UrduPoint:
2025-04-15@15:29:28 GMT

پاکستانی خواتین میں اسکوٹی کے استعمال کا بڑھتا ہوا رجحان

اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT

پاکستانی خواتین میں اسکوٹی کے استعمال کا بڑھتا ہوا رجحان

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 فروری 2025ء) ماہرین کے مطابق معاشی آزادی، زندگی کے بڑھتے ہوئے اخراجات، مہنگائی اور دیگر وجوہات کے اثرات کے باعث خواتین اسکوٹیز کو نقل و حمل کا ایک قابل بھروسہ اور سستا ذریعہ سمجھ کر اسے استعمال کر رہی ہیں۔

’مجھے آزادی کا احساس دیتی ہے‘

ثانیہ سہیل ،جو روزانہ راولپنڈی صدر کے علاقے سے اسلام آباد میں اپنے دفتر تک کا سفر خوداعتماد ی کے ساتھ اپنی اسکوٹی پرکرتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں،'' میری اسکوٹی کام پر جانے کا بہترین ذریعہ ہے۔ یہ بہت آسان ہے اور میرا بہت سا وقت اور پیسے کی بچت کا سبب ہے۔ یہ مجھے بااختیار اور مضبوط ہونے کا احساس دیتا ہے۔ مجھے آزادی کا احساس دیتا ہے۔‘‘

ایک گھریلو خاتون، عنبر بابر، جو راولپنڈی کے صدر بازار میں خریداری کر رہی تھیں، نے کہا، ''میں اپنے بچوں کو اسکول لے جانے اور گھریلو اشیاء خریدنے کے لیے اپنی سکوٹی کا استعمال کرتی ہوں۔

(جاری ہے)

اپنےخاندان کے کمانے والے فرد کے طور پر میں گاڑی کی متحمل نہیں ہو سکتی، اس لیے میری سکوٹی میرے لیے زیادہ سستی اور قابل رسائی آپشن ہے۔‘‘

وقت کی بچت اور آسان سواری

محمد جہانگیر، جو اپنی بیٹی کے ساتھ اسکوٹی خریدنے کے لیے مری روڈ پر ایک شو روم میں موجود تھے، نے نقل و حمل کے لیے سکوٹی کو ایک قابل بھروسہ سواری قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی بیٹی سارہ صبح کالج جاتے ہوئے پبلک ٹرانسپورٹ پر انحصار کرنے کی وجہ سے دیر سے کالج پہنچتی تھی، جوکہ پریشانی کا باعث تھا۔

جہانگیر نے مزید کہا کہ سکوٹی ایک قابل اعتماد اور آسان سواری ہے،اس سے میری بیٹی کو وقت پر کالج پہنچنے میں مدد ملے گی۔ جہانگیر نے سکوٹی کے مالی فوائد پر بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ گاڑی کے مقابلے میں کم دیکھ بھال کی متقاضی ہے اور اس کا پٹرول کا خرچہ بھی کم ہے۔

خواتین ٹیکسی سروس، پاکستانی خواتین میں مقبول

خواتین کی خود مختاری کا نیا راستہ

چیف ٹریفک آفیسر بینش فاطمہ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''اگر آپ چاہتے ہیں کہ کوئی خاتون مالی طور پر خود مختار ہوتو آپ کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ وہ آزادانہ طور پر چل پھر سکے۔

یہی کردار راولپنڈی ٹریفک پولیس ادا کر رہی ہے۔ خواتین اور لڑکیاں اب آزادانہ طور پر سفر کر رہی ہیں اور یہ تبدیلی معاشرتی قبولیت کی بڑھتی ہوئی سطح کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے۔‘‘

فرح ناز نے کہا پاکستان میں خواتین کے لیے سکوٹی چلانا بہت ضروری ہے اور وہ سمجھتی ہیں کہ یہ بہت فائدہ مند ہے۔ وہ کہتی ہیں،''مجھے کبھی بھی کسی مشکل کا سامنا نہیں ہوا۔

لوگ نہ ہی کچھ برا کہتے ہیں، نہ ہی کوئی مزاحمت کرتے ہیں۔ بلکہ، اگر اسکوٹی کسی سڑک پر رکتی ہے تو لوگ خود راستہ دے دیتے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ سکوٹی چلانے کے رحجان کو عام ہونا چاہیے۔

سکوٹی متعارف کرانے والی صحافی فرح

صحافی فرح ناز پاکستان کی ان چند خواتین میں شامل ہیں جنہوں نے اسکوٹی کلچر متعارف کرایا۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے فرح نے بتایا کہ کچھ سال قبل وہ بھارت گئیں جہاں انہوں نے خواتین کو آزادی سے اسکوٹی چلاتے اور روزمرہ کے کام سرانجام دیتے دیکھا، جس سے وہ بے حد متاثر ہوئیں۔

