خاندانی منصوبہ بندی سے زندگیاں کیسے بچتی ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
نائیجیریا سے تعلق رکھنے والی سکینہ سانی کی شادی 12 برس کی عمر میں اس وقت ہوئی جب ان کا علاقہ مسلح تنازع اور غذائی قلت کا شکار تھا۔ وہ عمر کے 15ویں سال میں حاملہ ہو گئیں، لیکن ان کا حمل قائم نہ رہا جس کے بعد انہوں نے 2 بچوں کو جنم دیا۔
یہ بھی پڑھیں:بچہ پیدا کرنے کے لیے ویجائنا کٹوائیں یا پیٹ؟
انہوں نے جنسی و تولیدی صحت کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایف پی اے) کو بتایا کہ وہ اپنی بیٹی کو ایسے حالات کا شکار نہیں ہونے دیں گی جن کا خود انہیں سامنا کرنا پڑا۔
نائیجیریا، جمہوریہ کانگو (ڈی آر سی) اور یوکرین جیسے ممالک میں مسلح تنازعات کے باعث لاکھوں لوگوں کو نقل مکانی کرنا پڑتی ہے اور حمل یا زچگی کی پیچیدگیوں کے باعث روزانہ کی بنیاد پر خواتین کی ہلاکتیں ہوتی ہیں۔
ان حالات میں ’یو این ایف پی اے‘ بے گھر ہونے والے لوگوں کے لیے کیمپ قائم کر کے وہاں طبی عملے کو تعینات کرتا ہے۔
جب کہیں زلزلے سے تباہی آئے تو ادارہ ہنگامی امدادی قافلوں کے ساتھ مانع حمل اشیا، زچگی میں مدد دینے والا طبی سامان اور حاملہ خواتین کے لیے خون بہنے سے روکنے کی ادویات بھی بھیجتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:حاملہ خواتین کے لیے انقلابی پروجیکٹ ’ایوا لو‘، یہ خودکار کموڈ کتنا مفید؟
جب دور دراز جزائر میں رہنے والے لوگ طوفانوں کی زد میں آئیں تو ادارہ جراثیموں سے پاک طبی سازوسامان کی طرح مانع حمل اشیا بشمول کنڈوم، منہ اور انجکشن کے ذریعے لی جانے والی ادویات اور اس مقصد کے لیے استعمال ہونے والی دیگر چیزیں متاثرہ علاقوں میں روانہ کرتا ہے۔
یہ سب کچھ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ مخصوص حالات میں تحفظ زندگی کے لیے مانع حمل اشیا کی دستیابی ضروری ہوتی ہے۔
ہو سکتا ہے یہ بات بعض لوگوں کے لیے ناقابل فہم ہو، لیکن طبی سائنس، امداد فراہم کرنے والوں اور خود خواتین کے لیے یہ ایک جانی مانی حقیقت ہے۔
ہنگامی حالات کے علاوہ بھی جدید اور محفوظ مانع حمل اشیا تک رسائی خواتین کو اپنی تولیدی صحت کے حوالے سے خود فیصلے کرنے میں مدد دیتی ہے۔ اس طرح ان کے لیے ان چاہے حمل اور غیرمحفوظ اسقاط حمل کا خطرہ کم ہو جاتا ہے، صحت مند رہنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور زچہ بچہ کی اموات میں کمی آتی ہے۔
مختصر یہ کہ، خاندانی منصوبہ بندی لاکھوں زندگیاں بچاتی ہے اور اس کی کچھ وجوہات درج ذیل ہیں۔
ہنگامی حالات میں حمل اور زچگی کی امواتاندازے کے مطابق زچگی کی پیچیدگیوں سے 60 فیصد اموات انسانی بحرانوں کے دوران اور نازک حالات میں ہوتی ہیں۔ ایسی جگہوں پر خواتین کو محفوظ زچگی کے لیے درکار طبی نگہداشت اور غذائیت تک رسائی میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔
اچھے حالات میں بھی خواتین کی بڑی تعداد اپنے ساتھی کو جنسی عمل سے انکار نہیں کر سکتی۔ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق بالغ خواتین کی ایک چوتھائی تعداد کو اپنی مرضی کے خلاف جنسی عمل میں شریک ہونا پڑتا ہے۔
