہت مشکل ہوچکا ہے۔ اس لیے کہ حالیہ غزہ اسرائیل جنگ میں ایران ہی تھا، جس نے حماس و دیگر جہادی گروہوں کی بھرپور کھلی مدد کی ہے۔
ایران کی مدد کیساتھ ساتھ لبنانی تنظیم حزب اللہ، یمنی تنظیم انصاراللہ اور عراقی مزاحمتی گروہ حشد الشعبی کے کارنامے بھی ایران کی طرف سے سمجھے جاتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران ہی وہ واحد مملکت اسلامی و انقلابی ہے، جس نے امریکہ کو ترکی بہ ترکی جواب دیا ہے۔ امریکی حملوں کا اوپن جواب دینا اور امریکہ کے عراق و شام میں فوجی اڈوں کو میزائلوں سے نشانہ بنانا اور اسرائیلی اقدامات کے جواب میں تل ابیب و حیفا پر میزائلوں کی بارش ایک ایسا عجوبہ ہے، جو فقط اسلامی جمہوریہ ایران ہی دکھا سکتا ہے، وگرنہ عرب ممالک تو اپنی حفاظت کیلئے امریکیوں پر انحصار کرتے ہیں۔ انقلاب اسلامی ایران دنیا بھر کے مظلوموں کی امید و آسرا ہے، جس کے وجود کی برکات سے مزاحمت و مقاموت زندہ ہے اور انقلاب ان سب کا پشتبان ہے۔ ہمیں افتخار ہے کہ ہم دور خمینی میں تھے اور ان کے وجود اقدس کی برکات سے لطف اندوز ہوئے۔ ہم ان کے اخلاص، ان کے تقویٰ، ان کی للھیت، ان کی قربانیوں کی گواہی اس دنیا میں بھی دیں گے اور اگلی دنیا میں یہ گواہی دیتے ہوئے چاہیں گے کہ ہمیں وہاں بھی ان کا قرب نصیب ہو، ہم ان کے نور مجسم سے مستفید ہوں۔
انقلاب اسلامی کے بانی امام خمینی (رح) نے اس دن کو ایام اللہ سے تعبیر کیا، اہل ایران کو یہ دن مبارک ہو، آج اس اسلامی انقلاب کو چھیالیس سال ہوگئے۔ اسلام ناب کا پرچم سربلند ہے اور سربلند رہیگا۔ اس کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے دیکھنے والوں کو اس انقلاب کی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیئے کہ اس کی بنیادوں میں کیسے کیسے پاکیزہ نفوس کا پاک خون شامل ہے۔ اس کو نابود کرنے کے خواب دیکھنے والے بہت سے نابود ہوچکے، ان کی ہڈیاں بھی نہیں ملتیں، مگر یہ انقلاب اپنی تابندگی اور درخوشبو کیساتھ دنیا کے مظلوموں، محروموں، مجبوروں، کمزوروں کی نصرت و یاوری کرتے ہوئے دنیا سے ظلم کے خاتمہ کی عالمی جدوجہد کا علم اٹھائے انقلاب مہدویت کی راہیں ہموار کرتا رہیگا، تاوقیکہ فرزند زہراء، بقیۃ اللہ اعظم (عج) کو اذن ظہور نہیں مل جاتا اور وہ کمزور بنا دیئے گئے انسانوں کو حکومت دلوانے کیلئے ظاہر نہیں ہو جاتے۔ آخر میں اسلامی انقلاب کیساتھ تمسک و متصل رہنے والے مزاحمتی و انقلابی شہداء کو سلام پیش ہے، بالاخص سلام بر شہدائے انقلاب اسلامی، سلام بر شہدائے دفاع مقدس، سلام بر شہدائے مکہ، سلام بر مدافعین حرمین، سلام بر جبھہ مقاومت، عراق، شام، یمن، لبنان، پاکستان و افغانستان، نائیجیریا، حجاز المقدس،
سلام بر شہید حاج سلیمانی، سلام بر سید مقاومت سید حسن نصر اللہ، سلام بر اسماعیل ہنیہ و یحییٰ سنوار۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انقلاب اسلامی ایران کی برکات سے اس انقلاب انقلاب کی ایران کے کے وجود کے ساتھ کے خلاف اور ان ہے اور
پڑھیں:
فلسطینیوں کیساتھ کھڑے، فضل الرحمن: اسلامی حکومتوں پر جہاد فرض ہو چکا، مفتی تقی عثمانی
اسلام آباد ( نوائے وقت رپورٹ) مفتی اعظم پاکستان مفتی تقی عثمانی نے اسرائیل اور اس کے حامیوں کا مکمل بائیکاٹ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام اسلامی حکومتوں پر جہاد فرض ہوچکا ہے اور مسلم ممالک کی فوجیں اور اسلحہ کس کام کے اگر وہ مسلمانوں کو اس ظلم وستم سے نجات نہیں دلاسکتے۔اسلام آباد میں قومی فلسطین کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مفتی تقی عثمانی کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ اسرائیل اور امریکا کے ہاتھ کھلونا بن چکی ہے۔جنگ بندی معاہدے کے باوجود غزہ پر بمباری ہورہی ہے ۔ امت مسلمہ قبلہ اوّل کی حفاظت کے لیے لڑنے والے مجاہدین کی کوئی مدد نہیں کرسکی۔ آج امت مسلمہ قراردادوں اور کانفرنسوں پر لگی ہوئی ہے، ہونا تو یہ چاہیے کہ امت مسلمہ جہاد کا اعلان کرتی۔ ہم نے تمام اسلامی حکومتوں سے کھل کر فتویٰ کے ذریعے کہا ہے کہ آپ پر جہاد فرض ہوچکا ہے۔ زبانی جمع خرچ سے مسلمان حکمران اپنے فرض سے پہلو تہی نہیں کرسکتے۔ مسلم ممالک کی فوجیں کس کام کی ہیں اگر وہ جہاد نہیں کرتیں؟۔معروف عالم دین نے سوال کیا ’ 55 ہزار سے زائد کلمہ گو کو ذبح ہوتے دیکھ کر بھی کیا جہاد فرض نہیں ہوگا’ ، اہل فلسطین کی عملی، جانی اور مالی مدد امت مسلمہ پر فرض ہے۔ جہاد کرنا آپ سب کا فریضہ ہے جب کہ آج کا اجتماع حکمرانوں کو پیغام دے رہا ہے کہ اپنی ذمہ داری ادا کریں۔ اسرائیل اور اس کے حامیوں کا مکمل بائیکاٹ کریں۔مولانا فضل الرحمٰن نے اسلام آباد میں قومی فلسطین کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ ضروری ہے مسلمان اہل غزہ اور فلسطین کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کریں اور دنیا کو یہ پیغام دیں کہ پاکستان کا مسلمان ہویا عالم اسلام کا کوئی فرد، آج وہ اپنے فلسطینی بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جس طرح مفتی تقی عثمانی صاحب اور ان سے قبل مفتی منیب الرحمٰن نے ارشاد فرمایا اور اجلاس کا جو اعلامیہ پیش کیا جس میں صراحت کے ساتھ فلسطینیوں کے شانہ بشانہ میدان جنگ میں شامل ہونے کا فتویٰ جاری کیا، یہ صرف پاکستان کے مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ عالم اسلام کے لیے ہے۔ ہمارے ملک کی حکومت عجیب ہے جو پھٹی ہوئی قمیض کی طرح ہے۔ پی ڈی ایم حکومت کررہی ہے اور صدر اپوزیشن میں ہے، مسلم امہ کے نام پر وجود میں آنے والی ریاست پوری دنیا کے مسلمانوں کی جنگ لڑنے کی ذمہ دار ہے۔ اگر پاکستان آج فلسطین کی جنگ نہیں لڑتا ہے وہ قیام پاکستان کے مقصد کی نفی کررہا ہے۔ اسرائیل ایک ریاستی دہشت گرد ہے۔مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ فلسطینیوں نے خود یہ جگہ اسرائیلیوں کو دی وہ اپنا ریکارڈ درست کرلیں، 1917ء میں جب اسرائیلی ریاست کی تجویز اور قرارداد پیش کی جارہی تھی اس وقت پورے فلسطین کی سرزمین پر صرف 2 فیصد یہودی آباد تھا، 98 فیصد علاقے پر مسلمان آباد تھا اور 1948ء میں اسرائیل کی ریاست کا باقاعدہ اعلان کیا تو 1947ء کے اعداودوشمار دیکھیں تو وہاں بھی 94 فیصد علاقہ فلسطینیوں کا تھا۔کانفرنس اعلامیہ میں کہا گیا کہ قومی فلسطین کانفرنس نے آئندہ جمعہ یوم مظلوم و محصورین فلسطین کے طور پر منانے کا اعلان کر دیا۔ قومی فلسطین کانفرنس کا متفقہ اعلامیہ جاری کر دیا گیا، جس میں کہا گیا کہ ماضی قریب میں غزہ جیسے ظلم کی مثال نہیں ملتی، صہیونی مظالم میں اب تک 55 ہزار شہید فلسطینی شہید، 2 لاکھ زخمی ہوئے۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ غزہ میں شہری نظام، ہسپتال اور سکول سمیت رفاحی ادارے تباہ ہو چکے ہیں، یہ محض غزہ جنگ نہیں بلکہ فلسطینیوں کی کھلی نسل کشی ہے۔ اعلامیے کے مطابق اقوام متحدہ سلامتی کونسل غیر مؤثر ہو چکا جب کہ غزہ سے متعلق قراردادوں کو امریکا غیر مشروط ویٹو کر رہا ہے۔ عالمی عدالت انصاف سمیت تمام ادارے مفلوج و بے بس ہو چکے ہیں۔ شرعاً الاقرب فی الاقرب کے اصول کے تحت تمام مسلمانوں پر جہاد واجب ہو چکا ہے۔ فلسطین کانفرنس سے خطاب میں حماس رہنما ڈاکٹر ناجی ظہیر نے کہا کہ فلسطینیوں کی پاکستان سے بہت امید ہے اور اسرائیل کو پاکستان سے ہی خوف ہے ورنہ وہ تو گریٹر اسرائیل کے منصوبوں کی تکمیل چاہتا ہے فلسطین کانفرنس کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی و اس کے حمایتی ممالک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے جہاں جہاں جس جس کی جتنی بساط ہے اس مسلمان کو جہاد میں ہر طرح سے جہاد میں حصہ لے۔