انقلاب اسلامی ایران، انفجار نور کی 46 ویں سالگرہ!(1)
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
اسلام ٹائمز: 11 فروری یعنی 22 بہمن کا دن جب اس دنیا نے تاریخ میں ایک تاریخ ساز و حیران کن تبدیلی اور ایک بہت ہی عظیم و منفرد اور مقبول انقلاب دیکھا۔ بلا شک و شبہ محبت اور ایمان سے بھرپور دلوں کیساتھ پرعزم اور متحد قوم کا عروج تھا، جسکی نظیر اس سے پہلے کسی نے نہیں دیکھی تھی۔ یہ خالص محمدی اسلام کا ظہور تھا، جسے اس صدی میں احیاء کا سہرا امام خمینی اور انکے جانثار ساتھیوں، عظیم ایرانی قوم کے سر جاتا ہے۔ دنیا آج بھی حیرت میں مبتلا ہے کہ یہ انقلاب کیسے آیا، جبکہ دنیائے استعمار و استکبار نے اسکو ناکام بنانے کیلئے اپنی تمام تر توانائیاں لگا دی تھیں، مگر اسکا راستہ نہیں روکا جا سکا۔ تمام تر حربے، تمام تر سازشیں، تمام تر ٹیکنالوجیز ناکام ہوئیں اور انقلاب کی یہ صبح اپنا پیغام لیکر طلوع ہوکر رہی۔ تحریر: ارشاد حسین ناصر
چھیالیس برس ہو چلے، جب پاکستان کے ہمسائے اور دیرینہ دوست ملک ایران میں ایک مجاہد و مبارز، فرزند ابا عبداللہ الحسین ؑ، مرد قلندر، اک خاک نشین، اک بندہ خدا، اک فرزند کربلا، اک فرزند سیدہ سلام اللہ، اک فرزند حیدر کرار غیر فرار ؑ اپنی لازوال جدوجہد اور بے پناہ قربانیوں کے بعد اپنے ملک میں اڑھائی ہزار سالہ بادشاہت کو ختم کرکے ایک اسلامی، ایک جمہوری اور ایک عوامی انقلاب لانے میں کامیاب ہوئے۔ یہ روح اللہ الموسوی الخمینی المعروف امام خمینی (رح) تھے، جو اس انقلاب کے بانی تھے، جن کی قیادت و سیادت میں جن کی محنتوں اور استقامت نے اس ملک اور یہاں کے عوام کی تقدیر بدل کر رکھ دی۔ یہ ایک ایسا ملک و معاشرہ تھا، جس میں گذشتہ اڑھائی ہزار سال سے بادشاہت قائم تھی اور اس مملکت و مقدس سرزمین کا کنٹرول عملی طور پر بادشاہ کے سر پرستوں امریکہ و اسرائیل کے پاس تھا۔ سب ہی جانتے ہیں کہ اس وقت ایران کے دارالحکومت تہران میں قائم انکل سام امریکہ کا سفارت خانہ دنیا بھر میں سی آئی اے کا سب سے بڑا مرکز اور عالم اسلام و انسانیت کے خلاف سازشوں کا گڑھ تھا۔
اس کے باوجود یہ عوامی اور جمہوری و اسلامی انقلاب برپا ہوا، امام خمینی (رح) جنہیں پٹھو شاہ نے جلا وطن کر دیا تھا اور وہ ترکی، عراق سے ہوتے ہوئے فرانس میں مقیم تھے، جب واپس ایران پہنچے تھے تو ان کا تاریخی و فقید المثال استقبال ہوا۔ میدان آزادی تہران اور مہرآباد ایئر پورٹ پر دنیا امڈ آئی تھی۔ انسان ہی انسان تھے، جن کے جذبات و احساسات آج بھی ویڈیوز و تصاویر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ ایک تاریخی استقبال تھا، جس کے بعد امریکی پٹھو شاہ ایران سے فرار کر گیا تھا۔ شاہ جس نے امام خمینی کو جلا وطن کیا تھا، اسے اس کے سرپرستوں میں سے کسی نے بھی قبول نہ کیا اور وہ خود دیار غیر میں مر کر دفن ہوا۔ آج اس کا نشاں بھی باقی نہیں ہے، مگر امام خمینی کے لائے ہوئے اسلامی انقلاب اور امام خمینی (رح) سے محبت کرنے والوں، عقیدت کا اظہار کرنے والوں کی تعداد بلا شبہ کروڑوں میں ہے اور ان عقیدت مندوں، ان پیروان، ان عاشقان کا تعلق کسی ایک ملک سے نہیں بلکہ دنیا کے ہر کونے میں اس انقلاب اور اس کے بانی سے محبت کرنے والے، اس الہیٰ انسان کی فکر سے رشد حاصل کرکے اپنی آزادی کی جنگ لڑنے والے دنیا کے بیسیوں ممالک میں موجود ہیں۔
جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ یہ انقلاب اور اس کے بانی کا نظریہ و فکر اور جدوجہد الہیٰ و اسلامی ہے، جسے اپنا کر اور اس پر عمل کرکے اس راہ پر چل کر استعمار اور اس کے پروردوں کے چنگل سے آزادی حاصل کی جا سکتی ہے۔ آج جب ہم سب اس الہی، خالص اسلامی انقلاب کی چھیالیسویں سالگرہ منا رہے ہیں تو ہمیں اس بات پر نازاں رہنا ہے کہ اس انقلاب کی بدولت دنیا بھر میں پسے ہوئے طبقات، اقتصادی، معاشی، سماجی اور استعماری زنجیروں میں جکڑے ہوئے انسانوں میں آزادی کی تڑپ پیدا ہوچکی ہے اور وہ استعمار جہاں کو للکارتے ہوئے میدان میں بھی اتر چکے ہیں۔ انقلاب اسلامی ایران ایک ایسا موضوع ہے، جس نے چھیالیس سال کامیابی سے گذار لئے ہیں، اگر اس کی فقط کامیابیوں، اس کے عالمی اثرات، امت مسلمہ پر اس کے احسانات، اسلامی مقاومتی و مزاحمتی تحریکوں میں اس کے کردار، مکتب امام صادق ؑ اور اس کی حقیقی معرفت و پہچان، تشیع کے اصل دفاع، آئمہ طاہرین علیھم السلام اور ان کے سیاسی و سماجی انقلابات کی پرکھ اور پہچان اس انقلاب کی بدولت دنیا پر بہت ہی شفاف طریقہ سے واضح ہوئی ہے۔
ہر انقلاب کی طرح اس عظیم انقلاب کو پہلے تو ناکام بنانے کی بھرپور سازشیں ہوئیں، بلکہ اس پر قبضہ کی کوششیں کی گئیں۔ اس کے خلاف پراپیگنڈا اور اس کی قیادت کے خلاف بے سر و پا باتوں اور جھوٹے من گھڑت الزامات کی بھرمار، اس میں ناکامی کے بعد استعمار نے انقلاب کی اصل اور حقیقی قیادت کو راستے سے ہٹانے کی بھرپور کوششیں کیں۔ نوزائیدہ انقلاب میں کیسے کیسے گوہر نایاب اس انقلاب نے قربان کر دیئے۔ امام خمینی کے فرنٹ لائن کے سپاہی اور کمانڈر سب ہی شہید ہوگئے۔ انقلاب اسلامی کے فکری مراکز اور مغز ہائے متفکر جیسے بہشتی، مطہری، رجائی، باہنر اور اراکین پارلیمنٹ کی بڑی تعداد سب ہی شہید کئے گئے۔ امام خمینی نے سانحہ مکہ کا غم سہا، امام خمینی نے زہریلی گیس کے شکار حلبچہ کے عام کرد عوام کا غم سہا، امام خمینی نے چمران کی جدائی برداشت کی، امام خمینی (رح) نے آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ میں ہر دن زہر کا پیالہ پیا، مگر امام خمینی (رح) جو اس تحریک کے بانی تھے، اپنے جد ابا عبداللہ الحسین ؑ کی طرح عصر عاشور کے منظر کو دوہراتے اکیلے بھی لشکر یزید کے مقابل نظر آئے۔
