Nai Baat:
2025-02-11@00:47:23 GMT

سیاں جی کے نام چٹھی!

اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT

سیاں جی کے نام چٹھی!

قارئین کرام! اس ہفتے میرا کالم لکھنے کا ارادہ لاہور میں مرغے مرغی کی دھوم دھام سے ہونے والی شادی کے حوالے سے تھا کیونکہ اپنی دلچسپی اور اہمیت کے اعتبار سے یہ خبر ہمارے ہاں کسی بھی سیاسی و غیر سیاسی ’’بریکنگ نیوز‘‘ سے کم نہیں ہے۔ اس سلسلے میں قومی اخبارات اور ٹی وی چینلز کے بڑے بڑے کالم نگاروں اور سیاسی ٹاک شوز کے جغادری اینکروں کی طرح میرے ذہن میں بھی کئی ایک اہم سوال یا نکات تھے جن پر میں بات کرنا چاہ رہا تھا۔ مثلاً یہ سوال کہ مرغی مرغے کی یہ شادی ارینج میرج تھی یا دونوں نے اپنے اپنے خاندان سے بغاوت کر کے لو میرج کی تھی۔ اگر مرغے اور مرغی میں پہلے سے باہمی انڈر سٹینڈنگ تھی تو یہ کتنی پرانی تھی اور پھر محبت کے اظہار میں دونوں میں پہل کس نے، کیوں اور کیسے کی۔ دونوں کی شادی میں ذات برادری، شکل و صورت یا سٹیٹس کی آڑ لے کر ظالم سماج نے کس قدر روڑے اٹکائے۔ شادی کے روز اپنی ڈریسنگ اور فیشل وغیرہ کے حوالے سے مرغے دولہا نے کس قسم کی تیاری تھی اور مرغی دلہن کس بیوٹی پارلر سے تیار ہو کر آئی تھی۔ مرغی کا برائیڈل ڈریس اور اُس کا بنائو سنگھار کیسا تھا بالخصوص دلہن نے کس رنگ کی نیل پالش اور لپ سٹک کا انتخاب کیا تھا۔ بارات بینڈ باجے کے ساتھ کیسے ’’کج وج‘‘ کر آئی تھی اور کیا بارات میں دولہا اور دلہن کی طرف سے صرف اس کے ہم جنس رشتے دار اور دوست احباب ہی شامل تھے یا کوئی ’’بندہ بشر‘‘ بھی تھا۔ میٹھے اور نمکین میں مہمانوں کی خاطر تواضع کے لیے باجرے کے علاوہ اور کس قسم کی اور کتنی ڈشیں تھیں۔ مہمانوں کو کولڈ ڈرنکس ’’سٹرا‘‘ کے ساتھ پیش کی گئی یا کسی کھلے منہ والے برتن میں ڈال کر ’’سروو‘‘ کیا گیا۔ جوتا چھپائی کی رسم پر مرغے کی سالیوں نے اپنے جیجا جی سے کتنا نیگ لیا۔ نکاح کے وقت حق مہر کتنا لکھا گیا اور دولہے کو دئیے گئے جہیز کی تفصیل کیا تھی۔ اس کے علاوہ بھی اس خبرکے حوالے سے میرے دل و دماغ میںاہم نوعیت کے کچھ اور سوال تھے مگر چونکہ یہ ایک ’’سدا سہاگن‘‘ خبر ہے جس پر میرے خیال میں بعد میں جب بھی لکھ دیا جائے اس کی تازگی کم نہیں ہو گی۔ بس یہی سوچ کر میں نے فی الحال اس ’’چوندی چوندی‘‘ خبر کو اگلے کچھ عرصے کے لیے موخر کر دیا ہے۔ باقی رہا اس حوالے سے فوری ’’باعثِ تاخیر‘‘ کا سوال تو اس سلسلے میں وضاحت کر دوں کہ اس کا سبب دراصل اپنے خان صاحب کا ترلوں منتوں بھرا وہ خط ہے جو انہوں نے اپنے اور ہمارے آرمی چیف جنرل عاصم منیر صاحب کو منانے کے لیے لکھا ہے۔ ممکن ہے آپ میرے اس خیال سے اختلاف کریں لیکن میری رائے میں مرغے مرغی کی شادی کے مقابلے میں ہمدردانہ بنیاد پر یہ موضوع نسبتاً پہلے توجہ کا طالب ہے۔ آثار بتاتے ہیں کہ خان صاحب یہ ناراضی دور کرنے کے لیے کسی نہ کسی طرح روٹھے سیاں سے ’’پوری ملاقات‘‘ کے خواہاں ہیں مگر اُن کی طرف سے ’’بڑی سی ناں‘‘ یعنی انکار کے بعد کے بعد انہوں نے چار و ناچار معافی تلافی کے لیے ’’آدھی ملاقات‘‘ کا سہارا لیا ہے۔ اس قسم کے ترلے منتوں اور چوری چھپے لکھے جانے والے خطوں کا آغاز عام طور پر محبوب سے دعا سلام کے بعد کچھ اس قسم کی دُکھی سی شاعری سے ہوتا ہے ’’مجھ کو غمِ حالات کی تصویر سمجھنا / اس خط کو میری آخری تحریر سمجھنا‘‘۔ معافی کے علاوہ جس کا دوسرا مقصد محبوب سے اسے عام نہ کرنے کی درخواست بھی ہوتا ہے۔ مگر شومئی قسمت جیل کی تنہائیوں میں بیٹھ کر لکھے گئے خان صاحب کے اس ذاتی خط کی خبر نجانے کیسے زمانے کو ہو گئی۔ جس کے بعد سے خان صاحب کی اس ’’حرکت‘‘ کے اخبارات اور الیکٹرانک و سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ گلی محلوں میں بھی چرچے ہیں۔ گویا جتنے منہ اتنی باتیں اور اب حالات یہ ہیں کہ ’’کس کس کا منہ بند کریں جب عشق کے چرچے عام ہوئے‘‘۔ آجکل ہاتھ سے لکھے ہوئے ایک سستی قسم کے ایک ’’لو لیٹر‘‘ کا عکس بھی سوشل میڈیا پر خاصا وائرل ہے جسے خان صاحب سے منسوب کیا جا رہا ہے۔ اس خط کا مضمون پڑھ کر یہ اندازہ لگانا واقعی مشکل ہے کہ یہ خط خان صاحب کا لکھا ہوا ہے یا نہیں۔ اس خط کا مضمون کچھ یوں ہے ’’ڈئیر عاصم منیر اسلام علیکم! آپ مجھ سے بات کیوں نہیں کرتے۔ میں آپ کو بہت پسند کرتا ہوں۔ آپ plese مجھ سے بات کریں۔ آپ پینٹ شلٹ میں بہت اچھے لگتے ہو۔ I Miss You میں صرف آپ سے پیار کرتا ہوں۔ ڈبے میں ڈبہ ڈبے میں Cake / میرا عاصم لاکھوں میں ایک۔ Immi محبت From your‘‘ خط کے آخر میں ہاتھ سے بنی دل کی تصویر ہے جس میں ایک تیر پیوست ہے جس پر A لکھا ہے جس سے مراد یقینا عاصم ہے۔ بہر حال اس خط کی حقیقت جو بھی ہے خان صاحب کے مخالفین اب طرح طرح کی باتیں بنا رہے ہیں۔ خط کا اصل مضمون کیا ہے غالباً اس حوالے سے ابھی تک کسی کو کچھ معلوم نہیں ہے۔ زیادہ تر لوگ اٹکل پَچو سے کام لے کر قیاس آرائیاں کر رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے خان صاحب نے جنرل صاحب کے نام خط نہیں دراصل اپنے گذشتہ گناہوں کی معافی مانگ کر جیل سے رہائی اور اپنے دکھوں کے مداوے کے لیے ’’چھیتی بوہڑیں وے طبیبا نئیں تے میں مر گئیاں‘‘ قسم کی درد بھری درخواست لکھی ہے۔ جبکہ کچھ لوگ جنرل صاحب کے نام لکھے گئے اس خط کو ’’مولا خوش رکھے‘‘ والے سٹائل کا ایسا ’’لو لیٹر‘‘ قرار دے رہے ہیں جو عام طور پر ایک چچڑ یا لفنٹر قسم کا عاشق اپنی محبوبہ کی توجہ یا معافی حاصل کرنے کے لیے کسی ’’وَٹے‘‘ کے گرد لپیٹ کر اس کی چھت پر یا اس کے صحن میں پھینکتا ہے۔ اب یہ اس چچڑ عاشق کی قسمت پر منحصر ہے کہ اس کا لکھا ہوا یہ کھلا محبت نامہ یا کھلم کھلا محبت نامہ محبوبہ یا اس کے ابا اماں میں سے پہلے کس کے ہاتھ لگتا ہے۔ خط لکھنے والے عاشق کی ’’وَدھی‘‘ ہو تو خط محبوبہ تک اور اگر اس کی شامت آئی ہو تو خط محبوبہ کے ابا اماں یا محبوبہ کے بھائیوں میں سے کسی کے ہاتھ لگ جاتا ہے۔ دوسری صورت خاصی خطرناک ہوتی ہے جس میں محبوبہ کے غیرت مند وارث خط لکھنے والے عاشقِ نامراد کا پتا چلا کر گلی محلے کے معززین کی موجودگی میں پہلے اس کی اچھی خاصی چھترول کرتے ہیں اور اس کے بعد اسے نشانِ عبرت بنانے کے لیے اُس کا منہ کالا کر کے اُسترے سے اس کی ٹِنڈ کر دیتے ہیں۔ اس عاشقی معشوقی میں البتہ بعض اوقات ایک تیسری صورت بھی پیدا ہو جاتی ہے جس میں خط محبوبہ کے گھر یا صحن میں گرنے کے بجائے نشانہ خطا ہونے کی وجہ سے گلی میں گر جاتا ہے جسے بعد میں کوئی شریف آدمی اُٹھا کر کوڑے کے ڈھیر میں پھینک دیتا ہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: محبوبہ کے حوالے سے صاحب کے کے بعد کے لیے قسم کی