واپس آکر انہوں نے خود بھی اسکوٹی خرید لی حالانکہ اس وقت پاکستان میں خواتین کا موٹرسائیکل چلانا معیوب سمجھا جاتا تھا۔

فرح نے بتایا،''جب میں بھارت گئی تو دیکھا کہ خواتین اسکوٹی پر سبزی خریدنے، بچوں کو یونیورسٹی یا کالج چھوڑنے اور گھریلو ذمہ داریاں نبھانے جا رہی ہیں۔ یہ ایک مثبت تبدیلی ہے۔ اگر ہماری خواتین بھی سکوٹی استعمال کریں تو ان کے لیے کئی کام آسان ہو سکتے ہیں۔

مثلاً خریداری یا کسی ضروری کام کے لیے انہیں دوسروں پر انحصار نہیں کرنا پڑے گا۔ اس سے نہ صرف وقت بلکہ پیسے کی بھی بچت ہوتی ہے۔‘‘

پاکستان: کریم ٹیکسی کی خواتین ڈرائیورز

ہم بھی خریدیں گے‘

فرح ناز نے کا کہنا ہے، ’’اسکوٹی چلانے کا میرا بہت اچھا تجربہ رہا ہے۔ جس جس جگہ سے میری سکوٹی گزرتی تھی لوگ میری سکوٹی کو ہارن مار کر روکا کرتے تھے اور پوچھتے تھے کہ یہ کہاں سے خریدی ہے اور کتنی کی ہے۔

اکثر لوگ کہتے تھے کہ ہم اپنی بہن یا بیٹی کے لیے خریدیں گے۔ ایک بار راولپنڈی کے سرکلر روڈ پر جب میں اسکوٹی پر جا رہی تھی تو ایک شخص نے میری سکوٹی کو دیکھ کر سوال کیا کہ یہ کہاں سے خریدی ہے۔ اس کے ساتھ اس کی بیٹی بھی تھی جو اسے خریدنا چاہتی تھی۔‘‘

ڈرائیونگ سیکھنے کا نیا رجحان

چیف ٹریفک آفیسر بینش نے ''ویمن آن وہیلز‘‘ کے تحت خواتین کی ڈرائیونگ ٹریننگ میں بڑھتی ہوئی شرکت اور اس اقدام کی کامیابی پر روشنی ڈالی۔

انہوں نے بتایا کہ اب مزید خواتین تربیت کے لیے رابطہ کر رہی ہیں جو گزشتہ سالوں کے مقابلے میں ایک نمایاں تبدیلی ہے۔‘‘ بینش کے مطابق ''پہلے ضلع میں تربیتی ادارے محدود تھے اور زیادہ تر خواتین نجی ڈرائیونگ اسکولوں پر انحصار کرتی تھیں۔ تاہم اب ہم نے تعلیمی اداروں میں تربیت کا آغاز کیا ہے،جس سے طلبہ کی شرکت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے ۔

ڈرائیونگ سیکھنے کی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لیے ٹریفک پولیس نے کیمپس میں تربیتی پروگرام کا آغاز کیا۔ اس اقدام کے تحت رجسٹرڈ طلبہ کو تربیت فراہم کرنے کے لیے انسٹرکٹرز جدید تربیتی آلات کے ساتھ منتخب تعلیمی اداروں کا دورہ کرتے ہیں۔ نجی ڈرائیونگ اسکولوں کے مقابلے میں کم لاگت ہونے کی وجہ سے اس پروگرام کو طالبات کی جانب سے بھرپور پذیرائی ملی ہے۔

ٹریفک پولیس پندرہ روزہ تربیتی پروگرام کے لیے صرف تین ہزار روپے فیس وصول کرتی ہے، جس طرح زیادہ یہ خواتین کے لیے بآسانی قابلِ رسائی ہے۔ تربیت میں روڈ سیفٹی اور ٹریفک قوانین پر خصوصی لیکچرز شامل ہیں تاکہ شرکاء میں شعور اجاگر کیا جا سکے۔ بینش فاطمہ نے مزید بتایا کہ حالیہ سیشن میں ایک سو ساٹھ خواتین کو تربیت دی گئی، جو کہ اس پروگرام کے آغاز کے بعد سب سے ابگ تک کی بڑی تعداد ہے۔

اس سے قبل ہر سیشن میں شرکاء کی اوسط تعداد دس سے بارہ کے درمیان ہوتی تھی۔

بنگلہ دیش کی پہلی خاتون ٹرین ڈرائیور

خطرے کو مدنظر رکھنا بھی ضروری

ڈاکٹر محمد زمان، سربراہ شعبہ سیاسیات، قائداعظم یونیورسٹی، اسلام آباد نے اس پیش رفت کو مثبت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے خواتین کو اپنی بیرونی سرگرمیوں میں خودمختاری ملی ہے اور ان کے خاندانوں کو بھی سہولت حاصل ہوئی ہے، جو ان کی نقل و حرکت کے حوالے سے محدود تھے۔

