دہلی میں27 سال بعد بی جے پی کامیاب؛ الیکشن میں عام آدمی پارٹی کو شکست کیوں ہوئی؟
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
نئی دہلی — بھارت کی حکمراں ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) نے نئی دہلی کے اسمبلی الیکشن میں 27 سال بعد واضح برتری حاصل کی ہے جب کہ تقریباً 10 سال حکومت میں رہنے والی عام آدمی پارٹی کو شکست ہوگئی ہے جسے کئی مبصرین غیر متوقع قرار دے رہے ہیں۔
پانچ فروری کو ہونے والے الیکشن میں ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی ہفتے کو ہوئی اور الیکشن کمیشن کے اعلان کے مطابق بی جے پی نے 70 رکنی اسمبلی میں 48 اور عام آدمی پارٹی نے 22 نشستیں حاصل کیں۔
انتخابات میں دہلی کے سابق وزیر اعلیٰ اروند کیجری وال، سابق نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا، وزیر سوربھ بھاردواج اور سابق وزیر ستیندر جین سمیت عام آدمی پارٹی کے کئی بڑے رہنما شکست سے دوچار ہوئے۔ البتہ وزیر اعلیٰ آتشی کامیاب ہوگئیں۔
وزیر اعلیٰ آتشی نے اتوار کو دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر (ایل جی) کو اپنا استعفیٰ پیش کردیا ہےجسے انھوں نے قبول کر لیا اور اسمبلی تحلیل کر دی ہے۔ وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لیےناموں پر بی جے پی میں غور کیا جارہا ہے۔
اروند کیجری وال نے اپنی اور اپنی پارٹی کی شکست تسلیم کر لی ہے۔ انھوں نے نتائج آنے کے بعد ایک ویڈیو پیغام میں بی جے پی کو اس کی کامیابی پر مبارک باد پیش کی اور اس امید کا اظہار کیا کہ عوام نے جن امیدوں کے ساتھ اسے اقتدار سونپا ہے وہ ان پر پورا اترے گی۔
انھوں نے مزید کہا کہ عوام نے ہمیں 10 سال تک خدمت کا موقع دیا اور ہم نے تعلیم، صحت، پانی، بجلی، بنیادی ڈھانچہ اور دیگر شعبوں میں اچھا کام کیا۔ ان کے بقول ہم تعمیری اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے کیوں کہ بقول ان کے ہم سیاست میں اقتدار کے لیے نہیں بلکہ عوامی خدمت کے لیے آئے ہیں۔
وزیر اعلیٰ آتشی نے اپنی کامیابی پر اپنے حلقے کے عوام کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ جیت گئی ہیں لیکن یہ جیت کی خوشی منانے کا موقع نہیں ہے۔ ان کے مطابق عام آدمی پارٹی بی جے پی کے خلاف اپنی لڑائی جاری رکھے گی۔
عام آدمی پارٹی کا قیام 2012 میں ہوا تھا اور 2013 میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں وہ سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت سے ابھری تھی۔ اس نے کانگریس کے ساتھ مل کر حکومت بنائی تھی لیکن چند ماہ کے اندر اروند کیجری وال نے اسمبلی تحلیل کر دی تھی۔
سال 2015 میں اسمبلی انتخابات ہوئے جن میں اسے 70 میں سے 67 سیٹوں پر کامیابی ملی تھی۔ بی جے پی کو صرف تین سیٹیں ملی تھیں۔ جب کہ کانگریس ایک بھی نشست حاصل نہیں کرسکی تھی۔
سال 2020 میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی کو 62 اور بی جے پی کو آٹھ سیٹیں ملی تھیں۔ اس لیکشن میں بھی کانگریس کو ایک بھی سیٹ نہیں ملی تھی۔
پانچ فروری کو ہونے والے انتخابات میں بھی کانگریس کو کسی نشست پر کامیاب نہیں ہوئی۔
نئی دہلی اسمبلی الیکشن کے لیے پانچ فروری کو پولنگ ہوئی تھی۔
عام آدمی پارٹی کو شکست کیوں ہوئی؟
تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ اس بار بھی عام آدمی پارٹی دہلی اسمبلی کے الیکشن میں میدان مار لے گی تاہم اس بات کا امکان ظاہر کیا جارہا تھا کہ اس کی سیٹیں پہلے کے مقابلے میں کم ہو جائیں گی۔ لیکن ایگزٹ پول کے نتائج بی جے پی کی اکثریت کا اشارہ دے رہے تھے جو درست ثابت ہوا۔
واضح رہے کہ پارلیمانی انتخابات سے قبل اپوزیشن جماعتوں نے ’انڈیا‘ نامی اتحاد قائم کیا تھا جس میں عام آدمی پارٹی بھی شامل تھی۔ لیکن ہریانہ اور پھر دہلی کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس اور عام آدمی پارٹی نے الگ الگ الیکشن لڑا۔
