Express News:
2025-04-13@15:33:40 GMT

توازن، چین اور امریکا

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

ہم اپنی خارجہ پالیسی کے تین ستونوں کے محاذ پر مصروفِ عمل ہیں، صدر پاکستان آصف علی زرداری چین کے دورے پر تھے اوربیک وقت جب وہ چین کے صدر سے مذاکرات میں مصروف تھے تو بلاول بھٹو واشنگٹن میں امریکی سینیٹر ز کے درمیان مصروف نظر آئے اور وہ بھی اس وقت جب امریکا اور چین کے درمیان سرد جنگ کا سلسلہ جاری ہے۔

اس سرد جنگ کاسیاق و سباق مختلف ہے ، یہ سرد جنگ ایک تجارتی محاذ ہے جس میں تجارت کو ہتھیار بنا کر لڑا جاتا ہے ۔اس سرد جنگ کا انجام کیا ہوگا یہ کہنا قبل از وقت ہوگالیکن یہ جنگ پاکستان کے لیے بڑی اہمیت رکھتی ہے کیونکہ ہم دونوں ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات بناناچاہتے ہیں۔ 2014 سے متواتر امریکا ہم سے نالاں تھا کہ پاکستان اس خطے میں چین کے ساتھ ایک الگ بلاک بنا رہا ہے اور اس سے پہلے ہم امریکی بلاک میں تھے۔

اس بلاک کا حصہ ہونے کی وجہ سے پاکستان اس خطے میں امریکا کی فرنٹ لائن اسٹیٹ بنا رہا۔چین کے مقابلے میں جب امریکا ہندوستان کی طرف جھکا تو یہ بات پاکستان کے لیے باعث تشویش تھی اسی توازن کو برقرار رکھنے کے لیے ہمارا جھکاؤ اور دوستی چین کی طرف بڑھی۔

امریکا نے بیالیس سال بعد وہ تمام دستاویزات De-classified  کر دیے ہیں جو یہ بتا رہے ہیں کہ سوویت یونین کو افغانستان میں رسوا کرنا عالمی سرمایہ دار اتحاد کا منصوبہ تھا جسے امریکی سی آئی اے نے اتحادی ممالک کی مدد سے پایہ تکمیل تک پہنچایا، ایسے ہی کئی دستاویزات اور شواہد موجود ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے کس طرح اپنے حصے کا کردار ادا کیا ۔

وہ زمانہ بھی سرد جنگ کا تھا اور وہ سرد جنگ امریکا اور سوویت یونین کے درمیان تھی۔اس جنگ میں سوویت یونین نے امریکا سے اس لیے شکست کھائی کیونکہ سوویت یونین معاشی طور پر کمزور ہو چکا تھا،پھر ٹوٹ کر بکھر گیا۔نوے کی دہائی سے لے کر اب تک یعنی لگ بھگ تیس سال تک اس دنیا پر صرف امریکا کا سکہ چلتا رہا اور امریکا کا اتحادی تھا نیٹو۔ہم جیسے ملک امریکا کے اتحادی نہیں بلکہ غلام تھے۔ہم جیسے ہی ممالک کی ایک صف سوویت یونین کے ساتھ کھڑی تھی۔

رواں ہفتے پاکستان کا تیسرا محاذ کشمیر تھا۔ ہمارے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر مظفر گڑھ میں نظر آئے اور بہت عرصے بعد ایک بھرپور میسج پاکستان کی طرف سے ہندوستان کو گیا۔اس وقت ہندوستان کو ایک شکست بنگلہ دیش میں ہوئی ہے جب ان کی اتحادی حکومت کا تختہ عوام نے الٹ دیا۔

ہمارے دعویٰ کشمیر کو کمزور بنانے کے لیے ہمیں افغانستان اور بلو چستا ن کے ساتھ مسائل میں الجھا کر رکھا اور سمجھنے کی بات تو یہ ہے کہ دشمن نے ہمیں کنگال کرنا چاہا لیکن ہم اس بحران سے باہر نکل آئے۔ان بیس برسوں میں ہندوستان کی معیشت بے حد مضبوط ہوئی ہے ،اب وہ دنیا کی تیسری بڑی طاقت بننے جا رہا ہے۔اس ہفتے میں ہمار ی وزارت خارجہ بہت مصروف نظر آئی۔ہم پر چین کا اعتماد ہے جو کہیں پچھلی حکومتوں میں ڈانواڈول ہوا تھا مگر واپس اپنے ٹریک پر آچکا ہے۔

سرد جنگ کے بعد تیس برس تک امریکا نے اس دنیا پر حکومت کی، افغانستان کو یر غمال بنایا، عراق پر حملہ کیا دونوں ممالک میں اپنی فوجوں کوبھیجا۔جب وہ دونوں ممالک سے چلے گئے تو دونوں ممالک میں ان کی من پسند حکومتیں نہیں۔

