Express News:
2025-02-10@14:10:34 GMT

ریل کی تنگ گلیاں اور کھنڈرات

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

آخری قسط

 ہم نے بنا وقت ضائع کیے اپنا رخ عطاء اللّہ عیسیٰ خیلوی کے شہر عیسیٰ خیل کی طرف کرلیا۔ ضلع میاں والی کی تین تحصیلوں میں سے ایک تحصیل عیسیٰ خیل ہے۔ قبیلہ عیسیٰ خیل نیازیوں کا سردار قبیلہ ہے جو عیسیٰ خیل سمیت بنوں، لکی مروت اور پنجاب کے مختلف علاقوں میں آباد ہیں۔

میڈم نورجہاں نے پنجابی زبان کا گانا ’’چل چلیے عیسیٰ خیل، جتھے چلدی اے چھوٹی ریل‘‘ گا کر عیسیٰ خیل کے شہر کو پاکستان بھر میں شہرت بخشی تھی اور پھرعیسٰی خیل ہی کے ایک بیٹے عطاء اللّہ خان عیسٰی خیلوی نے اردو پنجابی سرائیکی کے سیکڑوں مقبول ترین گانے گا کر اپنی دھرتی کا قرض ادا کردیا۔

جب فرنٹیئر صوبہ 1901 میں صوبہ قرار پایا تو میانوالی ضلع بھی اسی سال 1901 میں پنجاب کا ضلع قرار پایا۔ انگریز سے قبل سکھ پنجابی بنوں پر قابض رہے۔ کچھی میانوالی کی زمینوں میں بھی سکھی راج نے ایک مقدس جنگ ’’گھلوگھارا‘‘ کے نام سے لڑی تھی۔ عیسیٰ خیل کا ماحول بیک وقت پہاڑی بھی ہے اور میدانی بھی۔ دریائے سندھ اس کے بہت قریب سے گزرتا ہے اور درحقیقت عیسیٰ خیل ایک گنگا جمنی سنگم کا شہر ہے کہ دریائے کُرم کوہ سلیمان سے نکل کر عیسیٰ خیل میں دریائے سندھ میں آن کر ملتا ہے۔

یہی درہ ء تنگ نیازی پٹھانوں کی پرانی باہمی خانہ جنگی کی رزم گاہ کا میدان بھی بنا تھا۔ ہم سڑک پر سے گزر رہے تھے کہ میرے راہ نما نے اچانک موٹرسائیکل کو بریک لگا دی۔ ہم جس گھر کے سامنے کھڑے تھے اس پر بڑا سا عیسیٰ خیلوی لکھا تھا۔ یہ عظیم سرائیکی گلوکار عطاء اللّہ عیسیٰ خیلوی کا گھر تھا۔

میں نے گھر کے باہر کھڑے ہو کر تصویر بنوائی اور چپ چاپ عیسیٰ خیل ریلوے اسٹیشن کی جانب چل پڑا۔ آج اگر یہ تنگ پٹری بحال ہوتی تو عیسٰی خیل ریلوے اسٹیشن اس روٹ کا ایک خوب صورت ریلوے اسٹیشن ہوتا۔ عمارت تو ایک کمرے کی تھی اور یہ کمرا بھی بلند تھا مگر ریلوے اسٹیشن پر بہت سے کھجوروں کے درخت تھے۔

ذرا سوچیں کہ ریل جب ان کھجوروں کے درختوں میں سے گزرتی ہوگی تو کیسا سماں ہوتا ہوگا۔ سورج جلدی سے ان کھجور کے درختوں کے پیچھے ڈوب رہا تھا۔ میں واپسی کے راستوں کی خطرناکی سے ناواقف تھا۔ میرا راہ نما مجھے مسلسل کہہ رہا تھا کہ سورج ڈوب رہا ہے اور واپسی کا راستہ کچھ زیادہ محفوظ نہیں۔ عیسیٰ خیل کی ایک اور پہچان اردو کے معروف نعت گو شاعر جناب تلوک چند محروم بھی ہیں جو کہ دہلی یونیورسٹی کے وائس چانسلر جگن ناتھ آزاد کے والد تھے۔ ہم جلدی سے عیسیٰ خیل ریلوے اسٹیشن سے نکلے اور درہ تنگ کی جانب سفر شروع کردیا۔ پنجاب کو خیبر پختونخوا سے ملوانے والا ایک چھوٹا سا درہ اصل میں درہ تنگ کہلاتا ہے۔

اس درے کو کاٹ کر اندر سے ایک سڑک نکالی گئی ہے۔ چوں کہ یہ درہ بہت تنگ سا ہے اس لیے اسے درہ تنگ کہتے ہیں۔ اس کے ایک طرف تحصیل عیسیٰ خیل جب کہ دوسری طرف تحصیل لکی مروت ہے۔ ہمیں سارے راستے تنگ پٹری نہ ملی۔ یہاں تک کہ کسی ریلوے اسٹیشن پر بھی تنگ پٹری نہ تھی مگر جوں کہ ہم درہ تنگ کو پار کر کے دریائے کُرم کے اوپر بنے پل پر آئے تو ہمیں ایک طرف ریلوے لائن کے لیے بنا ہوا لوہے کا پل بھی مل گیا۔ یہ تنگ پٹری کا پُل تھا۔ اس پر پٹری دریائے کُرم کی وجہ سے ہی بچی ہوئی تھی۔ دریائے کُرم پر بنا ہوا پل جوں ہی ختم ہوا تو میں وہیں کھڑا سورج کو ڈوبتے ہوئے دیکھتا رہا۔ سورج تقریباً ڈوب چکا تھا۔ تنگ پٹری کی ریل کا پل جوں ہی ختم ہوا تو تقریباً اس کے ساتھ ہی کھجوروں کا ایک باغ تھا۔

