ٹرمپ کی خارجہ پالیسی، وعدے اور حقیقت
اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
سٹیفن ملر23 اگست1985ء کو سانتامونیکا، کیلیفورنیامیں پیداہوا۔ اس کے والدین روسی یہودی مہاجرین کی اولادتھے،جوخودایک امیگریشن پس منظر رکھتے تھے۔تاہم ملرنے اپنی ابتدائی عمر سے ہی امیگریشن کےخلاف سخت موقف اپنایا۔ ڈیوک یونیورسٹی سےگریجویشن کرنے کے بعد،وہ قدامت پسند سیاست میں شامل ہوگیااوربعد میں ٹرمپ کی صدارتی مہم کے اہم رکن بنا۔وہ ٹرمپ کے’’سب سے پہلے امریکا‘‘کے ایجنڈے کانمایاں حمایتی رہااورامیگریشن کو امریکی معیشت، سکیورٹی اورثقافت کے لئے خطرہ قرار دینے کی کوشش کی۔ملرکی نگرانی میں ٹرمپ انتظامیہ نے کئی سخت گیرامیگریشن اقدامات متعارف کرائے، جن میں مسلم اکثریتی ممالک پرسفری پابندی،جنوبی سرحد پردیوارکی تعمیر اورپناہ کے قوانین میں سختی شامل تھی۔ان پالیسیوں کامقصدبظاہرغیرقانونی تارکین وطن کوروکنااورقانونی امیگریشن کوبھی محدود کرنا تھا ۔ ملرنےان پالیسیوں کوامریکی معیشت اورثقافت کے تحفظ کےلئے ضروری قرار دیالیکن ناقدین نے انہیں نسل پرستی اورتعصب پرمبنی قراردیا۔
امریکامیں ’’پیدائش پرشہریت‘‘کاقانون آئین کی چودھویں ترمیم کے تحت حاصل ہے،جس کے مطابق امریکامیں پیداہونے والاہربچہ خودبخودامریکی شہری بن جاتاہے۔تاہم ٹرمپ اورملرنے اس قانون کوختم کرنے کے لئے ایگزیکٹوآرڈرپردستخط کرنے کاارادہ ظاہر کیا۔ان کامؤقف ہے کہ یہ قانون غیرقانونی تارکین وطن کے بچوں کوغیرضروری طورپرشہریت فراہم کرتاہے جوکہ امریکی وسائل پربوجھ بنتے ہیں۔آئینی ماہرین کے مطابق’’پیدائش پرشہریت‘‘کاقانون چودھویں ترمیم کے تحت محفوظ ہے اوراسے ایگزیکٹوآرڈرکے ذریعے تبدیل کرناممکن نہیں۔قانون میں ترمیم کے لئے کانگریس کی منظوری یاسپریم کورٹ کی تشریح ضروری ہے۔اگرچہ ٹرمپ نے یہ معاملہ قانونی سطح پرچیلنج کرنے کی دھمکی دی تھی لیکن اس کے عملی امکانات محدودنظرآتے ہیں۔
سٹیفن ملرکی پالیسیاں اوراس کے سخت گیر اور متعصبانہ نظریات امریکی سیاست میں امیگریشن کے حوالے سے گہرے اختلافات کی عکاسی کرتے ہیں۔ اگرچہ ان کامقصدامریکی مفادات کاتحفظ قراردیا گیا لیکن ان کے اقدامات نے انسانی حقوق،آئینی اصولوں، اور سماجی مساوات کے مسائل کوبھی اجاگر کیا ہے۔ٹرمپ کے دورحکومت میں یہ کوششیں توجہ کامرکزرہے گی لیکن آئندہ حکومتوں کے لئے یہ ایک متنازعہ ورثہ چھوڑجائے گی۔
مزیدمسلم ممالک کے شہریوں پر سفری پابندیاں عائد کرنے کے اقدامات سے امریکا کے مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات کوشدید نقصان پہنچاہے۔ان پالیسیوں نے امریکامیں موجود مسلم کمیونٹی کوالگ تھلگ کردیاہے اورانسانی حقوق کی تنظیموں کوشدید تشویش میں مبتلا کیا ہے۔یہ اقدامات امریکاکے عالمی اثرورسوخ کوکمزور کر سکتے ہیں، کیونکہ مسلم ممالک میں ان پالیسیوں کے خلاف سخت ردعمل دیکھنے کوملاہے۔
ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں وعدہ کیاتھاکہ وہ نئی جنگوں سے گریزکریں گے اورجاری جنگوں سے باہرنکلیں گے۔تاہم،ان کی خارجہ پالیسی ان وعدوں سے متصادم نظرآئی۔ایران کے ساتھ کشیدگی، افغانستان سے مکمل انخلامیں امریکاجیسی سپرپاورکی ناکامی،اورشام میں امریکی مداخلت کے جاری رہنے نے ان وعدوں کی حقیقت پرسوال اٹھائے ہیں۔اگر آپ کویادہوتوٹرمپ نے اپنے پہلے دورِاقتدارمیں افغانستان میں جس بہیمانہ اندازمیں ’’بموں کی ماں‘‘ کابے دریغ استعمال کیاتھا، لیکن اس کے باوجود انہیں پاکستان کے توسط سے دوحہ میں انہی طالبان کے سامنے ان کی تمام شرائط تسلیم کرنے کے بعدامریکی افواج کابراستہ پاکستان انخلا ممکن ہو سکا تھا۔
ٹرمپ کابینہ کے خارجہ سیکرٹری کی جانب سے اسامہ بن لادن کے سرکی قیمت سے زیادہ افغانستان کے حکمران طالبان لیڈروں کے سروں کی قیمت لگانے کاعندیہ ایک نیاموڑہے ۔ یہ پالیسی خطے میں عدم استحکام کاباعث بن سکتی ہے کیونکہ طالبان کے خلاف اس قسم کے اقدامات ان کے ردعمل کومزیدشدت دے سکتے ہیں۔ یہ نہ صرف افغانستان میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچا سکتاہے بلکہ پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے ممالک پربھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
امریکا کی چین پاکستان اقتصادی راہداری کے حوالے سے پاکستان پردباؤڈالنے کی امریکی کوششیں بھی ناکام دکھائی دیتی ہیں کیونکہ سی پیک چین کے بیلٹ اینڈروڈانیشیٹوکاایک اہم حصہ ہے اوراس پردباؤڈالنے کا مقصدچین کے اثرورسوخ کومحدودکرناہے۔تاہم یہ دباؤ پاکستان کے داخلی سیاسی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے،جونہ صرف پاک امریکا تعلقات کو متاثر کر سکتا ہے بلکہ خطے میں امریکاکے لئے مزیدمشکلات پیدا کر سکتاہے۔
صدرٹرمپ نے دعویٰ کیاکہ ان کے برطانیہ کے وزیراعظم سرکیئرسٹارمرکے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں،باوجوداس کے کہ وہ لبرل ہیں لیکن ان کی پالیسیاں برطانیہ میں مقیم برٹش مسلمانوں میں شکوک وشبہات کوبڑھارہی ہیں،جوان کے بیانات اورپالیسیوں کے اثرات کی عکاسی کرتی ہیں۔یہ بات ظاہرکرتی ہے کہ ٹرمپ اپنے عالمی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات میں اپنی مرضی کے مطابق تبدیلیاں لاناچاہتے ہیں لیکن وہ اپنے ان مذموم مقاصدمیں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکیں گے تاہم ایک کاروباری ذہن کے مالک نے اپنے ووٹرز کو خوش کرنے کے لئے یہ بیان تودیاہے لیکن وقت آنے پریہ خوش گمانی ختم ہوجائے گی اورٹرمپ اپنے حامیوں سے یہ کہہ کربری الذمہ ہوجائیں گے کہ انہوں نے توپوری کوشش کی لیکن مقامی حالات ان کے راستے کی رکاوٹ بن گئے۔
ٹرمپ نے اپنی وائٹ ہائوس واپسی کے ابتدائی دنوں میں واضح کردیاکہ وہ ایگزیکٹو اختیارات کابڑی حدتک استعمال کرکے ملک کو بدلنے کاارادہ رکھتے ہیں۔ یہ تبدیلیاں وقتی طورپرتو امریکی معیشت یاسیاست میں کچھ فوائد فراہم کرسکتی ہیں،لیکن طویل مدت میں یہ امریکاکے جمہوری ڈھانچے کونقصان پہنچاسکتی ہیں۔اس لئے ٹرمپ کی پالیسیوں کے اثرات کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ کہنامشکل ہے کہ ان کادورحکومت امریکاکومضبوط کرے گایاکمزور۔ان کے اقدامات نے اندرون ملک عوام کوتقسیم کیاہے اورامریکاکی عالمی حیثیت کوچیلنجز کا سامنا ہے۔ تاہم ٹرمپ کے ٹیکس کٹوتیوں کے حکم سے امریکی معیشت میں بہتری دیکھنے کوملی ہے۔انہوں نے قومی مفادات پرتوجہ دیتے ہوئے اس کواولین ترجیح دی ہے جوان کے ووٹرزکے لئے ایک مثبت پہلوتھالیکن دوسری طرف انسانی حقوق کے چیمپئن ہونے کادعویٰ کرنے والے ٹرمپ کی امیگریشن پالیسیوں نے امریکاکی اخلاقی حیثیت کوکمزورکردیاہے۔
ٹرمپ کی یورپی اتحادیوں، کینیڈا اور میکسیکوکے ساتھ تعلقات میں کشیدگی نے جہاں امریکا کی سفارتی طاقت کونقصان پہنچایاوہاں ٹرمپ کی پالیسیوں نے چین اورروس کوعالمی سطح پراپنااثرور سوخ بڑھانے کاموقع فراہم کیاہے۔ٹرمپ کی جارحانہ پالیسیوں اور ایگزیکٹو اختیارات کے غیرمعمولی استعمال نے امریکا کو ایک ایسی راہ پرڈال دیاہے جہاں اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کمزورہو رہے ہیں اورعالمی سیاست میں تنازعات بڑھ رہے ہیں۔یہ پالیسیزوقتی طور پر امریکا کے مفادات کو فائدہ پہنچاسکتی ہیں لیکن طویل المدتی میں یہ امریکاکی عالمی حیثیت کونقصان پہنچاسکتی ہیں۔دنیاایک پیچیدہ اورباہم جڑی ہوئی جگہ ہے،اورکسی بھی عالمی طاقت کو اپنی مرضی سے چلانے کی خواہش بالآخرمشکلات کوجنم دیتی ہے۔امریکاکی کامیابی باہمی تعاون، سفارتی حکمت عملی اور اندرونی استحکام پرمنحصرہے اوریہی اصول اس کی عالمی قیادت کوبرقراررکھنے کے لئے ناگزیرہیں۔
ٹرمپ اپنی مرضی سے دنیاکوتونہیں چلاسکتے لیکن وہ عالمی نظام کوچیلنج ضرورکرسکتے ہیں۔ان کی پالیسیوں کے طویل مدتی اثرات امریکاکی ساکھ اور عالمی قیادت کی حیثیت پربھی اثر اندازہوں گے۔ ان کایہ رویہ وقتی طورپرداخلی حمایت حاصل کرسکتا ہے لیکن طویل المدتی میں اس کااثرنقصان دہ ہوسکتا ہے۔ٹرمپ کے جارحانہ بیانات اورپالیسیوں سے یہ تاثر ملتاہے کہ وہ دنیاکواپنی مرضی کے مطابق چلانے کی خواہش رکھتے ہیں۔تاہم عالمی سیاست میں یکطرفہ فیصلے اکثرردعمل اورمخالفت کوجنم دیتے ہیں۔ چین،روس،ایران،اور دیگر طاقتیں اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے اقدامات اٹھارہی ہیں۔ شمالی کوریاکاخطرہ،سی پیک کی مضبوطی اور مشرق وسطی میں چین اورروس کی شراکت داری امریکاکے لئے چیلنجز پیدا کرسکتی ہیں۔ٹرمپ کی موجودہ جارحانہ پالیسیوں پر کیا چین خاموشی اختیارکرتے ہوئے پسپائی اختیارکرے گایاایک مرتبہ پھرشمالی کوریاکا خطرہ سامنے آکر ٹرمپ کو پسپائی اختیارکرنے پرمجبورکردے گا۔کیاچین پاکستان میں جاری سی پیک کوامریکی خطرات کامقابلہ کرنے کے لئے پاکستان کے ساتھ کوئی نیامعاہدہ کرے گااورایران، افغانستان کے علاوہ روس کی مددسے گردوپیش کی ریاستوں میں اپنااثرورسوخ مزیدبڑھادے گا۔اس کا جواب اگلے چندمہینوں میں اس وقت واضح ہوجائے گاجب ٹرمپ کے جاری کردہ بہت سے ایگزیکٹو آرڈر منہ چھپاتے پھریں گے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کے ساتھ تعلقات امریکی معیشت ان پالیسیوں پالیسیوں کے کے اقدامات اپنی مرضی سیاست میں ہیں لیکن کے مطابق کرنے کے ٹرمپ کی ٹرمپ کے کے لئے
پڑھیں:
بن سلمان ٹرمپ کی امیدوں پر پورے نہیں اتر سکتے
