الیکشن سسٹم میں اصلاحات کی ضرورت
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
8 فروری 2024ء کے انتخابات کو ایک برس بیت گیا ، پی ٹی آئی کی قیادت آج بھی ان انتخابات کو ملکی سیاسی اور انتخابی تاریخ کے بدترین انتخابات قرار دیتی ہے۔ پی ٹی آئی کے حامی تو یہاں تک کہتے ہیں کہ جب بھی مورخ پاکستان کی انتخابی تاریخ لکھے گا، ان انتخابات کی ساکھ پر سب سے زیادہ سوالات اٹھائے گا۔اگرچہ پاکستان میں عام انتخابات کی تاریخ ہمیشہ سے متنازعہ ہی رہی ہے۔ کسی ایک کو بھی منصفانہ اور شفاف انتخابات قرار نہیں دیا گیا۔
یہاں عام انتخابات پسند و ناپسند یا کسی کی حمایت اور مخالفت کی بنیاد پہ کرائے جاتے ہیں۔اسی لیے ہمارے یہاں ہونے والے تمام انتخابات پر کئی طرح کے سوال اٹھائے جاتے رہے ہیں۔مسئلہ انتخابی نظام میں سیاسی وانتظامی مداخلت کا ہے جب مداخلت کو بنیاد بنا کر انتخابات کا کھیل کھیلیں گے تو پھر اس میں ہر جماعت اپنے تحفظات ظاہر کرے گی۔ اس کھیل میں جہاں پس پردہ قوتیں ذمے دار ہیں وہیں ہماری سیاسی جماعتوں نے بھی انتخابات کی شفافیت کے نظام میں بڑی تبدیلی لانے کی کوشش نہیں کی ہے۔
8 فروری 2024کے انتخابات میں جو کچھ ہوا ہے، اس پر پی ٹی ٹی آئی ، جے یو آئی اور جماعت اسلامی تحفظات ظاہر کرتے ہیں ۔
پی ٹی آئی کو انتخابی نشان نہ ملنا،اس کے بیشتر ایسے امیدواروں کو جن پر مقدمات تھے، انھیں انتخابی مہم وانتخابی جلسوں کی اجازت نہ ملنا۔ کئی امیدوار جیلوں سے الیکشن لڑ رہے تھے ، کئی مختلف مقدمات میں مفرور تھے اور مفروری کی حالت میں الیکشن لڑ رہے تھے۔
ان کے گھروں پر چھاپے بھی پڑتے تھے، پی ٹی آئی کے امیدوار آزاد امیدواروں کے طور پر انتخابات میں حصہ لے رہے تھے اور ان سب کے انتخابی نشان ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ انھیں اپنی تشہیری مہم چلانے میں مشکلات تھیں۔ایسا پاکستان کی انتخابی تاریخ میں بہت کم دیکھنے کو ملا ۔
اگرچہ بہت سے لوگوں کے خیال میں 8 فروری 2024 کے انتخابات بھی ماضی کے انتخابات سے مختلف نہیں۔بہت سے سیاسی پنڈت8 فروری 2024 کے انتخابات کو 2018 ہی کے انتخابات سے تشبیہ دیتے ہیں۔
ان کے بقول جو کچھ 2018 میں ہوا وہی کچھ 2024 میں بھی ہوا ہے۔حالانکہ سیاسی حقائق 2018 سے بہت مختلف تھے۔ لیکن کیونکہ ہمارا سیاسی رویہ یہ ہی رہا ہے کہ ہماری پسند کی جماعت جیت جائے تو انتخابات شفاف اور اگر ہار جائے تو پھریہ ہی انتخابات دھاندلی پر مبنی تھے۔اس کھیل میں ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کاکردار مختلف نہیں ہے۔اس لیے بہت سے لوگ عملی طور پر 2018کے اور بہت سے لوگ2024کی انتخابی شفافیت کا رونا روتے ہیں۔جو کچھ 2018میں پی ٹی آئی کے حق میںہوااور کچھ بڑے پیمانے پر2024میں پی ٹی آئی کے خلاف ہوا وہ بھی غلط تھا ۔لیکن دونوں انتخابات کو ایک ہی ترازو میں تولنا بھی درست نہیں ہوگا۔
یہ سب کچھ تو ہم نے انتخابات سے پہلے کے مناظر دیکھے تھے۔لیکن جو کچھ عوام نے انتخابات والے دن کیا اور جس انداز میں خاموشی سے پی ٹی آئی کے امیدواروں کو ووٹ دیے اور ان کے انتخابی نشان پر مہریں لگائی اس نے انتخابی تاریخ کو ہی بدل دیا۔ایک فیصلہ طاقتور طبقات نے کیا تھا اور دوسرا فیصلہ عوام نے کیا اور عوام نے وہی کچھ کیا جو ان کو بہتر لگا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان انتخابات کی شفافیت پر کوئی کسی کوکسی بھی سطح پر جواب دہ نہیں۔ سب خاموش ہیں اور سب سمجھتے ہیں کہ جو کچھ نظریہ ضرورت کے تحت کیا گیا ہے وہی وقت کی ضرورت تھا۔ایک سیاسی بندوبست کے تحت حکومت کی تشکیل کی گئی لیکن انتخابی عوام کو مایوس کیا گیا ۔
پی ٹی آ ئی نے ان 8فروری 2024 کے انتخابات کی شفاف تحقیقات کے لیے ایک عدالتی کمیشن بنانے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔لیکن آج تک یہ کمیشن نہیں بن سکا۔آج کی مسلم لیگ ن کی حکومت یا ان کی اتحادی جماعتوں نے 8 فروری 2024 کے انتخابات میں خیبر پختون خواہ کے نتائج کو بھی چیلنج کیا تھا۔ان کے بقول وہاں پر بھی دھاندلی کی گئی ہے اور پی ٹی آئی کو جتایا گیا ہے۔پی ٹی آئی نے اس چیلنج کو قبول کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ خیبر پختون خواہ کے انتخابات کی شفافیت کے لیے بھی تیار ہے اور کوئی صوبائی عدالتی کمیشن بنایا جا سکتا ہے۔
اصل مسئلہ عدالتی کمیشن کا نہیں بلکہ ہماری سیاسی نیتوں کا ہے۔کیونکہ ہم ایک منصفانہ اور شفاف انتخابی نظام پر ہی یقین نہیں رکھتے۔جمہوریت اور جمہوری نظام میں اگر انتخابات کی شفافیت کو ہی نظر انداز کر دیا جائے یا اسے پس پشت ڈال دیا جائے تو پھر جمہوریت کی ساکھ کو قائم کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔یہ عمل ووٹروں میں اس اعتماد کو بھی کمزور کرتا ہے کہ یہاں حکومتیں ہماری مرضی، منشا اور ووٹ کی بنیاد پر بنتی ہیں۔
جب ووٹر کو یہ احساس پیدا ہو جائے کہ ان کے ووٹ سے حکومت نہیں بنتی بلکہ یہ طاقتور لوگوں کی مرضی اور منشا کا کھیل ہے تو پھر لوگوں کا جمہوریت کے نظام پر اعتماد اٹھ جاتا ہے۔پاکستان کی جمہوریت کا المیہ یہی ہے کہ یہاں جمہوریت کو مصنوعی بنیادوں پر چلایا جاتا ہے یا اس میں طاقتور لوگوں کے مفادات کو فوقیت دی جاتی ہے ۔ہمیشہ سے منصفانہ اور شفاف انتخابات کی بنیاد پر ہم نے انتخابی اصلاحات کی بات کی کہ اگلے انتخابات ماضی کے مقابلے میں شفاف ہوں گے۔ لیکن سب نے دیکھا کہ اگلے انتخابات پچھلے انتخابات سے زیادہ بدترین ہوتے ہیں۔ایسے لگتا ہے کہ ہمارے سیاسی فریقین سمیت ریاستی ادارے ماضی کی غلطیوں سے کچھ سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
آزاد جمہوریت اور منصفانہ و شفاف انتخابات یا آزاد عدلیہ یا آزاد الیکشن کمیشن کسی بھی سطح پر ہماری ترجیحات کا حصہ نہیں۔ہم ایک ایسا نظام چاہتے ہیں جو جمہوریت کے نام پر موجود تو ضرور ہو لیکن اس میں جمہوریت کم اور کنٹرولڈ نظام کی زیادہ عکاسی نظر آنی چاہیے ۔ہمیںکہیں سے تو ہم اپنی اصلاح کا آغازکرنا ہے اور اگرآج اصلاح کا آغاز کردیا جائے تو پھر اگلے انتخابی نظام کی شفافیت کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔وگرنہ ہم اگلے انتخابات میں بھی انتخابی دھاندلی کا رونا روتے ہوئے نظر آئیں گے ۔
اب بھی وقت ہے کہ ہم انتخابی نظام کو درست کرنے کے لیے اصلاحات کا آغاز کردیں ، لوگوں کو یہ حق دیں کہ وہ اپنی مرضی اور منشا کے مطابق جس کو بھی ووٹ دینا چاہتے ہیں ووٹ دیں اور اسی بنیاد پر لوگوں کا حق حکمرانی تسلیم کیا جانا چاہیے۔کیونکہ جب بھی لوگوں کے ووٹ کی بجائے حکومت بنانے کے کھیل میں غیرسیاسی قوتوں کا عمل دخل زیادہ ہوگا وہاں جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کا تصور اپنی اہمیت کھودیتا ہے۔اس وقت بڑا چیلنج یہ ہی ہے کہ لوگوں کا جمہوریت اور انتخابات کی شفافیت پر اعتماد بحال ہو اور وہ منصفانہ اور شفاف انتخابات کے بغیر ممکن نہیں ہوگا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: فروری 2024 کے انتخابات انتخابات کی شفاف شفاف انتخابات انتخابی تاریخ انتخابات میں جمہوریت اور انتخابات کو انتخابات سے پی ٹی ا ئی پی ٹی آئی جائے تو کیا تھا اور ان تو پھر بہت سے جو کچھ کو بھی کے لیے
پڑھیں:
سوشل میڈیا، گلوبل سیفٹی انڈیکس اور پاکستان کی حقیقت
سوشل میڈیا بھی ایک سمندر ہے، جس کی تہوں میں پوری کائنات کی معلومات چھپی ہوئی ہیں۔ اس کی سطح پر تیرتی خبروں، علمی و ادبی پوسٹوں اور مزاحیہ خاکوں کی بے شمار اقسام ہیں۔ جب کوئی ایک بار اس کے پانیوں میں قدم رکھتا ہے تو پھر اس میں اترتے ہی جاتا ہے۔ دلچسپ مواد کی کشش اسے جکڑ لیتی ہے اور وہ معلوماتی لہروں کے بیچ بھنور میں پھنس جاتا ہے۔
گزشتہ روز مری سے پنڈی سفر کے دوران فیس بک پر چلتی ایک خبر پر نظر پڑی۔ عنوان کی دلفریبی نے نظریں روک لیں: ’’گلوبل سیفٹی انڈیکس پر پاکستان بھارت سے اوپر‘‘۔ تفصیل پڑھ کر دل کو عجیب اطمینان ملا کہ وطن عزیز کے بارے میں کوئی مثبت اور حوصلہ افزا خبر ملی۔ ورنہ منفی خبروں اور افواہوں کی زد میں تو یہ مسکین ملک ہر وقت رہتا ہے۔ ملک دشمن عناصر اس کی ساکھ کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، جس کے نتیجے میں ملکی تجارت اور سرمایہ کاری متاثر ہوتی ہے۔ خاص طور پر سیاحت جیسی اہم انڈسٹری پر اس کے منفی اثرات نمایاں ہوتے ہیں، اور بیرونی ممالک کے سیاح پاکستان کے سفر سے گریز کرتے ہیں۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی بھی ملک کی بیرونی تجارت اور سیاحت اس کے اندرونی حالات پر منحصر ہوتی ہے۔ اگر امن و امان کی صورت حال بہتر ہو، سفر محفوظ ہو، جرائم کی شرح کم ہو اور معیار زندگی اچھا ہو تو بیرونی سیاح اور سرمایہ کار خود بخود کھنچے چلے آتے ہیں۔ لیکن اگر حالات اس کے برعکس ہوں تو معیشت تنزلی کا شکار ہو جاتی ہے۔
سوشل میڈیا پر کچھ ایسی ویب سائٹس موجود ہیں جو سیاحوں، مسافروں اور سرمایہ کاروں کو اپنے منصوبے مرتب کرنے میں مفید معلومات اور راہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ ان میں سے ایک ’’نمبیو‘‘ ہے، جسے 2009 ء میں سربیا سے تعلق رکھنے والے ایک گوگل ملازم نے تخلیق کیا تھا۔ یہ ایک آن لائن ڈیٹا بیس ہے جہاں دنیا بھر کے صارفین مسلسل اپنے ملک اور شہر کے سماجی، سیکورٹی اور اقتصادی حالات کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں۔ اس ویب سائٹ پر معیار زندگی، تعلیمی سہولتوں، صحت کے شعبے، ہوٹلنگ، ٹرانسپورٹ، آلودگی اور جرائم کی شرح جیسے عوامل کو ایک خاص اسکیل پر پرکھا جاتا ہے، جس کے بعد متعلقہ ممالک اور شہروں کی رینکنگ ترتیب دی جاتی ہے۔ اس کا ایک اہم فیچر ’’گلوبل سیفٹی انڈیکس‘‘ ہے، جو دنیا کے محفوظ ترین اور غیر محفوظ ترین ممالک کی درجہ بندی کرتا ہے۔
سال 2025 ء کے اعداد و شمار کے مطابق سیاحت، سفر اور قیام کے لیے دنیا کا سب سے زیادہ موزوں اور محفوظ ملک ’’ایڈورا‘‘ ہے، جو کہ فرانس اور اسپین کے درمیان واقع ہے اور اس کی آبادی تقریبا اسی ہزار ہے۔ اسی ویب سائٹ کے مطابق وینزویلا کو دنیا کا سب سے غیر محفوظ ملک قرار دیا گیا ہے، جو اس رینکنگ میں آخری نمبر پر ہے۔
اگر ہم پاکستان کی پوزیشن دیکھیں تو گلوبل سیفٹی انڈیکس 2025 ء کے مطابق پاکستان 3.56 پوائنٹس کے ساتھ 65 ویں نمبر پر ہے، جبکہ بھارت 7.55 پوائنٹس کے ساتھ 66 ویں نمبر پر ہے۔ اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان بہت کم فرق ہے، مگر سیفٹی کے معاملے پر پاکستان کو بدنام کرنے والوں کے لیے یہ ایک منہ توڑ جواب ہے۔ پاکستان کے حالات اتنے خراب نہیں جتنا کہ ہمارے مخالفین بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ البتہ، اندرونی سطح پر سیاسی عدم استحکام اور تفریق کی وجہ سے ایک خاص طبقہ ملکی مفاد کی پرواہ کرنے سے بھی گریزاں ہے۔ بعض افراد اپنے سیاسی اختلافات اور ذاتی مفادات کی خاطر ملک کے خلاف سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈا پھیلانے میں مصروف رہتے ہیں، جو کسی بھی محب وطن شہری کے شایان شان نہیں۔
ہمیں چاہیے کہ سیاسی اختلافات ضرور رکھیں، حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کریں، لیکن جب بات ملکی مفاد اور سلامتی کی ہو تو سب کچھ ایک طرف رکھ کر یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔ دشمن کے مذموم عزائم کو ناکام بنانے کے لیے ہمیں اپنے ملک کے مثبت پہلوئوں کو اجاگر کرنا ہوگا اور کمزور گوشوں کی نشاندہی کر کے اصلاحی تجاویز دینی ہوں گی۔ وقت کی نزاکت کا یہی تقاضا ہے اور ہمیں اس کا ادراک اور احساس کرنا ہوگا ۔ حکومتیں بدلتی رہتی ہیں ۔ آج کسی اور کل کسی اور سیاسی پارٹی کے ہاتھ میں زمام اقتدار ہو گا ۔ محض ایک عارضی اور مخصوص مدتی مفاد کی خاطر یا سیاسی بغض میں ملکی سالمیت اور بقا کو داو پہ نہیں لگانا چاہیے۔ ملکی ترقی اور خوشحالی کے اشاروں پر فسردہ نہیں بلکہ خوشی اور فخر محسوس کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے لئے ہمیں اپنی نفسیات اور ترجیحات کا از سر نو جائزہ لینا ہوگا ۔ قومی ترقی کے سفر میں ملنے والی کامیابیوں کو اجتماعی خوشی اور فخر کے جذبے کے ساتھ منانا ہو گا ۔ یہی مہذب ، متحد اور غیرت مند قوموں کا خاصا ہوتا ہے ۔