کشمیر سے متعلق 3 اہم قانونی سوالات
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
آج 5 فروری ہے جسے ہم کشمیر کے ساتھ یومِ یکجہتی کے طور پر مناتے ہیں۔ آج یاد دہانی کا دن بھی ہے اور ہمیں غیروں سے پہلے خود ایک دوسرے کو یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ کشمیر کے متعلق ہمارا مقدمہ کن قانونی اصولوں پر قائم ہے۔ دوسروں سے پہلے ہمیں خود کو یقین دلانا ہے کہ ہم قانونی طور پر درست مقام پر ہیں۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ ہم 3 بنیادی سوالات پر غور کریں۔
پہلا سوال: کشمیر کے مسئلے کی قانونی حیثیت کیا ہے؟
افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان اور آزاد کشمیر میں نوجوان نسل کو بالخصوص اس بارے میں کئی غلط فہمیاں لاحق ہیں۔ ان کی بہ نسبت مقبوضہ کشمیر میں لوگوں کو اس تنازعے کی قانونی بنیادوں کا زیادہ بہتر فہم حاصل ہے۔
قانونی تجزیے کے لیےدرج ذیل قانونی دستاویزات کا مطالعہ بہت ضروری ہے:
1928ء کا ’معاہدۂ پیرس‘، جس کی رو سے یہ اصول طے پایا کہ قبضے کے ذریعے کسی ریاست پر ملکیت حاصل نہیں ہوسکتی، اور جلد یا بدیر قابض طاقت کو مقبوضہ علاقہ خالی کرنا پڑتا ہے، خواہ قبضے کے خلاف کوئی مزاحمت نہیں ہوئی ہو، یا ختم ہوگئی ہو؛ 1945ء کا ’اقوامِ متحدہ کا منشور‘ جس کی دفعہ 2، ذیلی دفعہ 4، میں نہ صرف طاقت کے استعمال بلکہ اس کی دھمکی کو بھی ناجائز قرار دیا گیا؛ 1947ء کا ’قانونِ آزادیِ ہند‘ جس میں انگریزوں کے انخلا کے بعد برصغیر کی مختلف سیاسی اکائیوں کے مستقبل کےلیے اصول طے پائے؛ 1947ء کا ’اسٹینڈ سٹل ایگریمنٹ‘ جس کی رو سے کشمیر کے مہاراجا نے پاکستان کے ساتھ طے کیا کہ حالات جوں کے توں رکھے جائیں گے؛ 1947ء کی ’دستاویزِ الحاق‘، جس کی رو سے مبینہ طور پر مہاراجا نے بھارت سے کشمیر کا الحاق کیا؛ اور 1948ء کی ’قراردادیں‘ جو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس موضوع پر منظور کیں۔ان قانونی دستاویزات اور متعلقہ قانونی اصولوں کا تجزیہ کیا جائے، تو طے پاتا ہے کہ بھارت کے ساتھ ریاستِ جموں و کشمیر الحاق کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی، کیونکہ اس وقت تک مہاراجا کشمیر پر اپنا کنٹرول کھو چکا تھا اور نیز یہ دستاویز (اگر مصدقہ ہےتو) جبر اور اکراہ کی حالت میں لکھی گئی۔ پھر جب بھارت خود معاملے کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے گیا اور وہاں سے استصوابِ راے کو تسلیم کرلیا، تو قانونی طور پر وہ الحاق کے دعوے سے دستبردار ہوا اور اس کے بعد الحاق کی دستاویز کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہی۔
نتیجہ یہ ہے کہ قانونی طور پر ریاستِ جموں و کشمیر ایک مقبوضہ علاقہ ہے جس پر بھارت نے غاصبانہ قبضہ کیا اور جس کا کچھ حصہ آزاد کرالیا گیا ہے (آزاد جموں و کشمیر اور گلگت-بلتستان)۔ یہ prolonged occupation کی بدترین مثال ہے۔
اس نتیجے پر مزید کچھ نتائج مرتب ہوتے ہیں:
اگر یہ قبضہ ہے، تو جب تک قبضہ ختم نہ ہو حالتِ جنگ برقرار ہے، خواہ فائربندی ہوئی ہو اور خواہ مزید مزاحمت نہ ہورہی ہو؛ اگر یہ قبضہ ہے، تو یہ بین الاقوامی تنازعہ ہے، نہ کہ بھارت کا اندرونی معاملہ؛ اگر یہ قبضہ ہے، تو بھارت کی حیثیت قابض طاقت کی ہے جو مقبوضہ علاقے کی آبادی کی ہیئت (demography) میں تبدیلی کا اختیار نہیں رکھتا؛ اگر یہ قبضہ ہے، تو مقبوضہ علاقے کے لوگوں سے قابض طاقت کی وفاداری کا حلف نہیں لیا جاسکتا؛ اور اگر یہ قبضہ ہے، تو مقبوضہ علاقے کے لوگوں کو قابض طاقت کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے کا حق ہے۔دوسرا سوال: کیا یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے؟
پچھلی بحث سے اس سوال کا جواب واضح ہے۔
اگر یہ قبضہ ہے، اور یقیناً ہے، تو یہ بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں ہے۔ یہ بین الاقوامی مسلح تصادم ہے جس پر پورے کے پورے بین الاقوامی قانونِ جنگ (International Law of Armed Conflict)کا اطلاق ہوتا ہے۔
بعض لوگوں نے اسے بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دینے کے لیے جو دلائل دیے ہیں، ان میں 2 اہم دلائل کا تجزیہ ضروری ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 26 ویں ترمیم کے بعد اصل مسئلہ: چیف جسٹس کی تعیناتی
پہلی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ 1957ء میں کشمیر میں (نام نہاد) انتخابات کے بعد وہاں کی اسمبلی نے بھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا۔ تاہم ایک تو ان انتخابات اور ان کے نتیجے میں منتخب ہونے والی اسمبلی کی بین الاقوامی قانون کی رو سے کوئی حیثیت نہیں ہے، دوسرے، اس اسمبلی کی قرارداد کے بعد ایک دفعہ پھر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں معاملہ اٹھا اور وہاں سے قرارداد نمبر 122 منظور ہوئی جس کی رو سے طے پایا کہ یہ انتخابات اُس استصوابِ راے کا متبادل نہیں جس کا فیصلہ 1948ء میں ہوا تھا۔ چنانچہ معاملہ جوں کا توں رہا۔
دوسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ 1972ء کے شملہ معاہدے نے کشمیر کو ’دو طرفہ تنازعے‘ میں تبدیل کرلیا۔ یہ دعوی بھی قطعی بے بنیاد ہے۔ 1972ء میں جب یہ معاہدہ طے پارہا تھا، اس وقت پاکستان کی پوزیشن انتہائی کمزور تھی لیکن اس کے باوجود اس معاہدے میں صراحت کے ساتھ قرار پایا کہ فریقین کی قانونی تعبیرات پر اس معاہدے سے کچھ اثر نہیں پڑے گا اور یہ کہ کوئی فریق صورت حال میں یک طرفہ تبدیلی نہیں کرے گا۔ اس معاہدے کی اور بھی کئی باتیں اہم ہیں، جیسے بین الاقوامی سرحدات اور لائن آف کنٹرول کا الگ ذکر۔ بہرحال، یہ بات قطعی بے بنیاد ہے کہ اس معاہدے نے اقوامِ متحدہ کی قراردادیں غیر متعلق کردیں۔ یہ بھارت کا پروپیگنڈا ہے جسے ہمارے ہاں بعض لوگوں نے ناسمجھی میں (اور بعض نے ذاتی مفادات کی خاطر) فروغ دینے کی کوشش کی ہے۔
اس کے ساتھ اس دلیل کا بھی اضافہ کیجیے کہ کشمیر تو خیر مقبوضہ علاقہ ہے، اگر کوئی ریاست اپنے ہی علاقے میں اپنے ہی لوگوں کے خلاف اس طرح کے مظالم ڈھائے جیسے بھارت مسلسل کشمیر میں ڈھارہا ہے، تو معاصر بین الاقوامی قانون کی رو سے یہ اس ریاست کا اندرونی معاملہ نہیں رہتا بلکہ بین الاقوامی مسئلہ بن جاتا ہے۔ پچھلی نصف صدی میں بین الاقوامی قانون براے حقوقِ انسانی نے ریاست کے اقتدارِ اعلی (sovereignty) کا پرانا تصور تبدیل کرلیا ہے اور اب اسے ’تحفظ کی ذمہ داری‘ (responsibility to protect) کا عنوان دیا جاتا ہے۔
مزید پڑھیے: سپریم کورٹ ایک سنگین آئینی بحران کے دہانے پر
نیز یہ امر بھی بین الاقوامی قانون کی رو سے مسلمہ ہے کہ اگر کسی ریاست کے اندرونی معاملات سے بین الاقوامی امن کو خطرہ ہو، تو وہ بین الاقوامی مسئلہ بن جاتا ہے۔ (دیکھیے، اقوامِ متحدہ کے منشور کی دفعہ 2، ذیلی دفعہ 7 اور دفعہ 39۔) اب یہ امر کس سے پوشیدہ ہے کہ کشمیر 2 نیوکلیئر طاقتوں کے درمیان خطرناک جنگ کا سبب بن سکتا ہے، اور کئی دفعہ بن بھی چکا ہے۔ اس لیے اسے کسی طور پر بھی بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں کہا جاسکتا۔
تیسرا سوال: ہمیں کون سے قانونی راستے دستیاب ہیں؟
سب سے پہلے تو ہمیں اپنے بنیادی تصور کو درست کرنا ہوگا۔ یہ مسئلہ صرف پاکستان اور بھارت کا نہیں، بلکہ اس میں اصل فریق کی حیثیت کشمیریوں کو حاصل ہے جنہیں پاکستان ایک غاصب ریاست کے قبضے سے آزادی حاصل کرنے میں مدد فراہم کررہا ہے۔ اس زاویے سے آزاد جموں و کشمیر کےلیے آزادی کے بیس کیمپ اور اس کی حکومت کو ’جلاوطن حکومت‘ کی حیثیت تسلیم کرنی ہوگی۔ یہ بالکل اسی طرح کا معاملہ ہوجائے گا جیسے دوسری جنگِ عظیم میں جرمنی نے فرانس پر قبضہ کیا، تو اس کی جلاوطن حکومت قائم کی گئی اور برطانیہ وغیرہ نے اس کی مدد کی اور آہستہ آہستہ فرانس کو جرمنی کے قبضے سے چھڑایا گیا۔ بین الاقوامی فورمز پر آزاد کشمیر کی حکومت کو اسی طرح آگے رکھ کر پاکستان اس کے پشتیبان کا کردار ادا کرے، تو یہ معاملہ زیادہ مؤثر طریقے سے دنیا کے سامنے اٹھایا جاسکتا ہے۔
اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ یہ صرف کشمیریوں کا مسئلہ ہے اور پاکستان کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ کشمیر یقیناً پاکستان کے لیے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور کشمیر کے بغیر پاکستان کےلیے بقا اور وجود کا سوال لاحق ہوجاتا ہے۔ اسی وجہ سے بابائے قوم قائدِ اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔
باقی رہا قانونی راستوں کا سوال، تو امکانات بہت ہیں۔ سوال امکانات کا نہیں، عزم اور منصوبہ بندی کا ہے۔
مزید پڑھیں: 26 ویں ترمیم کے بعد اصل مسئلہ: چیف جسٹس کی تعیناتی
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں اگر کسی مستقل رکن کی جانب سے ویٹو کا خطرہ ہو، تو جنرل اسمبلی میں کشمیر کا مسئلہ اٹھانے میں کوئی امر مانع نہیں ہے کیونکہ وہاں ویٹو کی رکاوٹ بھی حائل نہیں ہے اور اس سے بین الاقوامی سطح پر دباؤ بڑھانے میں مدد ملے گی۔
حقوقِ انسانی کی پامالی کے پہلو سے تو بہت بات ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہیے لیکن جیسا کہ تفصیل سے واضح کیا گیا، یہ صرف حقوقِ انسانی کی پامالی کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ پامالی مقبوضہ علاقے میں قابض طاقت کی جانب سے ہورہی ہے، اس لیے یہ جنگی جرائم بھی ہیں۔ اس پہلوکو خصوصا دنیا کے سامنے لانے کی ضرورت ہے۔
ان جنگی جرائم کو کئی فورمز پر اٹھایا جاسکتا ہے جن میں ایک فورم بین الاقوامی فوجداری عدالت کا بھی ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان اور بھارت میں کسی نے اس عدالت کے منشور کی توثیق نہیں کی ہے اور یہ بھی صحیح ہے کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ اس معاملے کو اس عدالت کی طرف بھیج دے گی، لیکن اس عدالت میں مقدمہ شروع کرنے کا ایک تیسرا راستہ بھی ہے۔ اس عدالت کے پراسیکیوٹر کے پاس اگر ثبوتوں اور شواہد سمیت وافر مقدار میں جنگی جرائم کی شکایات جمع ہوجائیں، تو اس پر لازم ہے کہ وہ ان کا جائزہ لے اور اگر وہ مطمئن ہو کہ بظاہر مقدمہ بنتا ہے، تو وہ عدالت میں مقدمہ شروع کرانے کی کارروائی کرسکتا ہے۔ اگر اپنی مصلحتوں کی بنا پر پاکستان کی حکومت اس پہلو سے کام نہ کرے، تو یہ کام عام افراد بھی کرسکتے ہیں اور بالخصوص دنیا کے مختلف ممالک میں موجود کشمیری (diaspora) اس میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اور آزاد جموں و کشمیر کی جامعات، بالخصوص ان کے شعبہ ہائے قانون، کشمیر کے مسئلے کے قانونی پہلوؤں پر تحقیق میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
محمد مشتاق احمدڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیرِ ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں پروفیسر اور سربراہ شعبۂ شریعہ و قانون ہیں۔ اس سے پہلے آپ چیف جسٹس آف پاکستان کے سیکرٹری اور شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ آپ سول جج/جوڈیشل مجسٹریٹ کی ذمہ داریاں بھی انجام دے چکے ہیں۔ آپ اصولِ قانون، اصولِ فقہ، فوجداری قانون، عائلی قانون اور بین الاقوامی قانونِ جنگ کے علاوہ قرآنیات اور تقابلِ ادیان پر کئی کتابیں اور تحقیقی مقالات تصنیف کرچکے ہیں۔
5 فروری بھارت پاکستان مسئلہ کشمیر مسئلہ کشمیر کی قانونی حیثیت یوم یکجہتی کشمیر.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بھارت پاکستان مسئلہ کشمیر مسئلہ کشمیر کی قانونی حیثیت یوم یکجہتی کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ متحدہ کی سلامتی کونسل بین الاقوامی قانون مقبوضہ علاقے پاکستان اور جس کی رو سے پاکستان کے کی قانونی اس معاہدے کشمیر کے اس عدالت سے پہلے نہیں ہے کے ساتھ ہے اور کے بعد کے لیے
پڑھیں:
کشمیر کی آزادی تک مظلوم کشمیری مسلمانوں کساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہی، علامہ علی اکبر کاظمی
لاہور میں کشمیر کانفرنس سے خطاب میں ایم ڈبلیو ایم پنجاب کے صدر نے کہاکہ بھارت جیسی ناکام ریاست یہ بھول چکی ہے کہ حکومت کفر سے قائم رہ سکتی ہے لیکن ظلم سے نہیں اور ظلم جب بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے، ہمیں مولائے کائنات علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے یہ درس دیا ہے، کہ ہم ہر مظلوم کے حمایتی اور ہر ظالم کیخلاف ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین صوبہ پنجاب کے صدر علامہ سید علی اکبر کاظمی نے لاہور میں کشمیر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کسی صورت بھی مظلوم کشمیریوں کی آزادی تحریک کو نہیں روک سکتا، وہ وقت دور نہیں جب مظلوم کشمیری عوام کیلئے آزادی کا سورج طلوع ہوگا، کیونکہ بھارت ایک ایسی ریاست ہے، جس نے ہمیشہ سے اقلیتوں پر ظلم ڈھایا اور مظلوم کشمیریوں کی تحریک آزادی کو دبانا چاہا، لیکن مظلوم کشمیری مسلمانوں نے بھارت کی ہر کوشش کو ناکام بناتے ہوئے اپنی جدوجہد جاری رکھی اور کسی صورت بھی بھارت کے فارمولے کو قبول نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ان شاءاللہ ہم اول وقت سے مظلوم کشمیریوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور کھڑے رہیں گے۔
علامہ علی اکبر کاظمی نے کہاکہ بھارت جیسی ناکام ریاست یہ بھول چکی ہے کہ حکومت کفر سے قائم رہ سکتی ہے لیکن ظلم سے نہیں اور ظلم جب بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے، ہمیں مولائے کائنات علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے یہ درس دیا ہے، کہ ہم ہر مظلوم کے حمایتی اور ہر ظالم کیخلاف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کل ان شاءاللہ پنجاب بھر میں مظلوم کشمیریوں کی حمایت میں ریلیاں اور سیمینار منعقد ہوں گے، ہم کشمیر کی آزادی تک مظلوم کشمیریوں کیساتھ ہیں اور اس وقت تک ان کیساتھ ہیں، جب تک کشمیر ایک آزاد ریاست کے طور پر نمودار نہیں ہوجاتا کیونکہ ہم کل بھی حق و صداقت کے امین تھے اور آج بھی انکار حقیقت نہ کریں گے۔