پاکستان و ترکیہ مزید قریب آ رہے ہیں!
اشاعت کی تاریخ: 10th, February 2025 GMT
کسی بھی ملک کا کوئی صدر یا وزیر اعظم پاکستان کے سرکاری دَورے پر تشریف لاتا ہے تو اِسے مملکتِ خداداد کی سفارتی کامیابی کہنا چاہیے ۔ اِسی طرح اگر پاکستان کا کوئی حکمران ، سرکاری دعوت پر، کسی غیر ملکی دَورے پر روانہ ہوتا ہے تو اِسے بھی سفارتی سطح پر پاکستان کی کامیابی قرار دینا چاہیے ۔ جیسا کہ چند دن قبل صدرِ پاکستان نے چین کا چار روزہ سرکاری دَورہ کیا ہے۔
جب سے جناب شہباز شریف دوسری بار پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہُوئے ہیں، کئی غیر ملکی سربراہانِ مملکت نے پاکستان کے دَورے کیے ہیں۔ اِن دَوروں سے یقیناً مجموعی طور پر پاکستان کی سفارتی ، سیاسی اور معاشی سرگرمیوں کو فروغ بھی ملا ہے اور تقویت بھی۔اطلاعات ہیں کہ اب دو روزہ دَورے پر (12اور13فروری2025)ترکیہ کے منتخب صدر، عزت مآب جناب طیب اردوان، پاکستان کے دَور ے پر تشریف لا رہے ہیں ۔ پاکستان کے لیے طیب اردوان صاحب کا یہ پانچواں دَورہ ہوگا۔
پاکستانی عوام اور پاکستان کے جملہ حکمرانوں نے جناب طیب اردوان کے لیے دل و نگاہ فرشِ راہ کررکھی ہیں کہ ہم سب ترکیہ کو، بطورِ مملکت ،محبت و قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ ترکیہ ہمارا دیرینہ ، قابلِ اعتبار اور گہرا برادر و اسلامی دوست ملک ہے ۔سیاسی ، سماجی، دفاعی اور معاشی اعتبارات سے ترکیہ ایک طاقتور ، مستحکم اور مضبوط ملک ہے ۔
پاکستان بجا طور پر ترکیئے کی دوستی اور قربت پر فخر کر سکتا ہے ۔ ٹھیک پانچ سال قبل بھی جناب طیب اردوان، دو روزہ دَورے پر، پاکستان تشریف لائے تھے ۔
اُن کے ہمراہ خاتونِ اوّل، محترمہ آمنہ طیب اردوان ، بھی تشریف لائی تھیں۔ تب پاکستان پر پی ٹی آئی کی حکومت تھی ۔ بانی پی ٹی آئی نُور خان ائر پورٹ سے خود گاڑی ڈرائیو کرکے جناب اردوان کو اسلام آباد شہر لائے تھے ۔ سفارتی دُنیا میں اِس اقدام کو بڑے مستحسن الفاظ میں یاد کیا گیا تھا ۔ یہ دراصل دو برادر اسلامی ممالک کی قلبی قربتوں کا واضح اور بیّن اظہار تھا۔اِس دَورے میں دونوں ممالک کے مابین کیے گئے 13MOUs کی شکل میں، دونوں ممالک کے کئی اہم ترین اور حساس شعبوں کو فائدہ پہنچا تھا ۔ خاص طور پر تجارتی اور اسٹرٹیجک شعبوں میں !
