لاہور ، سندھ اور بلوچستان ہائی کورٹس سے ٹرانسفر ہونے والے ججز نے دھونس کے باوجود بھی جب اپنی سنیارٹی کے ساتھ ذمہ داریاں سنبھال لیں تو بانی پی ٹی آئی نے ایک دن کی بھی تا خیر نہیں کی اور آرمی چیف کو خط لکھ کر این آر او مانگ لیا ۔ صدر مملکت نے ہفتہ کی رات ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے لاہور ، سندھ اور بلوچستان ہائیکورٹس سے ایک ایک جج کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ٹرانسفر کر دیا جس سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں سنیارٹی لسٹ تبدیل ہو کر محسن اختر کیانی کی جگہ اب جناب جسٹس سرفراز ڈوگر سینئر ترین جج بن گئے ہیں ۔ مسئلہ کیا تھا کہ 190ملین پونڈ کا کیس ہو یا توشہ خانہ کا یہ سب جرائم اگر ہوئے تھے تو ان کی ایف آئی آر اسلام آباد کی حدود میں ہی ہونا تھی اس لئے کہ 190ملین پونڈ کیس میں کابینہ کے اجلاس سے منظوری لی گئی تو اگر یہ جرم ہوا تھا تو یہ اسلام آباد میں ہوا تھا اور اسی طرح توشہ خانہ کیس کا تعلق بھی اسلام آباد سے تھا ۔ اب ہو کیا رہا تھا کہ ماتحت عدلیہ سے اگر ان کیسز میں سزائیں ہوتی ہیں جیسا کہ 190ملین پونڈ میں بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بیگم کو 14اور سات سال قید کی سزائیں ہوئیں تو ان کے خلاف اپیلیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہونا تھیں بالکل ایسے ہی کہ جیسے ٹیریان کیس میں کیس کے قابل سماعت ہونے کی اپیل بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں کی گئی اور ایک ایسا کیس کہ جس کا برسوں پہلے امریکہ کی عدالت سے فیصلہ بھی آ چکا تھا کیونکہ وہاں کوئی ہم خیال جج نہیں تھا لیکن انتہائی حیرت انگیز طور پر اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے فیصلہ آیا کہ یہ کیس قابل سماعت ہی نہیں ہے ۔تحریک انصاف نے ہمیشہ سہولت کاروں کی آشیر باد سے اپنے لئے آسانیاں حاصل کیں ۔ بانی پی ٹی آئی نے اپنی ذات کو ہمیشہ ماورائے آئین سمجھا اور انھوں نے اپنے آپ کو اس طرح پیش کیا کہ جیسے ان کے لئے ہر عمل جائز ہے اور اسی لئے انھوں نے اپنے آپ کو تحریک انصاف کے لئے ریڈ لائن قرار دلوایا اور اپنی اہلیہ بشریٰ بیگم کو اپنی ریڈ لائن قرار دیا ۔ انھیں ہمیشہ اس بات کا یقین رہا کہ جو کچھ بھی ہو جائے لیکن انھیں کچھ نہیں ہونے والا اور اگر ماتحت عدلیہ سے مختلف کیسز میں سزائیں ہو بھی گئیں تو کوئی مسئلہ نہیں اس لئے کہ اعلیٰ عدلیہ سے انھیں لازمی ریلیف مل جائے گا اور پھر انھیں تھوک کے حساب سے ریلیف ملتا بھی رہا ہے ۔
اب تین منظر نامے آپ دیکھیں کہ احتساب عدالت کی جانب سے جب 190ملین پونڈ کے فیصلے کو دو تین بار موخر کیا گیا تو اس پر تحریک انصاف بڑی سیخ پا ہوئی تھی اور کہا تھا کہ فیصلہ سنانے میں تاخیر کیوں کی جا رہی ہے ۔ فیصلے کو جلد سنایا جائے ۔ عام طور پر ملزم پارٹی کی جانب سے ایسا مطالبہ نہیں کیا جاتا لیکن انھیں بھی اندازہ تھا کہ کچھ دنوں بعد کیا کچھ ہو سکتا ہے ۔ دوسرا منظر نامہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججز کی جانب سے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو خط لکھا گیا اور یہ خط صدر مملکت اور ساتھ میں ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان کو بھی لکھے گئے جن میں ہر جگہ یہی استدعا کی گئی تھی کہ کسی دوسری ہائی کورٹ سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں کسی جج کا تباد لہ نہ کیا جائے اور اگر تبادلہ کرنا بھی ہے تو اس سے نیا حلف لے کر اس کی سنیارٹی طے کی جائے اور اسلام آباد ہائی کورٹ کا نیا چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے تین سینئر ترین ججز میں سے کسی کو لگایا جائے ۔ پھر ہوا یہ کہ صرف خط لکھنے پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ اس کے لئے ان ججز نے چیف جسٹس آف پاکستان سے سپریم کورٹ میں ان سے ملاقات بھی کی لیکن ہوا یہ کہ ان محترم جج صاحبان نے اپنے خط اور محترم چیف جسٹس پاکستان سے ملاقات میں جو موقف اپنایا ان کے اس موقف سے کسی نے اتفاق نے نہیں کیا اور اس کی وجہ آئین کے آرٹیکل 200کی شق ایک ہے جس کے الفاظ ہیں :
’’صدر کسی عدالت کے کسی جج کا تبادلہ ایک عدالت عالیہ سے کسی دوسری عدالت میں کر سکے گا ، لیکن کسی جج کا اس طرح تبادلہ نہیں کیا جائے گا بجز اس کی رضا مندی سے اور صدر کی طرف سے چیف جسٹس پاکستان اور دونوں عدالت ہائے عالیہ کے چیف جسٹسوں کے مشورے سے ‘‘ ۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ صدر نے تینوں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان اور مذکورہ تینوں ججز سے اور چیف جسٹس پاکستان سے با معنی مشاورت کے بعد یہ تبادلے کئے ہیں اور پھر یہ کام پہلی مرتبہ بھی نہیں ہوا بلکہ اس سے پہلے تین مرتبہ ایسا ہوا ہے اور تینوں بار یہ تبادلے لاہور ہائی کورٹ سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئے اور جن جج صاحبان کے تبادلے ہوئے ان کی سنیارٹی بھی برقرار رہی اور وہ چیف جسٹس اسلام آباد کے عہدے پر بھی پہنچے ۔ سب سے پہلے فروری 2008 میں جسٹس سردار اسلم صاحب کو لاہور ہائی کورٹ سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ٹرانسفر کیا گیا اور وہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ بنے ۔ جسٹس ایم بلال خان کا 2009میں لاہور ہائی کورٹ سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں بطور چیف جسٹس تبادلہ کیا گیا جبکہ جسٹس اقبال حمید الرحمن کو 18ویں ترمیم کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ ٹرانسفر کیا گیا اور ان تمام ججز کی سنیارٹی قائم رہی اور کسی ایک سے بھی نیا حلف نہیں لیا گیا ۔ان تینوں منظر ناموں کے بعد حکومت کے تو ایک نہیں ہزاروں ہاتھ کان آنکھیں اور دماغ ہوتے ہیں لیکن ہم ایسے عامی کہ جن کے پاس سوچنے کے لئے ایک ہی دماغ ہے انھیں بھی بخوبی اندازہ ہو رہا تھا کہ یہ سب کچھ کیوں اور کن مقاصد کے لئے کیا جا رہا تھا تو اس صورت حال کے تدارک کے لئے حکومت کے پاس جو آئینی اختیار ہیں اور وہ اختیار کہ جو26ویں ترمیم سے پہلے موجود ہیں وہ اگر انھیں بروئے کار لاتی ہے تو اس میں حکومت پر طعن زنی کیوں اوررہی یہ بات کہ اس میں حکومت کی نیت کیا ہے تو جو یہ بات کر رہے ہیں وہ حکومتی نیت سے پہلے دوسروں کی نیت بھی دیکھ لیا کریں ۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: ہائی کورٹ سے اسلام ا باد ہائی کورٹ میں 190ملین پونڈ چیف جسٹس ا کی جانب سے نہیں کیا کیا گیا سے پہلے نہیں کی اور اس کے لئے تھا کہ
پڑھیں:
اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کی سنیارٹی کے معاملے پر نیا تنازع
اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کی سینیارٹی کے معاملے پر نیا تنازع سامنے آگیا، 5 ججز نے سنیارٹی لسٹ کے خلاف ریپریزنٹیشن چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو بھیجوا دی۔
عدالتی ذرائع کے مطابق چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کو بھی ججز ریپریزنٹیشن کی کاپی بھیجوا دی گئی، چیف جسٹس عامر فاروق کی منظوری سے گزشتہ روز ججز کی سینیارٹی لسٹ جاری کی گئی تھی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس بابر ستار شامل ہیں، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز بھی ریپریزنٹیشن بھیجنے والوں میں شامل ہیں۔
ذرائع کے مطابق جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ارباب محمد طاہر کی جانب سے الگ سے ریپریزنٹیشن فائل کیے جانے کا امکان ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ججز کی ریپریزنٹیشن میں کہا گیا کہ جج جس ہائی کورٹ میں تعینات ہوتا ہے، اُسی ہائی کورٹ کیلئے حلف لیتا ہے۔
ذرائع کے مطابق اس میں مزید کہا گیا کہ آئین کی منشاء کے مطابق دوسری ہائیکورٹ میں ٹرانسفر ہونے پر جج کو نیا حلف لینا پڑتا ہے، دوسری ہائی کورٹ میں ٹرانسفر ہونے والے جج کی سنیارٹی نئے حلف کے مطابق طے ہو گی۔
عدالتی ذرائع نے کہا کہ ججز کی جانب سے دائر ریپریزنٹیشن سنیارٹی سے متعلق ہے، ججز کے تبادلے سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
عدالتی ذرائع کے مطابق چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس موخر کرنے کی درخواست کی گئی ہے، کہا گیا ہے کہ سنیارٹی کا مسئلہ حل ہونے تک چیف جسٹس یحییٰ آفریدی جوڈیشل کمیشن پاکستان کا اجلاس ملتوی کریں۔