ان چاہے حمل کی شرح میں اضافے کی وجہانسانی بحرانوں کے دوران خواتین کے لیے صنفی بنیاد پر تشدد کا خطرہ دوگنا بڑھ جاتا ہے۔ اسی طرح جنسی زیادتی کو نسل کشی کے ذریعے اور جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے علاوہ ازدواجی ساتھی کی جانب سے مار پیٹ کے خطرات میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے اور یوں ان چاہے حمل کی شرح بڑھ جاتی ہے۔
اگرچہ بعض اوقات اور غلط طور پر مانع حمل اشیا کو نئی اور نقصان دہ چیز قرار دے کر اس پر تنقید کی جاتی ہے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ ایسی چیزوں کا استعمال صدیوں سے جاری ہے۔ مثال کے طور پر آج سے کئی سو سال پہلے بھی کنڈوم استعمال ہوتے تھے۔
تحقیقات کا دائرہجدید طرز کی مانع حمل اشیا کی بات ہو تو ان کا شمار سب سے زیادہ تجویز کی جانے والی اور ایسی طبی اشیا میں ہوتا ہے جن پر اب تک سب سے زیادہ سائنسی تحقیق ہوئی ہے۔ محض ماہرین ادویات اور طبی محققین نے ہی ان پر کام نہیں کیا بلکہ طبی معاشی ماہرین، وباؤں کی روک تھام کے ماہر اور پالیسی ساز بھی مانع حمل پر مفصل تحقیق کرتے چلے آئے ہیں۔ ان سب لوگوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ اشیا ان چاہے حمل کو روک کر خواتین کی زندگی بچاتی ہیں۔
مگر کیسے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہر حمل کے ساتھ کئی طرح کے خدشات بھی وابستہ ہوتے ہیں اور بحرانی حالات میں جب نظام صحت کو نقصان پہنچے اور طبی نگہداشت کمیاب ہو تو خطرہ کہیں بڑھ جاتا ہے۔
زچگی اور ہنگامی امدادسمندری طوفان کے بعد یا کسی جنگ زدہ علاقے میں جب کسی خاتون کے ہاں بچے کی پیدائش متوقع ہو تو کیا ہوتا ہے؟
بحران زدہ جمہوریہ کانگو میں طبی نظام کو نقصان پہنچنے سے زچگی میں اموات کی شرح بڑھ گئی ہے جہاں حمل یا زچگی کی پیچیدگیوں کے باعث ہر گھنٹے 3 خواتین کی موت واقع ہو رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:اسٹریس و انگزائٹی پر قابو کیسے پایا جاسکتا ہے؟
شمال مغربی شام کے شہر ادلب میں کام کرنے والے ڈاکٹر اکرام حبوش کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں جاری رہنے والی طویل کشیدگی کے دوران بہت سی حاملہ خواتین ضروری طبی مدد کی غیرموجودگی میں ہسپتال جاتے ہوئے دم توڑ گئیں۔
‘یو این ایف پی اے’ کی سالانہ رپورٹدنیا کی آبادی سے متعلق ‘یو این ایف پی اے’ کی سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان چاہے حمل کا زچگی کی بلند شرح اموات سے براہ راست تعلق ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی اموات میں کمی لانے کے لیے تشکیل دیے گئے ہر طبی پروگرام میں مانع حمل اشیا کی دستیابی اور ان تک رسائی یقینی بنانے کو خاص اہمیت دی جاتی ہے۔
مانع حمل اشیا ان چاہے حمل کو روک کر زچگی کے دوران جسمانی زخموں اور بیماری سے بھی تحفظ فراہم کرتی ہیں جبکہ مردہ بچے پیدا ہونے اور پیدائش سے فوری بعد بچوں کی اموات کا خطرہ بھی کم ہو جاتا ہے۔