کھجور کے درختوں سے بھرا ہوا ایک باغ اور اس باغ کے بیچوں بیچ ایک چھوٹی سی پرانی سی بوسیدہ عمارت تھی۔ یہی تھانے دار والا ریلوے اسٹیشن تھا۔ ہم نے تھانے دار والا ریلوے اسٹیشن کو دور سے ہی دیکھا اور لکی مروت یونیورسٹی کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے چشمہ کی جانب چلے گئے۔ ہم نے لکی مروت اور بنوں جانے کا فیصلہ معطل کردیا۔ اپنی ریل کی تنگ پٹری کے مضمون میں، میں نے سید صفدر رضا صاحب کا ذکرِ خیر کیا تھا جنھوں نے مجھے اس طرف لگایا کہ مجھے اس تباہ حال ٹریک کے ساتھ ساتھ سفر کرنا چاہیے۔ شاید انھیں بھی علم نہیں تھا کہ یہ تباہ شدہ ٹریک اب سرے سے ہی اکھاڑ دیا گیا تھا۔ کہیں راستے بھر میں ذرا برابر بھی اس ٹریک کا کوئی نام و نشان نہیں بچا۔

ایسے میں میں نے یہ ضروری سمجھا کہ صفدر رضا صاحب سے ان کے سفری احوال کو سنا جائے جو انھوں نے اگست 1984 میں اپنے دو دوستوں شیخ ساجد محمود اور ملک حاجی گل چدھرڑ کے ساتھ دریا خان سے بنوں تک کیا تھا۔ صفدر رضا صاحب کا شکریہ کہ انھوں نے اپنے قیمتی وقت میں سے وقت نکالا اور مجھے اپنی ساری روداد سنائی۔ اس سفرنامے کو قلم بند کرنا اس لیے بھی ضروری تھا کہ یہ ٹریک اب ختم ہوچکا ہے۔

نام و نشان بھی باقی نہیں۔ کم از کم میرے اس روداد کو قلم بند کرنے سے یہ سفر کسی نہ کسی حد تک کاغذوں میں محفوظ تو ہوجائے گا جس کا نام و نشان اب اس زمین سے ہی ہٹا دیا گیا ہے۔ خدا ان لوگوں کو نشانِ عبرت بنائے جن لوگوں نے میرے ملک کے اس محکمے کو لوٹ کر کھوکھلا کردیا۔ اب سفری احوال اگر صفدر رضا صاحب کی زبانی سنا جائے گا تو لطف دوبالا ہوجائے گا:

……………

 زمانہ جولائی 1984 کا تھا اور میں ایف سی کالج لاہور میں پڑھتا تھا۔ بنیادی طور پر تعلق دریا خان سے تھا۔ ہم تین لنگوٹیے یار تھے۔ لنگوٹیے تھے تو تینوں کا تعلق ایک ہی شہر سے ہوگا یعنی دریا خان سے۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ میرا داخلہ ایف سی کالج لاہور میں ہوگیا، شیخ ساجد محمود گورنمنٹ کالج فیصل آبادچلا گیا جب کہ حاجی گل گورنمنٹ کالج سرگودھا۔ تینوں میں باقاعدہ خط و کتابت ہوتی تھی اور کیا ہی خوب خط و کتابت ہوتی تھی۔

ہر کوئی خطوں میں اپنی روزمرہ کی باتیں تو بتاتا ہی بتاتا مگر ساتھ ساتھ ہم یاردوست اپنے دل کا حال بھی بیان کرتے۔ (حال دل میرا ہاتھ تھا ان کے تو ہاسٹل کی دال روٹی کا رونا جاری رہتا) ایک دوسرے سے دور ہونے کے باوجود بھی ہم ان ہی خطوط کی وجہ سے بہت قریب بھی تھے۔

کسی چھٹی کے روز میں ہالی وڈ کی فلم دیکھ رہا تھا جس میں ہیرو ایک بھاپ چھوڑتی ریل کے پیچھے بھاگ رہا تھا۔ یہ ایک تنگ پٹری والی ریل تھی۔ فلم دیکھتے دیکھتے میرا دماغ نہ جانے کیوں گھوما اور میں فلم روک کر کاغذ قلم لے کر بیٹھ گیا۔ میں نے سرگودھا اور فیصل آباد خط لکھے کہ اگست کی فلاں فلاں تاریخ کو ہم سب دریا خان میں جمع ہوں گے۔ ان زمانے میں رات گئے ملتان سے پشاور جانے والی ایک ریل دریا خان سے گزرتی تھی جو داؤد خیل سے ہوتے ہوئے براہ راستہ اٹک پشاور جاتی تھی۔

