قارئین کرام! اس ہفتے میرا کالم لکھنے کا ارادہ لاہور میں مرغے مرغی کی دھوم دھام سے ہونے والی شادی کے حوالے سے تھا کیونکہ اپنی دلچسپی اور اہمیت کے اعتبار سے یہ خبر ہمارے ہاں کسی بھی سیاسی و غیر سیاسی ’’بریکنگ نیوز‘‘ سے کم نہیں ہے۔ اس سلسلے میں قومی اخبارات اور ٹی وی چینلز کے بڑے بڑے کالم نگاروں اور سیاسی ٹاک شوز کے جغادری اینکروں کی طرح میرے ذہن میں بھی کئی ایک اہم سوال یا نکات تھے جن پر میں بات کرنا چاہ رہا تھا۔ مثلاً یہ سوال کہ مرغی مرغے کی یہ شادی ارینج میرج تھی یا دونوں نے اپنے اپنے خاندان سے بغاوت کر کے لو میرج کی تھی۔ اگر مرغے اور مرغی میں پہلے سے باہمی انڈر سٹینڈنگ تھی تو یہ کتنی پرانی تھی اور پھر محبت کے اظہار میں دونوں میں پہل کس نے، کیوں اور کیسے کی۔ دونوں کی شادی میں ذات برادری، شکل و صورت یا سٹیٹس کی آڑ لے کر ظالم سماج نے کس قدر روڑے اٹکائے۔ شادی کے روز اپنی ڈریسنگ اور فیشل وغیرہ کے حوالے سے مرغے دولہا نے کس قسم کی تیاری تھی اور مرغی دلہن کس بیوٹی پارلر سے تیار ہو کر آئی تھی۔ مرغی کا برائیڈل ڈریس اور اُس کا بنائو سنگھار کیسا تھا بالخصوص دلہن نے کس رنگ کی نیل پالش اور لپ سٹک کا انتخاب کیا تھا۔ بارات بینڈ باجے کے ساتھ کیسے ’’کج وج‘‘ کر آئی تھی اور کیا بارات میں دولہا اور دلہن کی طرف سے صرف اس کے ہم جنس رشتے دار اور دوست احباب ہی شامل تھے یا کوئی ’’بندہ بشر‘‘ بھی تھا۔ میٹھے اور نمکین میں مہمانوں کی خاطر تواضع کے لیے باجرے کے علاوہ اور کس قسم کی اور کتنی ڈشیں تھیں۔ مہمانوں کو کولڈ ڈرنکس ’’سٹرا‘‘ کے ساتھ پیش کی گئی یا کسی کھلے منہ والے برتن میں ڈال کر ’’سروو‘‘ کیا گیا۔ جوتا چھپائی کی رسم پر مرغے کی سالیوں نے اپنے جیجا جی سے کتنا نیگ لیا۔ نکاح کے وقت حق مہر کتنا لکھا گیا اور دولہے کو دئیے گئے جہیز کی تفصیل کیا تھی۔ اس کے علاوہ بھی اس خبرکے حوالے سے میرے دل و دماغ میںاہم نوعیت کے کچھ اور سوال تھے مگر چونکہ یہ ایک ’’سدا سہاگن‘‘ خبر ہے جس پر میرے خیال میں بعد میں جب بھی لکھ دیا جائے اس کی تازگی کم نہیں ہو گی۔ بس یہی سوچ کر میں نے فی الحال اس ’’چوندی چوندی‘‘ خبر کو اگلے کچھ عرصے کے لیے موخر کر دیا ہے۔ باقی رہا اس حوالے سے فوری ’’باعثِ تاخیر‘‘ کا سوال تو اس سلسلے میں وضاحت کر دوں کہ اس کا سبب دراصل اپنے خان صاحب کا ترلوں منتوں بھرا وہ خط ہے جو انہوں نے اپنے اور ہمارے آرمی چیف جنرل عاصم منیر صاحب کو منانے کے لیے لکھا ہے۔ ممکن ہے آپ میرے اس خیال سے اختلاف کریں لیکن میری رائے میں مرغے مرغی کی شادی کے مقابلے میں ہمدردانہ بنیاد پر یہ موضوع نسبتاً پہلے توجہ کا طالب ہے۔ آثار بتاتے ہیں کہ خان صاحب یہ ناراضی دور کرنے کے لیے کسی نہ کسی طرح روٹھے سیاں سے ’’پوری ملاقات‘‘ کے خواہاں ہیں مگر اُن کی طرف سے ’’بڑی سی ناں‘‘ یعنی انکار کے بعد کے بعد انہوں نے چار و ناچار معافی تلافی کے لیے ’’آدھی ملاقات‘‘ کا سہارا لیا ہے۔ اس قسم کے ترلے منتوں اور چوری چھپے لکھے جانے والے خطوں کا آغاز عام طور پر محبوب سے دعا سلام کے بعد کچھ اس قسم کی دُکھی سی شاعری سے ہوتا ہے ’’مجھ کو غمِ حالات کی تصویر سمجھنا / اس خط کو میری آخری تحریر سمجھنا‘‘۔ معافی کے علاوہ جس کا دوسرا مقصد محبوب سے اسے عام نہ کرنے کی درخواست بھی ہوتا ہے۔ مگر شومئی قسمت جیل کی تنہائیوں میں بیٹھ کر لکھے گئے خان صاحب کے اس ذاتی خط کی خبر نجانے کیسے زمانے کو ہو گئی۔ جس کے بعد سے خان صاحب کی اس ’’حرکت‘‘ کے اخبارات اور الیکٹرانک و سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ گلی محلوں میں بھی چرچے ہیں۔ گویا جتنے منہ اتنی باتیں اور اب حالات یہ ہیں کہ ’’کس کس کا منہ بند کریں جب عشق کے چرچے عام ہوئے‘‘۔ آجکل ہاتھ سے لکھے ہوئے ایک سستی قسم کے ایک ’’لو لیٹر‘‘ کا عکس بھی سوشل میڈیا پر خاصا وائرل ہے جسے خان صاحب سے منسوب کیا جا رہا ہے۔ اس خط کا مضمون پڑھ کر یہ اندازہ لگانا واقعی مشکل ہے کہ یہ خط خان صاحب کا لکھا ہوا ہے یا نہیں۔ اس خط کا مضمون کچھ یوں ہے ’’ڈئیر عاصم منیر اسلام علیکم! آپ مجھ سے بات کیوں نہیں کرتے۔ میں آپ کو بہت پسند کرتا ہوں۔ آپ plese مجھ سے بات کریں۔ آپ پینٹ شلٹ میں بہت اچھے لگتے ہو۔ I Miss You میں صرف آپ سے پیار کرتا ہوں۔ ڈبے میں ڈبہ ڈبے میں Cake / میرا عاصم لاکھوں میں ایک۔ Immi محبت From your‘‘ خط کے آخر میں ہاتھ سے بنی دل کی تصویر ہے جس میں ایک تیر پیوست ہے جس پر A لکھا ہے جس سے مراد یقینا عاصم ہے۔ بہر حال اس خط کی حقیقت جو بھی ہے خان صاحب کے مخالفین اب طرح طرح کی باتیں بنا رہے ہیں۔ خط کا اصل مضمون کیا ہے غالباً اس حوالے سے ابھی تک کسی کو کچھ معلوم نہیں ہے۔ زیادہ تر لوگ اٹکل پَچو سے کام لے کر قیاس آرائیاں کر رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے خان صاحب نے جنرل صاحب کے نام خط نہیں دراصل اپنے گذشتہ گناہوں کی معافی مانگ کر جیل سے رہائی اور اپنے دکھوں کے مداوے کے لیے ’’چھیتی بوہڑیں وے طبیبا نئیں تے میں مر گئیاں‘‘ قسم کی درد بھری درخواست لکھی ہے۔ جبکہ کچھ لوگ جنرل صاحب کے نام لکھے گئے اس خط کو ’’مولا خوش رکھے‘‘ والے سٹائل کا ایسا ’’لو لیٹر‘‘ قرار دے رہے ہیں جو عام طور پر ایک چچڑ یا لفنٹر قسم کا عاشق اپنی محبوبہ کی توجہ یا معافی حاصل کرنے کے لیے کسی ’’وَٹے‘‘ کے گرد لپیٹ کر اس کی چھت پر یا اس کے صحن میں پھینکتا ہے۔ اب یہ اس چچڑ عاشق کی قسمت پر منحصر ہے کہ اس کا لکھا ہوا یہ کھلا محبت نامہ یا کھلم کھلا محبت نامہ محبوبہ یا اس کے ابا اماں میں سے پہلے کس کے ہاتھ لگتا ہے۔ خط لکھنے والے عاشق کی ’’وَدھی‘‘ ہو تو خط محبوبہ تک اور اگر اس کی شامت آئی ہو تو خط محبوبہ کے ابا اماں یا محبوبہ کے بھائیوں میں سے کسی کے ہاتھ لگ جاتا ہے۔ دوسری صورت خاصی خطرناک ہوتی ہے جس میں محبوبہ کے غیرت مند وارث خط لکھنے والے عاشقِ نامراد کا پتا چلا کر گلی محلے کے معززین کی موجودگی میں پہلے اس کی اچھی خاصی چھترول کرتے ہیں اور اس کے بعد اسے نشانِ عبرت بنانے کے لیے اُس کا منہ کالا کر کے اُسترے سے اس کی ٹِنڈ کر دیتے ہیں۔ اس عاشقی معشوقی میں البتہ بعض اوقات ایک تیسری صورت بھی پیدا ہو جاتی ہے جس میں خط محبوبہ کے گھر یا صحن میں گرنے کے بجائے نشانہ خطا ہونے کی وجہ سے گلی میں گر جاتا ہے جسے بعد میں کوئی شریف آدمی اُٹھا کر کوڑے کے ڈھیر میں پھینک دیتا ہے۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: محبوبہ کے حوالے سے صاحب کے کے بعد کے لیے قسم کی
