Express News:
2025-02-10@14:11:31 GMT

سی ایس ایس اسپیشل کا نتیجہ اور مذہبی اقلیتیں 

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

فیڈرل پبلک سروس کمیشن نے سی ایس ایس خصوصی امتحان 2023 کے تحریری امتحان کے نتائج جاری کردیے ہیں، جن کے مطابق سی ایس ایس (خصوصی امتحان) 2023 کے تحریری امتحان میں 519 امیدوار کام یاب قرار پائے ہیں۔

21 ہزار 947 امیدواروں نے تحریری امتحان کی لیے رجوع کیا، تاہم 15ہزار 245 امیدواروں نے تحریری امتحان میں شرکت کی جب کہ تحریری امتحان میں کام یابی کا تناسب 3.

40 فی صد رہا۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے مطابق حتمی کام یابی کے لیے امیدواروں کا سی ایس ایس امتحان کے پانچوں حصوں یعنی  ایم سی کیو، تحریری، میڈیکل، نفسیاتی اور زبانی ٹیسٹ میں حاضر ہوکر تمام امتحانات پاس کرنا لازم ہے۔ تین چار سال پہلے تک یہ صرف چار مرحلوں پر مشتمل تھا، اب  اس میں سب سے پہلے پانچویں ایم سی کیو کے ٹیسٹ کا بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ سی ایس ایس (سینٹرل سپیریئر سروسز)  ایک اہم مسابقتی امتحان ہے، جس کا انعقاد ہر سال فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی جانب سے کیا جاتا ہے، سی ایس ایس امتحان پاس کرنے والے امیدواروں کو 17 گریڈ کے آفیسر کے طور پر سرکاری ملازمت میں بھرتی کیا جاتا ہے، امیدوار سی ایس ایس امتحان میں کام یابی کے بعد سول سروس آف پاکستان میں شمولیت اختیار کرتے ہیں۔ ان کی جن محکموں میں تعیناتی کی جاتی ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ 
2۔ پولیس سروسز آف پاکستان 
3۔ کسٹم اینڈ ایکسائز 
4۔  پوسٹل گروپ 
5۔ انکم ٹیکس گروپ 
6۔ انفارمیشن گروپ 
7۔ فارن سروسز آف پاکستان 
8۔ کامرس اینڈ ٹریڈ 
9۔ ملٹری لینڈ اینڈ کنٹونمینٹس 
10۔ آفس مینجمنٹ گروپ 
11۔ پاکستان آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس 
12۔ ریلوے (کمرشل اینڈ ٹرانسپورٹیشن گروپ)

سی ایس ایس اسپیشل کے تحریری امتحان میں کام یاب ہونے والے جن امیدواروں کے بارے میں مصدقہ اطلاعات ہیں اور یقین ہے کہ ان کا تعلق کسی مذہبی اقلیت سے ہے، ان کے نام درج ذیل ہیں:

1عروسہ اعظم، 2 انیل کمار، 3 جے کمار، 4 پوجا، 5 ذیشان، 6 اولویر پرویز، 7، سنیل کمار، 8روپا متی، 9 یشوب یوسف کامران سرویا، 10ثمرون افراہیم، 11سنیل یونس،  12 افزا زاہد۔ 519  کی فہرست میں سے یہ صرف 12ہیں۔ شاید ان ناموں میں چند  کا اضافہ بھی ہوجائے۔ کسی کے پاس اور پاس ہونے والے مزید اقلیتی امیدواروں کے  کنفرم نام ہوں تو  ضرور بتائے۔ 12 سے  15بھی ہوجائیں تو بھی یہ تعداد  519 کی فہرست میں بہت کم ہے، جب کہ یہ امتحان منعقد ہی صوبوں اور اقلیتوں کی  کوٹے پر ہر سال بچ جانے والی  اسامیوں کو پر کرنے کے لیے ہی منعقد کیا گیا تھا۔

