WE News:
2025-04-15@09:11:22 GMT

لبنان میں 2 سال کے سیاسی تعطل کے بعد نئی حکومت تشکیل

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

لبنان میں 2 سال کے سیاسی تعطل کے بعد نئی حکومت تشکیل

لبنان کے صدر جوزف عون نے اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان 2 سال سے زیادہ عرصے سے جاری جنگ اور ملک میں سیاسی تعطل کے بعد ہفتے کے روز نئی حکومت کی تشکیل کے حکم نامے پر دستخط کر دیے ہیں۔

نو منتخب صدر جوزف عون نے سابقہ حکومت پر بدعنوانی اور بد انتظامی کے الزام اور کئی سالوں کے معاشی جمود کے بعد نواف سلام کو بطور وزیراعظم حکومت کا نیا سربراہ مقرر کیا تھا۔

لبنان کے صدارتی دفتر سے وزیراعظم نواف سلام کی سربراہی میں ایک نئی حکومت کا اعلان کیا گیا ہے، اس طرح لبنان میں حزب اللہ کے کمزور ہونے کے ساتھ ہی نگران حکومت کے 2 سالہ اقتدار کا بھی خاتمہ ہو گیا ہے۔

وزیراعظم نواف سلام نے کہا کہ وہ ’اصلاحات لانے والی حکومت‘ کی سربراہی کرنے کی امید کرتے ہیں، انہوں نے اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان تباہ کن تنازع اور برسوں سے جاری معاشی تباہی کے بعد بین الاقوامی برادری کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کا بھی عزم کیا  ہے۔

عالمی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نواف سلام کی نئی حکومت کو کئی سالوں کے معاشی بحران کے حل کے لیے بین الاقوامی امدادی اداروں سے فنڈنگ حاصل کرنے کے لیے ضروری اصلاحات کو نافذ کرنے، اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ بندی کی نگرانی اور ملک کی تعمیر نو جیسے چیلنجز کا سامنا رہے گا۔

لبنان کےصدر جوزف عون نے ایک حکم نامے پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت 24 وزرا پر مشتمل نئی حکومت تشکیل دی گئی ہے۔

لبنانی صدر نے دیگر2 حکم ناموں پر بھی دستخط کیے، لبنان کی نئی حکومت میں 5 خواتین کے ساتھ ساتھ لیبیا میں اقوام متحدہ کے سابق مندوب غسان سلامی جیسی معروف شخصیات بھی شامل ہیں۔

لبنانی سیاست میں ایک طویل عرصے سے غالب قوت کے طور پر معروف حزب اللہ کو اسرائیل کے ساتھ جنگ میں بھاری نقصان اٹھانا پڑا تھا جس میں اس کے  رہنما حسن نصراللہ ستمبر میں ایک بڑے فضائی حملے میں مارے گئے تھے۔

2 سال سے زیادہ عرصے کے سیاسی تعطل کے بعد حزب اللہ کے کمزور ہونے کے بعد سابق آرمی چیف عون، جنہیں وسیع پیمانے پر امریکا کا پسندیدہ امیدوار سمجھا جاتا ہے، کو صدر منتخب ہونے کا موقع ملا اور انہوں نے نواف سلام کو اپنا وزیراعظم منتخب کیا ہے۔

اقوام متحدہ نے لبنان میں نئی حکومت کی تشکیل کا خیرمقدم کیا ہے۔ لبنان کے  لیے اقوام متحدہ کے  خصوصی کوآرڈینیٹر جینین ہینس پلاسچرٹ کے دفتر نے کہا ہے کہ نئی حکومت کی تشکیل لبنان کے لیے ایک نئے اور روشن باب کا آغاز ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسرائیل اقوام متحدہ بدعنوانی تشکیل جنگ بندی جوزف عون حزب اللہ دستخط سیاسی تعطل کرپشن لبنان نئی حکومت نواف اسلام وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسرائیل اقوام متحدہ بدعنوانی تشکیل حزب اللہ سیاسی تعطل نئی حکومت نواف اسلام وی نیوز اقوام متحدہ حزب اللہ کے سیاسی تعطل نئی حکومت نواف سلام لبنان کے کے ساتھ کے بعد کے لیے

پڑھیں:

نیو ورلڈ آرڈر کی تشکیل میں ایران روس تعاون

اسلام ٹائمز: انہی حقائق کی روشنی میں یوں دکھائی دیتا ہے کہ مغربی ایشیا کے بنیادی مسائل کا حل مغربی اداروں کی مداخلت سے نہیں بلکہ برکس اور شنگھائی تعاون تنظیم جیسی تنظیموں کے بنیادی کردار سے میسر ہو سکے گا۔ اس کی وجہ بھی واضح ہے۔ ان تنظیموں کے رکن ممالک نے ہمیشہ سے علاقائی مسائل اور مشکلات کے بارے میں زیادہ متوازن پالیسی اختیار کی ہے جبکہ امریکہ اور اس کے اتحادی ہمیشہ یکہ تازیوں میں مصروف رہے ہیں اور طاقت اور جنگ کے بل بوتے پر اپنا تسلط بڑھانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ تہران، ماسکو اور بیجنگ نے بارہا اعلان کیا ہے کہ نیٹو جیسے فوجی اتحاد یورایشیا سمیت مختلف خطوں کی سیکورٹی فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں اور اسی وجہ سے برکس اور شنگھائی تعاون کی تنظیم جیسی علاقائی اور عالمی تنظیموں کو علاقائی مسائل کے حل میں زیادہ احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ تحریر: کامران مرادی
 
دنیا انتہائی اسٹریٹجک اور بنیادی تبدیلیوں سے گزر رہی ہے۔ بین الاقوامی تعلقات عامہ پر حکمفرما موجودہ آرڈر اور عالمی سیاست تبدیل ہو رہے ہیں اور ان تبدیلیوں کا نتیجہ مغربی ممالک کے اثرورسوخ میں کمی کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے جس کے باعث دنیا کے دیگر جنوبی ممالک جیسے ایران، روس، چین، انڈیا وغیرہ کے سامنے میدان کھلتا جا رہا ہے اور وہ بھی علاقائی اور عالمی سطح پر اپنے اثرورسوخ میں اضافہ کرنے میں مصروف ہیں۔ ان تبدیلیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک نیا ملٹی پولر عالمی نظام ابھر کر سامنے آ رہا ہے جس میں عالمی سطح پر طاقت کا توازن زیادہ ممالک میں تقسیم ہو جائے گا اور مشرقی ممالک بھی مستقبل کے ورلڈ آرڈر کی تشکیل میں اہم اور قابل توجہ کردار ادا کر پائیں گے۔ ورلڈ آرڈر میں اس تبدیلی کا اثر تقریباً تمام ممالک اور علاقائی اور عالمی تنظیموں اور اداروں پر پڑ رہا ہے۔
 
نیٹو، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن، آئی ایم ایف وغیرہ جیسے عالمی ادارے اور تنظیمیں جو خاص طور پر مغربی ممالک کے زیر تسلط ہیں اس وقت شدید بحرانی حالات سے روبرو ہو چکے ہیں اور ان کی حالت کسی سانحے سے کم نہیں ہے۔ موجودہ حالات میں یہ ادارے اور تنظیمیں زوال کی جانب گامزن ہیں۔ نئی امریکی حکومت نے اپنے یورپی اتحادی ممالک سے متعلق پالیسی تبدیل کر دی ہے جس کے نتیجے میں نیٹو اور یورپی یونین جیسے اداروں کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آ چکے ہیں۔ ان اختلافات کے باعث حتی رکن ممالک بھی ایک دوسرے کو فوجی دھمکیاں دینے میں مصروف ہیں۔ دوسری طرف دنیا کے جنوبی ممالک کی اقتصادی اور فوجی طاقت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے عالمی سطح پر مساواتیں بھی تیزی سے بدل رہی ہیں۔ یوں عالمی سطح پر طاقت کا توازن مغرب سے مشرق کی جانب بڑھتا جا رہا ہے۔
 
البتہ یہ ممالک علیحدہ علیحدہ سیاسی سرگرمیاں انجام نہیں دے رہے بلکہ انہوں نے طاقتور اور موثر اتحاد تشکیل دے رکھے ہیں۔ ایک جیوپولیٹیکل اتحاد ایران، روس، چین اور انڈیا نے تشکیل دیا ہے جو مستقبل قریب میں مکمل طور پر مغربی اتحادوں کی جگہ سنبھالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس تبدیلی کی واضح مثال برکس (BRICS) اور شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) جیسی تنظیموں کا پھیلاو ہے جو مغرب کے مالی اور سیکورٹی نیٹ ورکس کا متبادل تصور کی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر برکس میں روس، چین، انڈیا، برازیل اور جنوبی افریقہ جیسے ممالک شامل ہیں۔ یہ تنظیم عالمی سطح پر مالی سرگرمیوں کی انجام دہی کے لیے ایک خودمختار نیٹ ورک بنانے میں مصروف ہے جو موجودہ مغربی نیٹ ورک سویفٹ کی جگہ لے لے گا۔ یوں ڈالر اور مغربی مالی اداروں پر انحصار کم ہو جائے گا۔
 
انہی حقائق کی روشنی میں یوں دکھائی دیتا ہے کہ مغربی ایشیا کے بنیادی مسائل کا حل مغربی اداروں کی مداخلت سے نہیں بلکہ برکس اور شنگھائی تعاون تنظیم جیسی تنظیموں کے بنیادی کردار سے میسر ہو سکے گا۔ اس کی وجہ بھی واضح ہے۔ ان تنظیموں کے رکن ممالک نے ہمیشہ سے علاقائی مسائل اور مشکلات کے بارے میں زیادہ متوازن پالیسی اختیار کی ہے جبکہ امریکہ اور اس کے اتحادی ہمیشہ یکہ تازیوں میں مصروف رہے ہیں اور طاقت اور جنگ کے بل بوتے پر اپنا تسلط بڑھانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ تہران، ماسکو اور بیجنگ نے بارہا اعلان کیا ہے کہ نیٹو جیسے فوجی اتحاد یورایشیا سمیت مختلف خطوں کی سیکورٹی فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں اور اسی وجہ سے برکس اور شنگھائی تعاون کی تنظیم جیسی علاقائی اور عالمی تنظیموں کو علاقائی مسائل کے حل میں زیادہ احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
 
دوسرے الفاظ میں یورایشیا اس وقت امن اور استحکام کا گہوارہ بنے گا جب نیٹو وہاں سے نکل جائے گی اور خطے کے ممالک پر مشتمل علاقائی تنظیمیں اس کی جگہ لے لیں گی۔ تہران اور ماسکو نے یورایشیا خطے میں دو اہم کھلاڑی ہونے کے ناطے انرجی، سیکورٹی اور تجارت کے شعبوں میں باہمی اسٹریٹجک تعاون کو فروغ دیا ہے۔ تیل اور گیس، فوجی تعاون، دفاعی ٹیکنالوجیز اور بین الاقوامی راہداریوں جیسے شمال جنوب راہداری میں شراکت سے متعلق طولانی مدت معاہدے انجام پائے ہیں جو اس تعاون کا واضح ثبوت ہیں۔ ایران نے شنگھائی تعاون تنظیم اور برکس میں شامل ہو کر ان اتحادوں کو مضبوط بنانے میں بڑا قدم اٹھایا ہے۔ امریکہ جو ان اتحادوں کے بنیادی کردار سے آگاہ ہو چکا ہے مسلسل ان کے سامنے رکاوٹیں کھڑی کرنے میں مصروف ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ نے برکس اور شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کو بین الاقوامی تقریبات کے لیے ویزا دینے پر پابندی لگا رکھی ہے۔
 
اسی طرح امریکہ نے اپنے اتحادی ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ ان تنظیموں کے رکن ممالک کے سربراہان کو سفر کے لیے اپنا آسمان استعمال کرنے کی اجازت نہ دیں۔ اس کی ایک مثال سویٹزرلینڈ میں یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد تھا جس میں روس کو دعوت نہیں دی گئی جبکہ چین نے بھی اس میں شرکت نہیں کی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مغربی ممالک برکس اور شنگھائی تعاون تنظیم کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور انہیں کمزور بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم اور برکس کے رکن ممالک کا اصل مقصد اپنے تشخص، حق خود ارادیت اور سلامتی کی حفاظت کرنا ہے جس کے لیے وہ ایک عالمی پلیٹ فارم پر باہمی تعاون میں مصروف ہیں اور یہ وہی چیز ہے جس کی مغربی تنظیموں میں کمی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پی ٹی آئی والے جہاں سے راستہ تلاش کرنا چاہتے ہیں وہاں سے نہیں ملے گا: رانا ثنا اللہ
  • پی ٹی آئی نے خیبرپختونخوا مائنز اینڈ منرلز بل کے جائرے کے لیے کمیٹی تشکیل دیدی
  • ایک اور میثاق جمہوریت تک موجودہ صورتحال تبدیل نہیں ہوسکتی. رانا ثنا اللہ
  • جب تک ایک اور میثاق جمہوریت نہیں ہوگا تب تک موجودہ صورتحال تبدیل نہیں ہوسکتی: رانا ثنا اللہ
  • وفاقی حکومت کا رواں سال گندم کی خریداری نہ کرنے کا فیصلہ
  • نیو ورلڈ آرڈر کی تشکیل میں ایران روس تعاون
  • اختر مینگل کا دھرتنے کے مقام پر کثیر الجماعتی کانفرنس بلانے کا فیصلہ
  • واٹس ایپ سروس میں تعطل، صارفین دنیا بھر میں مشکلات کا شکار
  • یوسف رضا گیلانی کا نئے عالمی سماجی معاہدے کی تشکیل کی ضرورت پر زور
  • بلوچستان میں مذاکراتی تعطل، بلوچ خواتین کی رہائی پر ڈیڈلاک برقرار