ایک کروڑ ان چاہے حمل2023 میں ‘یو این ایف پی اے’ نے دنیا بھر میں 13 کروڑ 60 لاکھ ڈالر مالیت کی مانع حمل اشیا مہیا کیں جن سے اندازاً ایک کروڑ ان چاہے حمل اور زچگی کی 2 لاکھ سے زیادہ اموات کو روکنے میں مدد ملی۔ علاوہ ازیں ان کے ذریعے 30 لاکھ سے زیادہ غیرمحفوظ اسقاط حمل کو روکنا بھی ممکن ہوا۔
مردوں اور خواتین کے کنڈوم جیسی مانع حمل اشیا کی بدولت ایچ آئی وی سمیت جنسی بیماریوں (ایس ٹی آئی) کی منتقلی کے خطرات میں بھی کمی آتی ہے۔
جہاں طبی سہولیات تک رسائی محدود ہو، وہاں قابل انسداد ایس ٹی آئی بھی زندگی کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں۔ ہیٹی اس کی نمایاں مثال ہے جہاں بڑے پیمانے پر اور بے رحمانہ جنسی تشدد کے باعث خواتین اور لڑکیوں میں ایس ٹی آئی کا پھیلاؤ بڑھنے کے ساتھ ان چاہے حمل میں بھی اضافہ ہو گیا ہے جبکہ ملک کا طبی نظام تباہی سے دوچار ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
جنگ حمل مانع حمل یو این ایف پی اے یوکرین.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: یو این ایف پی اے یوکرین مانع حمل اشیا کی خواتین کے لیے حالات میں خواتین کی کے دوران سے زیادہ تک رسائی میں بھی کے ساتھ کے باعث زچگی کی جاتا ہے کو روک
پڑھیں:
کوچۂ سخن
غزل
حق و باطل کبھی یکجا نہیں رہنے دیتا
آئینہ جھوٹ پہ پردہ نہیں رہنے دیتا
اس کو میں روتا بلکتا ہوا چھوڑ آیا ہوں
ساتھ لاتا تو قبیلہ نہیں رہنے دیتا
جذبۂ فخر و تکبر بھی عجب ہوتا ہے
دیر تک شخص کو اونچا نہیں رہنے دیتا
ساتھ پا جاتا اگر تپتے ہوئے سورج کا
مجھ کو ساحل پہ یہ دریا نہیں رہنے دیتا
تجربہ عمر کے ہمراہ بڑھے گا سرمدؔ
وقت کوئی گھڑا کچا نہیں رہنے دیتا
(سرمد جمال۔ لالیاں)
۔۔۔
غزل
کیوں نہ پھر خود کو میں رانجھا وہ مری ہیر لگے
اس کو جب دیکھوں مرے خواب کی تعبیر لگے
ضربتِ چشم کے منکر میں تجھے کیا بولوں
بس دعا ہے ترے دل میں بھی کوئی تیر لگے
آپ کے دست شفاعت کے تو کیا ہی کہنے
آپ کے ہاتھ سے تو زہر بھی اکسیر لگے
اس طرح ٹھاٹ سے رہیو کہ گدا ہو کے بھی
آدمی اہلِ حکومت میں کھڑا میر لگے
مجھ کو چھوڑا ہے تو تحفہ بھی مرا آگ میں ڈال
اس سے پہلے کہ یہ پائل تجھے زنجیر لگے
ہجر سے رب ہی بچائے کہ جسے یہ ڈس لے
وہ تو بھر پور جواں ہو کے بھی اک پیر لگے
ہم جنوں زاد ہیں ڈرتے ہیں صعوبت سے بھلا
ہم کو پھندہ بھی تری زلفِ گرہ گیر لگے
عاشقی اس کو ہی سجتی ہے جہاں میں بابرؔ
سامنے شیر بھی جس شخص کے نخچیر لگے
(بابر علی ویرو وال سرگودھا)
۔۔۔
غزل
روز جھنجھٹ میں نئے ڈال دیا جاتا ہے
کس مہارت سے مجھے ٹال دیا جاتا ہے
کیوں قطاروں میں رہیں کاسہ گدائی کا لیے
روند کے پھول بھی پامال دیا جاتا ہے
ہم سے کہتے ہیں کہ ہشیار ذرا رہیے گا
اور صیّاد کو بھی جال دیا جاتا ہے
کھول کر حسن کا صفحہ وہ ترے رکھتا ہے
اور قصّے کو بھی اجمال دیا جاتا ہے
دل یہ بن باپ کے ہو جیسے یتیم اے لوگو
گھر میں جو غیر کے بھی پال دیا جاتا ہے