میرے دوست بھی ایسے شہزادے دوست تھے کہ یہاں میں نے ایک منصوبہ بنایا، دوستوں کو خطوط سے آگاہ کردیا اور وہاں میرے دوست بغیر بحث و مباحثہ کہ مقررہ تاریخ پر دریا خان جمع ہوگئے۔ 3 اگست 1984 وہ دن تھا جب ہم تینوں نے اپنے اس سفر کا آغاز دریا خان ریلوے اسٹیشن سے کیا۔ لاابالی سی کچی سی عمر تھی ہم تینوں یاروں کی۔ نہ کچھ زیادہ سوچا اور نہ نفع نقصان کا حساب لگایا کہ اس سفر سے ہمیں حاصل کیا ہو گا؟ مگر آج جب ہم تینوں ہی پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو ہمیں صرف وہی ایک سفر یا اس جیسے اسفار ہی حاصل کے طور پر محسوس ہوتے ہیں باقی سب تو وقت کا ضیاع ہی تھا۔

اگر اسے وقت کا ضیاع نہ بھی کہا جائے تو کوئی حرج نہیں مگر کوالٹی آف ٹائم وہی تھا جو ہم تینوں یاروں نے ایک دوسرے کی سنگت میں گزرا۔ شاید ہی دنیا کا کوئی ایسا موضوع ہو جو اس رات ہم تینوں سے بچ گیا ہو۔ سب مسافر جب خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے تھے، تب بھی نیند ہم تینوں سے بہت دور تھی۔ نیند ہمیں کیا آتی، الٹا ہم تینوں نیند کے گلے پڑ گئے اور اسے ایسا بھگایا کہ پھر ہمارے پاس نہ آئی۔ صبح سویرے ہم داؤدخیل ریلوے جنکشن پر تھے۔ یہیں پر ہمیں اس گاڑی کو چھوڑنا تھا کیوں کہ اس ریل گاڑی کو آگے کیمبلپور اور پھر پشاور کے لیے نکل جانا تھا جب کہ ہماری وقتی منزل بائیں جانب ماڑی انڈس کا ریلوے اسٹیشن تھا۔ داؤد خیل ریلوے جنکشن سے پتا چلا کہ ماڑی انڈس جانے والی گاڑی کے آنے میں ابھی دیری ہے۔ ہم سب نے ڈاٹسن سے ماڑی انڈس جانے کا فیصلہ کیا اور پندرہ سے بیس منٹ کے بعد ہم ماڑی انڈس ریلوے اسٹیشن پر تھے۔

گھڑی پر آٹھ بج چکے تھے۔ ماڑی انڈس ریلوے اسٹیشن بھی جوبن پر تھا۔ ناشتے کے ٹھیلے لگے تھے۔ ہم نے اس تنگ پٹری والی ریل کی معلومات لیں تو پتا چلا کہ یہ گاڑی گیارہ بجے ماڑی انڈس سے روانہ ہوگی۔ ماڑی انڈس ریلوے اسٹیشن پر خوب گہماگہمی تھی۔ 4 اگست کا سورج طلوع ہوچکا تھا۔ ہم تینوں دوست اس پلیٹ فارم پر اٹھکھیلیاں کرنے لگے جس کے ایک طرف چوڑی پٹری والا ٹریک تھا جب کہ دوسری طرف تنگ پٹری والا ٹریک تھا۔ چوڑی پٹری والی ریل سے مسافر اترتے، سامان بھی اترتا اور اسے پلیٹ فارم کے دوسری طرف کھڑی تنگ پٹری والی ریل میں رکھ دیا جاتا۔ ہماری ریل گاڑی بھی اس تنگ پٹری پر لگ چکی تھی۔

آگے baby  انجن لگا تھا جو بات بات پر ناراض ہوکر دھواں چھوڑنا شروع کردیتا۔ گیارہ بجے تنگ پٹری والی یہ ریل ماڑی انڈس ریلوے اسٹیشن سے نکلی اور ساتھ ہی دریائے سندھ پر 1916 میں بنے پل سے گزرتے ہوئے دریائے سندھ کے پار کالاباغ کی جانب مڑگئی۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ دس سال پہلے یعنی اپنے بچپن میں (یہ بات 1974 کی ہے) جب ہم اپنی منہ بولی خالہ کے گھر گئے تھے جو ان دنوں کالا باغ میں مقیم تھیں۔ ہم ماڑی انڈس تک تو ریل پر ہی گئے مگر دریائے سندھ کو پار کرنے کے لیے ہم ایک کشتی پر سوار ہوئے جس کا کرایہ اس وقت مبلغ آٹھ آنے تھا۔

(اگر آپ کے ذہن میں یہ تنگ پٹری والی ریل نہیں آ رہی کہ یہ کیسی ہوتی ہوگی، رفتار کیسی ہوگی تو اپنے ذہن میں شاہ رخ خان کا مشہورِزمانہ گانا لے آئیں جو اردو کی محبت میں گلزار نے بھلے شاہ کے تھیا تھیا سے متاثر ہوکر لکھا تھا) تنگ پٹری والی یہ ریل کالا باغ ریلوے اسٹیشن سے نکلی تو کبھی کھیت راستے میں آن پڑتے تو کبھی پہاڑی علاقہ شروع ہوجاتا۔ ریل دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے بائیں جانب مڑنے لگی تو کمرمشانی، ترگ اور عیسیٰ خیل کے ریلوے اسٹیشن سے گزرتے ہوئے ریل گاڑی اس وقت کے صوبہ سرحد کی جانب مڑتے ہوئے درہ تنگ کی طرف مڑگئی۔