انہوں نے حوصلہ نہیں ہارا، انہوں نے ہمت نہیں ہاری، انہوں نے یزیدان وقت سے شکست تسلیم نہیں کی، انہوں نے استعمار جہاں کے سامنے گردن نہیں جھکائی، انہوں نے ہدف کو دھندلا اور گدلا نہیں ہونے دیا۔ انہوں نے مقصد کو نہیں بھلایا، انہوں نے اپنے جدا ہونے والے قریبی ساتھیوں کا غم نہیں منایا بلکہ جس مقصد کیلئے انہوں نے قربانیاں دیں، اس کو آگے بڑھانے کیلئے سر دھڑ کی بازی لگائے رکھی۔ نوزائیدہ انقلاب کو سبق سکھانے کیلئے اور حریت و آزادی کے نعرے سے ہٹانے کیلئے طاغوتی طاقتوں کی پابندیوں کا شکار ہوا، ابھی سنبھل نا پایا تھا کہ انقلاب اسلامی پر جنگ مسلط کی گئی، جو آٹھ سال تک جاری رہی۔ اس دوران ایک طرف عالم کفر اور اس کی جوتیاں چاٹنے والے عرب و عجم مسلم حکمران تھے۔ دوسری طرف توکل الی اللہ کی عملی مثال جمہوری اسلامی، انقلابی ایران اور اس کی صالح قیادت تھی، جسے راستے سے ہٹانے کی سینکڑوں سازشیں سامنے آئیں، مگر پروردگار نے بانی انقلاب کو انقلاب کے بعد دس برس تک اس کی سربراہی کرنے کا وقت دیا، جس دوران بہت سے منافق چہرے بے نقاب ہوئے۔
اسلام کا دم بھرنے اور اسلامی شعار بلند کرکے امہ کو دھوکہ و فریب دینے والوں کے چہروں سے نقاب الٹی گئی کہ کیسے ان لوگوں کی باگیں استعمار جہاں کے ہاتھوں میں ہیں اور وہ جب جیسے چاہتا ہے انہیں موڑ دیتا ہے۔ 11 فروری یعنی 22 بہمن کا دن جب اس دنیا نے تاریخ میں ایک تاریخ ساز و حیران کن تبدیلی اور ایک بہت ہی عظیم و منفرد اور مقبول انقلاب دیکھا۔ بلا شک و شبہ محبت اور ایمان سے بھرپور دلوں کے ساتھ پرعزم اور متحد قوم کا عروج تھا، جس کی نظیر اس سے پہلے کسی نے نہیں دیکھی تھی۔ یہ خالص محمدی اسلام کا ظہور تھا، جسے اس صدی میں احیاء کا سہرا امام خمینی اور ان کے جانثار ساتھیوں، عظیم ایرانی قوم کے سر جاتا ہے۔ دنیا آج بھی حیرت میں مبتلا ہے کہ یہ انقلاب کیسے آیا، جبکہ دنیائے استعمار و استکبار نے اس کو ناکام بنانے کیلئے اپنی تمام تر توانائیاں لگا دی تھیں، مگر اس کا راستہ نہیں روکا جا سکا تمام تر حربے، تمام تر سازشیں، تمام تر ٹیکنالوجیز ناکام ہوئیں اور انقلاب کی یہ صبح اپنا پیغام لیکر طلوع ہو کر رہی۔
22 بہمن 57 (11 فروری 79ء) کا شاندار فتح مند دن بہت سے عوامل کا نتیجہ تھا، جن میں سب سے اہم یہ ہیں:
1۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان کامل: اہل ایران، ان کی قیادت و رہبری نے اپنی جدوجہد میں دنیا کی طاقتوں کے مقابل اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل اور کامل یقین رکھا اور اپنی خالص جدوجہد جاری رکھی۔ امام خمینی نے اپنی جدوجہد میں لا شرقیہ لاغربیہ کا شعار بلند کیا اور شرقی و غربی استعمار سے لاتعلقی رکھتے ہوئے لا الہٰ الا اللہ کی بنیاد پر ہر رکاوٹ کو عبور کرتے رہے، اللہ کی مدد ان کے شامل حال رہی اور کامیابی نصیب ہوئی۔