یہ اقلیتی نشستیں محتاط اندازے کے مطابق 104کے قریب تھیں۔ اقلیتوں کا یہ کوٹا 2010 میں شہباز بھٹی (مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر، جنھیں 2011 میں انتہاپسندوں نے قتل کردیا) کی کوشش سے مختص کیا گیا تھا، لیکن میری تحقیق کے مطابق  اقلیتی امیدواروں کے پاس ہونے کی تعداد اس سے پہلے  ایک  بار ہی تین  ہوئی ہے۔ ہندو کمیونٹی کی کارکردگی اس سال بہت بہتر رہی، کیوںکہ اس سے پہلے 77 سال میں ہندؤوں کی تعداد بہت  ہی کم رہی ہے۔ کوٹے سے پہلے تو یہ نہ ہونے کے برابر تھی، لیکِن  برصغیر میں تعلیم کا استعارہ سمجھی جانے والی کمیونٹی  (مسیحی) جس کے پاس لگ بھگ ملک بھر میں  تین ہزار اسکولوں /تعلیمی اداروں کا نظام ہے، اس کے سماجی، اور خصوصاً مذہبی ورکروں/راہ نماؤں کے لیے مسیحی امیدواروں کی اتنی کم تعداد میں کام یابی لمحہ فکریہ ہے۔

خدارا! کچھ سوچیں۔ تحریک شناخت کے رضاکاروں کے لیے ڈھیروں مبارک باد اور خراج تحسین،  جنہوں نے  2020 سے اس امتحان کی آگاہی مہم چلائی ہوئی تھی۔ تحریک شناخت اپنے اغراض ومقاصد کے ساتھ  معاشرتی بیگانگی کا مرض دور اور دیگر اقدامات کی نشان دہی کرنے کے ساتھ اعلٰی ملازمتوں کے لیے  نوجوانوں کو راغب  کرنے پر پچھلی تین دہائیوں سے زور دے رہی ہے، لیکن 2020 میں اس امتحان کے منعقد ہونے کے اعلان  کے بعد جب تحریک شناخت نے اس امتحان کی آگاہی مہم کو منظم انداز میں شروع کیا تو اکثر مسیحی  زعماء کہا کرتے تھے کہ  لگتا ہے، اس آگاہی مہم کا زیادہ فائدہ ہندو بھائی اٹھائیں گے۔

نتائج یہی بتا رہے ہیں، جو  بہت خوشی کی بات ہے۔ ملک بھر کے کم وسائل والے  اور پسے ہوئے طبقات کے لیے ان نتجائج میں ایک اور امید افزا بات  یہ ہے کہ 6 ہندو امیدواروں میں سے پانچ کا تعلق شیڈول کاسٹ ہندو  کمیونٹی سے ہے۔ یقیناً یہ تحریک شناخت کے رضاکاروں کے لیے خوشی کی خبر ہے، کیوںکہ  1926 سے 2023 تک کے  ریگولر امتحان کے نتائج میں صرف  31 مسیحی ہی اس امتحان کو پاس کرکے  پاکستان کی بیوروکریسی میں شامل ہوئے ہیں۔ 

تحریک شناخت کے رضاکار کوئی سکہ بند سماجی کارکن نہیں اس لیے ان کی آگاہی مہم کے یہ اثرات بھی کافی ہیں۔ گوکہ تحریک شناخت کی آگاہی مہم  کے بعد مسیحیوں کے مذہبی وسماجی راہ نماؤں نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لیا، لیکن  نتائج  بتارہے ہیں کہ یہ ایک الگ استعدادکار  والا شعبہ ہے، جب کہ  مذہبی راہ نماہ اور ان کے زیرانتظام تعلیمی ادارے چلانے والے مسیحی بے چارے  اس استعداد کار کے حامل نہیں ہیں۔

اسی وجہ سے  یہ نتائج  بہت ہی مایوس کن ہیں، جب کہ مسیحیوں کے پاس تین ہزار اسکولوں کا نیٹ ورک  لاکھوں سیاسی، سماجی اور مذہبی   کارکن جو راہ نما کہلانے پر بضد ہیں اور ان کے طفیلی انھیں کہتے بھی ہیں۔ شان دار کیریئر کے حامل افسران کی وراثت پھر بھی  104 اسامیوں میں سے صرف  6 مسیحیوں کے  حصے میں آئی ہے۔ گوکہ اب تک کے اعدادوشمار کے مطابق مجموعی طور پر تمام اقلیتیں بھی صرف 12 اسامیاں ہی حاصل کرپائی ہیں۔ اگر  مسیحی اپنی تعلیمی اداروں کی اس طاقت کو منظم اور  طویل المیعاد منصوبہ بندی سے  استعمال کریں، تو نتائج یقیناً بہت اچھے نکل سکتے ہیں، لیکن یہ اور اس طرح کے دیگر  کام  بڑی عرق ریزی اور منصوبہ بندی   سے کرنے ہوتے ہیں، جس کے لیے اہلیت کے ساتھ  نیک نیتی اور خلوص کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