درہ تنگ پر بنا لوہے کا یہ پل ریل اور عام ٹریفک، دونوں کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ ریل لٹکتی، مچلتی، کسی کی محبت میں سیٹیاں مارتے ہوئے جب عیسیٰ خیل ریلوے اسٹیشن پر پہنچی تو تقسیم کے زخم تازہ ہوگئے۔ عیسٰی خیل کی ایک پہچان اردو کے معروف نعت گو شاعر جناب تلوک چند محروم بھی ہیں جوکہ دہلی یونیورسٹی کے وائس چانسلر جگن ناتھ آزاد کے والد تھے۔ تلوک چند برصغیر کی تقسیم کے وقت بھارت چلے گئے تھے۔ بھارت جا کر بھی وہ اکثر اپنے آبائی علاقے کو یاد کرتے۔ ان کی نظموں میں اپنی زمین کی محبت واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔

اے رود کرم! کیجیو پیغام رسانی

جب دور سے آ جائے نظر سندھ کا پانی

جو بھی کہوں للّٰہ اسے یاد سے کہنا

حسرت بھری آواز میں فریاد سے کہنا

کہنا کہ مسافر کوئی آوارۂ غربت

دیتا تھا سلام اور کہتا تھا بہ حسرت

اے آبِ اباسین! کہ بصد موجِ رواں ہے

معلوم ہے تجھ کو ترا شیدائی کہاں ہے

بہ چاک ِ گریبان کہیں خاک بہ سر ہے

مشغول تری یاد میں با دیدۂ تر ہے

ہیں یاد اسے آج بھی سرسبز کنارے

بے چارے کی آہوں سے نکلتے ہیں شرارے

ملاحوں کے ہیں گیت اسے یاد ابھی تک

چپکے سے گاتا ہے دلِ ناشاد ابھی تک

 انگریزوں کی بنائی ہوئی تنگ پٹری والی ریل آج بھی بھارت، بنگلہ دیش میں چلتی ہے، شہروں کے اندر سرکل ریل چلتی ہے مگر ہمارے یہاں نہ جانے کیوں ریلوے مسلسل زوال کا شکار ہے۔ ریل کو توسیع دینے کی بجائے ہم نے اس کو کم ہی کیا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق بھارت تقسیم کے بعد سے اپنے ریلوے کے نظام کو تقریباً ساٹھ فی صد تک بڑھا چکا ہے۔

تیزرفتار بندے ماترم ریل اور جموں میں دریائے چناب پر بنائے گئے پل کی وجہ سے بھارت نے اپنے تقریباً ہر علاقے کو ریل سے جوڑ دیا ہے مگر ہم سے کراچی سرکلر ریل تک نہیں چل رہی۔ تنگ پٹری کو وسیع کرنے کی بجائے ہم نے اسے مکمل ختم ہی کردیا۔ یہاں تک کے پٹری کو بھی اکھاڑ دیا۔ یہ دکھ بھی وہ دکھ ہیں جو ہر وطن سے محبت کرنے والے شخص کے دل میں ہیں۔ ماڑی انڈس سے عیسیٰ خیل تک کا علاقہ سرسبز ہے مگر جوں ہی آپ درۂ تنگ کے قریب ہوتے ہیں تو شمال کی جانب نیم صحرائی علاقہ شروع ہوجاتا ہے۔

درۂ تنگ کے فوراً بعد ہی دریائے کُرم پر بنے پل پر سے جب ریل گزرتی ہے تو ریل سے محبت کرنے والوں کے دلوں میں عجب ہی سماں ہوتا ہے۔ دریائے کُرم پر بنا ریلوے پل ختم ہوا تو تھانہ دار ریلوے اسٹیشن آ گیا۔ تھانے دار ریلوے اسٹیشن کا آنا تھا کہ میں اور حاجی گل خان، ساجد خان کو مذاق کرنے لگے کہ اس کے والدِ محترم نے ہمارے استقبال کے لیے یہاں ریلوے اسٹیشن بنا دیا ہے۔ اس مزاح کی وجہ یہ تھی کہ ساجد خان کے والد پنجاب پولیس میں تھے۔ تھانے دار والا ریلوے اسٹیشن پر گاڑی تھوڑی دیر کو رکی اور پھر لکی مروت کی جانب چل پڑی۔ لکی مروت تب ایک جنکشن تھا۔

یہاں سے ایک پٹری بنوں کی جانب جاتی تھی جب کہ دوسری ٹانک کی جانب اور دونوں ہی تنگ پٹریاں یعنی narrow gauge تھیں۔ الحمد اللہ لکی مروت کا یہ جنکشن بھی اب ترک شدہ ہے۔ لکی مروت ریلوے اسٹیشن چوں کہ اس وقت ایک جنکشن تھا، اس لیے پُررونق تھا۔ یہاں بے بی انجن میں پانی بھرا جاتا اور ریل کافی دیر کے لیے یہاں رکتی تھی۔ یہیں اسی ریلوے اسٹیشن پر ہم نے اپنی اپنی زندگیوں کا بہترین چکن بھی کھایا تھا۔ ہم نے عیسیٰ خیل ریلوے اسٹیشن سے ایک ٹیلی گرام لکی مروت ریلوے اسٹیشن بھیجا تھا کہ تین افراد کے لیے چکن تیار رکھا جائے۔