سینئر تجزیہ کار رویندر کمار کا کہنا ہے کہ عام آد می پارٹی کی شکست انڈیا اتحاد سے الگ ہو جانے یا الگ الیکشن لڑنے کی وجہ سے ہوئی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ انڈیا اتحاد کی بعض سیاسی پارٹیاں کیجری وال کو آگے اور کانگریس رہنما راہل گاندھی کو پیچھے کرنا چاہتی تھیں تاکہ کیجری وال 2029 کے پارلیمانی انتخابات میں وزیر اعظم نریندر مودی کو چیلنج کر سکیں۔
ان کے مطابق کیجری وال نے کانگریس کے خلاف کئی بیانات دیے مگر کانگریس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ لیکن جب انھوں نے راہل گاندھی پر بدعنوانی کا الزام لگایا تو پھر کانگریس پارٹی کھل کر میدان میں آگئی اور الیکشن سہ رخی ہو گیا۔
وہ کہتے ہیں کہ بی جے پی مخالف ووٹ تقسیم ہو گیا جس کی وجہ سے اسے کامیابی ملی۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ اروند کیجری وال، منیش سسودیا اور عام آدمی پارٹی کے دیگر کئی امیدوار جتنے فرق سے ہارے ہیں اس سے زیادہ ان حلقوں میں کانگریس کے ہارنے والے امیدواروں کو ووٹ ملے۔ اگر یہی ووٹ عام آدمی پارٹی کو ملا ہوتا تو حکومت اسی کی بنتی۔
دہلی کو گزشتہ برس کرپشن کے الزامات میں گرفتار کیا گیا تھا۔
’کرپشن کے الزامات سے ساکھ متاثر ہوئی‘
سینئر تجزیہ کار اور ’ستیہ ہندی ڈاٹ کام‘ کے ایڈیٹر آشوتوش کا کہنا ہے کہ دہلی انتخابات کے نتائج چونکانے والے ہیں۔ان کے خیال میں عام آدمی پارٹی کی شکست کے کئی اسباب ہیں۔
ان کے مطابق اروند کیجری وال نے جب اپنی پارٹی بنائی تھی تو انھوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ متبادل سیاست رائج کرنا چاہتے ہیں۔ ایسی سیاست جس میں بدعنوانی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوگی۔ لیکن وہ اس وعدے پر کھرے نہیں اتر سکے۔
ان پر اور منیش سسودیا پر بد عنوانی کے الزامات لگے اور انھیں جیل جانا پڑا جس سے ان کی ساکھ متاثر ہوئی اور ان کے سیاسی کردار پر حرف آیا۔
ان کے خیال میں عام آدمی پارٹی نے اپنے پہلے دور حکومت میں اچھا کام کیا تھا۔ لیکن دوسرے دور میں وہ کوئی قابل ذکر کام نہیں کر سکی۔ وہ دہلی میں مسلسل 10 سال تک برسراقتدار رہی جس کی وجہ سے حکومت مخالف رجحانات پیدا ہوئے۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ عام آدمی پارٹی میں جو رضاکار اور کارکن آئے وہ کیجری وال کی صاف ستھری سیاست کے وعدے پر آئے تھے۔ لیکن ان کے بقول ان رضاکاروں اور کارکنوں کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوا جس کی وجہ سے بہت سے کارکن پارٹی چھوڑ گئے۔
عام آدمی پارٹی اپنے رہنماوں پر بدعنوانی کے الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ الزامات سیاسی بدنیتی سے لگائے گئے۔ یہ الزامات آج تک ثابت نہیں ہو سکے۔
پارٹی کا مؤقف ہے کہ اس نے انتخابات میں جو وعدے کیے تھے وہ پورے کیے۔
بی جے پی نے 27 سال بعد دہلی اسمبلی کے الیکشن میں کامیابی حاصل کی ہے۔
’بی جے پی کے لیے وعدے پورے کرنا آسان نہیں ہوگا‘
انتخابات میں عام آدمی پارٹی، بی جے پی اور کانگریس تینوں نے عوام کو لبھانے کے لیے بہت سے وعدے کیے۔ مثال کے طور پر عام آدمی پارٹی نے خواتین کو ماہانہ 2100 روپے وظیفہ دینے کا وعدہ کیا تو بی جے پی نے 2500 روپے دینے کا وعدہ کیا۔ انھوں نے دیگر متعدد وعدے بھی کیے۔
اسی طرح کانگریس نے بھی خواتین اور بے روزگار نوجوانوں کو وظیفے دینے کے علاوہ بھی دیگر کئی اعلانات کیے۔ رویندر کمار کے مطابق بی جے پی نے سب سے زیادہ دینے کا اعلان کیا جس کا اثر پڑا اور بہت سے لوگوں نے ان وعدوں کی وجہ سے بھی اسے ووٹ دیا۔
لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بی جے پی نے جو وعدے کیے ہیں ان کو پورا کرنا آسان نہیں ہوگا۔ ان وعدوں پر عمل کرنے کے لیے دہلی کے بجٹ میں کئی گنا اضافہ کرنا پڑے گا۔
مسلم امیدوار
عام آدمی پارٹی نے پانچ مسلم اکثریتی علاقوں اوکھلا، بلی ماران، مٹیا محل، سیلم پور اور مصطفی آباد میں مسلمانوں کو امیدوار بنایا تھا۔
ان میں سے چار مسلم امیدوار اوکھلا سے امانت اللہ خاں، بلی ماران سے سابق وزیر عمران حسین، مٹیا محل سے آل محمد اور سیلم پور سے چوہدری زبیر احمد کامیاب ہوئے ہیں۔
بی جے پی نے ایک بھی مسلم امیدوار کو امیدان میں نہیں اتارا تھا۔
رکن پارلیمان اسد الدین اویسی کی پارٹی ’آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین‘ (اے آئی ایم آئی ایم) نے دو مسلم اکثریتی حلقوں اوکھلا اور مصطفی آباد میں باالترتیب شفاء الرحمن اور طاہر حسین کو امیدوار بنایا تھا۔
دونوں دہلی میں 2020 میں ہونے والے پرتشدد واقعات میں سازش کرنے کے الزام میں جیل میں ہیں۔ دونوں اپنے اوپر عائد الزامات کی تردید کرتے اور خود کو بے قصور بتاتے ہیں۔
دہلی کی ایک عدالت نے ان کو انتخابی مہم میں حصہ لینے کے لیے پانچ دن کے پیرول پر رہا کیا تھا۔ الیکشن میں دونوں امیدواروں کو بہت کم ووٹ ملے۔
کئی تجزیہ کار عام آدمی پارٹی کے مستقبل کے بارے میں غیر یقینی کیفیت میں مبتلا ہیں۔
رویندر کمار کا خیال ہے کہ عام آدمی پارٹی اقتدار سے نکلنے کے بعد ختم ہو جائے گی لیکن سینئر تجزیہ کار آشوتوش کے مطابق یہ کہنا قبل از وقت ہے۔
.ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان کھیل میں عام آدمی پارٹی عام آدمی پارٹی نے اسمبلی انتخابات اروند کیجری وال عام ا دمی پارٹی انتخابات میں دمی پارٹی کو کیجری وال نے ان کے مطابق بی جے پی نے کے الزامات الیکشن میں کہنا ہے کہ تجزیہ کار وزیر اعلی ہونے والے کی وجہ سے انھوں نے پارٹی کی ملی تھی کیا تھا کا کہنا نہیں ہو دہلی کے کے لیے تھا کہ
پڑھیں:
دہلی انتخابی نتائج پر بی جے پی کو مبارکباد پیش کرتی ہوں، پرینگا گاندھی
کانگریس کی ممبر آف پارلیمنٹ نے اپنی پارٹی کی مایوس کن کارکردگی کو دیکھتے ہوئے سخت محنت کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ دہلی اسمبلی الیکشن میں مسلسل تیسری بار کانگریس کو بڑا جھٹکا لگا ہے۔ kangris پارٹی کھاتہ کھولنے میں بھی ناکام رہی ہے، حالانکہ گزشتہ الیکشن کے مقابلے کانگریس نے ووٹ شیئر میں دو فیصد کا اضافہ کیا ہے۔ اسے اس بار 6.39 فیصد ووٹ ملے ہیں۔ کانگریس کو 2020ء میں 4.26 فیصد ووٹ ملے تھے۔ 2015ء میں کانگریس کو 9.7 فیصد ووٹ ملے تھے، دونوں الیکشن میں پارٹی کھاتہ بھی نہیں کھول سکی تھی۔ کانگریس کے لئے بڑا جھٹکا اس لئے بھی ہے کہ پارٹی صرف ایک سیٹ کستوربا نگر پر دو نمبر پر رہی۔ یہاں بھی ہار جیت کا فرق 11 ہزار ووٹوں کا ہے۔ کانگریس نے اس بار ریاستی صدر دیویندر یادو، آل انڈیا مہیلا کانگریس کمیٹی کی صدر الکا لانبا اور سابق وزیراعلیٰ شیلا دکشت کے بیٹے سندیپ دکشت جیسے بڑے لیڈروں کو ٹکٹ دیا گیا تھا۔ سبھی لیڈران الیکشن ہار گئے ہیں۔
کانگریس کی ممبر آف پارلیمنٹ پرینکا گاندھی نے بی جے پی کو مبارکباد دی ہے جو 27 سال بعد دہلی میں حکومت بنانے جا رہی ہے۔ انہوں نے اپنی پارٹی کی مایوس کن کارکردگی کو دیکھتے ہوئے سخت محنت کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ پارٹی کارکنوں کے نام ایک پیغام میں انہوں نے کہا کہ انہیں لوگوں سے جڑے رہنے اور ان کے خدشات کو زیادہ مؤثر طریقے سے دور کرنے کی ضرورت ہے۔ پرینکا گاندھی نے کہا کہ تمام میٹنگوں سے یہ واضح ہے کہ لوگ تبدیلی چاہتے ہیں۔ انہوں نے تبدیلی کو ووٹ دیا، جیتنے والوں کو میری مبارکباد پیش ہے۔ انہوں نے کہا "ہم میں سے باقی لوگوں کے لئے اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ہمیں سخت محنت کرنی ہوگی، زمین پر رہنا ہوگا اور لوگوں کے مسائل کے لیے حساس ہونا ہوگا"۔