گزرے ہفتہ کی شب چھوٹے بھائیوں کی طرح عزیز دوست سینئرکالم نگار ملک سلمان کافون آیا ،سر جی کل پی ایم ایس ایسوسی ایشن کے انتخابات ہیں ، ہم دونوں کو انہوں نے اپنے الیکشن کے لئے انڈیپنڈنٹ آبزرور کے طور پر نوٹیفائی کیا ہوا ہے،بتائیں کتنے بجے چلیں اور جانے سے پہلے کہیں سے دیسی ناشتہ ہی کر لیں؟ملک سلمان کو ناشتوں ،کھانوں اور میزبانی کا بہت شوق ہے ، کوٹ رادھا کشن کے گلاب جامن ،ایک وقت میں میاں نواز شریف کو پسند تھے تو اب وہ سلمان کی وجہ سے جانے جاتے ہیں ،وہ ہر وقت ہر کسی سے رابطے میںر ہتا ہے ،پاکستان کے تمام علاقوں میں ہونے والے فیسٹول اسے زبانی یاد ہیں ، وہاں کے لیے ٹور اور وہ بھی فری میں ارینج کرنا بھی اس کا کمال ہے،سلمان جیسے لوگ اب خال خال ہی ملتے ہیں ، میں نے کہا یار ناشتہ گھر سے کر کے آؤں گا اور گیارہ بجے کے قریب پلاک کے دفتر یعنی پولنگ سٹیشن پر ملتے ہیں۔ پروونشل مینجمنٹ سروس ،پنجاب کے افسروں کی تنظیم ہے اور اس کا ہونا صوبائی افسروں کے لئے کسی نعمت غیر مترکبہ سے کم نہیں،پچیس تیس سال قبل جب میں نے بیوروکریسی کے معاملات پر لکھنا شروع کیا تو ایک افسر چودھری کبیر ہمیں ملے بڑے ملنسار ہنس مکھ، وہ اس وقت صوبائی افسروں کی ایسوسی ایشن کے سیکرٹری تھے ،ان سے ہمیں صوبائی افسروں کے مسائل کا علم ہوا،بعد میں چودھری صدیق بھی ملے جو اس وقت سیکرٹری ٹرانسپورٹ اور صوبائی افسروں کے صدر تھے ۔
ایک طویل عرصہ بعد رائے منظور ناصرنے صوبائی افسروں کی ایسوسی ایشن میں جان ڈالی مگر وہ ٹریک سے اتر گئے اور لگا کہ یہ افسروں کی ایسوسی ایشن نہیں کوئی ٹریڈ یونین ہے ،یہ صوبائی سروس کا غصہ اور غبار تھا جسے جائز بھی قرار دیا جا سکتا تھا مگر یہ صوبائی افسروں کے شایان شان نہیں تھا ،رائے منظور ناصر اب ایک منجھے ہوئے افسر بن چکے ہیں اور اپنی سروس کے ساتھ ساتھ انکی خدمات قرآن،حدیث اور اخلاقی لحاظ سے بھی قابل تحسین ہیں۔
وفاقی سروس اور خصوصی طور پر پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس جو پہلے ڈی ایم جی کہلاتی تھی اس کا ملک کے تمام بڑے اداروں پر ہولڈ ہے وفاق اور صوبوں میں تمام کلیدی عہدوں پر ان کا قبضہ ہے،ایک وقت میں انہیں ایسے برہمن گردانا جاتا تھا جو صوبائی افسروں کو شودر سمجھتے تھے،حالانکہ دونوں سروسز کے افسران مقابلے کا امتحان پاس کر کے سروس میں آتے ہیں ، ایک بنیادی طور پر وفاق اور وفاقی پوسٹوں اور دوسری صوبوں اور صوبائی پوسٹوں کے لیے سلیکٹ ہوتی ہے ،اب حالات مکمل نہیں مگر قدرے مختلف ہیں اور صوبائی افسروں کو ان کا مناسب حق ملنا شروع ہو گیا ہے، صوبائی سروس کے لئے آنے والا سٹف کسی طور بھی وفاقی سروس سٹف سے کم درجہ نہیں ہے ،میں بہت سے ایسے صوبائی افسروں کو جانتا ہوں جو پی اے ایس سے زیادہ قابل اور محنتی ہیں اور دوسری طرف ایسے ایسے نالائق پی اے ایس افسر بھی ملتے ہیں جو پتہ نہیں کیسے افسر بن جاتے ہیں،ایسے افسروں کے بارے میں ہی کہا جاتا ہے کہ گھروں میں انہیں ناشتہ بنا کر کوئی نہیں دیتا اور دفتر میں یہ کرسی پر سیدھے ہو کر بھی نہیں بیٹھتے اورآنے والوں سے آدھا ہاتھ ملاتے ہیں۔