پیار کرنے کو میسّر ہے گھڑی دو لیکن
درد سہنے کو کئی سال دیا جاتا ہے
علم اپنا نہیں، اوروں کی بتانے کے لیے
قسمتوں کا بھی یہاں فال دیا جاتا ہے
تو نے تو مجھ کو دیا خام، مگر ظرف مرا
پھل تجھے میٹھا بھی اور لال دیا جاتا ہے
یہ بلوچی کی روایات میں شامل ہے رشیدؔ
پوچھا کرتے بھی ہیں، اور حال دیا جاتا ہے
(رشید حسرت۔ کوئٹہ)
۔۔۔
غزل
جو تیرگی میں لہو کا الاپ جانتا ہے
خدا پرستوں کے سارے ملاپ جانتا ہے
خلافِ دنیا ہے لیکن بدن کی قید میں ہے
جو زندگی کو بھی ڈھولک کی تھاپ جانتا ہے
لباسِ حضرتِ آدم کو اوڑھنے والے
برہنہ سوچ پہ آدم کی چھاپ جانتا ہے؟
ادھیڑ عمر میں بیٹے کی موت ہو جانا
یہ ایسا دکھ ہے جو اکبر کا باپ جانتا ہے
ہمیشگی میں یہ تکرار ہست و بود کہاں
جو اہلِ فن ہے وہ قدرت کا ناپ جانتا ہے
(علی رقی۔ فیصل آباد)
۔۔۔
غزل
کوئی عجلت ہے مجھے اور نہ بیزاری ہے
وقت کے ساتھ ہی چلنے میں سمجھ داری ہے
جان جاتی ہے چلی جائے کوئی بات نہیں
میری عزت تو مجھے جان سے بھی پیاری ہے
وقت جیسا بھی ہو آخر کو گزر جاتا ہے
فکرِ فردا ہے مجھے، اُس کی ہی تیاری ہے
ایک میں ہوں جسے محرومِ محبت رکھا
ورنہ اُس شخص کی دنیا سے وفاداری ہے
حاکمِ وقت سے شکوے تو بہت ہیں لیکن
میں ہوں مجبور مِری نوکری سرکاری ہے
موسمِ ہجر نے یہ حال کیا ہے میرا
دل ہے پُرسوز اور آواز مری بھاری ہے
اُس کی ہر بات پہ مت کان دھرا کر شوبیؔ
بولتے رہنے کی اُس شخص کو بیماری ہے
(ابراہیم شوبی۔ کراچی)
۔۔۔
غزل
سوگ واروں کا تمسخر اڑانا تھا جنہیں
شوخ بھی آئے جی بھر مسکرانا تھا جنہیں
چاند سے اوجھل انھوں نے رکھے دست و قلم
ایک کاغذ پر سمندر بنانا تھا جنہیں
اِن بچھے پھولوں سے اُن کو ہی چھالے بن گئے
اپنی پلکوں کو سرِ رہ بچھانا تھا جنہیں
وہ مرے اعصاب سے آشنا ہوا ہی نہیں
چھید ڈالے ہیں وہی گدگدانا تھا جنہیں
عرش کو بھائی نہیں سب ستاروں کی چمک
ٹوٹ کر بکھرے بہت جگمگانا تھا جنہیں
تیرے پہلے جھوٹ کے وہ کہاں ہیں سامعین
تو نے اپنا آخری سچ بتانا تھا جنہیں
رہ پہ خوشبو کی جگہ بھر گئی ہے شام اب
کیا نہیں آئیں گے وہ، آج آنا تھا جنہیں
بے تکی ترتیب سے گزری ساگرؔ زندگی
یاد رکھا ہے انہیں، بھول جانا تھا جنہیں
(ساگرحضورپوری۔سرگودھا)
۔۔۔
غزل
شماریات سے باہر ہے تشنگی اپنی
کبھی نہ ختم ہو پائے گی بے بسی اپنی
تمہارے آنے سے پر لطف ہو گئی ورنہ
پڑی تھی بے سر و سامان زندگی اپنی
تمام عمر بھی کم ہے یہ غم منانے کو
کہ ہو گئی ابھی سے ختم دوستی اپنی
تمہیں یقین نہیں آ رہا، یقین کرو
ہر ایک شے سے ہے نایاب دل لگی اپنی
تلاشتے ہیں گریبان کو حیا والے
کہ عام لوگ نہیں جانتے کمی اپنی
مری زبان مرے سر سے کچھ تو اونچی ہے
کبھی فروخت نہ ہو پائے گی خودی اپنی
تمہارا دل تمہیں جھنجھوڑتا نہیں ہے کیا؟
جو ناک پر لیے پھرتے ہو برہمی اپنی
ضمیر مار کے جینے سے موت افضل ہے
ہے ایسی جیت سے بہتر شکستگی اپنی
کسی کی طرز پہ رہنا مجھے قبول نہیں
مجھے نمود سے پیاری ہے سادگی اپنی
طویل وقت سے رویا نہ تھا وسیم خلیل
وہ چھوڑ کر گیا تو آنکھ نم ہوئی اپنی
(وسیم اشعر۔تحصیل شجاع آباد، ضلع ملتان)