پڑھیں:

محبوبہ مفتی کو انکی بیٹی التجا مفتی کیساتھ گھر میں نظربند کردیا گیا

التجا مفتی نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر میں انتخابات کے بعد بھی کچھ نہیں بدلا، اب تو متاثرین کے اہل خانہ کو تسلی دینے کو بھی جرم قرار دیا جا رہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر کی سابق وزیراعلٰی اور پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی نے اپنی بیٹی التجا مفتی کے ساتھ انہیں گھر میں نظربند کر دیا گیا ہے۔ التجا مفتی نے دعویٰ کیا کہ حکام نے انہیں باہر جانے سے روکنے کے لئے ان کی رہائش گاہ کے دروازے بند کر دئے ہیں۔ گیٹ کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میری ماں اور مجھے دونوں کو گھر میں نظربند کر دیا گیا ہے، ہمارے دروازے بند کر دئے گئے ہیں کیونکہ وہ سوپور جانے والی تھیں جہاں وسیم میر کو فوج نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ انہوں نے کہا "میں نے آج مکھن دین کے خاندان سے ملنے کے لئے کٹھوعہ جانے کا ارادہ کیا تھا اور مجھے باہر جانے کی اجازت بھی نہیں دی جا رہی ہے"۔

التجا مفتی نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہا کہ کشمیر میں انتخابات کے بعد بھی کچھ نہیں بدلا، اب تو متاثرین کے اہل خانہ کو تسلی دینے کو بھی جرم قرار دیا جا رہا ہے۔ پولیس نے پی ڈی پی کے لیڈروں کی گھر نظربندی کے بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔ یہ تازہ پیش رفت جموں و کشمیر میں دو شہریوں کی موت کے بعد سامنے آئی ہے۔ اس واقعے پر سیاستدانوں نے بڑے پیمانے پر غم و غصے کا اظہار کیا۔ بارہمولہ ضلع کے سوپور میں ایک شہری ٹرک ڈرائیور وسیم میر کو جمعرات کو فوج نے ایک چوکی پر روکنے میں ناکامی کے بعد گولی مار دی۔ اسی طرح جموں کے کٹھوعہ ضلع میں مبینہ طور پر پولیس میں تشدد کے بعد ایک اور شہری مکھن دین مشتبہ حالات میں مردہ پایا گیا۔

متعلقہ مضامین

  • شہبازشریف صاحب! سینما انڈسٹری پر بھی توجہ دیں
  • التجا مفتی کو حراست میں لیا گیا ہے، محبوبہ مفتی
  • سری نگر: محبوبہ مفتی اور ان کی بیٹی التجا مفتی گھر میں نظر بند
  • محبوبہ مفتی کو انکی بیٹی التجا مفتی کیساتھ گھر میں نظربند کردیا گیا