پی ایم ایس ،آفیسر ایسوسی ایشن پنجاب کے انتخابات میںیونٹی پروگریس اینڈ ویلفیئرگروپ نے کامیابی سمیٹی اور عمران شمس ایسوسی ایشن کے صدر منتخب ہوئے ، میاں فاروق صادق چیف الیکشن کمشنر تھے، صوبہ بھر میں تعینات پنجاب مینجمنٹ سروس سے تعلق رکھنے والے افسروں کو ان کے دفاتر اور رہائشگاہوں کے قریب ترین ووٹ کا حق استعمال کرنے کی سہولت دی گئی تھی ،پانچ بڑے شہروں لاہور، راولپنڈی، ملتان،فیصل آباد، بہاولپور میں پولنگ سٹیشن قائم کئے گئے ،ڈگنٹی اینڈ جسٹس پینل کی طرف سے صدر کے امیدوار قمر قیصرانی تھے جو فتح یاب نہ ہو سکے مگر وہ بھی مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ایک صحت مندانہ مقابلے کی راہ ہموار کی ، نو منتخب صدر عمران شمس اپنی کامیابی کے کو اللہ کا فضل گردانتے ہیںان کا کہنا تھا کہ خدمت کو کامرانی ملی،ہمارا ماضی بے داغ اور مستقبل روشن ہے،عمران شمس ایک محنتی،دیانتدار،فرض شناس،قواعد و ضوابط کی پابندی کرنے والے افسر کے طور پر شہرت رکھتے ہیں،پی ایم ایس افسروں نے اپنے حقوق کی نگہبانی کا فریضہ ان کے شانوں پر رکھا ہے امید کی جا سکتی ہے کہ عمران شمس بہتر طور پر ساتھی افسروں کے حقوق کا تحفظ کر سکیں گے،وفاقی اور صوبائی سروس دونوں قانون ضابطے کے مطابق معاملات کو چلانے کے لیے ہیں انہیں مل جل کر کام چلانا چاہیے۔
نو منتخب باڈی کے سامنے بہت سے مسائل ہیں مگر اہم مسئلہ اہم ترین عہدوں پر صوبائی بیوروکریسی کی تعیناتی ہے کیونکہ موجودہ صورتحال میں صوبائی بیوروکریسی کے تحفظات ہیں ، چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کی تعیناتی وفاق کرتا ہے،جبکہ یہ خالص صوبائی عہدے ہیں اور انہیں صوبائی حکومت یا انتظامیہ سے مشاورت کے بعد صوبائی معاملات کوچلانا چاہئے، صوبائی افسر بھی ایک کڑے اور کٹھن امتحان کے بعد ہی عہدوں پر تعینات ہوتے ہیں،اہم عہدوں پر تعیناتی ان کاآئینی اور اخلاقی حق ہے،یہ بھی پاکستانی شہری،آئین کے تابع،رولز ریگولیشن میں جکڑے ہوتے ہیں،قابلیت اہلیت میں بھی وفاقی افسروں سے کم نہیں،پھر ان کی حق تلفی سمجھ سے بالا ہے،اس صورتحال کے ازالہ کیلئے پنجاب میں کم از کم ایک ایڈیشنل چیف سیکرٹری پی ایم ایس افسروں سے لینا چاہئے،تاکہ صوبائی معاملات کو صوبے کی سطح پر بہتر انداز سے چلایا جا سکے،ایک وقت تھا جب صوبائی سروس سے تعلق رکھنے والے افسران ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور دوسری اہم پوسٹوں پر تعینات ہوتے تھے،اب بھی پنجاب میں بہت سے اہم عہدوں پر صوبائی افسر تعینات ہیں مگر پھر بھی یہ صوبائی