کسی ریگولر بینچ کے پاس آئینی تشریح کا اختیار نہیں، جسٹس محمد علی مظہر
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
جسٹس محمد علی مظہر نے بینچز اختیارات سے متعلق 20 صفحات پر مشتمل نوٹ جاری کردیا۔ کہا کہ قوانین کے آئینی ہونے یا نہ ہونے کا جائزہ صرف آئینی بینچ لے سکتا ہے۔ کسی ریگولر بینچ کے پاس آئینی تشریح کا اختیار نہیں۔ ریگولر بینچ کو وہ نہیں کرنا چاہیے جو اختیار موجودہ آئین اسے نہیں دیتا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے بینچز اختیارات سے متعلق کیس پر 20 صفحات پر مشتمل نوٹ میں لکھا کہ کسی ریگولر بینچ کے پاس آئینی تشریح کا اختیار نہیں۔ آئینی بینچ نے درست طور پر 2 رکنی بینچ کے حکمنامے واپس لیے۔ 26ویں ترمیم اس وقت آئین کا حصہ ہے۔ ترمیم میں سب کچھ کھلی کتاب کی طرح واضح ہے۔ ہم اس ترمیم پر آنکھیں اور کان بند نہیں کرسکتے۔ یہ درست ہے کہ ترمیم چیلنج ہو چکی اور فریقین کو نوٹس بھی جاری ہوچکے ہیں۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: جسٹس منصور علی شاہ کے دو حکمنامے واپس لینے کا تحریری حکمنامہ جاری
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کیس فل کورٹ میں بھیجنے کی درخواست کا میرٹس پر فیصلہ ہوگا۔ 26ویں ترمیم کو پارلیمنٹ یا سپریم کورٹ کا فیصلہ ہی ختم کرسکتا ہے، جب تک ایسا ہو نہیں جاتا معاملات اس ترمیم کے تحت ہی چلیں گے۔ آئینی تشریح کم از کم 5 رکنی آئینی بینچ ہی کرسکتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے آئینی بینچ کے فیصلے سے اتفاق کرتے ہوئے 20 صفحات پر مشتمل نوٹ جاری کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بنیادی حکمناموں کے بعد کی ساری کارروائی بے وقعت ہے۔ واضح رہے کہ آئینی بینچ نے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی کے حکمنامے واپس لیے تھے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئینی بینچ بینچز اختیارات کیس جسٹس عقیل عباسی جسٹس محمد علی مظہر جسٹس منصور علی شاہ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بینچز اختیارات کیس جسٹس عقیل عباسی جسٹس محمد علی مظہر جسٹس منصور علی شاہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریگولر بینچ بینچ کے
پڑھیں:
4 ججز کا چیف جسٹس کو خط:ججز کی تعیناتی روکنے اور آئینی ترمیم پر فل کورٹ بنانے کا مطالبہ
اسلام آباد:سپریم کورٹ کے 4سینئر ججز نے چیف جسٹس پاکستان کو خط لکھ کر ججز کی تعیناتی کے عمل کو مؤخر کرنے اور آئینی ترمیم کے معاملے پر فل کورٹ تشکیل دینے کا مطالبہ کردیا ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے جوڈیشل کمیشن کے چیئرمین اور چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کو بھیجے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ ججز کی تقرری سے متعلق فیصلہ26ویں آئینی ترمیم کے مقدمے کے تناظر میں کیا جانا چاہیے، کیونکہ اس معاملے پر آئینی بینچ فل کورٹ کی تشکیل کی سفارش کر سکتا ہے۔
خط میں نشاندہی کی گئی ہے کہ اگر نئے ججز تعینات ہوجاتے ہیں تو یہ سوال اٹھے گا کہ آئینی بینچ میں شامل ججز کون ہوں گے اور اس کا دائرہ اختیار کیا ہوگا؟ خط میں کہا گیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے 3ججز کی منتقلی کے بعد آئینی تقاضے کے تحت ان کا دوبارہ حلف ضروری تھا اور آئینی ترمیم کا معاملہ بھی ایک ایسے بینچ کے پاس ہے جو اسی ترمیم کے تحت وجود میں آیا ہے، اس لیے اس مقدمے کو فوری طور پر فل کورٹ میں سنا جانا چاہیے۔
چاروں ججز نے اپنے خط میں مؤقف اختیار کیا کہ ماضی میں بھی آئینی ترمیم کے کیس کو فل کورٹ میں سننے کی درخواست کی گئی تھی، مگر اسے تاخیر کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے باوجود نئے ججز کی تقرری کے لیے عجلت میں اجلاس بلایا جانا شفافیت پر سوالات اٹھاتا ہے۔
خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر موجودہ آئینی بینچ ہی اس معاملے کو سنتا ہے تو اس پر پہلے ہی عوامی اعتماد میں کمی آ چکی ہے اور ایسے میں عدلیہ کے حوالے سے کورٹ پیکنگ کا تاثر مزید گہرا ہوسکتا ہے۔ ججز نے تجویز دی ہے کہ فل کورٹ کی تشکیل کا معاملہ جلد از جلد حل کیا جانا چاہیے تاکہ عدلیہ پر عوامی اعتماد برقرار رہے۔