لکی مروت ریلوے اسٹیشن پر پہنچنے سے پہلے ہی ہمارے لیے روٹی سلاد سمیت چکن تیار تھا اور کھانا ہمیں ریلوے کی اپنی کراکری میں پیش کیا گیا جس کا بِل ہم نے ساڑھے گیارہ روپے ادا کیا۔ چوں کہ برسات کے دن تھے تو راستے میں بہت سارے برساتی ندی نالے ملے۔ کپڑے اور شوگر کی ملیں بھی ان علاقوں میں تھیں جب کہ کھجوروں کے درختوں کی تو بہتات تھی۔ ریل کی رفتار اس قدر سست ہوتی تھی کہ ریل جب کسی بازار سے گزرتی تو آپ آرام سے اتر کر کوئی شے خرید سکتے تھے اور پھر کسی دوسری بوگی میں سوار ہوجاتے تھے۔ لکی مروت جنکشن سے جو ریل چلی تو سیدھا بنوں ریلوے اسٹیشن پر جا کر رکی اور یہیں ہمارا یہ سفر ختم ہوگیا۔ سفر تو ختم ہوگیا مگر اس سفر کے سب مناظر، واقعات، تنگ پٹری کی وہ ریل، کسی کی محبت میں سیٹی بجاتا ہوا کالا انجن ہمیں آج بھی یاد ہے۔ اچھی بات تو یہ ہے کہ یہ سب ہمیں ذرا ذرا نہیں یاد بلکہ پورے کا پورا یاد ہے۔ اگلے روز ہمارا ارادہ کافرکوٹ کے کھنڈرات جانے کا تھا۔ سب سے پہلے تو یہ نوٹ کریں کہ کافر کوٹ کیسے جایا جائے؟ سب سے پہلی بات نوٹ کرلیں کہ کافرکوٹ کے کھنڈرات دو مختلف جگہوں پر ہے۔

ایک کافرکوٹ شمالی ہے جب کہ دوسرا کافرکوٹ جنوبی کہلاتا ہے۔ اگر آپ میاں والی / چشمہ کی طرف سے کافرکوٹ جا رہے ہیں کہ چشمہ پاور پلانٹ پار کرنے کے کچھ ہی دیر بعد پنجاب کی سرحد ختم ہوجائے گی اور آپ کو سڑک پر ایک بورڈ نظر آئے گا۔ کچھ ہی آگے جاکر خیبر پختونخوا پولیس کی پہلی چوکی آئے گی اور سڑک دو حصوں میں V کی شکل میں تقسیم ہوجائے گی۔ دائیں ہاتھ والی سڑک لکی مروت کو جائے گی جب کہ دوسری طرف ڈیرہ اسماعیل خان کی طرف جائے گی۔ اگر آپ لکی مروت کی طرف مڑیں تو دریائے سندھ دائیں جانب آپ کے ساتھ ساتھ چلے گا۔ تھوڑے ہی فاصلے (غالباً بیس منٹ مگر مجھے اب درست یاد نہیں) کے بعد ایک چھوٹی سی سڑک آپ کے بائیں ہاتھ اوپر کو اٹھے گی۔

یہیں سے اگر آپ اوپر چڑھنا شروع کر دیں تو زیادہ سے زیادہ دو منٹ کے بعد ایک بورڈ آپ کو ملے گا جس پر کافر کوٹ شمالی لکھا ہوگا۔ کافرکوٹ شمالی قلعے میں آج کل حکومت کی طرف سے مندوں کی مرمت کا کام جاری ہے۔ کافرکوٹ شمالی کے کھنڈرات دیکھنے کے بعد آپ دوبارہ واپس آئیں گے جہاں سے سڑک V شکل میں تقسیم ہوئی تھی۔ اب آپ کو دوسری جانب مڑنا ہے۔ یہ سڑک سیدھا آپ کو ڈیرہ اسماعیل خان کی جانب لے جائے گی۔ تقریباً تیس سے چالیس منٹ کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ایک قصبہ بلوٹ آئے گا اور آپ کو سڑک کے دائیں جانب ایران کے ’’تعاون‘‘ سے تعمیر کردہ اسکول العباس ملے گا۔ اسی بورڈ کے ساتھ آپ کو مڑنا ہے۔ مڑنے کے بعد آپ سکول کے ساتھ ساتھ چلیں گے۔ جہاں تک گاڑی جاسکتی ہے جائیں گے اور پھر گاڑی آپ کو وہیں چھوڑنی پڑے گی۔ بہتر ہے کہ آپ گاڑی اسکول میں کھڑی کریں اور پیدل ہی روانہ ہوجائیں۔ اسکول سے ہی راستے کے بارے میں راہ نمائی حاصل کریں۔ کافرکوٹ جنوبی کے لیے آپ کو ہلکا پھلکا ٹریک بھی کرنا پڑے گا۔

کافرکوٹ جنوبی کے کھنڈرات جس پہاڑی پر ہیں، اس پوری پہاڑی کے گرد اب ایک اونچی باڑ لگا دی گئی ہے اور تمام مندروں کی مرمت کی جاچکی ہے۔ پہاڑی کے گرد باڑ کو ایک جگہ سے کاٹ دیا گیا ہے، جس میں سے ایک شخص کے گزرنے کی جگہ بن چکی ہے۔ یہیں سے آپ کو اوپر چڑھنا شروع کر دینا ہے۔ پندرہ سے بیس منٹ کی چڑھائی کے بعد آپ کے سامنے انتہائی خوب صورت اور حیرت انگیز کھنڈرات اور مندر آپ کے سامنے ہوں گے۔ کافرکوٹ پاکستان کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں واقع ایک آثارقدیمہ مقام ہے جس کو ثقافتی ورثے کا درجہ دیا گیا ہے۔

