رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی خاموشی سے بے دخلی کا انکشاف،رپورٹ
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
اسلام آباد: رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو جڑواں شہروں اسلام آباد اور راولپنڈی سے خاموشی سے بے دخل کرنے کا انکشاف ہوا ہے جبکہ انہیں آہستہ آہستہ افغانستان واپس بھیجنے کا منصوبہ بھی تیار کر لیا گیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومت نے رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو مرحلہ وار اسلام آباد اور راولپنڈی سے نکالنے اور بالآخر انہیں افغانستان منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس منصوبے پر کسی عوامی اعلان کے بغیر عملدرآمد کیا جائے گا۔
ذرائع نے بتایا کہ گزشتہ ہفتے وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ہونے والے اجلاسوں میں اس منصوبے کو حتمی شکل دی گئی، جس میں آرمی چیف جنرل حافظ عاصم منیر نے بھی شرکت کی، اجلاس میں تین مرحلومیں افغان مہاجرین کو نکالنے کے حوالے سے چیزیں طے کی گئیں۔
پہلا مرحلہ: افغان سٹیزن کارڈ (ACC) رکھنے والے افغان شہریوں کو فوری طور پر اسلام آباد اور راولپنڈی سے باہر منتقل کیا جائے گا، بعد ازاں انہیں غیر قانونی مہاجرین کے ساتھ افغانستان بھیج دیا جائے گا، اے سی سی نادرا کی جانب سے رجسٹرڈ افغان شہریوں کو جاری کردہ ایک شناختی کارڈ ہے، جو انہیں پاکستان میں عارضی قیام کی قانونی حیثیت فراہم کرتا ہے۔
دوسرا مرحلہ: پروف آف رجسٹریشن (POR) کارڈ رکھنے والے افغان شہریوں کو بھی جڑواں شہروں سے نکال دیا جائے گا، لیکن انہیں فوری طور پر ملک بدر نہیں کیا جائے گا، حکومت نے انہیں جون تک پاکستان میں قیام کی اجازت دی ہے۔
تیسرا مرحلہ: تیسرے ممالک میں منتقلی کے منتظر افغان شہریوں کو 31 مارچ تک اسلام آباد اور راولپنڈی سے باہر منتقل کیا جائے گا۔ وزارت خارجہ، عالمی اداروں اور سفارت خانوں کے ساتھ رابطے میں رہے گی تاکہ بازآبادکاری کے عمل کو تیز کیا جا سکے۔ تاہم جو افغان کسی تیسرے ملک میں آباد نہ ہو سکے، انہیں افغانستان بھیج دیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق، پاکستان میں پی او آر کارڈ رکھنے والے افغان مہاجرین کی تعداد 13 لاکھ جبکہ اے سی سی ہولڈرز کی تعداد 7 لاکھ کے قریب ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اسلام آباد اور راولپنڈی سے افغان شہریوں کو افغان مہاجرین رجسٹرڈ افغان کیا جائے گا
پڑھیں:
افغانستان میں طالبان کی جبری حکومت اور سنگین ترین صورتحال پر SIGAR کی رپورٹ جاری
افغانستان میں امریکا کی امدادی کارروائیوں کے حوالے سے اسپیشل انسپیکٹر جنرل فار افغان ری کنسٹرکشن (SIGAR) کی تازہ ترین رپورٹ جاری کردی گئی۔
رپورٹ کے مطابق "اگست 2021 میں افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد سے تقریباً 3.71 بلین ڈالر کی امداد خرچ کی گئی جس میں سے 64.2 فیصد اقوام متحدہ کی ایجنسیوں UNAMA اور ورلڈ بینک کے زیر انتظام افغانستان ریزیلینس ٹرسٹ فنڈ کے ذریعے تقسیم کیا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 1.2 بلین ڈالر اضافی امدادی فنڈنگ بھی جاری کرنے کے لیے دستیاب ہے۔ اس کے علاوہ امریکا میں منجمد کیے گئے افغان مرکزی بینک کے 3.5 ارب ڈالر کے اثاثے سوئٹزرلینڈ میں قائم افغان فنڈ میں منتقل کیے گئے جو اب سود سمیت 4 ارب ڈالر ہو چکے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تشویشناک امر یہ ہے کہ اتنی بڑی امداد کے باوجود افغان طالبان کی جابرانہ پالیسیاں جاری ہیں۔ افغان طالبان نے تاحال خواتین کی تعلیم پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
سگرا کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ افغان طالبان نے خواتین کی ملازمتوں بشمول این جی اوز، صحت اور دیگر شعبوں میں ملازمتوں پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے۔
اسی طرح نیکی کی ترویج اور برائی کی روک تھام کے لیے نافذ کیےجانے والے نام نہاد 'اخلاقیات' قانون نے مرد و خواتین کےطرز عمل پر پابندیاں بڑھا دی ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان پابندیوں کی بدولت بین الاقوامی سطح کے انسانی ہمدردی کے پروگراموں کے تحت امداد کی تقسیم میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔
خیال رہے کہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے 20 جنوری 2025 کے ایگزیکٹو آرڈر کے تحت افغانستان میں جاری منصوبوں سمیت تمام امریکی و غیر ملکی امداد کی نئی ذمہ داریاں اور تقسیم 90 دن کے لئے روک دی گئی ہیں۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں موجود سنگین صورتحال کا شکار 16.8 ملین لوگوں کے لیے اقوام متحدہ نے سال 2025ء کیلئے 2.42 بلین ڈالر امداد کی درخواست کی ہے۔
افغانستان میں اتنی بڑی تعداد میں بھوک کے شکار لوگوں کے باوجود افغان طالبان امدادی کوششوں میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں جب کہ افغانستان میں داعش خراسان اور القاعدہ کی موجودگی نے سیکیورٹی خطرات کو بھی بڑھا دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سال 2024 میں پاکستان میں افغان سرزمین سے 640 دہشتگردانہ حملوں کی وجہ سے پاک افغان تعلقات بھی کشیدگی کا شکار ہیں۔ کشیدگی کے باعث پاکستان سے لاکھوں کی تعداد میں غیر قانونی افغان شہری ملک بدر بھی کئے گئے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان کے دور اقتدار میں ایک منظم طریقے سے خواتین کو سیاسی، سماجی اور تعلیمی زندگی سےخارج کردیا گیا۔
افغانستان میں موجود 4 کروڑ سے زائد کی آبادی سنگین صورتحال کا شکار ہے جبکہ افغان طالبان افغانستان کی تعمیر نو میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