تاہم انہوں نے اسکوٹیز کے ڈیزائن پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ موٹر سائیکل ایک خطرناک سواری ہے اور تقریباً 80 فیصد سڑک حادثات موٹر سائیکل سے متعلق ہوتے ہیں۔

ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر زمان نے تجویز دی کہ خواتین کے لیے تین پہیوں والی موٹر سائیکل زیادہ محفوظ اور موزوں سواری ہو سکتی ہے۔ ڈاکٹر زمان نے کہا کہ معاشرے میں یہ تبدیلی ٹرانسپورٹ کے نظام کی عدم دستیابی اور مختلف شعبوں میں خواتین کے لیے بڑھتے ہوئے مواقع کا نتیجہ ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے خواتین کے لیے ہوئے کہا کہ کرتے ہوئے انہوں نے کے ساتھ رہی ہیں کر رہی ہے اور

پڑھیں:

ایران میں مسلح افراد کا ورکشاپ پر حملہ؛ باپ بیٹے سمیت 8 پاکستانی جاں بحق

ایران کے صوبے سیستان بلوچستان میں ایک دل دہلا دینے والے واقعے میں آٹھ پاکستانی شہریوں کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔

یہ واقعہ پاکستان-ایران سرحد کے قریب پیش آیا۔ مقتولین کا تعلق پنجاب کے ضلع بہاولپور سے تھا اور وہ مہرسطان ضلع کے دور افتادہ گاؤں حائز آباد میں ایک ورکشاپ میں کام کرتے تھے جہاں گاڑیوں کی پینٹنگ، پالش اور مرمت کی جاتی تھی۔

مقتولین میں دلشاد، اس کا بیٹا نعیم، جعفر، دانش، ناصر اور دیگر شامل ہیں۔ تمام افراد کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے تھے اور انہیں گولی مار کر قتل کیا گیا۔

مقامی ذرائع کے مطابق حملہ آور رات کے وقت ورکشاپ میں داخل ہوئے اور اندھا دھند فائرنگ کرکے تمام افراد کو موقع پر ہی قتل کر دیا۔

ایرانی سیکیورٹی فورسز نے لاشیں برآمد کر کے علاقے کو گھیرے میں لے لیا ہے۔ ابھی تک حملہ آوروں کی شناخت نہیں ہو سکی ہے۔

تاحال کسی گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے تاہم ابتدائی اطلاعات کے مطابق یہ بزدلانہ کارروائی ممکنہ طور پر پاکستان مخالف دہشتگرد تنظیم نے کی ہے۔

ایرانی سیکیورٹی فورسز نے قتل کی اس ہولناک واردات کی تحقیقات کا آغاز کردیا تاہم کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی۔

پاکستانی سفارت خانے کے نمائندے موقع پر پہنچ چکے ہیں تاکہ لاشوں کی شناخت اور مزید معلومات حاصل کی جا سکیں۔

تہران میں پاکستانی سفارت خانے کے ترجمان نے بتایا کہ ہم ایرانی حکام سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ متاثرہ خاندانوں کی مدد اور انصاف کی فراہمی کے لیے ہر ممکن قدم اٹھایا جائے گا۔

 

متعلقہ مضامین

  • رواں سال کتنے پاکستانی ملک چھوڑ گئے اور کہاں منتقل ہوئے
  • رواں سال کتنے پاکستانی ملک چھوڑ گئے اور کہاں منتقل ہوئے؟
  • جعفر ایکسپریس حملے میں افغانستان کو دیا گیا امریکی اسلحہ استعمال ہوا، امریکی اخبار نے تصدیق کردی
  • جعفر ایکسپریس پر دہشتگرد حملے میں افغانستان کو دیا گیا امریکی اسلحہ استعمال ہوا،واشنگٹن پوسٹ  
  • جعفر ایکسپریس پر حملے میں امریکا کی جانب سے افغانستان کو دیا گیا اسلحہ استعمال ہونے کی تصدیق
  • جعفر ایکسپریس پر ہونیوالے دہشتگرد حملے میں افغانستان کو دیا گیا امریکی اسلحہ استعمال ہوا؛ امریکی اخبار کی تصدیق
  • ایران میں قتل ہوئے 8 پاکستانیوں کے نام سامنے آ گئے
  • ایران میں پاکستانی شہریوں پر دہشتگردانہ حملے کی ذمہ داری بی ایل اے نے قبول کر لی
  • ایران میں مسلح افراد کا حملہ، باپ بیٹے سمیت 8پاکستانی جاں بحق
  • ایران میں مسلح افراد کا ورکشاپ پر حملہ؛ باپ بیٹے سمیت 8 پاکستانی جاں بحق