Islam Times:
2025-04-15@09:30:26 GMT

انقلاب اسلامی ایران، انفجار نور کی 46 ویں سالگرہ!(1)

اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT

انقلاب اسلامی ایران، انفجار نور کی 46 ویں سالگرہ!(1)

اسلام ٹائمز: 11 فروری یعنی 22 بہمن کا دن جب اس دنیا نے تاریخ میں ایک تاریخ ساز و حیران کن تبدیلی اور ایک بہت ہی عظیم و منفرد اور مقبول انقلاب دیکھا۔ بلا شک و شبہ محبت اور ایمان سے بھرپور دلوں کیساتھ پرعزم اور متحد قوم کا عروج تھا، جسکی نظیر اس سے پہلے کسی نے نہیں دیکھی تھی۔ یہ خالص محمدی اسلام کا ظہور تھا، جسے اس صدی میں احیاء کا سہرا امام خمینی اور انکے جانثار ساتھیوں، عظیم ایرانی قوم کے سر جاتا ہے۔ دنیا آج بھی حیرت میں مبتلا ہے کہ یہ انقلاب کیسے آیا، جبکہ دنیائے استعمار و استکبار نے اسکو ناکام بنانے کیلئے اپنی تمام تر توانائیاں لگا دی تھیں، مگر اسکا راستہ نہیں روکا جا سکا۔ تمام تر حربے، تمام تر سازشیں، تمام تر ٹیکنالوجیز ناکام ہوئیں اور انقلاب کی یہ صبح اپنا پیغام لیکر طلوع ہوکر رہی۔ تحریر: ارشاد حسین ناصر

چھیالیس برس ہو چلے، جب پاکستان کے ہمسائے اور دیرینہ دوست ملک ایران میں ایک مجاہد و مبارز، فرزند ابا عبداللہ الحسین ؑ، مرد قلندر، اک خاک نشین، اک بندہ خدا، اک فرزند کربلا، اک فرزند سیدہ سلام اللہ، اک فرزند حیدر کرار غیر فرار ؑ اپنی لازوال جدوجہد اور بے پناہ قربانیوں کے بعد اپنے ملک میں اڑھائی ہزار سالہ بادشاہت کو ختم کرکے ایک اسلامی، ایک جمہوری اور ایک عوامی انقلاب لانے میں کامیاب ہوئے۔ یہ روح اللہ الموسوی الخمینی المعروف امام خمینی (رح) تھے، جو اس انقلاب کے بانی تھے، جن کی قیادت و سیادت میں جن کی محنتوں اور استقامت نے اس ملک اور یہاں کے عوام کی تقدیر بدل کر رکھ دی۔ یہ ایک ایسا ملک و معاشرہ تھا، جس میں گذشتہ اڑھائی ہزار سال سے بادشاہت قائم تھی اور اس مملکت و مقدس سرزمین کا کنٹرول عملی طور پر بادشاہ کے سر پرستوں امریکہ و اسرائیل کے پاس تھا۔ سب ہی جانتے ہیں کہ اس وقت ایران کے دارالحکومت تہران میں قائم انکل سام امریکہ کا سفارت خانہ دنیا بھر میں سی آئی اے کا سب سے بڑا مرکز اور عالم اسلام و انسانیت کے خلاف سازشوں کا گڑھ تھا۔

اس کے باوجود یہ عوامی اور جمہوری و اسلامی انقلاب برپا ہوا، امام خمینی (رح) جنہیں پٹھو شاہ نے جلا وطن کر دیا تھا اور وہ ترکی، عراق سے ہوتے ہوئے فرانس میں مقیم تھے، جب واپس ایران پہنچے تھے تو ان کا تاریخی و فقید المثال استقبال ہوا۔ میدان آزادی تہران اور مہرآباد ایئر پورٹ پر دنیا امڈ آئی تھی۔ انسان ہی انسان تھے، جن کے جذبات و احساسات آج بھی ویڈیوز و تصاویر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ ایک تاریخی استقبال تھا، جس کے بعد امریکی پٹھو شاہ ایران سے فرار کر گیا تھا۔ شاہ جس نے امام خمینی کو جلا وطن کیا تھا، اسے اس کے سرپرستوں میں سے کسی نے بھی قبول نہ کیا اور وہ خود دیار غیر میں مر کر دفن ہوا۔ آج اس کا نشاں بھی باقی نہیں ہے، مگر امام خمینی کے لائے ہوئے اسلامی انقلاب اور امام خمینی (رح) سے محبت کرنے والوں، عقیدت کا اظہار کرنے والوں کی تعداد بلا شبہ کروڑوں میں ہے اور ان عقیدت مندوں، ان پیروان، ان عاشقان کا تعلق کسی ایک ملک سے نہیں بلکہ دنیا کے ہر کونے میں اس انقلاب اور اس کے بانی سے محبت کرنے والے، اس الہیٰ انسان کی فکر سے رشد حاصل کرکے اپنی آزادی کی جنگ لڑنے والے دنیا کے بیسیوں ممالک میں موجود ہیں۔

جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ یہ انقلاب اور اس کے بانی کا نظریہ و فکر اور جدوجہد الہیٰ و اسلامی ہے، جسے اپنا کر اور اس پر عمل کرکے اس راہ پر چل کر استعمار اور اس کے پروردوں کے چنگل سے آزادی حاصل کی جا سکتی ہے۔ آج جب ہم سب اس الہی، خالص اسلامی انقلاب کی چھیالیسویں سالگرہ منا رہے ہیں تو ہمیں اس بات پر نازاں رہنا ہے کہ اس انقلاب کی بدولت دنیا بھر میں پسے ہوئے طبقات، اقتصادی، معاشی، سماجی اور استعماری زنجیروں میں جکڑے ہوئے انسانوں میں آزادی کی تڑپ پیدا ہوچکی ہے اور وہ استعمار جہاں کو للکارتے ہوئے میدان میں بھی اتر چکے ہیں۔ انقلاب اسلامی ایران ایک ایسا موضوع ہے، جس نے چھیالیس سال کامیابی سے گذار لئے ہیں، اگر اس کی فقط کامیابیوں، اس کے عالمی اثرات، امت مسلمہ پر اس کے احسانات، اسلامی مقاومتی و مزاحمتی تحریکوں میں اس کے کردار، مکتب امام صادق  ؑ اور اس کی حقیقی معرفت و پہچان، تشیع کے اصل دفاع، آئمہ طاہرین علیھم السلام اور ان کے سیاسی و سماجی انقلابات کی پرکھ اور پہچان اس انقلاب کی بدولت دنیا پر بہت ہی شفاف طریقہ سے واضح ہوئی ہے۔

ہر انقلاب کی طرح اس عظیم انقلاب کو پہلے تو ناکام بنانے کی بھرپور سازشیں ہوئیں، بلکہ اس پر قبضہ کی کوششیں کی گئیں۔ اس کے خلاف پراپیگنڈا اور اس کی قیادت کے خلاف بے سر و پا باتوں اور جھوٹے من گھڑت الزامات کی بھرمار، اس میں ناکامی کے بعد استعمار نے انقلاب کی اصل اور حقیقی قیادت کو راستے سے ہٹانے کی بھرپور کوششیں کیں۔ نوزائیدہ انقلاب میں کیسے کیسے گوہر نایاب اس انقلاب نے قربان کر دیئے۔ امام خمینی کے فرنٹ لائن کے سپاہی اور کمانڈر سب ہی شہید ہوگئے۔ انقلاب اسلامی کے فکری مراکز اور مغز ہائے متفکر جیسے بہشتی، مطہری، رجائی، باہنر اور اراکین پارلیمنٹ کی بڑی تعداد سب ہی شہید کئے گئے۔ امام خمینی نے سانحہ مکہ کا غم سہا، امام خمینی نے زہریلی گیس کے شکار حلبچہ کے عام کرد عوام کا غم سہا، امام خمینی نے چمران کی جدائی برداشت کی، امام خمینی (رح) نے آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ میں ہر دن زہر کا پیالہ پیا، مگر امام خمینی (رح) جو اس تحریک کے بانی تھے، اپنے جد ابا عبداللہ الحسین ؑ کی طرح عصر عاشور کے منظر کو دوہراتے اکیلے بھی لشکر یزید کے مقابل نظر آئے۔

انہوں نے حوصلہ نہیں ہارا، انہوں نے ہمت نہیں ہاری، انہوں نے یزیدان وقت سے شکست تسلیم نہیں کی، انہوں نے استعمار جہاں کے سامنے گردن نہیں جھکائی، انہوں نے ہدف کو دھندلا اور گدلا نہیں ہونے دیا۔ انہوں  نے مقصد کو نہیں بھلایا، انہوں نے اپنے جدا ہونے والے قریبی ساتھیوں کا غم نہیں منایا بلکہ جس مقصد کیلئے انہوں نے قربانیاں دیں، اس کو آگے بڑھانے کیلئے سر دھڑ کی بازی لگائے رکھی۔ نوزائیدہ انقلاب کو سبق سکھانے کیلئے اور حریت و آزادی کے نعرے سے ہٹانے کیلئے طاغوتی طاقتوں کی پابندیوں کا شکار ہوا، ابھی سنبھل نا پایا تھا کہ انقلاب اسلامی پر جنگ مسلط کی گئی، جو آٹھ سال تک جاری رہی۔ اس دوران ایک طرف عالم کفر اور اس کی جوتیاں چاٹنے والے عرب و عجم مسلم حکمران تھے۔ دوسری طرف توکل الی اللہ کی عملی مثال جمہوری اسلامی، انقلابی ایران اور اس کی صالح قیادت تھی، جسے راستے سے ہٹانے کی سینکڑوں سازشیں سامنے آئیں، مگر پروردگار نے بانی انقلاب کو انقلاب کے بعد دس برس تک اس کی سربراہی کرنے کا وقت دیا، جس دوران بہت سے منافق چہرے بے نقاب ہوئے۔

اسلام کا دم بھرنے اور اسلامی شعار بلند کرکے امہ کو دھوکہ و فریب دینے والوں کے چہروں سے نقاب الٹی گئی کہ کیسے ان لوگوں کی باگیں استعمار جہاں کے ہاتھوں میں ہیں اور وہ جب جیسے چاہتا ہے انہیں موڑ دیتا ہے۔ 11 فروری یعنی 22 بہمن کا دن جب اس دنیا نے تاریخ میں ایک تاریخ ساز و حیران کن تبدیلی اور ایک بہت ہی عظیم و منفرد اور مقبول انقلاب دیکھا۔ بلا شک و شبہ محبت اور ایمان سے بھرپور دلوں کے ساتھ پرعزم اور متحد قوم کا عروج تھا، جس کی نظیر اس سے پہلے کسی نے نہیں دیکھی تھی۔ یہ خالص محمدی اسلام کا ظہور تھا، جسے اس صدی میں احیاء کا سہرا امام خمینی اور ان کے جانثار ساتھیوں، عظیم ایرانی قوم کے سر جاتا ہے۔ دنیا آج بھی حیرت میں مبتلا ہے کہ یہ انقلاب کیسے آیا، جبکہ دنیائے استعمار و استکبار نے اس کو ناکام بنانے کیلئے اپنی تمام تر توانائیاں لگا دی تھیں، مگر اس کا راستہ نہیں روکا جا سکا تمام تر حربے، تمام تر سازشیں، تمام تر ٹیکنالوجیز ناکام ہوئیں اور انقلاب کی یہ صبح اپنا پیغام لیکر طلوع ہو کر رہی۔

22 بہمن 57 (11 فروری 79ء) کا شاندار فتح مند دن بہت سے عوامل کا نتیجہ تھا، جن میں سب سے اہم یہ ہیں:
1۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان کامل: اہل ایران، ان کی قیادت و رہبری نے اپنی جدوجہد میں دنیا کی طاقتوں کے مقابل اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل اور کامل یقین رکھا اور اپنی خالص جدوجہد جاری رکھی۔ امام خمینی نے اپنی جدوجہد میں لا شرقیہ لاغربیہ کا شعار بلند کیا اور شرقی و غربی استعمار سے لاتعلقی رکھتے ہوئے لا الہٰ الا اللہ کی بنیاد پر ہر رکاوٹ کو عبور کرتے رہے، اللہ کی مدد ان کے شامل حال رہی اور کامیابی نصیب ہوئی۔
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: انقلاب اسلامی انقلاب کی اس انقلاب اور اس کی انہوں نے کے بانی کے بعد اور وہ اور ان

پڑھیں:

علامہ شبیر حسن میثمی کا دورہ راجن پور، مختلف علاقوں میں مساجد و امام بارگاہوں کا افتتاح 

 علامہ شبیر حسن میثمی نے بھاگ سر میں نئی تعمیر شدہ مسجد کا افتتاح کیا، اپنے بیان میں انہوں نے فلسطین کے مظلومین، ملک میں بڑھتی مہنگائی بالخصوص گندم کے نرخوں میں شدید کمی اور کسان کو ان کا جائز حق نہ دئیے جانے پر شدید تشویش کا اظہار کیا اور مسلمانوں کے باہمی اتحاد کی ضرورت پر زور دیا۔ اسلام ٹائمز۔ شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی جنرل سیکرٹری ڈاکٹر علامہ شبیر حسن میثمی دورہ جنوبی پنجاب کے دوران راجن پور پہنچ گئے، راجن پور پہنچنے پر شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی نائب صدر علامہ موسیٰ رضا جسکانی نے استقبال کیا۔ اپنے دورے کے دوران اُنہوں نے راجن پور کی تحصیل روجھان میں جامع مسجدو مدرسہ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کا افتتاح کیا، اس موقع پر حاجی نذر علی خان سیلاتانی، شفیق حسین سیلاتانی، حبیب اللہ خان مزاری، ضلعی صدر شیعہ علماء کونسل راجن پور ڈاکٹر غلام عباس حسینی، تحصیل صدر جام پور خرم عباس بھٹہ، ضلعی نائب صدر نعیم عباس جٹ، نائب صدر ضلع راجن پور علامہ احسن رضا جسکانی، پرنسپل جامعہ امام رضا علیہ السلام کشمور علامہ زوار حسین شریعتی، سہیل رضا، رفیق مہدی، رضوان علی ساجدی اور دیگر موجود تھے۔

اس کے بعد علامہ شبیر حسن میثمی اپنے وفد کے ہمراہ شہر عمرکوٹ روانہ ہوئے، جہاں مسجد و امام بارگاہ رضویہ کی جدید عمارت کا سنگِ بنیاد رکھا گیا۔ اس موقع پر سید مجاہد حسین شاہ رضوی، سید امیر حسین شاہ رضوی، مولانا گلشیر احمد خان صادقی، مولانا شمشیر حیدر خان جسکانی اور دیگر اکابرین موجود تھے۔ علاوہ ازیں علامہ شبیر حسن میثمی نے بھاگ سر میں نئی تعمیر شدہ مسجد کا افتتاح کیا۔ اپنے بیان میں انہوں نے فلسطین کے مظلومین، ملک میں بڑھتی مہنگائی بالخصوص گندم کے نرخوں میں شدید کمی اور کسان کو ان کا جائز حق نہ دئیے جانے پر شدید تشویش کا اظہار کیا اور مسلمانوں کے باہمی اتحاد کی ضرورت پر زور دیا۔

متعلقہ مضامین

  • ایران امریکہ مذاکات اس وقت اہم ثابت ہونگے جب برابری کی بنیاد پر ہونگے، علامہ ساجد نقوی
  • عالیہ اور رنبیر کی شادی کو 3 برس مکمل، خوبصورت تصویر شیئر کردی
  • علامہ شبیر حسن میثمی کا دورہ راجن پور
  • علامہ شبیر حسن میثمی کا دورہ راجن پور، مختلف علاقوں میں مساجد و امام بارگاہوں کا افتتاح 
  • شی جن پھنگ کے پسندیدہ تاریخی اقوال ” چین- ویتنام سفارتی تعلقات کی 75 ویں سالگرہ پر لانچ
  • ” شی جن پھنگ کے پسندیدہ تاریخی اقوال ” چین- ویتنام سفارتی تعلقات کی 75 ویں سالگرہ پر لانچ
  • ایران کے صوبے سیستان و بلوچستان میں 8 پاکستانیوں کا قتل، تہران کی مذمت
  • استقامت کا پہاڑ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ
  • غزہ کا المیہ، امیر جماعت اسلامی نے ایران سمیت مسلم حکمران کو خط لکھ دیا
  • امیر جماعت کا اسلامی ممالک کے سربراہان کے نام خط، غزہ سے اظہار یکجہتی کے لیے 20اپریل کو عالمی یوم احتجاج منانے کی تجویز