بیوروکریسی کا المیہ ہے کہ صوبے میں بھی عموماً انہیںکھڈے لائن لگادیاجاتا ہے،اس وقت بھی پنجاب میں صوبائی سروس کے سینئر ترین افسران سیکرٹری شپ اور دوسری ایسی پوسٹوں پر تعینات ہیں جن کو یا تو غیر اہم گردانا جاتا ہے یا وہاں کوئی وفاقی افسر لگنا پسند نہیں کرتا حالانکہ صوبائی بیوروکریسی کے ایسے ایسے محنتی افسران ہیں جو صوبے کے انتظامی معاملات کو چلانے کیساتھ امن و امان بحال کرنے،جرائم پر قابو پانے ،مہنگائی،چور بازاری،ذخیرہ اندوزی،منافع خوری کو روکنے کے لئے اپنا بہترین کردار ادا کرتے ہیں۔
کوئی صوبائی افسر اپنی تعیناتی کے دوران کتنا بھی ڈیلیور کرے،ملک و قوم کی کیسی بھی خدمت کرے، اعلیٰ ترین سطح پر اس کی وفاداری ہمیشہ مشکوک ہی رہتی ہے، کیوں؟ صوبائی بیوروکریسی میں اعلیٰ دماغ،بہترین تجربہ،جدید تربیت حاصل کرنے والوں کی اب بھی کمی نہیں مگر وفاداری کے اصول بدل گئے،معیار تبدیل ہو گئے،اس لئے قدر، قابلیت اہلیت اور قومی خدمات کی نہیں،پسند وہ خدمت وہ ہے جو حکمرانوں کے لئے کی جائے۔عمران شمس کی قیادت میں پی ایم ایس ایسوسی ایشن انقلابی اقدامات اٹھائے ، صوبائی بیوروکریسی کو اعتماد دے،اس کا مورال بلند کرے، تبادلوں کا خوف دلوں سے نکالے اور تبادلہ کیلئے باقاعدہ ایک طریقہ کار مقرر کرایا جائے، یہ دراصل صوبے اور سروس کی بہت بڑی خدمت ہو گی اور حقدار کو اس کا حق دلانے کی کامیاب کوشش،ورنہ صوبائی بیوروکریسی یونہی باندی بنی رہے گی۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: صوبائی بیوروکریسی صوبائی افسروں کے صوبائی افسر ایسوسی ایشن اور صوبائی معاملات کو پی ایم ایس پر تعینات افسروں کو اور دوسری افسروں کی ہیں مگر سروس کے ہیں اور کے لئے
پڑھیں:
8 فروری کی کال، پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات اور ریاستی صف بندی
پاکستان تحریک انصاف اپنے بانی چیئرمین کی ہدایت پر 8 فروری کو یومِ سیاہ منانے کے معاملے پر شدید نوعیت کی ابہامی کیفیت سے دوچار ہے، اور ابھی تک پارٹی کی مجوزہ روڈ میپ کا بھی کوئی واضح خاکہ سامنے نہیں آیا ہے۔
اب کی بار بھی یہی لگ رہا ہے کہ اس پاور شو کے انعقاد کا تمام بوجھ پی ٹی آئی خیبرپختونخوا اور اس کی صوبائی حکومت کے کاندھوں پر ہے، اور پاور گیم کے مرکز یعنی پنجاب اس بار بھی لاتعلقی پر مبنی رویہ یا پالیسی پر عمل پیرا نظر آئے گا۔
تاہم، پی ٹی آئی کے قلعہ خیبرپختونخوا کا مورچہ بھی پہلے کے برعکس خالی نظر آ رہا ہے اور شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ پشاور میں عملاً کوئی سرگرمی یا گہما گہمی دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے۔
پارٹی کے نئے صوبائی صدر جنید اکبر خان نے گزشتہ روز پشاور کا پہلا دورہ کیا، جہاں انہوں نے یومِ سیاہ کے حوالے سے مشاورت و ہدایات دینی تھیں۔ مگر ان کے طلب کردہ اجلاس میں خلاف توقع مرکزی یا صوبائی سطح کے کسی بھی خاص لیڈر نے شرکت نہیں کی۔