افغانستان پر طالبان نے حکومت بنالی جو ہمارے حق میں نہیں۔ہم اپنی خارجہ پالیسی کے ستون ، نظریاتی نقطہ نظر سے کھڑے کرتے ہیں جب کہ ماڈرن ریاستیں خارجہ پالیسی کا محور تجارت کو سمجھتی ہیں۔ان تیس برسوں میں چین کو Space ملا۔

چین امریکا کی پسندیدہ ریاست رہی۔ چین سے آنے والی درآمدات پر امریکا زیرو ٹیرف لاگو کرتا تھا، لہٰذا ان تیس برسوںمیں چین کی معیشت نے اتنی ترقی کی کہ وہ اب دنیا کی دوسری بڑی GDP یعنی مجموعی پیداوار کا مالک ہے ۔امریکا جب اس دوڑ میں پہنچا تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔امریکا کو مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی میں سبقت حاصل ہے۔

چین نے Deep Seek کے نام سے مصنوعی ذہانت کا ایک سافٹ ویئر متعارف کرایا ہے ۔اس سافٹ ویئر کو بہت ہی کم رقم خرچ کر کے تیار کیا گیا ہے۔اس سافٹ ویئر کی وجہ سے نیویارک کی وال اسٹریٹ پر امریکا کی مصنوعی ذہانت کی بڑی کمپنیوں 1000 ارب ڈالر تک ایک دن میں حصص کی قیمت گرادی۔چین اور امریکا اب ٹیکنالوجی کی دوڑ میں ہیں، امریکا کی اس دوڑ میں سبقت کم ہوتی نظر آرہی ہے۔

جب سے ٹرمپ امریکا کے صدر بنے ہیںلاس اینجلس میں ایسی آگ بھڑک اٹھی کہ عام لوگوں کو تقریباّ بارہ سو ارب ڈالر کا نقصان پہنچ چکا ہے۔ ٹرمپ نے کینیڈا اور میکسکو کی برآمدات پر ڈیوٹی لاگو کی جس نے خود امریکا کو نقصان پہنچایا اوراپنے اس فیصلے کو ٹرمپ نے تین مہینے کے لیے موخر کردیا اور ایسی ہی ڈیوٹی چین پر بھی لاگو کی مگر اس فیصلے کو ٹرمپ نے موخر نہیں کیا۔

اسرائیلی وزیر ِاعظم نیتن یاہو کے ساتھ، ٹرمپ نے غزہ کے حوالے سے ایک مشترکہ پریس کانفرنس کی جس نے سعودی عرب اور دوسرے اسلامی ممالک کو حیران کردیا کیونکہ ٹرمپ خود ہی امریکا کے لیے بڑی تیزی سے مسائل پیدا کر رہا ہے۔دنیا کی معیشت اندر سے کمزور ہو رہی ہے۔ٹرمپ کا ٹیرف لاگو کرنا امریکا کی اپنی معیشت کے لیے مسائل پیدا کر رہا ہے۔

ان تمام حقائق کو بڑی گہرائی سے جانچنا پڑے گا اور ان پر رد عمل بھی تیزی سے کرنا پڑے گا۔ایک ایسا رد عمل جو ہماری ترتیب دی ہوئی خارجہ پالیسی کا عکس ہو۔ اپنی خارجہ پالیسی کو ایسے ہاتھوں میں نہیں چھوڑا جا سکتا جو نا تجربہ کار ہوں۔

خارجہ پالیسی کی بہترین حکمت عملی کے لیے پارلیمنٹ کا Input ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ہماری خارجہ پالیسی کو جو مسائل درپیش ہیں یا جو کمزوریاں موجود ہیں وہ اس لیے بھی ہیںکہ ہم نے اپنی خارجہ پالیسی معروضی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ترتیب نہیں دی۔

ہماری خارجہ پالیسی سرد جنگ کے پس منظر میں ترتیب دی گئی۔ہماری دوستی، دشمنی یا پھر تعلقات نظریاتی سوچ کے تابع تھے،مگر آج ہمیں یہ سمجھنا پڑے گا کہ ہم ہندوستان سے بھی دشمنی نہیں رکھنا چاہتے۔کشمیر کا مسئلہ اپنی جگہ لیکن ہمارے تجارتی تعلقات اس کی نظر نہیں ہونے چاہئیں اور یہ تجارت امریکا اور چین کے تسلط سے آزاد ہونی چاہیے۔

خان صاحب ٹرمپ کا کارڈ کھیل نہیں سکے۔صوبہ بلوچستان میں شورش ہے اور کے پی کے میں طالبان متحرک ہیں۔ان کے لیے اس نئے تناظر میں مایوسی کے سوا کچھ نہیں۔اسمگلنگ پر کسی حد تک قابو پا لیا گیا ہے۔بلوچستان کے اندر محرومیوں نے جڑ پکڑ لی ہے جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں کے عوام بلوچستان کی حکومت کو عوامی نہیں سمجھتے۔