دریائے سندھ کا بیشتر حصہ پہاڑوں کے دامن میں ہے۔ ان پہاڑیوں کی چوٹیوں پر دریائے سندھ کے کنارے قدیمی قلعے، عبادت گاہیں اور تباہ شدہ بستیوں کے آثار ملتے ہیں۔ ایسے ہی آثار ڈیرہ اسماعیل خاں شہر سے 93 میل شمال کی طرف خیسور پہاڑ کی چوٹی پر جو کافرکوٹ کے نام سے مشہور ہے، واقع ہیں۔ یہاں سے چند میل کے فاصلے پر دریائے کرم اور سندھ آپس میں ملتے ہیں۔ کسی زمانے میں دریائے سندھ کافرک وٹ کے پہاڑوں کے نیچے بہتا تھا۔ جس پہاڑ پر یہ کھنڈر ہیں اس کے مشرق کی جانب آبی گزرگاہ ہے۔ آج کافرکوٹ کے تباہ شدہ کھنڈر کو نوکیلے تراشیدہ پتھروں اور خاردار جھاڑیوں نے لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ پہاڑوں کی چوٹی پر ہونے کی وجہ سے یہ آثارِقدیمہ ابھی تک محفوظ ہیں۔ ہر طرف خاموشی ہی خاموشی ہے۔ کافرکوٹ کے نام سے مشہور یہ قلعہ اصل میں راجا بل کا قلعہ ہے۔

راجہ ٹل مافوق البشر حیثیت کا حامل بادشاہ تھا وہ ایک ہی وقت دو بھاری افراد کو اٹھا کر ہوا میں اچھال دیتا تھا۔ وہ عام جانوروں کا شکار کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتا صرف شیر, ہاتھی اور گینڈے وغیرہ کا شکار کرتا بغیر ہتھیار کے۔ راجا ٹل بہت طاقت ور اور نہایت ہی دلیر بادشاہ گزرا ہے۔ زمانۂ جہالت میں مافوق البشر اعمال والے لوگوں کو دیوتا مان لیا جاتا تھا۔ راجا ٹل کو بھی مہابھارت میں بطور دیوتا ہی پیش کیا گیا ہے۔ قلعے کے مندروں کی تعداد سات کے لگ بھگ ہے۔ خوب صورت تراشیدہ پتھروں سے تعمیر کیے گئے یہ مندر ماضی میں بہت خوب صورت اور شان دار تھے جو عظمت رفتہ کی شہادت دیتے ہیں۔ قدیمی دور کے یہ محل اور مندر راجا بل نے تعمیر کروائے تھے۔ اسی سلسلے کا ایک قلعہ ’نند، ایک دشوار گزار پہاڑی علاقے میں واقع ہے۔ سلطان محمود غزنوی نے اپنے دسویں حملہ میں راجا نندپال کو شکست دی تھی۔

قیاس یہی ہے کہ کافرکوٹ کا قلعہ اور مندر بھی سلطان محمود غزنوی کے ہاتھوں برباد ہوئے۔ کافرکوٹ کے قلعہ کے اندر پانی کا تالاب بھی تھا بارش کا پانی تالاب میں اکٹھا ہوجاتا تھا۔ تالاب کے گردونواح پوجاپاٹ کے لیے مندر بھی تھے۔ محلات اور فصیل کے آثار آج بھی موجود ہیں۔ بڑا مندر بائیں ہاتھ پر ہے، درمیان میں راستہ ہے جو بڑی عمارت کا حصہ ہیں۔ جیل خانے کے آثار بھی پائے جاتے ہیں۔ کافرکوٹ کے کھنڈر کے تین اطراف بلند و بالا پہاڑ اور گہری کھائیاں ہیں جب کہ مشرق کی طرف آبی گزرگاہ ہے۔ ماضی میں قلعے یا حکم رانوں کے محل پہاڑوں پر تعمیر کیے جاتے تاکہ وہ دشمنوں اور حملہ آوروں سے محفوظ رہ سکیں۔ کافرکوٹ کے مندروں کی چہار اطراف ماہر کاری گروں نے خوب صورت ڈیزائن بنائے ہیں۔ مورتیوں اور روشنی کے لیے طاقچے بھی بنائے گئے ہیں۔ پہاڑی پر چڑھنے کے لیے پرانے زمانے کی ایک سڑک کے آثار پائے جاتے ہیں۔

چار بڑے تین چھوٹے یہ مندر چونے کے مقامی پتھر کنجور کی آمیزش سے بنائے گئے ہیں۔ موسم یا بارش کا اثر ان پتھروں پر نہیں ہوتا۔ یہ مندر مخروطی شکل کے ہیں۔ ان کی بیرونی سطح کچھ زیادہ مزیّن ہے۔ یہ آرائش بہت پیچیدہ اور باریک ہے جس پر سورج مکھی کے پھول بنے ہوئے ہیں۔ یہ تمام مندر تباہ شدہ قلعے کے اندر ہیں۔ یہ قلعہ دفاعی لحاظ سے محفوظ مقام پر بنایا گیا ہے۔ کافرکوٹ شہر کے اردگرد پتھر کی مضبوط فصیل تھی جس میں حفاظتی مورچے بنائے گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں ہندو راجا بل کی حکومت تھی جس کا پایہ تخت بلوٹ تھا۔ اسے بل کوٹ یا بلوٹ کہا جاتا ہے۔ بل کا چھوٹا بھائی ٹل اوٹ کا بانی تھا۔ تیسرا بھائی اکلوٹ تھا جو بنوں کے نزدیک واقع آکرہ کا بانی تھا۔ آکرہ کا شہر سرسبزوشاداب اور خوش حال تھا جو سلطان محمود غزنوی کے ہاتھوں تباہ ہوا۔ اس قلعے کے اندر بنائے گے تالابوں میں رام کنڈ نامی تالاب ہندوؤں نہایت متبرک سمجھا جاتا تھا۔ قلعے کے قریب ایک کوٹھی بھی بنی ہوئی ہے جسے مقامی لوگ کنجری کی کوٹھی کہتے ہیں۔ کافرکوٹ کے قلعے اپنے آرکیٹیکچر کے لحاظ سے ہندو شاہی سلطنت کے دور کی یادگار ہیں۔ شمالی کافر کوٹ (ٹل کوٹ) راجاٹل کے نام پر تعمیر ہوا اور یہ دریائے کرم اور دریائے سندھ کے سنگم کے قریب واقع ہے۔

دریائے کرم ملتا ہے دریائے ٹوچی (گمبیلا دریا) کے ساتھ اور اس کا مرکز وادی کابل اور خوست کے علاقے ہیں۔ اور انہی دریائی راستوں کے پاس سے سنٹرل ایشیا کے علاقوں بخارا، سمرقند اور مرو سے قافلے کابل اور غزنی سے ہوتے ہوئے دریائے ٹوچی اور کرم کے ساتھ ساتھ سفر کرتے، کافر کوٹ کے قلعہ جات سے گزر کر یہ قافلے دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ ملتان کا رخ کرتے تھے یا سالٹ رینج کے علاقوں سے گزر نندنہ اور ہندوستان جاتے تھے۔ ماضی میں وسط ایشیا سے تجارتی قافلے اور جنگ جو حملہ آور درہ گومل کے راستے برصغیر میں داخل ہوتے رہے ہیں۔ یہ قافلے ڈیرہ اسماعیل خان کے قریب دریائے سندھ کے کنارے پڑاؤ ڈالتے تھے۔ دوسری طرف دریائے سندھ کے ذریعے تجارتی مال کشتیوں کے ذریعے مختلف اطراف روانہ کیا جاتا تھا۔ دریائے سندھ عبور کرنے کے بعد تجارتی قافلوں اور حملہ آوروں کی اگلی منزل ملتان ہوا کرتی تھی۔ ملتان کے بعد پاک پتن، دیپال پور، لاہور اور دہلی کا رخ کیا جاتا تھا عموماً ملتان کے قریب ہی ان حملہ آوروں کو روک دیا جاتا تھا۔ ماضی میں وسط ایشیا، افغانستان برصغیر کو ملانے والی شاہراہ اس علاقے سے گزرتی تھی۔ قدیم دور کے یہ محل اور مندر راجا بل نے تراشے ہوئے پتھروں سے تعمیر کروائے تھے۔

ان کی طرزتعمیر قلعہ نندنا، ضلع جہلم، کٹاس کے مندر، قلعہ ملوٹ، ضلع چکوال، ماڑی شہر ضلع میانوالی سے ملتی جلتی ہے۔ کافرکوٹ کے مندروں کے اطراف نہایت خوب صورت ڈیزائن بنائے گئے ہیں جو کاری گروں کی مہارت کا ثبوت ہیں۔ پہاڑی پر چڑھنے کے لیے پرانے زمانے کی ایک سڑک کے آثار پائے جاتے ہیں۔ یہ قلعہ دفاعی لحاظ سے محفوظ مقام پر بنایا گیا تھا۔ کافرکوٹ کے شہر کے اردگرد پتھر کی بنی ہوئی مضبوط فصیل تھی جس میں حفاظتی مورچے بنے ہوئے تھے۔ مندروں کے اندر ہندو پوجا پاٹ کرتے اور دیگر مذہبی رسومات ادا کرتے تھے۔ شمالی کافرکوٹ (ٹل کوٹ) سے 38 کلومیٹر جنوب کی طرف جنوبی کافرکوٹ ہے جسے راجا بل نے بنوایا جو بعد میں بل کوٹ سے بلوٹ بنا۔ راجا ٹل اور راجا بل کے بنائے یہ شاہ کار تاریخی اثاثے اب شکست و ریخت سے دو چار ہوتے جا رہے ہیں۔

یہ دونوں قلعہ جات ہر اس قافلے کے چشم دید گواہ ہیں جو بخارا سے ملتان گیا یا ملتان سے سمرقند۔ شاہ محمود غزنوی نے ہندوستان پر حملوں کی ابتدا انھیں قلعہ جات سے کی۔ امیرتیمور نے برصغیر پر حملوں کے لیے یہی راستہ چنا اور اس کے بیٹے مرزا جلال الدین میراں شاہ نے دریائے ٹوچی کے کنارے میران شاہ شہر بسایا۔ اسی راستے کی بدولت غزنی کا قارا باغ ہمارے میانوالی کا کالاباغ بنا۔ سید جلال الدین سرخ پوش بخاری اسی رستے سے بخارا سے دیپال گڑھ اور پھر ملتان تشریف لے گئے۔ مغل شہنشاہ ظہیر الدین بابر نے انہی قلعہ جات میں فتح کے جشن منائے اور شربت جشن غزنی سے بذریعہ اونٹ منگوائے۔ ہزاروں سالہ تاریخ و تمدن کے امین یہ قلعہ جات، فصیلیں اور ٹیمپل آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کا راہ تک رہے ہیں۔

ان کی بحالی وقت کا تقاضا ہے بے شک ان کا نام مسلم کوٹ رکھ دیں مگر ان سے بے پرواہی نہ برتیں۔ کافرکوٹ کے پراسرار کھنڈرات اپنی تاریخ بیان کرنے کو بے تاب ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ محکمۂ آثار قدیمہ کافرکوٹ کے کھنڈرات پر خصوصی توجہ دے، ان تباہ شدہ قلعوں کے اسرار سے پردہ اٹھائے اور ان پر تحقیق سے آشنا کیا جائے۔ ہمارے ملک میں آثارقدیمہ سے جو بے اعتنائی برتی جا رہی ہے اس کی مثال کافر کوٹ کے کھنڈرات ہی نہیں بلکہ پوٹھوہار کے علاقے میں واقع قلعہ دان گلی، قلعہ پھروالا، قلعہ روات کے علاوہ کوہستان نمک کے علاقے میں قلعہ کسک ملوٹ، راج کٹاس، شیو گنگا اور ماڑی میانوالی کے مندروں کی بھی یہی صورت حال ہے۔ اگر حکومت خصوصاً محکمۂ آثار قدیمہ نے ان آثار پر فوری توجہ نہ دی تو ہم اپنے اس عظیم سرمائے سے محروم ہوجائیں گے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ڈیرہ اسماعیل خان ریلوے اسٹیشن سے ریلوے اسٹیشن پر دریائے سندھ کے کے ساتھ ساتھ محمود غزنوی جب کہ دوسری دریائے ک رم دریا خان سے مندروں کی تھانے دار کے درختوں کے مندروں کی وجہ سے ہم تینوں جاتا تھا لکی مروت سے گزرتی قلعہ جات تباہ شدہ اور مندر کے ا ثار کے بعد ا نے اپنے کے مندر دیا گیا قلعے کے کی محبت یہ قلعہ کرنے کے اور پھر رہے ہیں کے قریب جائے گی رہا تھا کے والد کی جانب تھی اور کے اندر اگر ا پ کا تھا تھا کہ کی طرف سے ایک ریل کی اور اس ہے اور ہیں جو منٹ کا کے نام گیا ہے تھا جو کی ایک ہم تین ہے ہیں حملہ ا اپنے ا کے لیے

پڑھیں:

پاکستان ریلوے کا نجکاری سے متعلق اہم فیصلہ

اسلام آباد(نیوز ڈیسک)پاکستان ریلویز نے نجکاری سے متعلق اہم قدم اٹھاتے ہوئے مزید سات مسافر ٹرینوں کو نجی شعبے کو دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

نجی ٹی وی کو ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق پاکستان ریلویز نے نجکاری سے متعلق اہم قدم اٹھاتے ہوئے مزید سات مسافر ٹرینوں کو نجی شعبے کو دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان ٹرینوں کی نیلامی کیلیے بڈز وصولی 25 فروری تک ہو گی۔

ذرائع کے مطابق جن ٹرینوں کو نجی شعبے کو دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ان میں ہزارہ ایکسپریس، کراچی ایکسپریس، فرید ایکسپریس، بہاؤ الدین زکریا ایکسپریس، سکھر ایکسپریس، راولپنڈی ایکسپریس اور موہنجو دڑو ایکسپریس شامل ہیں۔

اس حوالے سے ریلویز حکام کا موقف بھی سامنے آیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ٹرینوں کو پرائیوٹائز نہیں بلکہ آؤٹ سورس کیا جائے گا۔ آؤٹ سورسنگ سے مسافروں کو سہولتوں کی فراہمی اور ریونیو میں بہتری آئے گی۔
مزیدپڑھیں‌:پاکستان میں طلاق اور خلع کی شرح میں تشویشناک اضافہ، وجہ کیا ہے؟

متعلقہ مضامین

  • پاکستان ریلوے کا مزید 7 ٹرینیں آؤٹ سورس کرنے کا فیصلہ
  • حیدرآباد ،دریائے سندھ المنظر کے مقام پر پانی نہ ہونے کے باعث دریا کے کنارے ماہی گیروں کی کشتیاں کھڑی ہوئی ہیں
  • ٹرینوں کی نجکاری ملک و قوم سے غداری ہے‘مبین راجپوت
  • ریلوے ملازمین کو غیر ضروری مقدمات سے بچانے کے لیے نوٹیفکیشن جاری
  • حکومت پاکستان ریلوے کی نجکاری سے باز رہے‘ شمس سواتی
  • پاکستان ریلوے کا نجکاری سے متعلق اہم فیصلہ
  • دریائے سندھ دنیا کا دوسرا آلودہ ترین دریا ہے‘سینیٹر شیری رحمن
  • روندو، 45 سالہ شخص نے دریائے سندھ میں چھلانگ لگا کر خودکشی کر لی
  • جشن بہار کے سفر ی رش میں  چین  میں   بذریعہ ریل   310 ملین ٹرپس ہوئے