اس اجلاس سے صوبائی وزرا اور ممبران اسمبلی بھی لاتعلق اور غیر حاضر رہے۔ جنید اکبر خان اور ان کی نئی ٹیم کو دوسرا دھچکا اس وقت لگا جب گروپ لیڈر عاطف خان کے ساتھ پارٹی کے منحرف رہنما عون چودھری کی ایک تازہ تصویر کو پی ٹی آئی ہی نے وائرل کردیا، جس پر وزیر اعلیٰ اور شیخ وقاص اکرم سمیت متعدد دیگر لیڈروں نے بھی شدید ناراضگی کا اظہار کیا اور پارٹی لیڈر شپ کے آفیشل واٹس ایپ گروپ میں تصویر بنوانے کے معاملے پر سابق گورنر شاہ فرمان اور عاطف خان کے درمیان سخت جملوں اور الزامات کا تبادلہ بھی ہوا۔
اسی تلخ کلامی کے اسکرین شاٹس لے کر بعض شرکا نے میڈیا پرسنز کو فارورڈ کر دیے، جس کے باعث کارکنوں کی نظر میں عاطف خان قائد سے بے وفائی کے مرتکب قرار پائے اور ان کی وضاحت کو قبول نہیں کیا گیا، جس کا براہ راست اثر جنید اکبر خان کی صدارت پر پڑنے لگا، کیونکہ عاطف خان آن دی ریکارڈ ان کی صدارت کا کریڈٹ خود کو دیتے رہے۔
ایک اہم رہنما نے اس ضمن میں وی نیوز کو بتایا کہ جنید اکبر خان یومِ سیاہ کی تیاریوں کے سلسلے میں جب جب پارٹی رہنماوں اور دیرینہ کارکنوں سے رابطے کرتے رہے، دوسری جانب سے عون چودھری کے ساتھ عاطف خان کی تصویر کا معاملہ اور مسئلہ اٹھایا جاتا رہا۔
علی امین گنڈاپور کے گروپ نے اس معاملے کو نئے صوبائی صدر جنید اکبر اور گروپ لیڈر عاطف خان کے خلاف زبردست طریقے سے اچھالا، حالانکہ عاطف خان نے موقف اختیار کیا تھا کہ ان کی عون چودھری کے ساتھ کوئی ملاقات یا بات چیت نہیں ہوئی تھی، بلکہ اسلام آباد کلب میں واک کے دوران دونوں کی علیک سلیک ہوئی تھی، اس غیر متوقع اور مختصر ملاقات کی تصویر کسی نے بنا کر وائرل کردی۔
تصویر والے معاملے کو اتنا بڑا مسئلہ اس لیے بنایا گیا کہ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کو شدید نوعیت کے اختلافات اور گروپ بندی کا سامنا ہے، اور صوبائی صدارت سے ہٹائے جانے کے بعد وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور دوسرے گروپس کے خلاف کھل کر میدان میں نکل آئے ہیں۔
وزیر اعلیٰ نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں اعتراف کیا ہے کہ وہ بشریٰ بی بی اور بعض دیگر لیڈروں کے ہمراہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے میں رہے۔ تاہم، ان کے بقول وہ یہ سب کچھ بانی چیئرمین کی ہدایت پر ان کی مرضی کے مطابق کر رہے تھے۔ انہوں نے پارٹی کے ایک گروپ کے ساتھ سی ایم ہاوس میں کی گئی بات چیت کے دوران یہ بھی کہا کہ وہ ماضی کی طرح اب کی بار اس ایونٹ کے لیے صوبائی حکومت کی سہولت کاری کا فریضہ انجام نہیں دیں گے۔
اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے اسد قیصر اور بیرسٹر گوہر سرگرم عمل ہیں، اور دونوں بڑے گروپوں کے درمیان مصالحت کرانے کے لیے کوشاں ہیں۔ تاہم، صورتحال اس وقت مزید عجیب شکل اختیار کرچکی جب عاطف خان گروپ کی جانب سے بیرسٹر گوہر کو یہ کہہ کر تعاون کرنے سے انکار کردیا گیا کہ وہ علی امین گروپ کے حامی ہیں اور اسی طرح اسد قیصر پر پہلے والے گروپ نے عاطف خان اور جنید اکبر کی حمایت اور سرپرستی کا الزام لگایا۔
اس صورت حال کو بظاہر مضحکہ خیز اور انتہائی غیر سنجیدہ طرز عمل کا نام دیا جاسکتا ہے، تاہم یہ پی ٹی آئی کا پولیٹیکل کلچر رہا ہے اور کارکن بھی اسی کلچر سے متاثر ہو کر بیانیہ تشکیل دیتے ہیں۔
اب تک کا جو منظر نامہ سامنے آتا دکھائی دے رہا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ علی امین گنڈاپور تاحال مضبوط وکٹ اور پوزیشن پر ہیں، کیونکہ وہ صوبے کے وزیر اعلیٰ ہیں، جبکہ جنید اکبر خان اور ان کے گروپ کو وہ پذیرائی نہیں مل پار رہی، جس کی ان کو ضرورت ہے۔
حالت تو یہ ہے کہ جنید اکبر کے بعض قریبی ساتھی بھی یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ عمران خان نے جنید اکبر کی تعیناتی کے فوراً بعد یا اس سے قبل اس یومِ سیاہ کی کال دے کر نئے صوبائی صدر کو کڑی آزمائش میں ڈال دیا ہے اور یہ کہ اگر علی امین گنڈاپور نے واقعتاً صوبائی وسائل کی عدم فراہمی اور اپنی عدم دلچسپی کے اعلان پر عمل کیا تو یہ ایونٹ بری طرح ناکامی سے دوچار ہو جائے گا۔
اگر چہ وزیر اعلیٰ ان حالات میں عمران خان کے کسی فیصلے سے حکم عدولی کا رسک نہیں لے سکتے، اور وہ یومِ سیاہ سے لاتعلق نہیں رہیں گے، تاہم یہ تو واضح ہے کہ ان کی دلچسپی پہلے کی نسبت بہت کم دکھائی دے گی۔
اب تک کی دستیاب معلومات کے مطابق 8 فروری کو خیبرپختونخوا ہی کے علاقے صوابی کی حدود میں ایک احتجاجی اجتماع کا انعقاد کیا جائے گا، تاہم اس ضمن میں تجزیہ کار اور مخالفین سوال اٹھا رہے ہیں کہ اپنے ہی صوبائی حکومت کی موجودگی میں اسی صوبے کی حدود میں اس ایونٹ کے انعقاد کا آخر مطلب کیا ہے؟
اس ضمن میں پی ٹی آئی کے بعض رہنماؤں نے رابطے پر بتایا کہ اسی اجتماع میں اسلام آباد اور پنجاب کی طرف مارچ کرنے کا اعلان متوقع ہے اور اس ایونٹ میں نہ صرف یہ کہ اپنے مطالبات منوانے کے لیے شرائط رکھی جائیں گی، بلکہ وفاقی حکومت کو ایک نئی ڈیٹ لاین بھی دی جائے گی کہ اگر متوقع مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے تو فلاں تاریخ کو اسلام آباد اور پنجاب کی طرف مارچ کیا جائے گا۔
اگر ایسا ہی کیا جا رہا ہے تو اس سے کارکنوں میں مزید مایوسی پھیلے گی، کیونکہ کارکنوں کی بڑی تعداد نے نئے صوبائی صدر سے حسب عادت بہت توقعات وابستہ کی ہیں اور وہ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ کمپرومائزڈ وزیر اعلیٰ کے مقابلے میں نئے صوبائی صدر کوئی نیا پلان دے کر کچھ خاص ڈیلیور کردیں گے۔