فروری 2020میں پاکستان کے چوتھے دَورے کے موقع پر جناب طیب اردوان نے پاکستانی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے شاندار خطاب کیا تھا۔ یہ خطاب اس لیے بھی تاریخی تھا کہ جناب طیب اردوان کا پاکستانی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے مسلسل چوتھا خطاب تھا۔ ایسا منفرد اعزاز کسی دوسرے سربراہِ مملکت کو آج تک نہیں مل سکا ہے۔ایسے خطاب کا موقع صرف پاکستان کے انتہائی قریبی اور معتبر ممالک کے سربراہان ہی کو دیا جاتا ہے ۔
طیب اردوان صاحب کا یہ خطاب اس لیے بھی یادگار اور ناقابلِ فراموش تھا کہ آپ نے غیر مبہم اور واضح الفاظ میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے دیرینہ اور تاریخی موقف کی زبردست حمائت کی تھی ۔ انھوں نے دل کھول کر ، عثمانیہ دَور میں، اُن ایام کو محبتوں سے یاد کیا جب مسلمانانِ برصغیر نے ہر اعتبار سے مغربی طاقتوں کے خلاف آزادی کی جنگ لڑتے ہُوئے ترکیے کی زبردست حمائت کی تھی ۔
جناب طیب اردوان نے فرطِ محبت واحترام سے پاکستان کو اپنا دوسرا گھر قرار دیا تھا ۔ معزز و محترم طیب اردوان نے پانچ سال قبل اسلام آباد میں مسئلہ کشمیر کی پاکستانی موقف کی جو حمائت کی تھی، آج تک بھارتی اسٹیبلشمنٹ کو اِس کی مرچیں لگی ہُوئی ہیں ۔ اب جب کہ جناب طیب اردوان،اپنے کئی وزرا کے ہمراہ، پھر پاکستان تشریف لا رہے ہیں، بھارتی میڈیا پھر پاکستان اور ترکیئے کے خلاف زہر افشانی کررہا ہے ۔
جناب طیب اردوان کے دَورۂ پاکستان کے موقع پر پاکستان اور ترکیہ کے درمیان اعلیٰ سطح کی اسٹرٹیجک تعاون کونسل (HLSCC) کا ساتواں اجلاس بھی اسلام آباد میں ہوگا۔اسٹرٹیجک تعاون کونسل کا بنیادی مقصد دونوں برادر ممالک کے باہمی تعاون کو فروغ دینا ہے۔ اِس اہم کونسل کی سربراہی پاکستان کے وزیراعظم اور ترکیہ کے صدر مشترکہ طور پر کرتے ہیں۔
کونسل کو 2009میں دونوں ممالک کے درمیان تزویراتی معاشی فریم ورک (SEF) کے نفاذ کے لیے قائم کیا گیا تھا؛ تاہم 2013ء میں اس کا نام تبدیل کیا گیا تھا تاکہ ترکیہ اور پاکستان کے درمیان تزویراتی شراکت داری کو اجاگر کیا جا سکے۔ فورم کا چھٹا اجلاس فروری 2020میں منعقد کیا گیا تھا جب کہ اِس کا ساتواںاجلاس تاخیر کا شکار ہوگیا تھا۔
’’اسٹرٹیجک تعاون کونسل‘‘ کے تازہ اجلاس میں دفاع اور سیکیورٹی تعاون کو بڑھانے سمیت دونوں ممالک کے درمیان تجارت و اقتصادی تعاون کو فروغ دینے نیز ثقافتی تعلقات کو مزید مضبوط کرنے پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔ حال ہی میں اسلام آباد میں وزیر اعظم جناب شہباز شریف اور نائب وزیر اعظم جناب اسحاق ڈار کی موجودگی میں مذکورہ کونسل کے حوالے سے جو جائزہ اجلاس ہُوا تھا ، اس میں کہا گیا تھا: ’’اجلاس میں دونوں ممالک( پاکستان و ترکیہ) کے درمیان اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے نئی تجاویز کا جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ اسلام آباد میں منعقد ہونے والے اعلیٰ سطح کے اسٹرٹیجک تعاون کونسل کے ساتویں اجلاس کی تیاریوں کا حصہ ہے۔‘‘
اِس اجلاس کے مندرجات بتاتے ہیں کہ پاکستان اپنے معزز و محترم دوست ، جناب طیب اردوان ، کو خوش آمدید کہنے کے لیے پوری تیاریاں کر چکا ہے ۔ترکیہ کے عظیم منتخب صدر ایسے وقت میں پاکستان تشریف لا رہے ہیں جب حالیہ ایام میں مشرقِ وسطیٰ میں جوہری سیاسی ، معاشی اور اسٹرٹیجک تبدیلیاں معرضِ عمل میں آئی ہیں ۔ غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان ، انتہائی خونریز جنگ کے بعد، سیز فائر ہو چکا ہے ۔ ترکیہ کے ہمسایہ ملک ، شام، میں بشارالاسد کی جابرانہ اور غیر منتخب حکومت ختم ہو چکی ہے ۔ بشار الاسد ملک سے فرار ہو کر رُوس میں پناہ لے چکے ہیں ۔ شام میں سابق جنگجو اور سابق القاعدہ رہنما، احمد الشرع، عبوری حکومت کے از خود صدر بن چکے ہیں ۔
شام میں زبردست تبدیلیوں کے فوری بعد ترکیہ کی دو انتہائی اہم شخصیات ( وزیر خارجہ حقان فیدان اور انٹیلی جنس چیف ابراہیم کلین ) شام کا دَورہ کر چکی ہیں ۔ اُن کی احمد الشرع سے ملاقاتیں بھی ہو چکی ہیں ۔ ترکیہ میں احمد الشرع کی جناب اردوان سے بھی اسٹرٹیجک ملاقات ہو چکی ہے ۔
شام میں ترکیہ کے انتہائی حساس اور اہم اسٹیکس ہیں ۔ اطلاعات ہیں کہ شام کی نئی افواج کو ترکیہ ہی تربیت دے گا۔ ترکیہ اپنے جری صدر کی قیادت میں شام میں بروئے کار کُردوں کے ہر ممکنہ خطرے سے نمٹ رہا ہے ۔ بیشتر معاملات میں،شام اور مشرقِ وسطیٰ میں ترکیہ کی پالیسیوں اور نکتہ نگاہ کی، پاکستان حمائت کرتا ہے ۔ مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیلی سازشوں، مظالم اور جارحیتوں کے خلاف ترکیہ نے جو بھی پالیسیاں اپنا رکھی ہیں، پاکستان اِن کی حمائت کرتا ہے ۔ خصوصاً غزہ کے حوالے سے!