بلوچستان میں ایک ایسی حکومت ہو جو وہاں کے لوگوں کی پسندیدہ ہو۔ داخلی طور پر ہمارا مضبوط ہونا ہماری خارجہ پالیسی کے ستونوں کو مضبوط بنائے گا۔ہماری مضبوط معیشت ہمیں طاقت دے گی کہ ہم آئی ایم ایف کی کڑی شرطوں سے آزاد ہوں،اگر ہمارے ایک صوبے میں علیحدگی کی تحریک شروع ہوگی تو وہ ہمارے دشمن کو ذرایع مہیا کرے گی اور یہی عناصر ہمیں بین الاقوامی طور پر نقصان پہنچائیں گے، ہمارے لیے مشکلات پیدا کریں گے۔ایسے تمام تضادات کو حقیقی جمہوریت کم کرتی ہے۔مصنوعی جمہوریت یا پھر ہائبرڈ جمہوریت طویل مدتی نہیں ہوتی اور ایسی جمہوریت ملک کے لیے اچھا شگون نہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اپنی خارجہ پالیسی دونوں ممالک سرد جنگ کا امریکا کی کے ساتھ چین کے کے لیے رہا ہے

پڑھیں:

ہم شامی سرزمین پر کسی فریق کیساتھ محاذ آرائی نہیں چاہتے، ھاکان فیدان

اپنے ایک بیان میں ترکیہ کے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ شام پر اسرائیل کے حملے اشتعال انگیزی اور عدم استحکام کا باعث ہیں۔ تل ابیب کو شام کی فضائی خود مختاری کا احترام کرنا چاہئے۔ اسلام ٹائمز۔ ترکیہ کے وزیر خارجہ "هاکان فیدان" نے کہا کہ غزہ میں جنگ بندی ہونی چاہئے۔ اسرائیل کو اجتماعی قتل کی کھلی چھوٹ نہیں ملنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ صیہونی قتل عام کو روکنا چاہئے۔ ہم چاہتے ہیں کہ امریکہ، غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے اجراء کے لئے اپنی کوششیں جاری رکھے۔ غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لئے امریکہ و یورپ کو اسرائیل کی مدد بند کرنا پڑے گی۔ ترکیہ کے وزیر خارجہ نے شام کے بارے میں اپنے موقف سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ  اس حوالے سے ہماری پوزیشن واضح ہے۔ ہم شام میں استحکام کے قیام کے ساتھ ساتھ ایسے اشتعال انگیز اقدامات کی روک تھام چاہتے ہیں جس سے شام کی خود مختاری کو خطرہ لاحق ہو۔ انہوں نے کہا کہ شام پر اسرائیل کے حملے اشتعال انگیزی اور عدم استحکام کا باعث ہیں۔ تل ابیب کو شام کی فضائی خود مختاری کا احترام کرنا چاہئے۔

ھاکان فیدان نے کہا کہ ہم شامی سرزمین پر کسی بھی حکومت کے ساتھ محاذ آرائی نہیں چاہتے۔ واضح رہے کہ اسرائیل نے اپریل کے اوائل میں شام کے اُن 3 فضائی اڈوں کو نشانہ بنایا جنہیں انقرہ اپنا ٹھکانہ بنانا چاہتا تھا۔ اس حوالے سے ھاکان فیدان نے کہا کہ تُرک صدر "رجب طیب اردگان" عنقریب شام کا دورہ کریں گے اور اس سفر کے انتظامات کے لئے کوششیں جاری ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم شامی سرزمین پر قیام امن اور دہشت گرد گروہوں کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے اقدامات کرتے رہیں گے۔ امریکہ کے حوالے سے تُرک وزیر خارجہ نے کہا کہ رجب طیب اردگان اور امریکی صدر "ڈونلڈ ٹرامپ" کے درمیان ملاقات ترتیب دی جا رہی ہے۔ ہم روسی و یوکرینی فریقین کے درمیان مذاکرات کے لئے بھی سفارتی کوششیں کر رہے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ہم شامی سرزمین پر کسی فریق کیساتھ محاذ آرائی نہیں چاہتے، ھاکان فیدان
  • ایران اور امریکا کے درمیان عمان کی میزبانی میں بالواسطہ مذاکرات کا آغاز
  • عمان میں ایران امریکا بالواسطہ مذاکرات کا پہلا دور ختم؛ آئندہ کا لائحہ عمل طے پاگیا
  • امریکہ من مانے طریقے سے کام نہیں کر سکتا ،  چینی وزیر خارجہ
  • ایران اور امریکا کے درمیان عمان میں بالواسطہ مذاکرات کا آغاز
  • غزہ میں امداد کے داخلے کو جنگ بندی سے منسلک نہیں کیا جا سکتا، سعودی وزیر خارجہ
  • غزہ میں امداد کے داخلے کو جنگ بندی سے منسلک نہیں کیا جا سکتا.سعودی وزیر خارجہ
  • ایران اور امریکہ کے درمیان بالواسطہ مذاکرات آج ،ایٹمی پروگرام پر بات چیت متوقع
  • ایٹمی پروگرام تنازع: ایران اور امریکا کے درمیان بالواسطہ مذاکرات آج ہوں گے
  • غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل کو جنگبندی سے نہیں جوڑنا چاہئے، فیصل بن فرحان