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انقلاب اسلامی انقلاب کی اس انقلاب اور اس کی انہوں نے کے بانی کے بعد اور وہ اور ان
پڑھیں:
تہران میں عظیم الشان ریلی، اسرائیل کا تابوت اور ٹرمپ کے لئے عوامی مکے
شرکا ہم رہبر کے فدائی ہیں کا ترانہ گاتے، ایرانی پرچم لہرا تے، امام خمینی، رہبر معظم انقلاب، دفاع مقدس کے شہداء اور شہدائے پولیس کی تصویریں اٹھائے جوش و خروش کیساتھ لاکھوں کی تعداد میں ریلی میں شریک تھے۔ اس تقریب میں بچوں کی نمایاں اور غیر معمولی تعداد نے شرکت کی۔ مارچ میں شہید حاج قاسم سلیمانی میزائل کا ماڈل عوام کی توجہ کا مرکز رہا۔ اسلام ٹائمز۔ یوم اللہ کے عنوان سے امام حسین اسکوائر تہران سےریلی کا آغاز ہوا اور لاکھوں شرکا آزادی اسکوائر تک مارچ میں شریک ہوئے۔ ایرانی سال کے بہمن ماہ کی 22 تاریخ (11 فروری) کو انقلاب اسلامی کیا کامیابی کی سالگرہ پر جشن کے حوالے سے یوم اللہ کے عنوان سے تہران میں منعقد ہونیوالے مارچ کا آغاز صبح 10 بجے آزادی اسکوائر میں تلاوت قرآن اور اسلامی جمہوریہ ایران کے ترانے کیساتھ ہوا۔ تقریب میں فوجی اور سول حکام کے علاوہ غیر ملکی مہمان بھی شریک تھے۔ اس موقع پر برج آزادی سے غبارے چھوڑے گئے، مسلح افواج کے چھاتہ بردار دستوں، آرمی بینڈز اور طلبہ کی طرف سے قومی نغمے بھی خصوصی پروگراموں میں شامل تھے۔ ملک بھر میں 7200 سے زیادہ رپورٹرز اور فوٹوگرافرز نے تقریب کی کوریج کی۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ جیسے المیادین، الجزیرہ، اور رشیا ٹوڈے نے بھی تقاریب کو رپورٹ کیا۔ شدید ردی کے باوجود صبح سویرے سے ہی لوگوں کا بڑا ہجوم آزادی اسکوائر کی طرف مارچ میں شریک ہوا، مارچ کے راستے میں ثقافتی پروگراموں کے لیے اسٹال لگائے گئے تھے۔ مارچ کے شرکا نے ایرانی پرچم اور مختلف پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے، اور لاوڈ اسپیکروں پر مرگ بر امریکہ، مردہ باد اسرائیل اور ہم شہیدوں کی قوم ہیں، جیسے نعرے لگائے جا رہے تھے۔ ریلی کے شرکا ہم رہبر کے فدائی ہیں کا ترانہ گاتے، ایرانی پرچم لہرا تے، امام خمینی، رہبر معظم انقلاب، دفاع مقدس کے شہداء اور شہدائے پولیس کی تصویریں اٹھائے جوش و خروش کیساتھ لاکھوں کی تعداد میں ریلی میں شریک تھے۔ اس تقریب میں بچوں کی نمایاں اور غیر معمولی تعداد نے شرکت کی۔ مارچ میں شہید حاج قاسم سلیمانی میزائل کا ماڈل عوام کی توجہ کا مرکز رہا۔
ایران طاقتور ہے اور دھمکیوں کی پروا نہیں کرتے، سردار حاجی زادہ