اس سلسلے میں جب وفاقی حکومت کے بعض متعلقہ افراد یا حکام سے رابطہ کیا گیا تو ان کی جانب سے حالات کو پرسکون قرار دیا گیا، اور کہا گیا کہ ماضی کے برعکس اب کی بار وفاقی اور پنجاب حکومتوں کو کوئی تشویش لاحق نہیں ہے، اور پی ٹی آئی اب کچھ بھی کرنے کی خاص پوزیشن میں نہیں ہے۔
تاہم، یہ بھی کہا گیا کہ اگر پی ٹی آئی نے اسلام آباد یا پنجاب کی طرف انتشار پھیلانے کے لیے کوئی حرکت کی تو اس کے ساتھ حسب سابق سختی کے ساتھ نمٹا جائے گا۔
اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے خیبرپختونخوا اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر عباد اللہ خان نے کہا کہ پی ٹی آئی نے جنگ زدہ صوبے کو اپنی باغیانہ سرگرمیوں کے لیے مورچے میں تبدیل کردیا ہے، اور یہ طرزِ سیاست 2014 کے بعد جاری ہے، تاہم اب یہ سرگرمیاں ناقابل برداشت ہوگئی ہیں، اور وفاقی حکومت کسی کو ریاست مخالف سرگرمیوں اور پروپیگنڈا کی اجازت نہیں دے گی۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس قسم کی سرگرمیوں کے لیے جنگ زدہ صوبے کے سرکاری وسائل کو جس بے دردی کے ساتھ استعمال کیا جاتا رہا وہ تاریخ کا حصہ ہے، اور اب کی بار بھی یہی طرزِ عمل اختیار کیا جائے گا، مگر عوام اس پارٹی اور اس کی صوبائی حکومت سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ انہوں نے صوبے کے مسائل حل کرنے پر کتی توجہ دی؟
تجزیہ کار بھی اس ایونٹ کو محض پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کا ایک روایتی حربہ قرار دیتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے پاس نہ صرف یہ کہ پولیٹیکل کارڈز تیزی کے ساتھ ختم ہو رہے ہیں، بلکہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو فرسٹریشن کا بھی سامنا ہے۔
سینئر صحافی عرفان خان نے اس ضمن میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی اور اس کی صوبائی کابینہ شدید اختلافات سے دوچار ہیں، اور اس وقت آن دی ریکارڈ مختلف گروپوں کے درمیان ایک دوسرے کے خلاف مہم جاری ہے، ایسے میں کارکن اور پارٹی عہدے دار بھی مختلف گروپوں میں تقسیم ہو کر رہ گئے ہیں، اور ان میں یہ تاثر بہت عام ہے کہ بانی چیئرمین کی رہائی کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہورہی۔
عرفان خان کے مطابق وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کے خلاف دوسرے گروپ کی جانب سے کھلے عام پروپیگنڈا کیا گیا اور یہاں تک کہا گیا کہ صوبائی صدارت سے فارغ ہونے کے بعد ان کو وزارت اعلیٰ کے عہدے سے بھی ہٹایا جاسکتا ہے۔ اس مہم کو نہ صرف یہ کہ وزیر اعلیٰ نے ذاتیات پر مبنی رویہ سمجھا، بلکہ وہ کافی ناراض اور مشتعل بھی ہیں اور اس تمام منظر نامے کے نتیجے میں 8 فروری کا مجوزہ ایونٹ بھی بری طرح متاثر ہوگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں