غیر روایتی سیکورٹی چیلنجز، ایک نئی عالمی حقیقت
اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT
30 جنوری 2025 کو non traditional security challenges in 21st century کے عنوان سے منعقدہ ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا جس میں ترکی، جرمنی اور جاپان سمیت مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے ماہرین کے علاؤہ پاکستان سے ماہر معاشیات قیصر بنگالی ، پروفیسر مونس احمر کے علاوہ پاکستان کی مختلف جامعات کے وائس چانسلروں نے بھی شرکت کی اور موضوع کی اہمیت کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ کانفرنس کا انعقاد گرین وچ یونیورسٹی اور فیڈرل اردو یونیورسٹی کے مشترکہ تعاون سے کیا گیا تھا۔ اس کانفرنس میں پی جے آئی ایف کی نمائندگی کرتے ہوئے راقم کو بھی اپنے خیالات کے اظہار کا موقع دیا گیا۔ غیر روایتی سیکورٹی چیلنجز اب ایک بز ورڈ بن چکا ہے جس پر بین الاقوامی سطح پر تواتر سے گفتگو کی جانے لگی ہے۔ آئیں آج سمجھنے کی کوشش کریں کہ یہ تصور کیا ہے اور عالمی سطح پر اسے کس تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔ روایتی طور پر سیکورٹی کا تصور عسکری طاقت اور جغرافیائی سرحدوں کے دفاع تک محدود تھا، لیکن 21 ویں صدی میں سیکورٹی کے نئے چیلنجز ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ جن میں ماحولیاتی تبدیلی، عالمی وبائیں، سائبر حملے، خوراک اور توانائی کے بحران، اور انسانی حقوق جیسے مسائل شامل ہیں۔ یہ غیر روایتی سیکورٹی چیلنجز (Non-Traditional Security Challenges) کسی ایک ملک تک محدود نہیں بلکہ ان کے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہوتے ہیں۔ آج کی دنیا میں، کوئی بھی ملک ان چیلنجز سے تنہا نہیں نمٹ سکتا۔ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی تعاون، جدید پالیسی سازی، اور ایک جامع حکمت عملی درکار ہے، جو روایتی سیکورٹی تصورات سے آگے بڑھ کر انسانی فلاح و بہبود کو بھی مدنظر رکھے۔
عالمی درجہ حرارت ہی کو لے لیجیے جس میں اضافے کی وجہ سے غیر متوقع موسم، سیلاب، اور خشک سالی جیسے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ یہ مسائل خاص طور پر پاکستان جیسی کمزور معیشت رکھنے والے ممالک کے لیے زیادہ مہلک ثابت ہو رہے ہیں، جہاں بنیادی ڈھانچہ پہلے سے ہی کمزور ہے۔ یہ بات اب مسلم ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی نہ صرف معیشت اور صحت پر اثر ڈالتی ہے بلکہ عالمی سطح پر ماحولیاتی نقل مکانی (climate migration) کو بھی جنم دے رہی ہے، جس سے جغرافیائی سیاست متاثر ہو رہی ہے۔ اسی طرح صحت کے مسائل ہیں، کورونا وبا کے دوران دنیا کو یہ سبق ملا کہ صحت کا ایک بحران پوری عالمی معیشت اور سیکورٹی کو مفلوج کر سکتا ہے۔ وبائی امراض کے خلاف تیاری، ویکسین کی مساوی تقسیم، اور عالمی سطح پر صحت کے نظام کو مضبوط بنانا اب صرف ترقی پذیر ممالک کا مسئلہ نہیں بلکہ عالمی سلامتی کا ایک لازمی جزو بن چکا ہے۔ ہم آئے دن ہیکنگ اور ڈیٹا کی چوری جیسے مسائل کا سامنا بھی کرتے ہیں اور یہ معاملہ صرف انفرادی نہیں بلکہ عالمی سطح پر کارپوریٹ سے حکومتی سطح تک سبھی کو درپیش رہتا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں یہ سائبر حملے حکومتوں، معیشتوں، اور سماجی استحکام کے لیے نئے خطرات پیدا کر رہے ہیں۔ غلط معلومات (disinformation)، ڈیٹا چوری، اور انفرا اسٹرکچر پر سائبر حملے ریاستوں کے لیے بڑے چیلنجز بن چکے ہیں۔
کہیں معمر افراد کی بڑھتی ہوئی آبادی اور کہیں برتھ ریٹ میں کمی ورک فورس میں کمی کا
سبب بن رہی ہے۔ سامراجی طاقتوں کی ناانصافی اور کہیں محدود قدرتی وسائل کے باعث خوراک اور توانائی کی قلت عالمی سطح پر کشیدگی کا باعث بن رہی ہے۔ کئی ممالک میں غذائی قلت ایک بڑا انسانی بحران بن چکی ہے، جبکہ توانائی کے متبادل ذرائع پر منتقلی (energy transition) بھی ایک پیچیدہ مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ جنگ، ماحولیاتی تبدیلی، اور معاشی عدم استحکام کی وجہ سے لاکھوں افراد اپنے گھروں سے محروم ہو رہے ہیں۔ یہ مسئلہ صرف ترقی پذیر ممالک تک محدود نہیں بلکہ اب ترقی یافتہ ممالک بھی اس بحران کے اثرات محسوس کرنے لگے ہیں، کیونکہ عالمی سطح پر مہاجرین کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔ ان غیر روایتی سیکورٹی چیلنجز سے نمٹنے میں کچھ ممالک نے خاص پیش رفت کی ہے، اور جاپان ان ممالک میں سے ایک ہے۔ جاپان کی حکمت عملی ان چیلنجز کو صرف قومی مسئلہ سمجھنے کے بجائے انہیں عالمی تناظر میں دیکھنے اور بین الاقوامی شراکت داری کے ذریعے ان کے حل میں کردار ادا کرنے پر مبنی ہے۔ یہ بات قابل تعریف ہے کہ ماحولیاتی تحفظ جاپان کی پالیسی کا ایک اہم جزو ہے۔ “Long-term Low Carbon Vision” کے تحت جاپان قابل تجدید توانائی اور کاربن کے اخراج میں کمی کے لیے کام کر رہا ہے۔ اس کا اثر نہ صرف مقامی سطح پر بلکہ عالمی شراکت داری کے ذریعے ترقی پذیر ممالک کی مدد میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
کورونا 19 کے دوران۔ وباؤں کے تدارک کے لیے جاپان نے ویکسین کی فراہمی اور صحت عامہ کے نظام کو مضبوط بنانے میں عالمی شراکت داروں کے ساتھ کام کیا خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں صحت کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے میں۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) کے ساتھ اس کا تعاون اہم رہا ہے، ڈیجیٹل دور میں جاپان نے قومی سائبر سیکورٹی پالیسی تشکیل دی ہے اور بین الاقوامی سطح پر سائبر کرائم کے خلاف کارروائیوں میں حصہ لے رہا ہے۔ جاپان کی ٹیکنالوجی کمپنیاں بھی سائبر سیکورٹی کے معیارات کو بہتر بنانے میں عالمی سطح پر نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں۔ جاپان زراعت میں ٹیکنالوجی کے استعمال کو فروغ دے کر خوراک کی پیداوار میں بہتری لا رہا ہے۔ توانائی کے متبادل ذرائع، جیسے ہائیڈروجن ٹیکنالوجی اور نیوکلیئر انرجی پر بھی کام کیا جا رہا ہے، تاکہ توانائی کے بحران کا سامنا مؤثر طریقے سے کیا جا سکے۔ جاپان مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر مختلف منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔ خاص طور پر تعلیم اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے پر زور دیا جا رہا ہے، تاکہ مہاجرین کو بہتر زندگی گزارنے کا موقع مل سکے۔
جیسا کہ غیر روایتی سیکورٹی چیلنجز کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک مشترکہ چیلنج ہیں۔ ان مسائل کے حل کے لیے صرف قومی اقدامات کافی نہیں بلکہ عالمی تعاون ناگزیر ہے۔ اس سلسلے میں جاپان کی حکمت عملی اس بات کی مثال ہے کہ جدید ریاستیں ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے کیسے کام کر سکتی ہیں۔ اپنے اندرونی نظام کو مضبوط بنا کر اور بین الاقوامی سطح پر شراکت داری کے ذریعے مشترکہ مسائل کا حل نکال کر۔ دیگر ممالک کے لیے بھی یہی ماڈل اپنانا ضروری ہوگا تاکہ دنیا ایک پائیدار اور محفوظ مستقبل کی طرف بڑھ سکے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ غیر روایتی سیکورٹی چیلنجز مستقبل میں مزید پیچیدہ ہو سکتے ہیں، لیکن اگر ممالک ایک جامع حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھیں، سائنسی تحقیق، پالیسی سازی، اور عالمی تعاون کو ترجیح دیں، تو ان چیلنجز کو کم کیا جا سکتا ہے اور عالمی استحکام کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ترقی پذیر ممالک بین الاقوامی عالمی سطح پر بلکہ عالمی توانائی کے اور عالمی چیلنجز سے ان چیلنجز نہیں بلکہ حکمت عملی جاپان کی کے ساتھ رہے ہیں سکتا ہے کے لیے رہا ہے رہی ہے
پڑھیں:
عمران کے خط پر آرمی چیف کے رد عمل کا خیر مقدم کرینگے،بیرسٹر گوہر،کوئی خط نہیں ملا ،بات سیاستدانوں سے کریں،سیکورٹی زرائع
راولپنڈی/اسلام آباد (خبرایجنسیاں+ مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے کہا کہ عمران خان کی جانب سے آرمی چیف کو لکھ خط پر ان کی طرف سے کوئی رد عمل آتا ہے تو اس کا خیر مقدم کریں گے۔منگل کو اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا
سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف سے ایک میٹنگ ہوئی تھی جو امن و عامہ پر تھی، اس کے سوا کوئی میٹنگ نہیں ہوئی۔بیرسٹر گوہر نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے کہا انہوں نے آرمی چیف کو خط لکھا، میں نے اب تک یہ خط پڑھا یا دیکھا نہیں ، بانی پی ٹی آئی نے خط کے مندرجات خود پڑھ کر سنائے۔چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ ان کی طرف سے خط پرردعمل آتا ہے تو ہم خیرمقدم کریں گے۔دوسری جانب سیکورٹی ذرائع نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے آرمی چیف کو کوئی خط موصول نہیں ہوا اور اسے وصول کرنے کا رتی برابر بھی شوق نہیں۔2 روز قبل عمران خان نے اپنے بیان میں آرمی چیف کو خط لکھنے کا دعویٰ کیا تھا تاہم سیکورٹی ذرائع نے اس بات کو بے بنیاد قرار دے دیا۔ سیکورٹی ذرائع نے بانی پی ٹی آئی کی جانب سے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو ایک نامعلوم خط لکھنے کے معاملے کو تحریک انصاف کا ایک اور ناکام ڈراما قرار دیا۔سیکورٹی ذرائع کے مطابق اول تو اس طرح کا کوئی خط ملا ہی نہیں اور اگر ایسا کوئی خط ہے بھی تو اسٹیبلشمنٹ کو اْسے وصول کرنے کا رتی بھر بھی شوق نہیں کیونکہ اسٹیبلشمنٹ پہلے ہی یہ بات واضح طور پر بتاچکی ہے کہ اگر کسی بھی معاملے پر بات کرنی ہے تو سیاست دانوں سے کی جائے۔