اسلام ٹائمز: سعودی پالیسیوں میں تبدیلیوں اور ایران اور علاقائی مسائل کے حوالے سے ملک کے زیادہ محتاط رویہ کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ کی نئی حکومت میں سعودیہ امریکہ تعلقات کو سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔ یہ چیلنجز علاقائی اور عالمی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیوں کا باعث بن سکتے ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان تعاون کے مستقبل کو متاثر کر سکتے ہیں۔ ترتیب و تنظیم: علی احمدی
ڈونلڈ ٹرمپ کی دوبارہ جیت اور حکومت کی تشکیل کے بعد سعودی عرب اور امریکا کے تعلقات کو شدید چیلنجز کا سامنا ہے۔ ٹرمپ سعودی عرب سے بڑی سرمایہ کاری کے خواہاں ہیں اور ریاض کے سیاسی اور اقتصادی نقطہ نظر میں تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ علاقائی مسائل نے بھی ان تعلقات کو متاثر کیا ہے۔ اہم یہ ہے کہ سعودی امریکہ تعلقات میں تبدیلی کے علاقائی اور عالمی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ یہ تعلقات نہ صرف مشرق وسطیٰ کی سلامتی کو متاثر کرتے ہیں بلکہ تیل کی قیمتوں اور عالمی معیشت کو بھی متاثر کر سکتے ہیں۔
چند نکات:
تبدیل شدہ صورتحال: نئی ٹرمپ انتظامیہ کام جاری شروع کر چکی ہے، لیکن اس کے باوجود سعودی عرب کے ساتھ اس کے تعلقات اتنے مضبوط نظر نہیں آتے جتنے ان کی پہلی مدت کے دوران تھے۔ سعودی عرب اپنے اقتصادی اور سیاسی مفادات کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وہ اب مکمل طور پر امریکی حمایت پر انحصار نہیں کریگا۔
نقطہ نظر میں فرق: مبصرین کے مطابق ٹرمپ سعودی عرب سے ٹریلین ڈالرز کی سرمایہ کاری کے خواہاں ہیں، لیکن بن سلمان اس وقت امریکی حمایت کو ترجیح کے طور پر نہیں دیکھتے۔ اقتصادی چیلنجز: ٹرمپ کا تیل کی قیمتوں میں کمی کا مطالبہ سعودی عرب کے اقتصادی اہداف سے متصادم ہے اور سعودیہ آسانی سے اس درخواست پر راضی نہیں ہو سکتا۔
ایران کے بارے میں زیادہ محتاط رویہ: ایران کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے بعد سعودی عرب تہران کے حوالے سے نرم رویہ اختیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اب وہ امریکہ کی سخت پالیسیوں کی بھرپور حمایت نہیں کر رہا ہے۔
مسئلہ فلسطین: فلسطین کے حوالے سے ٹرمپ کے منصوبوں، خاص طور پر غزہ کے مکینوں کو بے گھر کرنے کے منصوبے کو سعودی عرب کی شدید مخالفت کا سامنا ہے۔
سعودی پالیسیوں میں تبدیلیوں اور ایران اور علاقائی مسائل کے حوالے سے ملک کے زیادہ محتاط رویہ کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ کی نئی حکومت میں سعودیہ امریکہ تعلقات کو سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔ یہ چیلنجز علاقائی اور عالمی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیوں کا باعث بن سکتے ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان تعاون کے مستقبل کو متاثر کر سکتے ہیں۔ سعودی عرب اپنی پالیسیوں میں زیادہ آزادی برقرار رکھنے کی کوشش کرسکتا ہے اور اس سے علاقائی استحکام اور سلامتی کو فائدہ پہنچے گا۔