خدا کرے کہ مسیحیوں کے حقیقی محسنوں (تحریک شناخت کے رضاکاروں) جیسے  دیگر لوگ بھی میدان میں آئیں۔ ملک میں اس طرح کی ایک آدھ مثالیں ہیں بھی لیکن وہ راویتی ہیں، جب کہ یہ جنگی بنیادوں پر کرنے والا کام ہے، جسے  روایتی طریقوں سے ہٹ کر کرنا پڑے گا، جس کے لیے  بے لوث  جذبے سے  اس سوچ کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔ 2017 کی ن لیگی حکومت کے بنائے ہوئے سرکاری کاغذات کے مطابق  یہ 33 لاکھ 7 سو 88 اور 2017 کے سے پہلے کی مردم شماریوں کے اعدادوشمار کے مطابق یہ 5687996 مسیحی  سارے کہ سارے ہی نہ تو اپنا روز گار محرومیوں کی سوداگری، جمہوری غلامی یا شعبدے بازی سے منسلک کرسکتے ہیں، نہ ہجرت کرسکتے ہیں۔ نہ ہی ہر وقت معاشرتی بیگانگی کے مرض میں مبتلا ہوکر فرار کی ذہنی کیفیت  میں زندگی گزار سکتے ہیں۔

 خدا کرے کہ اس فکر کا اثر ان شخصیات پر بھی ہو، جن کے زیرانتظام ہمارے تعلیمی ادارے اور گرجے کا نظام ہے، اور وہ کھلے دل و دماغ کے ساتھ ان اداروں کے دروازے بھی ان نوجوانوں کے لیے کھول دیں جن کے پاس ایسے کاموں کو کرنے کی اہلیت ہے۔ تاہم دنیا بھر کی تاریخ گواہ ہے کہ  کسی بھی غیرروایتی، نئی سوچ کو  مذہبی اداروں کی طرف سے  ہمشیہ رکاوٹوں کا  سامنا رہا ہے۔ مجبوری یہ ہے کہ پاکستانی مسیحی سماج کی ساخت ایسی ہے کہ اسے گرجے کی طرف ہی دیکھنا پڑتا ہے۔  ایسا کیوں ہے؟؟ یہ پورا پی ایچ ڈی کا تھیسس ہے جسے مختصر ہم یوں بیان کر سکتے ہیں کہ پاکستان کے مسیحیوں کے پاس جو کچھ ہے وہ کسی نہ کسی طرح گرجے اور اس کے ذیلی اداروں کی وجہ سے ہے۔

اور جو بہت کچھ ہوسکتا ہے، تھا اور نہیں ہے۔۔۔اس کی وجہ بھی  گرجا اور اس کے ذیلی ادارے ہی ہیں، جس کی ایک وجہ برصغیر میں مسیحیت اور ان اداروں کے عظیم بانیوں  کے کم اہلیت کے خودغرض جانشین ہیں، جن کے قبضے میں تاریخ اور معاشرے کے جبر اور معروضی حالات کی بدولت یہ ادارے آگئے ہیں۔

ہندو جاتی اور شیڈول کاسٹ ہندوؤں کی بیوروکریسی یا ایسے دیگر شعبوں میں میں  کم  تعداد  ہونے کی وجہ بالترتیب  پہلی قسم کے بیوپار/ دوکان داری میں زیادہ دل چسپی جب کہ دوسری قسم  کے گروہ کی  روایتی تاریخی پس ماندگی ہے، جب کہ مسیحیوں کے کیس میں عام مسیحی کی اس تاریخی پس ماندگی کے دیگر عوامل سے جنم لیتی معاشرتی بیگانگی کے ساتھ ان کے سماجی سیاسی اور مذہبی راہ نماؤں کی شعوری پس ماندگی ایک بڑی وجہ ہے۔