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی ایرو اسپیس فورس کے کمانڈر بریگیڈیئر جنرل امیر علی حاجی زادہ نے آج صبح 22 بہمن مارچ میں شرکت کی۔ ایران کے خلاف ٹرمپ کی دھمکیوں کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ٹرمپ میں اتنی ہمت نہیں ہے، ایران طاقتور ہے دھمکی آمیز الفاظ کا اثر نہیں لیتے۔ ٹرمپ کی تقریر 22 بہمن کے مارچ میں لوگوں کی زیادہ شرکت میں اضافہ کا باعث بنی، میجر جنرل موسوی
اسلامی جمہوریہ ایران کی مسلح افواج کے کمانڈر انچیف میجر جنرل سید عبدالرحیم موسوی نے 22 بہمن مارچ کے موقع پر کہا کہ ٹرمپ کے دعووں نے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو جشنِ انقلاب میں شرکت کرنے میں مدد دی ہے کیونکہ ان کی وجہ سے لوگ 22 بہمن کے مارچ میں زیادہ سنجیدگی سے شریک ہوئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ تمام لوگ مارچ میں ٹرمپ کے منہ پر مکے مارنے کے لیے اپنی بند مٹھیوں کے ساتھ شریک ہیں۔
صدر مملکت ڈاکٹر مسعود پزشکیان کی ریلی موجودگی:
تقریب شروع ہونے کے چند منٹ بعد صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے انقلاب کی فتح کی سالگرہ کے موقع پر مارچ میں شرکت کی۔ وزیر دفاع کی عوام میں موجودگی
امیر ناصر زادہ، وزیر دفاع اور مسلح افواج کی عسکری لیڈرشپ نے انقلاب اسلامی کے جشن کے موقع پر ہونیوالے مارچ میں شرکت کی۔
محسن رضائی کی مارچ میں شرکت
محسن رضائی، قومی اقتصادی رابطہ کاری کی سپریم کونسل کے سیکرٹری نے 22 بہمن کے مارچ میں شرکت کی۔ سابق صدر حسن روحانی کی ریلی میں شرکت
11ویں اور 12ویں حکومتوں کے صدر حسن روحانی نے بھی آج کے مارچ میں شرکت کی۔ عدلیہ کے سربراہ کی عوام میں موجودگی
عدلیہ کے سربراہ محسنی ایجی نے بھی 22 بہمن کے مارچ میں شرکت کی اور لوگوں کیساتھ گفتگو کی۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے نائب صدر محمد رضا عارف، وزیر داخلہ اتابک، وزیر خزانہ ہمتی، جوہری توانائی کی تنظیم کے سربراہ اسلامی، اسٹریٹجک امور کے لئے نائب صدر ظریف، ماحولیاتی تنظیم کے سربراہ انصاری، سردار رادان، رہبر انقلاب اسلامی کے معاون اور مشیر شمخانی، کونسل برائے اقوام و ادیان کے سربراہ علوی،حکومت کی انفارمیشن کونسل کے سربراہ حضرتی سمیت متعدد سرکاری اور قومی شخصیات نے ریلی میں شرکت کی۔
دفاعی صنعت کی کامیابیوں کی نمائش:
وزارت دفاع اور مسلح افواج نے 22 بہمن کی پریڈ میں وزارت کی دفاعی کامیابیوں کی نمائش کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔ بکتر بند گاڑی طوفان -4، 8 میٹر گشتی کشتی (گالف)، 11 میٹر گشتی کشتی (رِب)؛ خرمشہر-4 میزائل، صفیر امید سیٹلائٹ کیریئر، حج قاسم میزائل، اور سکس بیرل لانچر فتح 360 میزائل لانچر ایرو اسپیس انڈسٹری کے شعبے کی کامیابیوں میں شامل ہیں جن کی نمائش کی گئی ہے۔
تہران کی سڑکوں پر اسرائیلی تابوت:
تہران کے عوام نے تابوت اٹھا رکھے تھے جن پر یروشلم پر قابض حکومت کا جعلی پرچم اور صیہونی رہنماؤں کے نشانات لگے تھے۔