پڑھیں:
بیساکھی میلہ؛ محسن نقوی کی امریکی وفد کے ہمراہ کرتار پور راہداری آمد، گوردوارہ صاحب کا بھی دورہ کیا
سٹی 42 : وزیرداخلہ محسن نقوی، امریکی کانگریس مینز کے وفد کے ہمراہ سکھ برادری کی خوشیوں میں شرکت کیلئے کرتار پور راہداری پہنچ گئے۔ وفد میں امریکی کانگریس مین تھامس رچرڈ سوازی، امریکی کانگریس مین جوناتھن جیکسن، قائم مقام امریکی سفیر نیٹلی بیکر اور امریکی قونصل جنرل کرسٹن کے ہاکنز شامل تھیں۔
محسن نقوی اور امریکی وفد کا درشنی ڈیوڑی کے باہر سکھ برادری کی سرکردہ شخصیات نے پرتپاک استقبال کیا اور پھول پیش کئے۔
حافظ آباد میں آرگنائزڈکرائم یونٹ کو ن لیگ کے پبلک دفتر پرچھاپہ مارنا مہنگا پڑ گیا
محسن نقوی اور امریکی کانگریس مینز تھامس رچرڈ سوازی، جوناتھن جیکسن نے بیساکھی میلے کی سکھ برادری کو مبارکباد دی ۔
محسن نقوی اور امریکی کانگریس مینز کے وفد نے گوردوارہ صاحب کا دورہ کیا، اس موقع پر بابا گرونانک دیو جی سے وابستہ مختلف اشیاء دیکھیں، انہوں نے گوردوارہ صاحب میں دعائیہ تقریب میں شرکت کی اور تاریخی کنواں بھی دیکھا۔ محسن نقوی اور امریکی کانگریس مینز کے وفد کو گوردوارہ صاحب کرتا رپور کے بارے میں بریفنگ دی گئی ۔
خلیل الرحمان قمر ہنی ٹریپ و اغوا کیس کا فیصلہ آگیا
محسن نقوی اور امریکی کانگریس مینز کے وفد کو سروپا پہنایا گیا اور کرپان پیش کی گئی۔
محسن نقوی اور امریکی وفد سے بھارت سے آئے سکھ یاتریوں نے ملاقات کی، اس موقع پر سکھ برادری نے ا ن کے ساتھ تصویریں بھی بنوائیں ۔ جس کے بعد محسن نقوی اور امریکی کانگریس مینز خصوصی طور پر لنگر ہال گئے اور سکھ برادری کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا ۔
امریکی کانگریس مینز کے وفد نے کرتار پور راہداری اور گوردوارہ صاحب میں سہولتوں کو سراہا، کہا کہ سکھ برادری کے میلے میں شرکت کرکے دلی خوشی ہوئی۔ کرتار پور راہداری اور گوردوارہ صاحب میں پاکستان نے سکھ یاتریوں کے بہترین انتظامات کئے ہیں۔ امریکی وفد نے پاکستان کی جانب سے کئے گئے انتظامات کو سراہا ۔ محسن نقوی اور امریکی وفد نے زیرو پوائنٹ کا بھی دورہ کیا۔
شاہدرہ ٹاؤن: تیز رفتار بس نے موٹر سائیکل سوار خاتون کو کچل دیا
محسن نقوی نے اس موقع پر کہا کہ سکھ یاتریوں کے لئے بہترین سہولیات مہیا کرنا ہماری حکومت کی اولین ترجیح ہے، سکھ یاتریوں کے لئے ویزا کے حصول کو آسان بنایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ سکھ یاتری پاکستان آئیں اور اپنے مقدس مقامات پر جائیں، پاکستانی محبت کرنے والے اورپرامن لوگ ہیں، پاکستان میں تمام مذاہب کے ماننے والوں کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