 تھوڑا سا غیرروایتی سوچنے کی ضرورت ہے۔ پھر جب ایک مسیحی  سیاسی راہ نماہ شہباز بھٹی نے یہ راستہ 2010 سے پہلے کے مقابلے میں بہت آسان  بھی کر دیا ہے، تو قابل احترام ممسر (مسیحی مذہبی، سیاسی، سماجی راہنماؤں) خواتین و حضرات آپ تھوڑی سی محنت کرلیں تو اس کام سے نیک نامی اور دولتِ بھی بہت  کما سکتے ہیں۔ اس کام کے لیے چندے بھی بہت مل سکتے ہیں۔ بس بقول اقبال طرزکہن پر اَڑنے اور آئین نو سے ڈرنے کی عادتیں ترک کرنی پڑیں گی۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: تحریک شناخت کے کی ا گاہی مہم مسیحیوں کے سی ایس ایس امتحان کے کے مطابق سکتے ہیں کام یابی میں کام کے ساتھ سے پہلے کے پاس کے لیے

پڑھیں:

ملتان، ایم ڈبلیو ایم کے وفد کی کمشنر ملتان سے ملاقات، مذہبی رواداری کے فروغ پر تبادلہ خیال 

 کمشنر ملتان نے کہا کہ ملتان ڈویژن پُرامن اور مذہبی رواداری کی بہترین مثال ہے، علمائے کرام، مشائخ عظام اور مذہبی رہنمائوں کی ذمہ داری ہے کہ علاقے کی فضا کو سازگار بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔  اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے وفد نے کمشنر ہائوس ملتان میں کمشنر ملتان عامر کریم سے ملاقات کی۔ ایم ڈبلیو ایم کے وفد میں مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل سلیم عباس صدیقی، صوبائی صدر جنوبی پنجاب علامہ اقتدار حسین نقوی، سیکرٹری میڈیا سیل عاطف سرانی اور ضلعی صدر وہاڑی سید ساجد علی نقوی شامل تھے۔ دوران ملاقات ملتان ڈویژن میں مذہبی رواداری اور ہم آہنگی پر زور دیا گیا، کمشنر ملتان نے کہا کہ ملتان ڈویژن پُرامن اور مذہبی رواداری کی بہترین مثال ہے، علمائے کرام، مشائخ عظام اور مذہبی رہنمائوں کی ذمہ داری ہے کہ علاقے کی فضا کو سازگار بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ایم ڈبلیو ایم کے وفد نے عامر کریم کو کمشنر ملتان مقرر ہونے پر مبارکباد دی اور پھولوں کا گلدستہ بھی پیش کیا۔ 

متعلقہ مضامین

  • کندھکوٹ،مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنما احتجاج کررہے ہیں
  • کثیرالقومی امن بحری مشقوں کے دوران اسپیشل سروس کا جوان مشقوں میں مصروف ہے
  • ملک میں موجودہ سیاسی عدم استحکام عوامی انتخابی فیصلے کو نہ ماننے کا نتیجہ ہے، فواد چوہدری
  • ملک میں سیاسی عدم استحکام عوامی انتخابی فیصلے کو نہ ماننے کا نتیجہ ہے، فواد چوہدری
  • امیر گیلانی کی شیندی کی تقریب میں ماورا حسین کیلئے اسپیشل پرفارمنس
  • لاڑکانہ: آرٹس کونسل لاڑکانہ کے منتخب عہدیداران کا اسپیشل اسسٹنٹ چیف منسٹر خیر محمد شیخ کے ساتھ گروپ فوٹو
  • ملتان، ایم ڈبلیو ایم کے وفد کی کمشنر ملتان سے ملاقات، مذہبی رواداری کے فروغ پر تبادلہ خیال 
  • دہلی انتخابات میں شکست انڈیا الائنس کی آپسی لڑائی کا نتیجہ ہے، عمر عبداللہ
  • اے آئی کی مذہبی معاملات میں مدد؟