۔۔۔
غزل
دل میں اتر جو آئی وہی چیخ اور پکار
ہم نے سنی، سنائی وہی چیخ اور پکار
ہم کو دیا تو کیا دیا دنیائے بے ثبات
آنسو خلش دہائی، وہی چیخ اور پکار
اور کچھ بھی نہیں جانتا یہ جانتا ہوں میں
حصے میں میرے آئی وہی چیخ اور پکار
بے ساختہ ہی سوئی ہوئی آنکھ کھل گئی
پھر ہم کو یہاں لائی وہی چیخ اور پکار
معلوم کر سکا نہ کہ وہ تھی تو کس کی تھی؟
جب ذہن میں پھرائی وہی چیخ اور پکار
(احمد ابصار۔ لاڑکانہ)
۔۔۔
غزل
سینہ تراش کے لکھے اک نام کے حروف
اک حسنِ بے مثال پہ کچھ کام کے حروف
خلوت کے خوگروں پہ عیاں ہیں سبھی میاں
کیا صبح کے حروف تو کیا شام کے حروف
کیسے ٹکوں میں بیچتے ہو، ہوش میں تو ہو؟
ارض و سما سے بیش بہا دام کے حروف
یوں شاعری نسوں میں گھلی ہے میاں کہ میں
مدہوش ہو کے لکھ رہا ہوں جام کے حروف
تم خود کو کہہ رہے ہو سخن فہم، خیر ہے؟
تم پر ابھی کھلے نہیں خیّامؔ کے حروف
(خیام خالد۔ ٹیکسلا)
۔۔۔
غزل
ہم پہ ہر سمت اجالے تھے سبھی وار دیے
اور مرے یار جیالے تھے سبھی وار دیے
کچھ ترے ہجر کے تھے زخم مری جان پہ اور
طعنِ اغیار کے جالے تھے سبھی وار دیے
اپنا دیوان حوالے ہے سمندر کے کیا
تم پہ کچھ شعر نکالے تھے سبھی وار دیے
ہم نے کھولی تھی جو اک بار کفِ دستِ سخن
جن کو بھی جان کے لالے تھے سبھی واردیے
تم نے اک ہجر زدہ شخص پہ احسان کیا
تم نے جو راز سنبھالے تھے سبھی وار دیے
اور پھر چھوڑ دیے دوست سبھی فاروقیؔ
اور وہ سانپ جو پالے تھے سبھی وار دیے
(حسنین فاروقی۔ چکوال)
۔۔۔
غزل
روگ آنکھوں سے محبت کا چھپاؤں کیسے
یادِ جاناں لیے ہوں یاد مٹاؤں کیسے
وحشتیں تم کو دسمبر کی بتاؤں کیسے
اپنے سینے میں لگی آگ دکھاؤں کیسے
شدتِ درد نے تو چھین لی گویائی میری
اے مرے دوست تجھے حال سناؤں کیسے
یاد میں اس کی جلا جاتا ہے سینہ میرا
دل تو کرتا ہے مگر اس کو بلاؤں کیسے
چارہ گر! نشتر مرہم ہیں زہر ناک ترے
زخمِ دل تجھ کو دکھاؤں تو دکھاؤں کیسے
تیری موجودگی سے ہے مرا سب فنِ سخن
تو بھلا تیرے سوا مصرعے سجاؤں کیسے
چاہتا ہوں کبھی ہو شام ترے پہلو میں
شام قسمت سے یہی میں بھی چراؤں کیسے
تیرے ہی حسن نے آنکھوں کی بدولت مجھ کو
ایسے مدہوش کیا، ہوش میں آؤں کیسے
دوست میرے ہیں سبھی جان سے پیارے مجھ کو
جان سے تنگ ہوں تو جان چھڑاؤں کیسے
(رستم۔ ڈیرہ غازی خان)
۔۔۔
غزل
کام چاہے جس قدر ہو دور ہونا چاہیے
خامشی تکلیف دے تو شور ہونا چاہیے
ظاہری حالت سے اندازہ لگایا نہ کرو
کوئی جب آواز دے تو غور ہونا چاہیے
ہے محبت میں نرم لہجہ بڑا ہی پراثر
ہو صدا حق کے لیے تو زور ہونا چاہیے
روز اپنوں پر بھڑکنا اور دھمکانا انہیں
ہو بہادر تو مقابل اور ہونا چاہیے
جیب کاٹے،مال لوٹے یا بجٹ کھا جائے وہ
چور ہے توچور کو پھر چور ہونا چاہیے
کتنی آساں ہے یہاں تہذیبِ نو کی ہمسری
شرم سے خالی ذہن سے کور ہونا چاہیے
موم کو پتھر بنا دیتا ہے شاہدؔ انتظار
ہے اگر جذبہ تو کچھ فی الفور ہونا چاہیے
(محمد شاہد اسرائیل۔ آکیڑہ، ضلع نوح میوات، انڈیا)
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی