ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے پاکستان فوری کلائمیٹ چینج اتھارٹی اور فنڈ قائم کرے، جسٹس منصور علی شاہ
اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT
سپریم کورٹ کے سینیئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ دنیا کو موسمیاتی چیلنجز کا سامنا ہے جس کی وجہ سے ماحولیاتی انصاف کے لیے عدالت کا قیام وقت کی ایک اہم ضرورت ہے، پاکستان کو ماحولیاتی آلودگی کے مسائل سے نمٹنے کے لیے فوری کلائمیٹ چینج اتھارٹی اور مخصوص فنڈز قائم کرنا ہوگا۔
اسلام آباد میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ایک بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ ماحولیاتی انصاف پر عدلیہ کا مؤقف پیش کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ سیلاب سے پاکستان کو 30 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے جس سے پاکستان کا شمار ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں ہوتا ہے۔ قدرتی آفات نے ملک کو نمایاں طور پر متاثر کیا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے خبردار کیا کہ تیزی سے ہندوکش اور ہمالیہ کے پگھلنے والے گلیشیئرز دریائے سندھ کے نظام کو بری طرح متاثر کر رہے ہیں جس سے زراعت اور کاشتکاروں کو موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید خطرات کا سامنا ہے۔
انہوں نے موسمیاتی سائنس کو سمجھنے اور ماحولیاتی عدالت کے قیام سمیت مقامی سطح پر اس کا حل تلاش کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ آنے والے دنوں میں پاکستان میں پانی کی شدید قلت پیدا ہو سکتی ہے۔
انہوں نے ماحولیاتی مسائل پر فوری ردعمل اور فنڈنگ میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے ماحولیاتی احتساب کے نظام پر بھی زور دیااور کہا کہ آلودگی کے ذمہ دار اکثر قومی سرحدوں سے باہر بھی ہوتے ہیں، جس سے عالمی تعاون ضروری ہوجاتا ہے۔
عدلیہ کے کردار پر بات کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جب ہائیکورٹ میں ماحولیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے مسائل اٹھائے گئے تو حکومت ان مسائل کی شدت سے بے خبر تھی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق انصاف کے لیے مالی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے اور مناسب فنڈز کے بغیر آب و ہوا کی تبدیلی سے نمٹنا ایک محض خواب ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی انسانی زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کر رہی ہے ، جس سے ماحولیاتی تبدیلیوں میں مالی اعانت بنیادی حق بن جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو فوری طور پر کلائمیٹ چینج اتھارٹی اور ایک مخصوص کلائمیٹ چینج فنڈ کی ضرورت ہے لیکن اس وقت کوئی فنڈ موجود نہیں ہے۔
اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عالمی فنڈز نہیں آرہے ہیں جس کی وجہ سے مقامی سطح پر ماحولیاتی حل کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ’نیچر فنانس‘ کو ایک نئے تصور کے طور پر متعارف کرایا اور ’ماحولیاتی احتساب ‘کی اہمیت پر روشنی ڈالی، جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ سکوک فنڈنگ ایک مؤثر مالیاتی ہتھیار ہوسکتا ہے۔
اس موقع پر وفاقی وزیربرائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے گرین پاکستان کی طرف جانا ہوگا اور اس میں مزید تاخیر کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے ۔
انہوں نے کہا کہ اُڑان پاکستان پروگرام میں موسمیاتی تبدیلی بھی شامل ہے، ہمیں دوسروں کا انتظار نہیں کرنا چاہیے، ہمیں اس حوالے سے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
کانفرنس سے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے بھی خطاب کیا اور کہا کہ ہم عمارتوں کو سولر پر لے جا رہے ہیں تاکہ صوبوں میں زیادہ سے زیادہ پودے لگائے جائیں۔ اس موقع پر نمائندہ ورلڈ بینک والیری ہکی نے بھی خطاب کیا اور کہا کہ موسمیاتی تبدیلی غریب لوگوں کے لیے خطرہ ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
جسٹس اعجاز الحسن جسٹس منصور علی شاہ سیلاب عالمی تعاون عالمی فنڈ کانفرنس کلائمیٹ چینج مخصوص فنڈ موسمیاتی تبدیلی موسمیاتی فنڈ نیچر سائنس ہائیکورٹ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: جسٹس اعجاز الحسن جسٹس منصور علی شاہ سیلاب عالمی تعاون عالمی فنڈ کانفرنس کلائمیٹ چینج موسمیاتی تبدیلی موسمیاتی فنڈ نیچر سائنس ہائیکورٹ جسٹس منصور علی شاہ ماحولیاتی تبدیلی موسمیاتی تبدیلی انہوں نے کہا کہ کلائمیٹ چینج ماحولیاتی ا پاکستان کو اور کہا کہ کی ضرورت ضرورت ہے نے والے کے لیے
پڑھیں:
گلگت بلتستان کے کسانوں کے لیے ’آئس اسٹوپاز‘ رحمت کیسے؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 اپریل 2025ء) شمالی پاکستان میں سارا سال برف کی سفید چادر سے ڈھکے رہنے بلند و بالا پہاڑوں کے وادیوں میں رہائش پذیر اور پانی کی کمی سے دوچار کسانوں نے اپنے آئس ٹاور یا برفانی ستون تعمیر کر لیے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں سردیوں میں معمول سے زیادہ درجہ حرارت اور برف باری میں کمی کی وجہ سے گلگت بلتستان کو اب پانی کی قلت کا مسئلہ درپیش ہے۔
آن لائن مدد کی تلاشیہ علاقہ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کا مسکن بھی ہے۔ قراقرم کے پہاڑی سلسلے کے سائے میں وادی اسکردو کے کسانوں نے 2,600 میٹر (8,200 فٹ) تک کی بلندی پر اپنے سیب اور خوبانی کے باغات کو سیراب کرنے کے لیے آن لائن مدد تلاش کی۔
ایک مقامی کسان غلام حیدر ہاشمی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ''ہم نے یوٹیوب پر مصنوعی گلیشیئر دریافت کیے۔
(جاری ہے)
‘‘ انہوں نے سرحد کے اس پار دو سو کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر بھارتی علاقے لداخ میں ماحولیاتی کارکن اور انجینئر سونم وانگچک کی ویڈیوز دیکھیں، جنہوں نے تقریباً دس سال قبل یہ تکنیک تیار کی تھی۔اس تکنیک کے تحت پانی کو ندیوں سے گاؤں تک پہنچایا جاتا ہے اور سردیوں کے منجمد کر دینے والے درجہ حرارت کے دوران اس کا ہوا میں چھڑکاؤ کیا جاتا ہے۔
یونیورسٹی آف بلتستان کے پروفیسر ذاکر حسین ذاکر نے کہا، ''پانی کو ہوا میں اچھالا جانا چاہیے تاکہ جب درجہ حرارت صفر سے نیچے آجائے تو یہ جم جائے، جس سے برف کے ٹاور بنتے ہیں۔‘‘اس کے بعد یہ برف ایک ایسی شکل اختیار کر لیتی ہے، جو بدھ مت کے مقدس اسٹوپاز سے ملتی جلتی ہے اور پانی کو ذخیرہ کرنے کے ایک نظام کے طور پر کام کرتی ہے، پھر جب موسم بہار میں درجہ حرارت بڑھتا ہے، تو برف کا یہ ذخیرہ تسلسل سے پگھلنے لگتا ہے۔
برفانی چوٹیوں کی سر زمینگلگت بلتستان میں 13,000 گلیشیئرز ہیں، جو قطبی خطوں سے باہر زمین پر موجود اور کسی بھی ملک میں برفانی چوٹیوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔ ان کی خوبصورتی نے اس خطے کو ملک کے اعلیٰ سیاحتی مقامات میں سے ایک بنا دیا ہے۔
قدیم شاہراہ ریشم پر یہ اونچی چوٹیاں اب بھی ایک شاہراہ سے دکھائی دیتی ہیں، جو سیاحوں کو چیری کے باغات، گلیشیئرز اور برف کی نیلی جھیلوں کے درمیان تک لے جاتی ہیں۔
افغانستان سے میانمار تک پھیلے ہوئے ہندوکش اور ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے کے ماہر شیر محمد کا کہنا ہے کہ اس خطے میں پانی کی زیادہ تر فراہمی موسم بہار میں برف کے پگھلنے اور گرمیوں میں کسی حد تک برفانی تودوں کے پگھلنے سے ہوتی ہے۔انٹرنیشنل سینٹر فار انٹیگریٹڈ ماؤنٹین ڈویلپمنٹ (ICIMOD) سے وابستہ محقق شیر محمد نے اے ایف پی کو بتایا، ''اکتوبر کے آخر سے اپریل کے شروع تک یہاں شدید برف باری ہوتی رہتی تھی۔
لیکن پچھلے کچھ سالوں سے یہ کافی خشک ہے۔‘‘ پہلے آئس اسٹوپا کی تعمیر سات سال قبلاقوام متحدہ کے تحت پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے ہم آہنگ ہونے کے لیے قائم منصوبے جی او ایل ایف۔ ٹو کے صوبائی سربراہ رشید الدین نے کہا کہ گلگت بلتستان میں پہلا ''آئس اسٹوپا‘‘ سن دو ہزار اٹھارہ میں بنایا گیا تھا اور اب بیس سے زائد دیہات ہر موسم سرما میں انہیں بناتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان اسٹوپاز کی بدولت ''سولہ ہزار سے زائد باشندوں کو آبی ذخائر یا ٹینک بنائے بغیر پانی تک رسائی حاصل ہے۔‘‘ موسمیاتی تبدیلیوں کے سامنے سب بے بسکسان محمد رضا نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس موسم سرما میں ان کے گاؤں حسین آباد میں آٹھ اسٹوپا بنائے گئے تھے، جن میں تقریباً 20 ملین لٹر پانی برف کی شکل میں ذخیرہ کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا، ''ہمارے پاس اب پودے لگانے کے دوران پانی کی کمی نہیں ہے۔‘‘وادی کے ایک اور کسان علی کاظم نے کہا، ''اس سے پہلے ہمیں پانی حاصل کرنے کے لیے جون میں گلیشیئرز کے پگھلنے کا انتظار کرنا پڑتا تھا، لیکن اب ان اسٹوپاز نے ہمارے کھیتوں کو بچا لیا ہے۔‘‘
قریبی پاری گاؤں میں آلو، گندم اور جو اگانے والے نوجوان بشیر احمد نے کہا کہ اسٹوپا بنانے سے قبل وہ مئی میں اپنی فصلیں بویا کرتے تھے۔
ان کا کہنا ہے، ''پہلے ہمارے پاس پیداوار کے لیے صرف ایک موسم تھا، جبکہ اب ہم سال میں دو یا تین بار فصل اگا سکتے ہیں۔‘‘پاکستان میں1981 اور 2005 کے درمیان اوسط درجہ حرارت عالمی اوسط کے مقابلے میں دو گنا تیزی سے بڑھا، جس نے اس جنوبی ایشیائی ملک کو اب پانی کی کمی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے سب سے زیادہ اثرات والے ممالک کی صف اول میں لا کھڑا کیا ہے۔
240 ملین کی آبادی والے اس ملک میں زیادہ تر باشندے ایک ایسے علاقے میں رہتے ہیں، جو 80 فیصد بنجر یا نیم خشک ہے اور اس کو درکار پانی کے تین چوتھائی سے زیادہ حصے کا انحصار پڑوسی ممالک سے نکلنے والے دریاؤں اور ندیوں پر ہوتا ہے۔
پاکستان اور دنیا بھر میں گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں، جن میں قراقرم کے پہاڑی سلسلے سمیت چند مستثنیات شامل ہیں۔
اس صورت حال کی وجہ سے سیلابوں کا خطرہ بڑھ رہا ہے اور طویل المدتی بنیادوں پر پانی کی فراہمی میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ایک اور مقامی رہائشی یاسر پروی نے کہا، ''موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا کرتے ہوئے، یہاں نہ امیر ہے نہ غریب، نہ شہری اور نہ ہی دیہی، پوری دنیا غیر محفوظ ہو چکی ہے۔ ہمارے گاؤں میں برف کے اسٹوپاز کی تعمیر کے ذریعے ہم نے ایک چانس لینے کا فیصلہ کیا۔‘‘
ش ر ⁄ م م (اے ایف پی)