شام اور لبنان میں ایران کی پراکسیز اپنے انجام کو پہنچ چکی ہیں ۔ امریکا اور اسرائیل نئے سرے سے مشرقِ وسطیٰ میں اپنے تزویراتی جال بچھا رہے ہیں ۔ ایران اور اسرائیل کے نئے تصادم کا خطرہ بھی منڈلا رہا ہے ۔ ترکیہ کو نئے چیلنجوں کا سامنا ہے ۔ جناب طیب اردوان اِن سب معاملات کا حکمت اور دانائی سے جائزہ لے رہے ہیں کہ اُن کے ہمسائے میں کئی طوفانوں اور آندھیوں کے اُٹھنے کے امکانات ہیں ۔
اُمید ہے دَورئہ پاکستان کے دوران جناب طیب اردوان ، جناب شہباز شریف اور پاکستان کی مقتدرہ کے مابین ان سب حساس معاملات بارے ثمر آور بات چیت ہوگی کہ پاکستان بھی مشرقِ وسطیٰ کی تبدیلیوں اور طوفانوں سے لا تعلق نہیں رہ سکتا ۔ پاکستان اور ترکیہ کا ہاتھوں میں ہاتھ دے کر آگے بڑھنا بے حد ناگزیر ہو چکا ہے ۔ خاص طور پر ڈیفنس کے شعبے میں ۔ دفاع اور دفاعی ہتھیار سازی میں ترکیہ بہت آگے نکل چکا ہے۔
2فروری 2025 کو ترکیہ روزنامہ ’’ڈیلی صباح‘‘ نے خبر دی ہے کہ ترکیہ اپنے دفاعی ادارے TAI( Turkish Aerospace Industries) کے تحت بنائے گئے جدید ترین جنگی ڈرونز (UAV)اور ATAKہیلی کاپٹرز جرمنی کو بھی فروخت کرنے کا ارادہ رکھتا ہے ۔ پاکستان کو بھی ترکیہ کی اِن مہارتوں سے استفادہ کرنا چاہیے ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اسٹرٹیجک تعاون کونسل جناب طیب اردوان اسلام ا باد میں دونوں ممالک کے پاکستان کے د کیا گیا تھا کے درمیان پاکستان ا ا رہے ہیں ترکیہ کے تشریف لا کے لیے چکا ہے ہیں کہ
پڑھیں:
غزہ کے لوگوں کو فلسطین سے بےدخل کرنے کا اختیار کسی کے پاس نہیں، ترک صدر
ترک صدر رجب طیب اردوان ن نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ غزہ کے لوگوں کو ان کے آبائی وطن سے ہزاروں سالوں سے بے دخل کرنے کا اختیار کسی کے پاس نہیں ہے موجود ہے جہاں وہ ہزاروں سال سے آباد ہیں، غزہ، مغربی کنارے، مشرقی مقبوضہ بیت المقدس سمیت فلسطین فلسطینیوں کا ملک ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی فلسطینیوں کی منتقلی کی تجویز کا حوالہ دیتے ہوئے رجب طیب اردوان نے کہا کہ صییونی حکومت کے دباؤ کے تحت غزہ کے بارے میں امریکی انتظامیہ کی تجاویز قابل بحث نہیں ہیں۔
ترک صدر نے اسرائیلی کوششوں کے باوجود حماس اسرائیل معاہدے کے تحت قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے اپنے وعدوں کو پورا کرنے پر حماس کی تعریف بھی کی۔
شام کی صورت حال کے بارے میں رجب طیب اردوان نے کہا کہ شام کے مختلف حصوں میں اجتماعی قبروں کے انکشاف سے سابق صدر بشار الاسد حکومت کا خونی چہرہ بے نقاب ہو رہا ہے۔
ترک صدر نے عبوری شامی صدر احمد الشرع کی قیادت میں شام کے استحکام کے لیے امید کا اظہار کرتے ہوئے کہا کی کہ ملک جلد ہی امن حاصل کر لے گا۔
انہوں نے کہا کہ شام میں دہشت گرد گروہوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ، شام کے صدر دہشت گرد گروہوں کے خلاف لڑیں گے۔